وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے ’مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی‘ بینظیر شاہ کی جعلی ویڈیو کے شیئر کیے جانے کا نوٹس لیتے ہوئے اس عمل شدید قابل مذمت قرار دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور ایران کے درمیان میڈیا کے شعبے میں تعاون کا معاہدہ، اب تعلقات مزید مستحکم ہوں گے، عطااللہ تارڑ

بینظیر شاہ نے اتوار کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر دعویٰ کیا تھا کہ عطا تارڑ کی جانب سے فالو کیے جانے والے ایک اکاؤنٹ نے ان کی ایک جعلی ویڈیو (رقص سے متعلق) تیار کی۔

ویڈیو کے ساتھ دیا گیا بیان دعویٰ کرتا ہے کہ یہ بینظیر شاہ کی لندن میں ایک کلب میں رقص کرتی ہوئی لیک شدہ ویڈیو‘ ہے۔

بینظیر شاہ نے اس معاملے پر لکھا کہ ’ہم نے پہلے بھی کہا اور اب دوبارہ کہیں گی کہ ایسے حملے ہمیں خاموش نہیں کرسکتے‘۔

عطا اللہ تارڑ نے اتوار کی شب جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ بالکل ناقابل قبول اور شدید قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا نوٹس لیا گیا ہے اور کسی کو بھی حق نہیں کہ

وہ جعلی ویڈیوز بنائے، انہیں پھیلے یا کسی صحافی کو بدنام کر کے ہراساں کرے۔

مزید پڑھیے: افغان طالبان کی سہولت کاری کے بغیر پاکستان پر حملے ممکن نہیں، ثبوت موجود ہیں، عطااللہ تارڑ

انہوں نے کاہ کہ میں 1,900 سے زیادہ اکاؤنٹس فالو کرتا ہوں اور میں اس اکاؤنٹ کے رویے کی حمایت نہیں کرتا اور یقین دلاتا ہوں کہ اس پر کارروائی کی جائے گی۔

بعد ازاں، بینظیر شاہ نے وزیر کی سنجیدگی کی قدر کی مگر انہوں نے کہا کہ وہ پرِوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) کے تحت نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) کے ذریعے کیس نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ یہ قانون اور ادارہ صحافیوں کو ہراساں کرنے، شہریوں کو خاموش کرنے اور رائے کی آزادی کو دبانے کے لیے استعمال ہو چکا ہے۔

بینظیر شاہ نے مزید کہا کہ اگر وزیر اور حکومت واقعی صحافیوں اور شہریوں کی حفاظت چاہتے ہیں تو انہیں پیکا اور این سی سی آئی اے کو ختم کرنا چاہیے اور صحافیوں کے مسائل کو حقیقی طور پر حل کرنے والا نیا قانون تیار کرنے کے لیے جامع مشاورت کا آغاز کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: بھارت پاکستان سے ہونے والی شرمناک شکست کو آج تک ہضم نہیں کر پایا، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ

دریں اثنا مختلف صحافیوں نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات میں کہا کہ ڈیپ فیک قابل مذمت اور مجرمانہ فعل ہے اور اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور ویڈیو بنانے والے کو عدالت میں لایا جانا چاہیے۔ انہوں نے بینظیر شاہ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اپنے تعاون کی پیشکش بھی کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بینظیر شاہ بینظیر شاہ کی جعلی ویڈیو بینظیر شاہ کی ڈانس ویڈیو.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بینظیر شاہ بینظیر شاہ کی جعلی ویڈیو بینظیر شاہ کی ڈانس ویڈیو بینظیر شاہ نے بینظیر شاہ کی عطااللہ تارڑ جعلی ویڈیو انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن

صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن WhatsAppFacebookTwitter 0 16 November, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال
مدتوں سے صدارتی استثنیٰ کا تصور دنیا بھر کے آئینی مباحث میں اہم مقام رکھتا آیا ہے۔ اگرچہ مختلف ممالک میں اس کی صورتیں مختلف ہیں، مگر اس کی بنیادی منطق ایک ہی رہی ہے؛ سربراہِ ریاست کو روزمرہ سیاسی مقدمات یا قانونی خوف سے آزاد ہو کر اپنے فرائض انجام دینے چاہئیں، لیکن کوئی بھی عہدہ دار ہمیشہ کے لیے احتساب سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ اختیار اور جواب دہی کے درمیان یہی نازک توازن جدید آئینی نظامات کی روح ہے۔ اخلاقی سطح پر یہ اصول قرآن کی اس تعلیم سے ہم آہنگ ہے کہ تمام انسان، خواہ ان کا منصب کچھ بھی ہو، اللہ کے حضور جواب دہ ہیں: ”اور ہر جان کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا، اور وہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔” (الزمر 70)۔ رسول اکرم ۖ نے بھی امتیازی احتساب کی سختی سے نفی کرتے ہوئے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اگر فاطمہ، محمدۖ کی بیٹی بھی چوری کرتی، تو میں اُس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔” یہ تعلیمات یاد دلاتی ہیں کہ انتظامی ضرورت کے تحت استثنیٰ تو ممکن ہے، مگر اسے کبھی بے حساب آزادی میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔
دنیا بھر میں صدارتی استثنیٰ عموماً دو شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ پہلی شکل جسے ”مطلق استثنیٰ” کہا جاتا ہے، ایک موجودہ صدر کو فوجداری مقدمات یا دیوانی کارروائیوں سے محفوظ رکھتی ہے، تاکہ حکمرانی سیاسی مقدمات کے دباؤ سے مفلوج نہ ہو۔ دوسری شکل ”عملی استثنیٰ” کہلاتی ہے، جس کے تحت صدر اپنے دورِ صدارت میں سرکاری ذمہ داریوں کے تحت کیے گئے اقدامات پر منصب سے ہٹنے کے بعد بھی قانونی کارروائی سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ سربراہِ ریاست اہم اور کبھی کبھار غیر مقبول فیصلے بے خوفی سے کر سکے۔ تاہم عالمی رجحان واضح ہے کہ ریاستیں اپنے حکمرانوں کو ہمیشہ کے لیے قانون کی دسترس سے باہر رکھنے پر آمادہ نہیں رہیں۔
کئی ممالک میں صدر کو بہت مضبوط اور تقریباً مطلق استثنیٰ حاصل ہے۔ امریکہ میں ایک طویل عرصے سے یہ قانونی تعبیر رائج ہے کہ موجودہ صدر کے خلاف فوجداری مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ سپریم کورٹ نے سرکاری اعمال کے لیے مطلق استثنیٰ تو برقرار رکھا ہے لیکن ذاتی افعال پر اسے تسلیم نہیں کیا۔ روس میں صدر کو کسی بھی فوجداری یا انتظامی جرم میں گرفتاری، تلاشی یا مقدمے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور کچھ صورتوں میں یہ استثنیٰ منصب چھوڑنے کے بعد بھی برقرار رہتا ہے۔ ترکی میں بھی اسی نوعیت کی حفاظت موجود ہے، جہاں بعض اعمال کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری ہے۔ کینیا میں بھی صدر کو دورِ صدارت کے دوران وسیع قانونی تحفظ حاصل ہے۔
بعض ممالک میں استثنیٰ محدود یا قابلِ تنسیخ ہے۔ بھارت کے صدر کو فوجداری کارروائی اور عدالتی طلبی سے تحفظ ضرور حاصل ہے، لیکن دیوانی مقدمات نوٹس کے ذریعے آگے بڑھ سکتے ہیں اور آئین شکنی پر مواخذے کی راہ کھلی ہے۔ اٹلی میں صدر صرف غداری یا سنگین آئینی خلاف ورزی پر مقدمے کا سامنا کر سکتا ہے۔ جرمنی نے استثنیٰ صرف سرکاری اعمال تک محدود کیا ہے اور وفاقی قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں دستوری عدالت صدر کو برطرف کر سکتی ہے۔ جنوبی افریقہ عملی استثنیٰ تو دیتا ہے مگر پارلیمانی طریقِ کار کے ذریعے ہٹانے کا اختیار برقرار رکھتا ہے۔ سری لنکا میں استثنیٰ ہے لیکن سپریم کورٹ بنیادی حقوق کی درخواستیں صدر کے خلاف بھی سن سکتی ہے۔
کئی ممالک نے استثنیٰ کو صرف سرکاری ذمہ داریوں تک محدود کیا ہے۔ برازیل میں عام جرائم پر کارروائی پارلیمانی منظوری سے ہو سکتی ہے، جبکہ ارجنٹینا میں استثنیٰ زیادہ تر مواخذے تک محدود ہے، جس کے بعد صدر سپریم کورٹ کے سامنے مقدمے کا سامنا کر سکتا ہے۔ ان تمام مثالوں میں اصول واضح ہے: صدر قانون سے بالاتر نہیں، بلکہ صرف اس حد تک محفوظ ہے جس سے ریاستی نظام کی روانی برقرار رہے۔
