Express News:
2025-09-17@23:24:43 GMT

ایک اور عاشورگزرگیا

اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT

ابھی دو دن پہلے عاشور گزرا ہے، شاید جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں تو کربلا کی خاک پر بہا ہوا وہ لہو آپ کے دل پر دستک دے رہا ہو، وہ لہو جس نے تاریخ کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور ہمیں یہ بتا دیا کہ سرکٹ سکتا ہے جھکا یا نہیں جاسکتا۔ دو دن پہلے گزرا عاشور آج بھی ہمارے اندر موجود ہے، ہمارے سوال، ہماری خاموشی، ہماری بزدلی اورکبھی کبھار ہماری جرات میں۔

عاشور صرف ایک مذہبی واقعہ نہیں، یہ وقت کے ہر یزید کے خلاف حسین کا پیغام ہے۔ حسینؑ نے اس وقت کے طاقتور، جابر اور فاسد حکمران کو یہ کہہ کر للکارا تھا کہ ’’ مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرتا ‘‘ یہ ایک سیاسی اعلان تھا، ایک انقلابی منشور جس کا مقصد ظالم کو بے نقاب کرنا تھا، چاہے اس کے بدلے میں گھر اجڑ جائے، بچے پیاسے مرجائیں یا سر نیزے پر چڑھ جائے۔

 یہ داستان صرف ساتویں صدی کی نہیں ہے۔ آج بھی دنیا کے ہرکونے میں یزیدیت زندہ ہے۔ کہیںیہ یزیدیت ریاستی جبرکی صورت میں ہے، کہیں سامراجی لشکروں کے حملے میں ،کہیں عورت کی آزادی کو روندنے والے فتوؤں میں اور کہیں قلم اور زبان پر لگی پابندیوں میں۔ حسینؑ کے ماننے والے اگر صرف ماتم کریں مگر ظلم کے خلاف کمر نہ کسیں تو یہ ماتم ادھورا ہے۔ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں جبر، استحصال، ناانصافی اور لالچ نے انسان کی زندگی کو بے وقعت کردیا ہے۔

فلسطین سے لے کر کشمیر تک کابل سے لے کر افریقی براعظم کے قحط زدہ علاقوں تک خون ہی خون ہے، پیاس ہی پیاس ہے اور حیرت اس پر نہیں کہ یہ سب ہو رہا ہے۔ حیرت اس پر ہے کہ ہم خاموش ہیں۔ وہ خامشی جو کربلا کے میدان میں کہیں نظر نہیں آتی۔ وہاں تو حسین ؑ اکیلے کھڑے ہوگئے تھے، صرف اس لیے کہ سچ کا، حق کا پرچم نہ جھکے۔

یاد رکھیے یزید صرف وہ نہیں تھا جس کا نام تاریخ کی کتابوں میں آیا۔ ہر وہ شخص، ہر وہ نظام، ہر وہ طاقت جو انسان کے ضمیر کو خریدنے کی کوشش کرے، جو حریتِ فکر پر پہرہ بٹھائے، جو اختلاف کو جرم بنا دے، وہ یزید ہے اور ہر وہ شخص جو ظلم کے خلاف کمرکس لے ،جو طاقت کے سامنے سچ کہنے کی ہمت رکھے، جو اپنی جان کی پروا کیے بغیر مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو جائے وہ حسینؑیت کا علمبردار ہے۔

کربلا ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ تعداد اہم نہیں موقف اور مقصد اہم ہے۔ حسینؑ کے ساتھ بہترسرفروش تھے مگر ان کا موقف اور مقصد تاریخ کا رخ بدل گیا۔ آج ہم بھی اگر یہ سمجھ لیں کہ ہماری آواز اکیلی سہی لیکن اگر وہ آواز سچ کی ہے تو دیر سویر گونجے گی ضرور۔ اس گونج کی پہلی صورت ضمیرکی بیداری ہے۔اس عاشور پر ایک عجیب کیفیت طاری رہی۔ شہر میں جلوس نکلے، نوحے پڑھے گئے، ماتم ہوا ، نذر نیاز تقسیم ہوئی مگرکیا ہم نے خود سے پوچھا کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں؟ کیا ہم ظلم کے خلاف حسینیت کے ساتھ ہیں یا خاموشی کے پردے میں یزیدیت کا ساتھ دے رہے ہیں؟

