data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ٹنڈوجام (نمائندہ جسارت )جماعت اہلسنت و الجماعت کے معروف عالم دین علامہ مفتی خرم حسین طاہر نقشبندی نے کہا ہے کہ یوم عاشورہ اسلام کی سربلندی کا دن ہے امام حسین ؓ نے اس دن اُمت مسلمہ کو سبق دیا کہ اسلام کی سربلندی کے بڑی سے بڑی قربانی کس طرح دی جا سکتی ہے یہ بات انھوں نے محرم الحرام کے سلسلے میں شہادت حضرت امام حسینؓپر ٹنڈوجام کے معروف سماجی رہنما یعقوب پاشا کی رہائش گاہ پر ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہی جس میں شہر کے معزز شخصیات اور اہلِ علاقہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی انھوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عاشورہ اسلامی تاریخ کا ایک انتہائی اہم دن ہے جسے صرف سوگ یا غم کا دن نہیں بلکہ دین کی سربلندی کی یاد کے طور پر منایا جانا چاہیے حضرت امام حسین ؓ نے اس دن پوری اُمت مسلمہ کو درس دیا تھا کہ اسلام کا نظام قرآن وسنت کا نظام ہوگا اس میں کوئی شخص تبدیلی نہیں کر سکتا انہوں نے کہا کہ ہمیں اس دن امام حسینؓ کی عظیم قربانیوں کو یاد رکھنا چاہیے کیونکہ واقعہ کربلا ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اگر دین پر کوئی بھی مشکل وقت آئے تو ہمیں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے بلکہ نماز، سجدے اور قربانی کا جذبہ قائم رکھنا چاہیے چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جائے انہوں نے کہا کہ واقعہ کربلا نہ صرف قربانی کا پیغام دیتا ہے بلکہ ہمیں اپنی زندگی کو دینی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کی بھی تلقین کرتا ہے کہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنا چاہیے کیونکہ دینِ اسلام پر عمل کرکے ہم دنیا و آخرت دونوں کو سنوار سکتے ہیں اس روحانی محفل میں محمددانیال پاشا سید سکندر شاہ، انشال پاشا، محمد ادریس راجپوت، ایزھان راجپوت، لالا رفیق راجپوت، سبحان راجپوت سمیت دیگر معززین بھی شرکت کی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی سربلندی

پڑھیں:

بانو قدسیہ ، حب الوطنی اور قرۃ العین

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">انٹرویو نما رائٹ اَپ کے مطابق بانو قدسیہ نے کہا تھا کہ وہ ممتاز ناول نگار قرۃ العین حیدر اور معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی کے بارے میں رائے نہیں دینا چاہتیں کیونکہ بقول بانو قدسیہ کے، وہ انڈین رائٹر ہیں

ایسا لگتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی اور کنٹونمنٹ کے علاقوں کی زمینوں کے سوا ہر چیز سستی چیز یعنی Cheap ہوگئی ہے… یہاں تک کہ حب الوطنی بھی۔ مگر یہ تو بعض حقائق کا اجمال ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کے لیے ہمیں معروف ڈراما نگار اور افسانہ نویس بانو قدسیہ کے ایک رائٹ اَپ نما انٹرویو یا انٹرویو نما رائٹ اَپ کے بعض جملوں سے گزرنا پڑے گا۔

انٹرویو نما رائٹ اَپ کے مطابق بانو قدسیہ نے کہا تھا کہ وہ ممتاز ناول نگار قرۃ العین حیدر اور معروف افسانہ نگار عصمت چغتائی کے بارے میں رائے نہیں دینا چاہتیں کیونکہ بقول بانو قدسیہ کے، وہ انڈین رائٹر ہیں اور جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوجاتا، وہ ان ادیباؤں کے کام کا نام نہ لیں گی۔

بانو قدسیہ کا ناول ”راجا گدھ“ ہمیں اور ہمارے بعض احباب کو اتنا پسند ہے کہ ہم نے اسے تین بار خریدا اور تینوں مرتبہ کچھ دن بعد احباب میں سے کوئی نہ کوئی اسے لے اُڑا۔ لیکن یہ اس ناول سے پیدا ہونے والا واحد مسئلہ نہ تھا، اس ناول کی بابت ہمیں یہ مسئلہ بھی درپیش ہوا کہ اسے کتنی بار پڑھا جائے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے ہم نے یہ رائے قائم کی کہ بانو قدسیہ قارئین کے لیے مسائل کھڑے کرنے والی ادیبہ ہیں، اور ادب میں یہ صورتِ حال کم کم پیش آتی ہے کہ کوئی لکھنے والا اپنے قارئین کے لیے مختلف قسم کے مسائل کھڑے کردے۔ اتفاق دیکھیے کہ بانو قدسیہ کے ناول ہی نہیں، ان کے انٹرویو کے مذکورہ نکات نے بھی ہمارے لیے سنگین مسائل پیدا کردیے ہیں۔ ان مسائل کا اجمال یہ ہے۔

