وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ 28ویں آئینی ترمیم بھی جلد پاس ہوگی، جو عوامی ایشوز سے متعلق ہے۔

چنیوٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ 27ویں ترمیم کے خلاف مزید ججز نے استعفے دینے ہوتے تو اسی روز آ جاتے۔

مزید پڑھیں: 26ویں آئینی ترمیم کے مقابلے میں 27ویں ترمیم کی منظوری کس طرح مختلف تھی؟

انہوں نے کہاکہ ترمیم پاس کرنا پارلیمنٹ کا حق ہے جسے کوئی ختم نہیں کر سکتا، ایک جج کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خود کو سیاسی احتجاج میں ملوث کرے۔

رانا ثنااللہ نے کہاکہ 27ویں آئینی ترمیم کو بنیاد بنا کر جن ججز نے استعفے دیے ان کے ذاتی مقاصد ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ ججز کی مراعات کے بارے میں بات چیت ہوگی، اور اس کے بعد حتمی فیصلہ جوڈیشل کمیشن کرے گا۔

واضح رہے کہ پارلیمنٹ نے حال ہی میں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی ہے، جو آئین کا حصہ بن چکی ہے۔ اس ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ کے 2 اور لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے استعفیٰ دے دیا ہے۔

مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم پر مشاورت: چیف جسٹس نے فل کورٹ اجلاس طلب کرلیا

استعفیٰ دینے والے ججز نے مؤقف اختیار کیاکہ 27ویں آئینی ترمیم آئین پر براہ راست حملہ ہے، اس لیے ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئینی ترمیم استعفے ججز رانا ثنااللہ سپریم کورٹ مشیر وزیراعظم وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: استعفے رانا ثنااللہ سپریم کورٹ وی نیوز 27ویں ا ئینی ترمیم رانا ثنااللہ

پڑھیں:

جسٹس منصور اور اطہر من اللہ کے استعفے منظور۔ جسٹس امین نے سربراہ وفاقی آئینی عدالت کاحلف اٹھا لیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251115-01-22

 

 