میں نے ایک اہل سنت گھرانے میں آنکھ کھولی اور بچپن سے اپنے بڑوں کو ایام محرم کا احترام کرتے دیکھا۔ ہمارے ہاں کوئی نیا کپڑا ان دنوں نہیں پہنا جاتا اور ہلکے رنگ کے کپڑے پہنے جاتے، میں تو کالے ہی کپڑے پہنتی، نذر نیاز کا اہتمام ہوتا، کڑاھائی بارہ دن چولہے پہ نہ چڑھتی، قینچی استعمال نہیں کی جاتی، بال نہیں کٹوائے جاتے اور نہ کوئی شادی ان دنوں میں ہوتی نہ ہم کسی کے بلانے پہ جاتے۔ میں تو مجالس میں ماتم بھی کرتی تھی، امی بھی مجالس میں جایا کرتی تھیں۔

میرے بچپن میں شیعہ سنی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بڑی ہم آہنگی کے ساتھ رہتے تھے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔اس وقت سوال یہ ہے کہ جب فلسطین میں بچوں کے لاشے اٹھائے جا رہے ہیں، جب شام کے شہرکھنڈر بن چکے ہیں، جب یمن کے لوگ بھوک سے بلک رہے ہیں اور ہم صرف تعزیت کے پوسٹر لگانے پر اکتفا کرتے ہیں تو کیا ہم واقعاً حسینی ہیں؟ یا صرف رسمِ عاشور نبھا رہے ہیں؟

آج جب دنیا جدید ٹیکنالوجی مصنوعی ذہانت اور خلائی سفرکے خواب دیکھ رہی ہے، ہم اب بھی انسان کی بنیادی حرمت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایک طرف سرمایہ دار نظام ہے جو چند افراد کے مفاد میں کروڑوں انسانوں کا استحصال کرتا ہے، دوسری طرف ملوکیت ہے جو دین کے نام پر غلامی کو جائز قرار دیتی ہے۔ ان دونوں کے بیچ حسین ؑ کی صدا گونجتی ہے، انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے، وہ غلام نہیں۔

امام حسین ؑ کا موقف کسی خاص فقہ، قوم یا علاقے تک محدود نہیں۔ وہ تمام انسانیت کے لیے ایک مشعل راہ ہے، وہ تمام مظلوموں کے لیے ایک امید ہے اور تمام ظالموں کے لیے ایک انتباہ۔ وہ ہمیں سکھاتے ہیں کہ اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا اور زندگی کی سب سے بڑی جیت یہ ہے کہ انسان اپنے ضمیر کے ساتھ کھڑا ہو۔

تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم مظلوم کو روتے ہیں مگر ظالم کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، ہمیں مزاحمت کے جذبے کی طرف بڑھنا ہوگا۔ ہمیں حسین ؑ کو صرف روضے کی زیارت اور ذاکر کی تقریر تک محدود نہیں رکھنا، ہمیں اسے اپنے عمل میں زندہ کرنا ہوگا۔ جب ایک عورت کسی ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے ،جب کوئی طالب علم سوال کرنے کی جرأت کرتا ہے، جب کوئی صحافی سچ لکھنے پر پابندی کے خلاف کھڑا ہو جاتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ کربلا کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور حسین ؑ آج بھی سرفراز ہیں۔

اس عاشور پر ایک لمحہ رُک کر سوچیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی اس یزیدیت کو پہچانا ہے جو ہمارے سماج میں طاقتورکی صورت فرقہ واریت کے ہتھیار اور غربت کے شکنجے میں چھپی بیٹھی ہے؟ کیا ہم نے کبھی اپنے اردگرد کے مظلوموں کی آہ سنی ہے؟ کیا ہم نے کبھی اپنی خامشی پر سوال اٹھایا ہے؟کاش! ہم صرف آنسو نہ بہائیں، چراغ بھی جلائیں، وہ چراغ جو سچائی حریت اور بغاوت کے لیے جلتے ہیں۔ تبھی ہم کہہ سکیں گے کہ ہم نے عاشورکو صرف یاد نہیں کیا، اس پر عمل بھی کیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ظلم کے خلاف کیا ہم نے رہے ہیں کے ساتھ ا ج بھی ہے اور کے لیے

پڑھیں:

افغانستان کے لوگوں کو نکالنے سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی، عمران خان

