کیا انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں فلسفہ شامل تھا؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں فلسفہ کے مفہوم اور ’’نبوت‘‘کے مقاصد پر غور کرنا ہوگا اور یہ کہ ان دونوں کی ماہیت، دائرہ کار اور اظہار کے طریقے کا ادراک حاصل کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر مطلوبہ جواب کی آگہی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔فلسفے کا دائرہ کار یہ ہے کہ یہ عقل ،منطق اور دلیل کے ذریعے وجود ، علم ،حقیقت، اخلاق وجمالیات اور امور سیاست کے بنیادی سوالات کی تہہ تک پہنچتا ہے ۔تاکہ مشاہدات کے ذریعے جوابات کا کھوج لگایا جاسکے ۔جہاں تک نبوت کا تعلق ہے یہ مبنی بروحی کا علم ہے جو اللہ کی طرف سے اس کے منتخب کئے گئے خاص انسانوں پر اتارا جاتا ہے جنہیں انبیا علیہم السلام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نبوت انسان کی روحانی،اخلاقی اور عملی رہنمائی کرتی ہے جس کے نتیجے میں توحید ،عدل و قسط اور آخرت کا شعور اپنی ذات کی پہچان اور اس کی منزل سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔یہیں سے ہمارے سوال کہ ’’انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میںفلسفہ بھی تھا؟‘‘ کا جواب اخذ ہوتا ہے اور یہ وہ سوال ہے جوصدیوں سے فلاسفہ کے زیر غور رہا ہے اور انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں انسان کے دل و دماغ میں یہ اس سوال نے سر اٹھایا کہ’ ’میںکون ہوں ؟‘‘ اس پر آشکار کیا گیا کہ ’’تو اللہ کا بندہ ہے اور زمین پر اس کا خلیفہ بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘
اگلا سوال یہ پیدا ہوا کہ ’’مقصد حیات کیا ہے؟‘‘ بتایا گیا کہ ’’اللہ کی عبادت ،عدل کا قیام، حسن اخلاق اور فلاح ‘‘ پھر اس سوال نے جنم لیا کہ ’’موت کے بعد کیا ہوگا ؟‘‘ بتایا گیا کہ ’’جو اعمال کئے ان کا حساب ہوگا اور سزا و جزا تجویز کی جائے گی۔‘‘گویا فلسفہ سوال اٹھاتا ہے اور ان کے غیر حتمی جوب دینے کی بجائے ممکنہ جواب دیتا ہے ،مگر نبوت ہر سوال کا قطعی اور الہامی جواب دیتی ہے ۔فلسفے اور نبوت کا بعض مقامات پر اشتراک بھی ہوتا ہے ۔ مثلاً فلسفے کا ایک اہم جز اخلاق ہے اور نبوت کی تعلیمات کا بنیادی محور ہی اخلاق ہے ۔اسی لئے نبی آخرالزمان ﷺنے فرمایا ’’میں اخلاق سنوارنے کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہوں ۔‘‘
فلسفے اور نبوت میں ایک فرقیہ ہے فلسفہ وجود کی بات کرتاہے نبوت کا پیغام یہ ہے کہ’’جن و انس کو اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا۔‘‘ اسی طرح فلسفہ علم کی ماہیت کو بیان کرتا ہے جبکہ نبوت علم کو وحی ،عقل اور بصیرت کی کسوٹی پر پرکھتی ہے اور یہ کہ فلسفہ ریاستی انصاف کی بنیادوں کا سراغ لگاتا ہے جبکہ نبوت انبیا علیہم السلام کے ذریعے معاشرے میں عملی طور پر عدل و انصاف نافذ کرتی ہے۔ وحی علم کی نوعیت قطعی ،حتمی اور الہامی صورت میں منطق و استدلال کے طریقہ اور حکمت و بصیرت کی روشنی میں پیش کرتی ہے جس کا بڑامقصد فہم و ادراک ،آزادی اظہار ہدایت اور نجات کا راستہ اللہ کی اطاعت میں اجاگر کرتی ہے۔
یہاں ایک اور سوال اٹھا جا سکتا ہے کہ کیا انبیا علیہم السلام فلسفی بھی تھے ؟اس کا قطعی جواب یہ ہے کہ ہرگز اور مطلق نہیں ۔تاہم ان کی تعلیمات میں وہ تمام فکری گہرائیاں موجود ہیں جو فلسفے کی بنیاد بنیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کاچاند ستاروں اور سورج پر غور و فکر، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون سے مکالمہ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاشرتی اخلاقی اقدار پر زور دینا اور نبی آخرالزمان ﷺ کے مثالی خطبات اور حسن اخلاق کی سیاست کرنا ،یہ سب عقلی توحید کے دلائل ہیں ۔اس لئے یہ کہنا کہ انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں فکری طور پر فلسفہ شامل تھا مگر اس کا ماخذ انسانی عقل نہیں بلکہ وحی الٰہی تھی۔جس کا قطعی جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فلسفہ جن سوالات کو جنم دیتا ہے نبوت ان کے جوابات مہیا کرتی ہے ،فلسفہ راستے کی جانب اشارہ کرتا ہے اور نبوت منزل کی خبر ہی نہیں دیتی بلکہ عین اس پر جا کھڑا کرتی ہے۔اگر ہم یہ کہیں کہ فلسفہ نبوت کی برکت اور وحی کی حکمت کا فکری اثاثہ ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی تعلیمات میں اور نبوت کرتی ہے اللہ کی ہے اور
پڑھیں:
کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہو گا، ترجمان پاک فوج
ایبٹ آباد میں مختلف تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور طلباء سے نشست کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے وطن کے دفاع کے لئے پاک فوج کے عزم کا اعادہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہو گا۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق ایبٹ آباد میں مختلف تعلیمی اداروں کے اساتذہ اور طلباء سے نشست کے دوران انہوں نے وطن کے دفاع کے لئے پاک فوج کے عزم کا اعادہ کیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ پاکستان نے دہشتگردی اور فتنہ الخوارج کیخلاف موثر اقدامات کئے ہیں۔ اس موقع پر اساتذہ اور طلباء کی جانب سے شہداء اور غازیوں کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