Islam Times:
2025-11-03@16:54:27 GMT

70 فیصد ورکرز اسرائیل کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

70 فیصد ورکرز اسرائیل کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں؟

اسلام ٹائمز: یہ تشویشناک اعدادوشمار صیہونی معاشرے کی نازک صورتحال اور بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی عکاسی کرتے ہیں، جو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ طویل المدتی جنگ، علاقائی کشیدگی، خاص طور پر ایرانی حمایت یافتہ فلسطینی مزاحمت نے نہ صرف صیہونی رجیم کے سیاسی اور سلامتی کے ماحول کو خطرے میں ڈالا ہے، بلکہ اسرائیلی معیشت کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ دوسری طرف، یہ صورتحال ایران، یمن، لبنان اور فلسطینی گروہوں کی طاقت اور مزاحمت کو ظاہر کرتی ہے، صیہونی رجیم کے زیر سایہ معاشرے کی ناپائیداری اس کا ثبوت ہے۔ خصوصی رپورٹ:

غزہ جنگ اور بالخصوص ایران کے کامیاب حملوں کے بعد تقریباً تین چوتھائی اسرائیل میں کام کرنیوالے ورکرز ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ سروے گروپ نے پوچھا کہ ورکرز اسرائیل میں رہنا اور کام کرنا کیسا سمجھتے ہیں؟ مقبوضہ فلسطین میں کام کرنیوالے ایک چوتھائی ورکرز نے اس کے جواب میں  کہا ہے کہ وہ بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی وجہ سے اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھنے والوں میں یہ نمایاں اضافہ صیہونی معاشرے میں بحران کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔

حال ہی میں کیے گئے اس سروے کے نتائج کے مطابق تقریباً 73 فیصد اسرائیلی کارکن بیرون ملک ہجرت کرنے پر غور کر رہے ہیں، یہ معاملہ اسرائیلی معاشرے میں بڑھتے ہوئے خدشات، عدم استحکام اور صیہونی رجیم پر عدم اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیلی ایمپلائمنٹ پلیٹ فارم فرسٹ جابز کے ذریعے ہونیوالے سروے کی رپورٹ میں ایود احرونوت اخبار کی طرف سے شائع کیے جانے والے گزشتہ سال کے سروے کے مقابلے میں ہجرت کی خواہش میں 18 فیصد کا نمایاں اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔ پانچ سالوں میں پہلی بار 70 فیصد سے زیادہ اسرائیلی کارکنوں نے کہا ہے کہ وہ عارضی طور پر بھی اسرائیل چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

تشویش اور ہجرت کی وجوہات
ملک چھوڑنے کے حوالے سے اگرچہ روایتی محرکات جیسے کہ زندگی کے معیار کو بہتر بنانا (59%)، بین الاقوامی تجربہ حاصل کرنا (48%) اور کیریئر میں ترقی (38%) اب بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، ان وجوہات میں نئے اور پریشان کن عوامل بھی شامل ہو چکے ہیں۔ سروے میں تقریباً 30% شرکاء نے ذاتی تحفظ سے متعلق خدشات کی بات کی، 24% نے سیاسی عدم استحکام کا حوالہ دیا اور 24% نے "حکومت سے مایوسی" کو اس کی وجہ قرار دیا ہے۔ وی پی آف کریئر ڈیولپمنٹ اینڈ ریکروٹمنٹ فرسٹ جابز کے لیئٹ بین ٹورا شوشن کہتے ہیں کہ "ہم ہجرت کے بارے میں ملازمین کے رویوں میں ایک بنیادی تبدیلی دیکھ رہے ہیں؛ یہ اب صرف ایک اسٹریٹجک پیشہ ورانہ فیصلہ نہیں ہے، بلکہ ایک ایسا فیصلہ جو جذبات، سلامتی اور معاشی خدشات سے زیادہ کارفرما ہے"۔
 
نئے ٹھکانے
امریکہ اسرائیلی تارکین وطن کے لیے سب سے زیادہ مقبول مقام ہے، جہاں 44 فیصد شرکاء نے امریکہ کا انتخاب کیا وہاں نیویارک شہر 17 فیصد کے ساتھ سب سے زیادہ مقبول ہے، اس کے بعد 11 فیصد کے ساتھ لاس اینجلس اور 8 فیصد کے ساتھ میامی ہے۔ جبکہ یورپ کا حصہ صرف 26 فیصد ہے، یہ تعداد پچھلے سالوں سے کم ہے، ممکنہ وجوہات میں "یہود دشمنی" اور یورپ میں آبادیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات ہیں۔ کچھ جواب دہندگان نے قریب ترین مقامات جیسے یونان اور قبرص (11 فیصد) میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے، جب کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ (6 فیصد)، مشرقی ایشیا (8 فیصد) اور افریقہ (1 فیصد) کم مقبول تھے۔

خدشات اور چیلنجز
اگرچہ امیگریشن ایک پرکشش آپشن لگتا ہے، لیکن بہت سے اسرائیلی اس کے ساتھ جڑے چیلنجوں کے بارے میں بھی فکر مند ہیں۔ 56 فیصد جواب دہندگان نے اعتراف کیا ہے کہ امیگریشن کا عمل، اس کی کشش کے باوجود، آسان نہیں ہے، پہلے کی نسبت اس بار سروے میں خدشات کا اظہار زیادہ کیا گیا ہے۔ یہ سروے پورے اسرائیل سے 22 سال سے زیادہ عمر کے 611 اسرائیلی کارکنوں کو شامل کر کے کیا گیا۔ یہ تشویشناک اعدادوشمار صیہونی معاشرے کی نازک صورتحال اور بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کی عکاسی کرتے ہیں، جو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ طویل المدتی جنگ، علاقائی کشیدگی، خاص طور پر ایرانی حمایت یافتہ فلسطینی مزاحمت نے نہ صرف صیہونی رجیم کے سیاسی اور سلامتی کے ماحول کو خطرے میں ڈالا ہے، بلکہ اسرائیلی معیشت کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ دوسری طرف، یہ صورتحال ایران، یمن، لبنان اور فلسطینی گروہوں کی طاقت اور مزاحمت کو ظاہر کرتی ہے، صیہونی رجیم کے زیر سایہ معاشرے کی ناپائیداری اس کا ثبوت ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: صیہونی رجیم کے بڑھتے ہوئے معاشرے کی سے زیادہ کرتا ہے کے ساتھ

پڑھیں:

اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات

اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان

امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے  چکائی جاتی ہے۔

امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے  واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔

ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ  ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل  کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • 47فیصد پاکستانیوں نے کبھی ٹرین کا سفر نہیں کیا، سروے میں انکشاف
  • غزہ میں ہمارے زیرِ قبضہ علاقوں میں حماس اب بھی موجود ہے: نیتن یاہو
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • غزہ کی امداد روکنے کیلئے "بنی اسرائیل" والے بہانے
  • پاکستان کا ترقی کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنا لازمی ہے؟ پروفیسر شاہدہ وزارت کا انٹرویو
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • او آئی سی سی آئی سروے میں 73فیصد افراد نے پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے موزوں قراردیدیا
  • فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے