ابھی دو دن پہلے عاشور گزرا ہے، شاید جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں تو کربلا کی خاک پر بہا ہوا وہ لہو آپ کے دل پر دستک دے رہا ہو، وہ لہو جس نے تاریخ کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور ہمیں یہ بتا دیا کہ سرکٹ سکتا ہے جھکا یا نہیں جاسکتا۔ دو دن پہلے گزرا عاشور آج بھی ہمارے اندر موجود ہے، ہمارے سوال، ہماری خاموشی، ہماری بزدلی اورکبھی کبھار ہماری جرات میں۔
عاشور صرف ایک مذہبی واقعہ نہیں، یہ وقت کے ہر یزید کے خلاف حسین کا پیغام ہے۔ حسینؑ نے اس وقت کے طاقتور، جابر اور فاسد حکمران کو یہ کہہ کر للکارا تھا کہ ’’ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرتا ‘‘ یہ ایک سیاسی اعلان تھا، ایک انقلابی منشور جس کا مقصد ظالم کو بے نقاب کرنا تھا، چاہے اس کے بدلے میں گھر اجڑ جائے، بچے پیاسے مرجائیں یا سر نیزے پر چڑھ جائے۔
یہ داستان صرف ساتویں صدی کی نہیں ہے۔ آج بھی دنیا کے ہرکونے میں یزیدیت زندہ ہے۔ کہیںیہ یزیدیت ریاستی جبرکی صورت میں ہے، کہیں سامراجی لشکروں کے حملے میں ،کہیں عورت کی آزادی کو روندنے والے فتوؤں میں اور کہیں قلم اور زبان پر لگی پابندیوں میں۔ حسینؑ کے ماننے والے اگر صرف ماتم کریں مگر ظلم کے خلاف کمر نہ کسیں تو یہ ماتم ادھورا ہے۔ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں جبر، استحصال، ناانصافی اور لالچ نے انسان کی زندگی کو بے وقعت کردیا ہے۔
فلسطین سے لے کر کشمیر تک کابل سے لے کر افریقی براعظم کے قحط زدہ علاقوں تک خون ہی خون ہے، پیاس ہی پیاس ہے اور حیرت اس پر نہیں کہ یہ سب ہو رہا ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ ہم خاموش ہیں۔ وہ خامشی جو کربلا کے میدان میں کہیں نظر نہیں آتی۔ وہاں تو حسین ؑ اکیلے کھڑے ہوگئے تھے، صرف اس لیے کہ سچ کا، حق کا پرچم نہ جھکے۔
یاد رکھیے یزید صرف وہ نہیں تھا جس کا نام تاریخ کی کتابوں میں آیا۔ ہر وہ شخص، ہر وہ نظام، ہر وہ طاقت جو انسان کے ضمیر کو خریدنے کی کوشش کرے، جو حریتِ فکر پر پہرہ بٹھائے، جو اختلاف کو جرم بنا دے، وہ یزید ہے اور ہر وہ شخص جو ظلم کے خلاف کمرکس لے ،جو طاقت کے سامنے سچ کہنے کی ہمت رکھے، جو اپنی جان کی پروا کیے بغیر مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو جائے وہ حسینؑیت کا علمبردار ہے۔
کربلا ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ تعداد اہم نہیں موقف اور مقصد اہم ہے۔ حسینؑ کے ساتھ بہترسرفروش تھے مگر ان کا موقف اور مقصد تاریخ کا رخ بدل گیا۔ آج ہم بھی اگر یہ سمجھ لیں کہ ہماری آواز اکیلی سہی لیکن اگر وہ آواز سچ کی ہے تو دیر سویر گونجے گی ضرور۔ اس گونج کی پہلی صورت ضمیرکی بیداری ہے۔اس عاشور پر ایک عجیب کیفیت طاری رہی۔ شہر میں جلوس نکلے، نوحے پڑھے گئے، ماتم ہوا ، نذر نیاز تقسیم ہوئی مگرکیا ہم نے خود سے پوچھا کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں؟ کیا ہم ظلم کے خلاف حسینیت کے ساتھ ہیں یا خاموشی کے پردے میں یزیدیت کا ساتھ دے رہے ہیں؟
میں نے ایک اہل سنت گھرانے میں آنکھ کھولی اور بچپن سے اپنے بڑوں کو ایام محرم کا احترام کرتے دیکھا۔ ہمارے ہاں کوئی نیا کپڑا ان دنوں نہیں پہنا جاتا اور ہلکے رنگ کے کپڑے پہنے جاتے، میں تو کالے ہی کپڑے پہنتی، نذر نیاز کا اہتمام ہوتا، کڑاھائی بارہ دن چولہے پہ نہ چڑھتی، قینچی استعمال نہیں کی جاتی، بال نہیں کٹوائے جاتے اور نہ کوئی شادی ان دنوں میں ہوتی نہ ہم کسی کے بلانے پہ جاتے۔ میں تو مجالس میں ماتم بھی کرتی تھی، امی بھی مجالس میں جایا کرتی تھیں۔
میرے بچپن میں شیعہ سنی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بڑی ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔اس وقت سوال یہ ہے کہ جب فلسطین میں بچوں کے لاشے اٹھائے جا رہے ہیں، جب شام کے شہرکھنڈر بن چکے ہیں، جب یمن کے لوگ بھوک سے بلک رہے ہیں اور ہم صرف تعزیت کے پوسٹر لگانے پر اکتفا کرتے ہیں تو کیا ہم واقعاً حسینی ہیں؟ یا صرف رسمِ عاشور نبھا رہے ہیں؟
آج جب دنیا جدید ٹیکنالوجی مصنوعی ذہانت اور خلائی سفرکے خواب دیکھ رہی ہے، ہم اب بھی انسان کی بنیادی حرمت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایک طرف سرمایہ دار نظام ہے جو چند افراد کے مفاد میں کروڑوں انسانوں کا استحصال کرتا ہے، دوسری طرف ملوکیت ہے جو دین کے نام پر غلامی کو جائز قرار دیتی ہے۔ ان دونوں کے بیچ حسین ؑ کی صدا گونجتی ہے، انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے، وہ غلام نہیں۔
امام حسین ؑ کا موقف کسی خاص فقہ، قوم یا علاقے تک محدود نہیں۔ وہ تمام انسانیت کے لیے ایک مشعل راہ ہے، وہ تمام مظلوموں کے لیے ایک امید ہے اور تمام ظالموں کے لیے ایک انتباہ۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور زندگی کی سب سے بڑی جیت یہ ہے کہ انسان اپنے ضمیر کے ساتھ کھڑا ہو۔
تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم مظلوم کو روتے ہیں مگر ظالم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، ہمیں مزاحمت کے جذبے کی طرف بڑھنا ہوگا۔ ہمیں حسین ؑ کو صرف روضے کی زیارت اور ذاکر کی تقریر تک محدود نہیں رکھنا، ہمیں اسے اپنے عمل میں زندہ کرنا ہوگا۔ جب ایک عورت کسی ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے ،جب کوئی طالب علم سوال کرنے کی جرأت کرتا ہے، جب کوئی صحافی سچ لکھنے پر پابندی کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ کربلا کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور حسین ؑ آج بھی سرفراز ہیں۔
اس عاشور پر ایک لمحہ رُک کر سوچیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی اس یزیدیت کو پہچانا ہے جو ہمارے سماج میں طاقتورکی صورت فرقہ واریت کے ہتھیار اور غربت کے شکنجے میں چھپی بیٹھی ہے؟ کیا ہم نے کبھی اپنے اردگرد کے مظلوموں کی آہ سنی ہے؟ کیا ہم نے کبھی اپنی خامشی پر سوال اٹھایا ہے؟کاش! ہم صرف آنسو نہ بہائیں، چراغ بھی جلائیں، وہ چراغ جو سچائی حریت اور بغاوت کے لیے جلتے ہیں۔ تبھی ہم کہہ سکیں گے کہ ہم نے عاشورکو صرف یاد نہیں کیا، اس پر عمل بھی کیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ظلم کے خلاف کیا ہم نے رہے ہیں کے ساتھ ا ج بھی ہے اور کے لیے
پڑھیں:
اپوزیشن وزیراعلیٰ پختونخوا کیخلاف تحریک نہیں لاسکتی،شیر افضل مروت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (آن لائن)رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ اپوزیشن وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے خلاف تحریک نہیں لاسکتی، ہم نظریے کے لیے لڑ رہے تھے جس کا حشرنشر کردیا گیا، عمران خان کو حقائق نہیں بتائے جارہے، سب اچھا ہے کی رپورٹ دی جاتی ہے، یہ اپنے رویے پر معذرت کریں تو ساتھ نکلوں گا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی شیرافضل مروت نے کہا کہ تحریک صرف کہنے سے نہیں چل جاتی، لوگوں کو نکالنے کے لیے کام کرنا ہوتا ہے، ورکرز کو یقین ہونا چاہیئے کہ لیڈر بھی آئے گا۔ شیرافضل مروت نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کو حقائق نہیں بتائے جارہے، بانی پی ٹی آئی کو سب اچھا ہے کہ رپورٹ دی جاتی ہے، 26 نومبر کو گولیاں چلائی گئیں، خوف ختم کرنے کے لیے کیا کیا گیا؟ لوگوں کو بتانا ضروری ہے کہ نکلنا کیوں ضروری ہے، یہ اپنے رویے پر معذرت کریں تو میں ساتھ نکلوں گا۔انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی میں عزت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی، برے وقت میں بہت کم لوگ ساتھ دیتے ہیں، میں گالم گلوچ دیکھ دیکھ کر تھک گیا ہوں، سوشل میڈیا پر تنقید سے سب بد دل ہوچکے ہیں۔ رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ ہم نظریے کے لیے لڑرہے تھے، نظریے کا حشر نشر کردیا گیا ہے، اپوزیشن وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کے خلاف تحریک عدم نہیں لاسکتی۔