جیکب آباد، شہدائے کربلاء کی یاد میں مجلس، شیعہ سنی وحدت کا مظاہرہ
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
مجلس عزاء سے شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی سمیت مختلف مکاتب فکر کے جید علماء کرام، سماجی و سیاسی رہنماؤں اور شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کیں اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ اسلام ٹائمز۔ شہدائے کربلا کی یاد میں ڈی سی چوک جیکب آباد پر منعقدہ مرکزی مجلس عزاء کے موقع پر وحدت و اخوت کی نئی مثال قائم کی گئی، جس میں شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی سمیت مختلف مکاتب فکر کے جید علماء کرام، سماجی و سیاسی رہنماؤں اور شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کیں۔ اجتماع کے شرکاء نے "شیعہ سنی بھائی بھائی" کے فلک شگاف نعروں کے ذریعے اتحاد بین المسلمین کے پیغام کو عام کیا۔ تقریب میں ہندو کمیونٹی کے نمائندہ رہنماء وکی کمار نے بھی شرکت کی۔ تمام مسالک کے رہنماؤں نے حضرت امام حسین علیہ السلام اور شہدائے کربلا سے عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امام حسین علیہ السلام پوری انسانیت کے محسن اور مظلوموں کے حامی ہیں۔ تقریب سے خطاب کرنے والوں میں چیمبر آف کامرس ضلع جیکب آباد کے صدر حاجی احمد علی خان بروہی، امیر جماعت اسلامی جیکب آباد اور سابق امیدوار صوبائی اسمبلی حاجی دیدار علی لاشاری، سید احسان علی شاہ بخاری، مہران سوشل فورم کے چیئرمین ایڈووکیٹ عبدالحئی سومرو اور دیگر معزز شخصیات شامل تھیں۔
مرکزی اجتماع اور مجلس عزاء سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا پیغام نجات، حریت اور عزت کا پیغام ہے۔ آپ نے کربلا میں یزیدی ظلم کے خلاف جو تاریخی قیام کیا وہ آج بھی عالم انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔ امام حسین علیہ السلام کسی ایک فرقے کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے رہبر و نجات دہندہ ہیں۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے مزید کہا کہ آج مختلف مکاتب فکر کے اکابرین کا اس اجتماع میں یک زبان ہوکر اتحاد کا پیغام دینا قابلِ تحسین ہے۔ شیعہ اور سنی بھائی بھائی ہیں، اور انہوں نے متحد ہوکر اسلام دشمن استکباری و سامراجی قوتوں کا مقابلہ کرنا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: امام حسین علیہ السلام جیکب آباد
پڑھیں:
وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