اسرائیلی درندگی اور امن کا راگ!
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایک جانب جہاں غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں کی جارہی ہیں تو وہیں دوسری جانب نہتے فلسطینیوں پر آتش وآہن کی بارش بھی جاری ہے۔ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے، اسرائیلی دہشت گردی کو 641 دن مکمل ہوگئے ہیں مگر اس کے باجود اسرائیل کا جنگی جنون کسی طور کم نہیں ہورہا۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فائرنک اور بمباری کے نتیجے میں 105 افراد شہید اور 356 افراد زخمی ہوئے جبکہ متعدد افراد اب بھی ملبے تلے اور سڑکوں پر موجود ہیں، امداد لینے کے منتظر9 فلسطینی بھی اسرائیلی حملوں میں شہید ہوئے، خوراک کی تلاش میں نکلے فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 743 فلسطینی شہید اور 4831 زخمی ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب غزہ شہر میں ایک کلینک پر اسرائیلی فضائی حملے نے تباہی مچا دی، جہاں بے گھر فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے، اس حملے میں کم از کم 6 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ وحشت وسفاکیت کی اس فضا میں امن کی کوششیں کیسے اور کیوں کربارآور ثابت ہوسکتی ہیں؟۔ اسرائیلی وزیر دفاع کاتزکہتے ہیں کہ اسرائیل جلد ہی غزہ کے 75 فی صد زیر قبضہ علاقے خالی کرنے کے لیے تیار ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ جنوبی غزہ میں چھے لاکھ بے گھر فلسطینیوں کو پناہ دینے کے لیے ایک وسیع کیمپ قائم کیا جائے گا، جس مقصد غزہ پر حماس کی گرفت کو کمزور کرنا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس کیمپ کو ’’انسانی ہمدردی پر مبنی شہر‘‘ کا نام دیا جائے گا۔ اس صورتحال پر امریکا اور دیگر عالمی ادارے سوائے زبانی جمع خرچ کے عملی طور پر اسرائیلی جارحیت کے سد ِ باب کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس امر کے آرزو مند ہیں کہ تاریخ میں انہیں امن کے پیامبر کے طور پر یاد رکھا جائے، نیتن یاہو نے بھی واشنگٹن میں ملاقات کے موقع پر ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے باضابطہ طور پر نامزد کیا ہے تاہم صاف محسوس ہوتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں، قیامِ امن کے بلند و بانگ دعوؤں کے باجود اسرائیل نہ صرف یہ کہ غزہ اور مغربی پٹی پر فلسطینیوں کا خون بہا رہا ہے بلکہ لبنان اور یمن پر بھی اس کی وحشیانہ بمباری جاری ہے، اب اطلاع ہے کہ اسرائیل ایک بار پھر ایران پر حملے کے لیے پر تول رہا ہے، جس پر ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے مشیر نے متنبہ کیا ہے کہ اگر حملہ ہوا تو جوابی کارروائی پہلے سے زیادہ شدید ہوگی۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ برازیل میں برکس گروپ کے ہونے والے اجلاس میں جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے اس میں غزہ کی پٹی کو مقبوضہ فلسطینی علاقے کا ناقابلِ تقسیم حصہ قرار دیتے ہوئے زور دیا گیا ہے کہ قحط کو بطور جنگی ہتھیار کے استعمال کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے، جنگ بندی کے لیے مذاکرات کیے جائیں، اسرائیلی افواج کی غزہ پٹی اور دیگر تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے مکمل واپسی ہو، انسانی امداد کی مسلسل، آزادانہ اور بلا رکاوٹ فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ مذاکرات کے باوجود آج جو کچھ غزہ میں ہورہا ہے، وہ امریکا کی تضاد انگیز خارجہ پالیسی کا حصہ ہے، جس میں بظاہر تو امن کی حمایت کی جاتی ہے مگر درپردہ اور عملی طور پر اسرائیلی مظالم کو تقویت فراہم کی جاتی ہے۔ امریکا آج بھی اسرائیل کو فوجی، سفارتی، اقتصادی اور عسکری مدد فراہم کر رہا ہے، اس صورتحال میں نہ جنگ بندی ممکن ہوگی اور نہ ہی مزاحمت ترک کی جائے گی، امریکا اگر فی الواقع مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کا خواہاں ہے تو اسے بہرصورت اسرائیل کا ہاتھ روکنا ہوگا بصورت دیگر صورتحال کی ہولناکی میں ہرگزرتے دن کے ساتھ مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
غزہ میں اسرائیل کی جارحیت جاری، 82 فلسطینی شہید، امریکا کو جنگ بندی کی توقع
اسرائیلی فورسز کی جانب سے غزہ پر جاری فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں میں اتوار کے روز 82 فلسطینیوں کی شہادتوں کی تصدیق ہوئی ہے، جن میں 10 ایسے افراد بھی شامل ہیں جو خوراک کی امداد کے منتظر تھے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے نتیجہ میں اب تک 57,418 فلسطینی شہید اور 136,261 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔
یہ اعداد و شمار جنگ کے تباہ کن اثرات کو ظاہر کرتے ہیں، جہاں پورے علاقے میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور انسانیت سوز حالات نے ایک سنگین انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔
امریکا کو جنگ بندی کی توقعامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان اس ہفتے ایک جنگ بندی معاہدہ ہو سکتا ہے۔ ان کے مطابق، ’اب بھی ایک اچھا موقع ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان جنگ بندی پر بات چیت کامیاب ہو جائے۔‘
ٹرمپ کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو واشنگٹن، ڈی سی پہنچنے والے ہیں، دوسری طرف قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔
غزہ میں انسانی بحرانغزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ وہاں، ہزاروں افراد اب بھی نہ صرف فضائی حملوں کی زد میں ہیں، بلکہ خوراک، پانی اور طبی امداد کی کمی بھی شدت اختیار کر چکی ہے۔
اسرائیل کی جارحیت کے نتیجے میں کئی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں، اور بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صحت کے نظام پر بھی شدید دباؤ ہے، جس سے زخمیوں کو علاج فراہم کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔ اس صورتحال میں عالمی سطح پر جنگ بندی کی کوششیں بڑھتی جا رہی ہیں۔
اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور کئی دیگر عالمی طاقتیں غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی اور جنگ بندی کے لیے آواز اٹھا رہی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں