تہذیبی بحران اور سماجی تنہائی کا المیہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
ہم ایک ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا کی مصنوعی چمک، شہرت کے جھوٹے معیارات، اور ’’ٹرینڈنگ‘‘ کی دوڑ نے انسانی رشتوں کو بے وقعت بنا دیا ہے۔ آج کی نوجوان نسل ’’لائکس‘‘ اور ’’فالوورز‘‘ کے پیچھے بھاگتی ہے، لیکن حقیقی زندگی میں وہ تنہائی، بے چارگی اور احساسِ کمتری کا شکار ہو رہی ہے۔ یہ المیہ صرف پاکستان تک محدود نہیں، بلکہ پوری دنیا میں جدید تہذیب کے باطن میں پنپنے والے اخلاقی زوال کی عکاسی کرتا ہے۔ کچھ ہفتے قبل عائشہ نامی ایک اداکارہ کی لاش کراچی کے ایک فلیٹ میں ہفتہ بھر پڑی رہی۔ بد بو آنے پر محلے داروں نے پولیس بلائی تو پتہ چلا کہ کروڑوں کی مالکہ اور تین بچوں کی ماں کئی دنوں سے تنہائی میں فوت ہوچکی ہے اور لاش کی بدبو فلیٹ سے باہر پھیل رہی ہے۔ پھر حال ہی میں ایک اور اداکارہ ’’حمیرہ اصغر‘‘ کے فوت ہونے کے کئی ماہ بعد ان کے بند فلیٹ سے لاش برآمد ہونے کا واقعہ بھی اسی سماجی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ صرف ایک موت نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک گہرا سوال، ایک تازیانۂ عبرت اور ہمارے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے والا سانحہ ہے۔ حمیرا اصغر، جو کبھی میڈیا کی رعنائیوں کی علامت تھیں اور شوبز کے ایوارڈز کی محفلوں کی رونق تھیں، اپنے ہی فلیٹ میں کئی ماہ تک پڑی رہی، لیکن کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ جب فلیٹ کے مالک نے کرایہ نہ ملنے پر پولیس کو بلایا، تو دروازہ کھولتے ہی اہلکاروں کو منہ پر رومال اور ماسک رکھنے پڑے۔ لاش کی بدبو بو بتا رہی تھی کہ یہاں کافی عرصہ سے کوئی نہیں آیا، نہ کوئی پوچھنے والا تھا اور نہ ہی کوئی دستک دینے والا۔ یہ وہی حمیرا اصغر تھیں جن کے لاکھوں ’’فینز‘‘ تھے، جن کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ہزاروں تبصرے ہوتے تھے، جن کی تصاویر پر ’’لائکس‘‘ کی بارش ہوتی تھی۔ مگر جب زندگی کا سورج غروب ہوا تو کئی ماہ بیت جانے کے باوجود وہ کسی کو یاد آئی نہ کسی کو حال پوچھنے کی ضرورت ہی محسوس ہوئی۔ یہ واقعہ صرف ایک اداکارہ کی موت نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کا سبق آموز المیہ ہے جہاں ہم “آن لائن” تو ہزاروں دوست رکھتے ہیں، لیکن حقیقت میں اتنے تنہا ہیں کہ مر بھی جائیں تو کئی ماہ تک کسی کو خبر تک نہیں ہوتی یہاں تک کہ لاش گل سڑ جاتی ہے۔
ہماری نوجوان نسل ’’آزادی‘‘ کے نام پر خاندان سے دور ہو رہی ہے، لیکن یہی آزادی آخرکار تنہائی کے گھناؤنے انجام تک لے جاتی ہے۔ شوبز انڈسٹری میں آج آپ ’’سٹار‘‘ ہیں، کل آپ کی لاش بھی کئی ماہ تک پڑی رہے کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ آج ایک ’’خاص لبرل طبقہ‘‘ مسلمان عورت کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ’’پردہ قدیم سوچ ہے، خاندان کی پابندی گھٹن ہے اور آزادی یہ ہے کہ جو دل چاہے کرو‘‘ لیکن حمیرا اصغر کی موت نے ثابت کر دیا کہ یہ ’’آزادی‘‘ درحقیقت تنہائی، بے کسی اور اجتماعی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیا یہی وہ کامیابی ہے جس کے لیے ہماری بہنیں اور بیٹیاں گھر کی چار دیواری کو ’’قید‘‘ سمجھ کر توڑنا چاہتی ہیں؟ کیا اکیلے فلیٹ میں سڑتی لاش ہی “آزاد عورت” کا مقدر ہے؟ اسلام نے عورت کو جو مقام دیا، وہ کسی بھی جدید معاشرے سے بلند تر ہے۔ پردہ عورت کے وقار کا تحفظ ہے، نہ کہ اس کی ترقی میں رکاوٹ۔ اسلام کی سماجی تعلیمات کا زیادہ زور ’’صلہ رحمی‘‘ کی صورت میں خاندان کو انسان کا سب سے مضبوط سہارا بنانے پر ہے تاکہ وہ تنہائی کی گھٹن سے بچ سکے۔ اسی طرح وہ اخلاقی پابندیاں جنہیں بوجھ سمجھا جاتا ہے وہ معاشرے کو بگاڑ سے بچانے کیلئے ہیں۔ اگر حمیرا اصغر اپنے خاندان کے ساتھ رہتیں، اسلامی اقدار کو اپناتیں، تو شاید آج ان کی لاش مہینوں تک بند کمرے میں سڑتی نہ رہتی۔ علامہ اقبال رح نے ایک صدی پہلے ہی جدید تہذیب کے انجام کی پیش گوئی کر دی تھی کہ
یہ تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ تہذیب اپنے ہی بنائے ہوئے جال میں پھنس چکی ہے۔ انسان اپنے مقصد تخلیق کو بھلا کر اور آخرت کی جوابدہی سے غافل ہو کر ایک مشین بن چکا ہے، رشتے کاروبار بن گئے ہیں اور زندگی ایک “سوشل میڈیا پرفارمنس” میں تبدیل ہو گئی ہے۔ مرحومہ کی موت کے اس دردناک سانحہ میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ خاندانی رشتوں کو مضبوط بنائیں، اپنے پیاروں کا خیال رکھیں، خاص طور پر بزرگوں اور تنہا رہنے والوں کی خبر گیری رکھیں۔ سوشل میڈیا ضروت کے مطابق اور مخلوق کے فائدے اور اصلاح کیلئے ضرور استعمال کریں لیکن اس کی چکا چوند کی بجائے حقیقی تعلقات پر بھرپور توجہ دیں۔ صرف “فالوورز” پر مصنوعی خوشی کی بجائےحقیقی مخلص دوست بنائیں جو زندگی میں آپ کے کام آئیں۔ مختلف میڈیا پلیٹ فارمز اور فورمز کے ذریعے نوجوان نسل کو اسلامی اقدار سے روشناس کرانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا کی یہ شہرت عارضی ہے، لیکن آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لئے ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے اسلامی نظام اخلاقیات کے مطابق ہمسایوں، رشتہ داروں، اور معاشرے کے کمزور افراد کی خبر گیری کریں۔ موت تو ہر کسی کو آئے گی، لیکن سوال یہ ہے کہ ہم نے موت کیلئے کیا تیاری کی ہے۔ ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ ابھی اگر ہم پر موت طاری ہوجائے تو کیا ہم آخرت کی جوابدہی کیلئے تیار ہیں۔ ہمارا اللہ کی مخلوق سے کیا تعلق ہے اور کیا ہماری زندگی کے بارے میں بعد میں بھی کوئی اچھا ذکر کرے گا؟ حمیرا اصغر کا واقعہ ہمیں یہی سبق دے رہا ہے کہ ہمیں اپنی زندگیوں میں والدین اور بہن بھائیوں کو ترجیح دینا ہو گی، ورنہ خدانخواستہ کل کوئی اور لاش بھی کسی بند فلیٹ میں پڑی مل سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی تربیت کریں، انہیں سکھائیں کہ شہرت نہیں بلکہ دلی سکون اصل دولت ہے جو اللہ تعالٰی سے مضبوط تعلق اور اس کی یاد سے وابستہ ہے۔ یہ بھی ہمیں باور کرنا چاہیے کہ سکرین کا پردہ نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں سجدہ ریزی انسان کی اصل معراج ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور ہم اس عبرتناک واقعے سے سبق حاصل کریں اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا فلیٹ میں کئی ماہ کسی کو
پڑھیں:
اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔18 ستمبر ۔2025 )تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے چیف جسٹس یحیی خان آفریدی کے نام لکھے گئے خط میںکہا ہے کہ اپنے حلف کی پاسداری کریں اور جرات مندانہ فیصلے کریں، آپ کے دلیرانہ فیصلے قوم کی تقدیر کی کتاب میں لکھے جائیں گے رپورٹ کے مطا بق راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے لکھے گئے خط میں انہوں نے لکھا کہ میں آپ کو سپریم کورٹ سے صرف 31کلومیٹر کی دوری سے یہ خط لکھ رہا ہوں جہاں کے دروازے مجھے اور میری اہلیہ کو انصاف دینے کےلئے 772 دن سے بند ہیں، میری اہلیہ بشری بی بی نہایت صبر و تحمل سے غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک برداشت کر رہی ہیں وہ تنہائی میں قید ہیں.(جاری ہے)
خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ بشری بی بی طبی علاج سے محروم، ٹی وی، کتابوں، یا باہر کی دنیا سے رابطے سے دور ہیں، نہ ہی انہیں علاج کی سہولت دی گئی ہے، پاکستانی قانون خواتین کو ضمانت کے لیے خصوصی رعایت دیتا ہے لیکن بشری بی بی کے کیس میں یہ اصول معطل کر دیا گیا، صرف اس لئے کہ وہ میری بیوی ہیں، وہ انہیں توڑنا چاہتے ہیں لیکن انہیں اس طاقت کا اندازہ نہیں جو ان کے ایمان سے انہیں ملتی ہے. سابق وزیراعظم نے خط میں بتایا کہ 300 سے زائد سیاسی مقدمات قائم کئے گئے ہیں، بشری بی بی کی صحت بگڑ رہی ہے لیکن ڈاکٹر کو معائنہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی، پاکستان کی تاریخ میں ایسی مثال نہیں، آج پاکستان فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے، میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ اپنے حلف کو پورا کریں اور ثابت کریں کہ پاکستان کی سپریم کورٹ اب بھی انصاف کی آخری پناہ ہے، سپریم کورٹ بنیادی حقوق کی ضامن ہے، عدلیہ کی آزادی کو بحال کریں، امید ہے آپ حلف کی پاسداری کرتے ہوئے انصاف فراہم کریں گے.