عالمی قانون میں بین الاقوامی فوجداری عدالت بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ روم اسٹیچوٹ واضح طور پر کہتا ہے کہ قومی یا بین الاقوامی سطح پر حاصل کوئی بھی استثنیٰ نسل کشی، جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم یا جارحیت کے جرم پر موجودہ یا سابق سربراہِ ریاست کے خلاف کارروائی کو نہیں روک سکتا۔ یہ اصول بتاتا ہے کہ بعض جرائم سرحدوں سے ماورا ہوتے ہیں اور انسانی حرمت کی پامالی منصب کی بلندی سے نہیں چھپ سکتی۔ یہ اسی قرآنی ہدایت کی یاد دہانی ہے: ”اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف پر ڈٹ جانے والے بنو، خواہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا والدین اور رشتہ داروں کے خلاف۔” (النساء 135)
پاکستان میں روایتی طور پر صدر کو فوجداری کارروائی سے استثنیٰ حاصل رہا ہے۔ تاہم حال ہی میں منظور ہونے والی 27ویں آئینی ترمیم نے اس استثنیٰ کی وضاحت اور توثیق کی ہے۔ اس ترمیم نے صدر کو دورِ صدارت میں فوجداری کارروائی سے محفوظ رکھا ہے اور سرکاری اعمال کو عدالتی جانچ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے، تاکہ ریاستی تسلسل سیاسی دباؤ سے متاثر نہ ہو۔
تنقید نگاروں کا مؤقف ہے کہ جمہوریت کو غیر محدود اختیارات کے محفوظ ٹھکانے نہیں بنانے چاہئیں۔ ان کے نزدیک استثنیٰ کا مقصد سہولتِ حکمرانی ہے، نہ کہ غلط کاریوں کو ڈھال فراہم کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ترمیم نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ ادارہ جاتی استحکام اور عوامی احتساب کے درمیان توازن کیسے قائم رکھا جائے۔
مگر کوئی بھی آئینی استثنیٰ اخلاقی جواب دہی سے مبرا نہیں کر سکتا۔ اسلامی تاریخ اس بارے میں نہایت روشن مثالیں رکھتی ہے۔ خلافتِ فاروقی کے دور میں مسجدِ نبویۖ میں ایک واقعہ پیش آیا جو رہنماؤں کی شفافیت کا بے مثال اثبوت ہے۔ جب حضرت عمر نے کپڑا تقسیم کیا تو ایک شخص کھڑا ہو کر پوچھ بیٹھا کہ جب سب کو ایک ایک ٹکڑا ملا ہے تو امیرالمؤمنین نے پورا کرتا کیسے بنا لیا؟ حضرت عمر نے فوراً اپنے بیٹے عبداللہ کو وضاحت کے لیے بلایا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنا حصہ اپنے والد کو دے دیا تھا۔ یہ سن کر سائل مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔ ایک عام شہری کے سامنے حکمران کا اس طرح جواب دہ ہونا ہمیں بتاتا ہے کہ اصل قیادت اختیار سے نہیں، اعتماد اور دیانت سے قائم ہوتی ہے۔
رسول اکرم ۖ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اپنی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔” استثنیٰ صدر کو قانونی کارروائی سے وقتی تحفظ تو دیتا ہے، لیکن اسے قوم یا خدا کے سامنے جواب دہی سے معاف نہیں کرتا۔ اسلامی روایت میں اختیار ایک امانت ہے، مراعات نہیں۔
دنیا بھر میں آئینی نظام صدارتی استثنیٰ کی حدود کو مسلسل بہتر بنا رہے ہیں۔ شکلیں مختلف سہی، مگر اصول ایک ہی ہے: حکمرانی کو وقار درکار ہے، اور انصاف کو احتساب۔ ریاستوں، خصوصاً پاکستان، کے لیے اصل امتحان یہی ہے کہ وہ ایسا توازن برقرار رکھیں جس میں نہ تو ادارے سیاسی انتقام سے کمزور ہوں، اور نہ کوئی فرد قانون یا اخلاق سے بالاتر ہو جائے۔ اسی توازن میں ریاست کی قوت اور عوام کا اعتماد پوشیدہ ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرعارضہ قلب سمیت دیگر امراض میں مبتلا افراد حج نہیں کرسکیں گے، ڈپورٹ کرنےکی پالیسی بھی لاگو ایوب خان ۔۔۔ کمانڈر ان چیف سے وزیرِاعظم اور صدرِپاکستان تک ستائیسویں آئینی ترامیم۔ مجسٹریٹی نظام کی واپسی ،بیورو کریسی کو مزید طاقتور بنانے کا منصوبہ۔ بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام “ژالہ باری کی سرد چپ” میرا لاہور ایسا تو نہ تھا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • وفاقی وزیر اطلاعات کا سینئر صحافی حاجی محمد نواز رضا ، طارق محمود سمیر کے کزن کے جواں سال بیٹے کی موت پر اظہار افسوس
  • جماعت اسلامی رہنمائوں کا سینئر صحافی راؤ افنان کی والدہ کی وفات پر اظہار تعزیت
  • جس نے شاہزیب خانزادہ کو ہراساں کیا ریاست اس شخص کو ٹریس کر کے کارروائی کرے گی، عطا اللہ تارڑ
  • ووٹ چوری پر صحافی پیوش مشرا کا سنسنی خیز انکشاف، کانگریس نے ویڈیو جاری کردی
  • صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازن
  • پشاور: ایف آئی اے کی کارروائی، جعلی دستاویزات حاصل کرنے والے میں ملوث 5 افغان شہری گرفتار
  • پی ٹی آئی دور حکومت میں اہم فیصلے بشریٰ بی بی کرتی تھیں، عطا تارڑ  
  • بانی پی ٹی آئی فیصلے ایکسپرٹ سے نہیں بشریٰ بی بی سے پوچھ کر کرتے تھے: وزیرِ اطلاعات عطا اللّٰہ تارڑ
  • صحافی مطیع اللہ جان کیخلاف منشیات و اسلحہ چھیننے کا کیس: فریقین کو نوٹس جاری