علیمہ خان کے مطابق عمران خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں امن کیلئے افغانستان، مقامی قبائل اور حکومت کو ساتھ بیٹھنا پڑے گا، افغانستان کے لوگوں کو پاکستان سے نکالنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی، افغانوں کو دھکے دے کر نکالا گیا یے، دہشت گردی کی وجہ سے ہمارے فوجی، پولیس والے اور عام لوگ مارے جارہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں امن کیلئے افغانستان، مقامی قبائل اور حکومت کو ساتھ بیٹھنا پڑے گا، افغانستان کے لوگوں کو پاکستان سے نکالنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی۔ توشہ خانہ 2 کیس سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں علیمہ خان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ 2 میں جھوٹے گواہ پیش کرکے وقت ضائع کیا جارہا ہے، جھوٹے گواہ کی سزا سات سال قید ہے، کمرہ عدالت میں میڈیا کے جو تین چار لوگ آتے ہیں انہیں بولنے کی اجازت ہی نہیں۔ علیمہ خان ںے کہا کہ بانی کو بچوں سے بات نہیں کرائی جاتی، بانی عمران خان نے کہا ہے کہ ان کا ملٹری ٹرائل چل رہا ہے۔ علیمہ خان کے مطابق عمران خان نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں امن کیلئے افغانستان، مقامی قبائل اور حکومت کو ساتھ بیٹھنا پڑے گا، افغانستان کے لوگوں کو پاکستان سے نکالنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی، افغانوں کو دھکے دے کر نکالا گیا یے، دہشت گردی کی وجہ سے ہمارے فوجی، پولیس والے اور عام لوگ مارے جارہے ہیں۔

علیمہ خان کے مطابق عمران خان نے کہا کہ کے پی کے سارے ایم این ایز اور ایم پی ایز علی امین گنڈا پور کے ساتھ بیٹھیں، تحریک تحفظ آئین کے سربراہ محمود خان اچکزئی وفد کے ہمراہ افغانستان جائیں، وہ قانونی طریقے سے عدالتوں میں کیسز کا سامنا کرینگے، ہمارا میڈیٹ چوری کیا گیا پارٹی کو دبایا گیا۔ علیمہ خان نے کہا کہ عمران خان نے پیغام دیا ہے کہ کامن ویلتھ رپورٹ میں بتایا گیا ہے پاکستان میں الیکشن چوری کیا گیا، پاکستان میں ووٹ چوری کی سزا آرٹیکل چھ ہے، 26ویں ترمیم کرکے عدلیہ کو اپنے ساتھ ملالیا، سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کی پریس کانفرنس ریکارڈ پر ہے، جو ججز سچ کے ساتھ کھڑے ہیں وہ قوم کے ہیرو ہیں، ملک میں عاصم لاء چل رہا ہے۔ علیمہ خان کے مطابق عمران خان نے کہا کہ ایک شخص نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے پی ٹی آئی کو کرش کیا، کے پی میں امن قیام کرنا اور گورننس ٹھیک کرنا ضروری ہے، تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز ان کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بانی نے کہا ہے پشاور میں فوری جلسہ کریں سب کو بلائیں، یہ حکومت ناجائز حکومت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نارویجین فٹبالر پاکستان فٹبال ٹیم کی نمائندگی کیلیے اہل قرار
  • اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ رانا تنویر حسین گنے کی فصل پر کیڑوںکے حملے کے حوالے سے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں
  • مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز و ہیومن ریسورس ڈوویلپمنٹ چوہدری سالک حسین پاکستانی ورک فورس کی ایڈجسٹمنٹ کے لیے دنیا بھر کے ایمپلائرز کے ساتھ ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے میں مصروف ہیں۔ خواجہ رمیض حسن
  • گوجرانوالہ: نوائے وقت کے نیوز ایجنٹ اقبال پرویز وفات پا گئے‘ ختم قل کل ہو گا
  • 16 ستمبر اور جنرل ضیاءالحق
  • افغانستان کے لوگوں کو نکالنے سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی، عمران خان
  • سرینگر میں شیعہ فیڈریشن کے صدر عاشق حسین خان کی میرواعظ ڈاکٹر عمر فاروق سے اہم ملاقات
  • عمران کا مقدر لمبی جیل، نئے صوبوں، فنانس ایوارڈ اور ڈیموں پر ہائبرڈ نظام میں اختلافات کا امکان ہے: طلعت حسین