اسلام آباد (نمائندہ جسارت،خبر ایجنسیاں) صدر مملکت آصف علی زرداری نے عدالت عظمیٰ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے منظور کرلیے۔ صدر مملکت آصف زرداری نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے منظور کرلیے ہیں جنہوں نے گزشتہ روز اپنے منصب سے استعفا دے دیا تھا۔جسٹس منصور علی شاہ نے 13 صفحات پر مشتمل استعفے میں کہا تھا کہ 27 ویں آئینی ترمیم آئین پاکستان پر ایک سنگین حملہ ہے، 27 ویں آئینی ترمیم نے سپریم کورٹ آف پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں نے ادارے کی عزت، ایمان داری اور دیانت کیساتھ خدمت کی، میرا ضمیر صاف ہے اور میرے دل میں کوئی پچتاوا نہیں ہے اور سپریم کورٹ کے سینئرترین جج کی حیثیت سے استعفا پیش کرتا ہوں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ 27 ویں ترمیم کی منظوری سے پہلے میں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ کر اس بات پر تشویش کا اظہار کیا تھا کہ اس میں تجویز کردہ شقوں کا ہمارے آئینی  نظام پر کیا اثر پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ اگرآنے والی نسلیں انہیں کسی مختلف نظر سے دیکھیں گی، تو ہمارا مستقبل ہمارے ماضی کی نقل نہیں ہو سکتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ ججوں کا لباس آخری بار اتارتے ہوئے عدالت عظمیٰ جج کے عہدے سے رسمی استعفا پیش کرتا ہوں جو فوری طور پر مؤثر ہوگا۔علاوہ ازیںقومی اسمبلی اور سینیٹ سے 27ویں آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد جسٹس امین الدین خان نے پہلے وفاقی آئینی عدالت کے سربراہ کے طور پر حلف اٹھا لیا۔آئینی عدالت کے سربراہ جسٹس امین الدین ایوان صدر میں حلف اٹھایا، صدر مملکت آصف علی زرداری نے آئینی عدالت کے سربراہ سے حلف لیا۔حلف برداری کی تقریب میں فیلڈ مارشل عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی ساحر شمشاد اور وزیراعظم شہباز شریف شریک ہوئے۔ چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی بھی شریک ہوئے۔چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی، وفاقی آئینی عدالت کے سربراہ جسٹس امین الدین خان، وزیراعظم شہباز شریف اور صدر مملکت اکھٹے حلف برداری کی تقریب کے لیے ہال میں پہنچے جبکہ فیلڈ مارشل عاصم منیر اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی اکھٹے ہال میں آئے۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم بھی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئیں۔ذرائع کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان اسلام آباد ہائیکورٹ روم نمبر ایک میں بیٹھیں گے جبکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کورٹ روم 2 نمبر میں منتقل ہو جائیں گے۔دریں اثناء پاکستان کی پہلی وفاقی آئینی عدالت کے تین ججز نے بھی حلف اٹھا لیا، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان نے تینوں ججز سے حلف لیا۔وفاقی آئینی عدالت کے تین ججز کی حلف برداری کی تقریب اسلام آباد ہائی کورٹ بلڈنگ میں منعقد ہوئی۔ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس امین الدین خان نے اپنی عدالت کے تین ججز جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی سے حلف لیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر بھی حلف برداری تقریب میں اسٹیج پر موجود تھے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ارباب طاہر، جسٹس خادم سومرو، جسٹس محمد اعظم خان، جسٹس محمد آصف اور جسٹس انعام امین منہاس بھی وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز، لا افسران، اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر واجد گیلانی اور سیکرٹری منظور ججہ بھی تقریب میں شریک تھے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس اعجاز اسحاق خان، جسٹس بابر ستار اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی تقریب میں نہیں آئے۔ادھروفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان نے اپنا پہلا بڑا فیصلہ کرتے ہوئے وفاقی آئینی عدالت کا رجسٹرار تعینات کردیا ہے۔ذرائع کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان نے سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد حفیظ کو رجسٹرار آئینی عدالت لگا دیا ہے۔ذرائع  نے بتایا کہ چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت جسٹس امین الدین خان نے مظہر بھٹی کو سیکرٹری ٹو چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت تعینات کردیا ہے۔علاوہ ازیں وفاقی آئینی عدالت کے نئے جج جسٹس کے کے آغا کل وفاقی عدالت کے جج کی حیثیت میں حلف اٹھائیں گے، چیف جسٹس امین الدین خان جسٹس کے کے آغا سے حلف لیں گے۔ذرائع نے بتایا کہ حلف برداری کی تقریب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوگی۔علاوہ ازیںوفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تعداد بھی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لیے صدر مملکت آصف زرداری نے صدارتی آرڈر جاری کر دیا۔وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 13 ججز پر مشتمل ہوگی۔جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس روزی خان، جسٹس کے کے آغا خان اور جسٹس عامر فاروق وفاقی آئینی عدالت کے جج ہوں گے۔دوسری جانب عدالت عظمیٰ کی جج جسٹس مسرت ہلالی نے وفاقی آئینی عدالت کی جج بننے سے معذرت کر لی۔ذرائع کے مطابق جسٹس مسرت ہلالی نے صحت کے مسائل کے سبب معذرت کی ہے۔دوسری جانب ذرائع نے بتایا ہے کہ جسٹس مسرت ہلالی کے انکار کے بعد ان کو زیر غور ہی نہیں لایا گیا۔قبل ازیںعدالت عظمیٰ کے فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ رولز 2025 میں ترامیم کی منظوری دے دی گئی۔چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا جس میں عدالت عظمیٰ کے 19 میں سے17جج شریک ہوئے اور دو ججوں جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک نے شرکت نہیں کی۔اس سے قبل سپریم کورٹ کے ججوں کی مجموعی تعداد 24 تھی اور دو ججز کے استعفے کے بعد عدالت عظمیٰ کے ججوں کی تعداد 22 ہوگئی۔اعلامیے کے مطابق سپریم کورٹ رولز 1980 کا جامع جائزہ مکمل کرلیا گیا اور نئی ترامیم منظور کی گئیں۔منیر پراچہ کو سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کا درجہ دینے کی منظوری دی گئی۔ جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت، جسٹس نعیم افغان، جسٹس عقیل عباسی کی کمیٹی نے مسودہ تیارکیا۔

 

اسلام آباد، صدر مملکت آصف زرداری وفاقی آئینی عدالت کے پہلے سربراہ جسٹس امین الدین خان سے حلف لے رہے ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف ، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی بھی موجود ہیں

نمائندہ جسارت

متعلقہ مضامین

  • رانا ثنااللہ نے ایک بار پھر 28 ویں آئینی ترمیم کا عندیہ دے دیا
  • 28ویں آئینی ترمیم جلد پیش کی جائے گی، مقامی حکومت، این ایف سی اور صحت کے امور شامل ہوں گے: رانا ثناء اللہ:
  • 28ویں آئینی ترمیم عوامی ایشوز ،جلد لائی جائیگی، منظوری یقینی، رانا ثناء
  • 28ویں آئینی ترمیم جلد لائی جائے گی، وہ بھی منظور ہو جائے گی، رانا ثناء
  • 28ویں آئینی ترمیم جلد لائی جائے گی، وہ بھی منظور ہوجائے گی، رانا ثنا اللہ
  • لاہور ہائی کورٹ میں 27ویں ترمیم کے خلاف آئینی درخواست دائر
  • آئینی عدالت: چیف جسٹس، 3 ججوں نے حلف اُٹھا لیا، 3 جلد اُٹھائیں گے
  • جسٹس منصور اور اطہر من اللہ کے استعفے منظور۔ جسٹس امین نے سربراہ وفاقی آئینی عدالت کاحلف اٹھا لیا
  • تحریک تحفظ آئین پاکستان، 27ویں آئینی ترمیم مسترد، احتجاج کی کال دیدی