عصمت چغتائی تو نہیں البتہ قرۃ العین حیدر ہمیں بہت پسند ہیں، لیکن بانو قدسیہ نے حب الوطنی کا جو پیمانہ مقرر کیا تھا اور کشمیر کے کاز سے جس وابستگی کا مظاہرہ کیا تھا، اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی قرۃ العین حیدر کے کام کے ذکر سے کشمیر کی آزادی تک توبہ کرلیں۔ لیکن یہ تو مسئلے کا محض ایک سرسری سا پہلو ہے۔ ہمیں تو دہلی کی جامع مسجد اور آگرہ کا تاج محل بھی بہت پسند ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی تک ہم جامع مسجد اور تاج محل کی تعریف و توصیف سے بھی گئے۔ اب کہنے کو تو ہم نے حب الوطنی کو سستا کہہ دیا ہے، لیکن اس صورتِ حال کو دیکھا جائے تو حب الوطنی خاصی مہنگی پڑتی نظر آتی ہے۔

اتفاق سے ہم ایک قوم کے فرد اور ایک وطن کے شہری ہی نہیں، ایک ملّت کا بھی حصہ رہے ہیں اور ہیں! اس ملّت کو برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کہا جاتا ہے۔ اتفاق سے کسی زمانے میں برصغیر پر اس ملّت کی حکمرانی تھی اور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، انگریزوں نے سازش اور طاقت کے بَل پر ہمیں ایک عظیم اقتدار سے محروم کردیا تھا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں برطانیہ کا شاعر جان کیٹس اور نقاد ٹی ایس ایلیٹ بہت پسند ہیں، چونکہ انگریزوں نے ہم سے برصغیر کی حکمرانی چھینی تھی، چونکہ انھوں نے طویل عرصے تک برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کی زندگی کو جہنم بنائے رکھا تھا، اور چونکہ انھوں نے اپنے گھناؤنے تسلط پر ہم سے ابھی تک معافی نہیں مانگی ہے، اس لیے حُبِّ ملّت کا تقاضا ہے کہ جب تک انگریز ہم سے اپنے مظالم اور استبداد کی معافی نہ مانگیں، ہم جان کیٹس اور ٹی ایس ایلیٹ کے کام کا ذکر نہ کریں۔

جہاں تک روس کے عظیم ناول نگار دوستو وسکی کا تعلق ہے، تو اس کا کیا کہنا! اس کے ناول تو ہمیں اتنے پسند ہیں کہ ان کے سامنے ہمیں ہر ناول معمولی محسوس ہوتا ہے۔ لیکن جناب یہاں بھی ایک مسئلہ ہے، اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ سابق سوویت یونین کے کمیونسٹ حکمرانوں نے سوویت یونین میں مسلمانوں کی کئی ریاستوں کو ہڑپ کرلیا۔ بعد ازاں سوویت یونین نے برادر ملک افغانستان پر قبضہ کرکے وہاں انسانی تاریخ کے بدترین مظالم کیے۔ ہرچند کہ روس کو وہاں ذلت آمیز شکست ہوئی اور اسے افغانستان سے جانا پڑا، مگر سابق سوویت یونین یا موجودہ روس نے اس عظیم سانحے پر معافی مانگنا تو درکنار، ہم سے معذرت تک نہیں کی۔ چنانچہ حُبِّ ملّت کا تقاضا ہے کہ ہم دوستووسکی کے نام اور کام کا ذکر بند کردیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم بانو قدسیہ سے اس سلسلے میں مشورہ کرتے تو وہ ہم سے یہی کہتیں کہ جو میں نے کیا وہی کرو۔ لیکن ذرا آئیے، اس سلسلے میں اپنی اسلامی تاریخ سے بھی مشورہ کرلیں، غالباً اس حوالے سے ایک مشورہ کافی ہوگا۔

یہ اسلامی تاریخ کا وہ زمانہ ہے جب امتِ مسلمہ کو تاتاریوں کے طوفانِ بلاخیز کا سامنا تھا۔ جلال الدین خوارزم چنگیز خان سے لڑتے لڑتے تھکا جارہا تھا۔ ایسے میں اُسے ایک دن چنگیز خان کے انتقال کی اطلاع موصول ہوئی۔ اس موقع پر جلال الدین نے اُس چنگیز خان کے بارے میں، جس نے لاکھوں مسلمانوں کو تہ تیغ کردیا تھا، کہا کہ وہ ایک بہادر دشمن تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنے دشمن کی خوبیوں کی تعریف سے کبھی نہیں گھبرائے، اور انھیں کبھی کسی کی تعریف معرضِ التوا میں نہیں ڈالنی پڑی۔ اس لیے کہ ان کا دین، ان کا تصورِ کائنات، ان کا تصورِ انسان اور تصورِ زندگی ان میں ایسی کشادگی اور ایسی خوداعتمادی پیدا کرتا ہے کہ جس میں کم ظرفی، تھڑدلی اور تنگ نظری کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔

جہاں تک ہمیں معلوم ہے قرۃ العین حیدر یا راجندر سنگھ بیدی (جن کی توصیف سے بھی بانو قدسیہ نے گریز کیا تھا) بھارت کے شہری ضرور تھے، لیکن وہ بھارتی حکومت نہیں تھے، اور نہ ہی مسئلہ کشمیر کی پیدائش اور اس کے استقرار میں ان کا کوئی کردار تھا۔ لیکن اس کے باوجود بانوقدسیہ ان کی تعریف سے گریز کررہی تھیں اور اس گریز کے لیے انھوں نے نام نہاد حب الوطنی کا سہارا لیا تھا۔ کشمیر کی تحریکِ آزادی صرف ایک جغرافیے میں نہیں… لاکھوں مسلمانوں کے دلوں، دماغوں اور روحوں میں چل رہی ہے، اور یہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ لیکن اس کے باوجود بانو قدسیہ کے رویّے کا کوئی جواز نہیں۔ اس لیے کہ اس کا مسلمانوں کی تاریخ اور مسلمانوں کے مجموعی مزاج سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو نہ اتنی سستی حب الوطنی کی ضرورت تھی اور نہ ہونی چاہیے۔ اس سے پاکستان مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوگا اور ہوا ہے، اس لیے کہ اُس کے حصے میں ایسی ہی حب الوطنی آئی ہے۔ اس حب الوطنی کے کئی چہرے ہیں۔ ایک چہرہ وہ ہے جو پاکستان کو 1947ء سے شروع کرنا چاہتا ہے اور اس سے پہلے کی ہر چیز اور ہر بات کو بھلا دینا چاہتا ہے۔ ایک چہرہ وہ ہے جو پاکستان کی تاریخ کو موہن جودڑو کے مُردہ خانے میں تلاش کرتا ہے۔ ایک چہرہ وہ ہے جو پاکستان کو ”سندھ ساگر“ کی کابُک میں بند کردینے کی خواہش رکھتا ہے۔

شاہنواز فاروقی دانیال عدنان

متعلقہ مضامین

  • جسٹس ظفر راجپوت کو چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ تعینات کرنے کی منظوری
  • جوڈیشل کمیشن: چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کیلئے جسٹس ظفر راجپوت کی منظوری
  • سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے لیے جسٹس ظفر راجپوت کے نام کی منظوری
  • ’ہمیں بلا کر آپ یچھے ہٹ گئے؟، سہیل آفریدی کے احتجاج میں شرکت نہ کرنے پر کڑی تنقید
  • لاہور، تنظیمات اہلسنت نے خودکش حملوں کو حرام قرار دیدیا
  • ڈپٹی جنرل سیکرٹری جماعت اسلامی کی بدین میں مختلف برادریوں سے تعزیت
  • غزہ میں عالمی فورس میں پاک فوج کی شمولیت، جناب محمد حسین محنتی کا اہم انٹرویو
  • ہمیں جینے نہیں دیا گیا تو ہم بھی جینے نہیں دیں گے، اسد قیصر
  • دہلی کار بلاسٹ معاملے کو لیکر اتراکھنڈ میں این آئی اے کا چھاپہ، امام جماعت سمیت 2 مسلمان گرفتار
  • بانو قدسیہ ، حب الوطنی اور قرۃ العین