data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘ (البقرہ: 30)۔ فرشتوں سے کلام اور جنت میں قیام کے بعد یہ مرحلہ آتا ہے کہ سیدنا آدمؑ کو حکم ہوتا ہے: ’’ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے اُتر جائو پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔ اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیںگے وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘ (البقرہ: 38)۔
ان آیات سے سب سے اہم حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ آسمان اور زمین اور ساری کائنات میں اقتدار اعلیٰ اللہ رب العالمین کا ہے۔ وہی خالق اور وہی حاکم ہے۔ دوسرے یہ کہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام کی تنفیذ کے ذمے دار اس کے نائب انبیا علیہم السلام ہیں۔ آدم ؑ سے لے کر نبیؐ تک سارے انبیاؑ خلافتِ الٰہیہ کے منصب پر فائز تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں منتخب فرمایا تھا اور ضمنی طور پر یہ بھی واضح ہوا کہ نبوت کا سلسلہ جب آپؐ پر ختم ہوا تو اب خلافت رسولؐ کا سلسلہ اس کے قائم مقام ہوا، اور اس کے خلیفے کا تقرر ملت کے انتخاب سے قرار پایا۔ اب قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ جو فریضہ انبیا ؑ اور رسولؐ کے سپرد ہوا تھا وہ اُمت محمدیہؐ کے سپرد کر دیا گیا۔ یہی اس اُمت کی وجۂ امتیاز ہے۔ کارِ نبوت کی ذمے داری پوری اُمت پر عائد کی گئی۔
فرشتوں کے مکالمے سے سیدنا آدمؑ کے فائق اور برتر ہونے کا اظہار ہوتا ہے اور یہ بھی کہ آدمؑ کو معلم کا درجہ دیا گیا اور فرشتوں کو طالب علم کا۔ عبودیت مخلوق کی صفت ہے، خالق کی نہیں۔ علم اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ علم کی وجہ سے آدمؑ خلافت کے مستحق ہوئے، جب کہ فرشتے اہل نہ تھے (معارف القرآن)۔
ان آیات سے مقصدِ تخلیقِ آدم اور نسلِ انسانی کی کائنات میں حیثیت اور اس کے صحیح مقام کا علم حاصل ہوا، انسان محکوم ہے حاکم اور خودمختار نہیں۔ حدود اللہ کے دائرے میں رہتے ہوئے اسے محدود اختیارات حاصل ہیں۔ خلافت الٰہیہ کے تقاضوں کی تکمیل اس کا مقصد زندگی ہے۔
فریضہ اقامت دین کی بحث میں ہمیں سب سے زیادہ رہنمائی سورئہ شوریٰ میں ملتی ہے: ’’اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کودیا تھا اور جسے اے محمدؐ! اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسٰیؑ اور عیسٰیؑ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو‘‘ (الشوریٰ: 13)۔ اس آیت کریمہ سے فریضہ اقامت دین کا قرآنی حکم عبارۃ النص (آیت کا مقصود) سے براہِ راست ثابت ہے، یعنی یہ آیت اسی مقصد کے بیان کے لیے نازل ہوئی ہے۔ قرآن کی یہ آیات مکی دور میں نازل ہوئی تھیں۔
معارف القرآن میں مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کی تشریح اس طرح فرماتے ہیں کہ اقامت دین فرض ہے اور اس میں تفریق حرام ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ: ’’اس آیت میں دو حکم مذکور ہیں۔ ایک، اقامت دین۔ دوسرے، اس کا منفی پہلو، یعنی اس میں تفرق کی ممانعت، جب کہ جمہور مفسرین کے نزدیک اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ میں حرف اَنْ تفسیر کے لیے ہے تو دین کے معنی متعین ہوگئے کہ مراد وہی دین ہے جو سب انبیاؑ میں مشترک چلا آرہا ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ دین مشترک بین الانبیا اصول عقائد، یعنی توحید، رسالت، آخرت پر ایمان، اور عبادات، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی پابندی ہے، نیز چوری، ڈاکا، زنا، جھوٹ، فریب، دوسروں کو بلاوجہ شرعی ایذا دینے وغیرہ اور عہد شکنی کی حرمت ہے جو سب ادیانِ سماویہ میں مشترک اور متفق علیہ چلے آئے ہیں‘‘ (معارف القرآن، ج 7، ص 678)۔
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اپنی تفسیر عثمانی میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس جگہ حق تعالیٰ نے صاف طور پر بتلا دیا کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے۔ عقائد اور اصول دین میں تمام متفق رہے ہیں۔ سب انبیا اور ان کی اُمتوں کو حکم ہوا ہے کہ دین الٰہی کو اپنے قول و فعل سے قائم رکھیں اور اصل دین میں کسی طرح تفریق یا اختلاف کو روا نہ رکھیں۔
مولانا مودودیؒ نے سورئہ شوریٰ کی اس آیت کی تفہیم انتہائی بلیغ اور مدلل انداز میں پیش کی ہے اور دیگر حوالے بھی دیے ہیں۔ انھوں نے آیت کے پہلے لفظ شَرَعَ لَکُمْ سے اصطلاحی طور پر ضابطہ اور قاعدہ مقرر کرنا بتایا۔ شرع اور شریعت سے قانون اور شارع کو واضعِ قانون کے ہم معنی قرار دیا۔ پھر اپنے اس اہم ترین استدلال کی طرف متوجہ فرماتے ہیں کہ تشریع خداوندی فطری اور منطقی نتیجہ ہے اس بڑی حقیقت کا کہ اللہ ہی کائنات کی ہر چیز کا مالک ہے اور وہی انسان کا حقیقی ولی ہے۔ اس طرح وہی اس کا حق رکھتا ہے کہ انسان کے لیے قانون اور ضابطے وضع کرے (تفہیم القرآن، ج4، ص 487)۔ اس آسان استدلال سے مغرب کے تمام باطل اور مادی فلسفوںکی خوب صورت طریقے سے تردید ہوجاتی ہے۔ مغرب کا کلمہ لاالٰہ الا انسان ہے، جب کہ اسلام کا کلمہ لاالٰہ الا اللہ ہے۔ مغرب کے مطابق قانون سازی کا اختیار انسان اور جمہور کو ہے، جب کہ قرآن کے مطابق یہ حق صرف اور صرف اللہ کو حاصل ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: القرا ن اس ا یت کے لیے ہے اور ہیں کہ اور اس
پڑھیں:
دہشتگردوں کا ملک کے اندر اور باہر پورا بندوبست کیا جائے گا،راناثنااللہ
وزیراعظم کے مشیر اور سینیٹر رانا ثنا اللہ نے پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ٹریننگ کیمپس کو نشانہ بنانے کا عندیہ دیدیا۔ کہا جو نئی پالیسی بن رہی ہے دہشت گردوں کا ملک کے اندر اور باہر پورا بندوبست کیا جائےگا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہاکہ دہشت گردوں کے پیچھے ‘را ہے ، افغان حکومت محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہی ہیں، جو نئی پالیسی بن رہی ہے ان کا یہاں اور وہاں دونوں جگہ پورا بندوبست کیا جائےگا۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ اگر خیبرپختونخوا حکومت دہشتگردوں کی مددگار ثابت ہوگی تو یہ خود بھی جاتی رہے گی۔ آئین و قانون علی امین گنڈاپور کو افغانستان کے ساتھ مذاکرات کی اجازت نہیں دیتا۔
وزیراعظم کے مشیر نے مزید کہا کہ ملک میں نئے صوبے بنانے کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا، یہ ابھی بحث ہے۔