Islam Times:
2025-07-12@08:27:54 GMT

تنہائی، ایک خاموش قاتل

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

تنہائی، ایک خاموش قاتل

اسلام ٹائمز: غور سے سنو تمہارے دل کی دھڑکن کیا ترنم سنا رہی ہے: حُسین، حُسین، حُسین، حُسین۔ پوری کائنات عشق کے طواف میں مگن ہے، اس طواف کا مرکز حسینؑ ہے۔ ہمارا پیغام استقامت ہے اور یہ وہی نور ہے، جو زمان و مکان کی وسعتوں سے بالاتر ’’فاستقم کما اُمِرتُ وَ مَن تَابَ معک‘‘ کے سرچشمے سے فروزاں ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنے والا زمانہ ہمارا ہے۔ "العاقبۃ للمتقین۔" کوئی بند گلی نہیں ہے۔ ایک روشن مستقبل ہے۔ تنہائی کے گرداب میں پھنسنے اور ناامید ہونے کے بجائے سفینہ نجات میں داخل ہونے کی دیر ہے۔ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.

com

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں، جہاں دنیا ایک "گلوبل ولیج" میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ہر شخص سوشل میڈیا، ڈیجیٹل نیٹ ورکس اور جدید سہولتوں سے جُڑا ہوا ہے۔ لیکن اس ظاہری جُڑاؤ کے پیچھے ایک گہرا، اذیت ناک سناٹا چھپا ہوا ہے، تنہائی کا سناٹا۔ یہ وہ خاموش قاتل ہے، جو نہ شور مچاتا ہے، نہ خون بہاتا ہے، لیکن انسان کی روح کو اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ تنہائی ایک ایسے زخم کی مانند ہے، جو نہ دکھائی دیتا ہے، نہ چھو کر محسوس کیا جا سکتا ہے، لیکن دل کے اندر خالی پن کا ایک سمندر بہا دیتا ہے۔ انسان لوگوں کے ہجوم میں بھی اپنے دِل کی بات کہنے کو ترسنے لگتا ہے۔ احساسِ موجودگی ماند پڑ جاتا ہے اور جب سوشل میڈیا پر لاکھوں فالوورز کے باوجود دل ایک سچے دوست کو ترسے، تو یہ سب کچھ بے معنی لگنے لگتا ہے۔

یہی وہ کیفیت ہے، جو رفتہ رفتہ انسان کو ڈپریشن، بے معنویت اور خودکشی جیسے المیوں کی طرف دھکیلتی ہے۔ کتنے ہی افراد صرف اس لیے دنیا چھوڑ چکے ہیں کہ اُن کی تنہائی کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہم نے کبھی ان سے یہ نہیں پوچھا کہ اُن کے دل میں کیا ہے۔؟ اُن کے پاس درد بانٹنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ ہم نے کبھی اُن کے آس پاس کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمیں بحیثیتِ قوم اب یہ سیکھنا ہوگا کہ کسی کو صرف کھانا کھلانا ہی کافی نہیں، بلکہ اُس کے دل کا حال سننا، اُس کے ساتھ وقت گزارنا، اُس کے وجود کو اہمیت دینا بھی ایک عظیم صدقہ ہے۔ کسی کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینا، اُس کی باتوں کو توجہ سے سننا، اُسے یہ یقین دلانا کہ وہ اکیلا نہیں، یہ سب وہ انسانی صفات ہیں، جن سے معاشرہ جیتا ہے۔ اگر تنہائی ایک خاموش قاتل ہے، تو ہم میں سے ہر شخص ایک مسیحا بن سکتا ہے، جو کسی کی زندگی میں امید کی روشنی بنے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ آج کے اس تیز رفتار، مشینی دور میں، جہاں ہر چیز ڈیجیٹل ہوچکی ہے، انسان پہلے سے کہیں زیادہ "کنیکٹڈ" ہونے کے باوجود اتنا تنہاء کیوں ہے۔؟ سوشل میڈیا، ویبینارز اور آن لائن کمیونٹیز کے باوجود دل کے سناٹے کیوں گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔؟ مغرب میں تنہائی کو "سائلنٹ کلر" کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی اور نفسیاتی خلا کی پیداوار ہے۔ یہ مسئلہ کسی ایک قوم یا نسل تک محدود نہیں رہا، بلکہ ایک عالمی بحران بن چکا ہے۔ اس کا حقیقی حل تلاش کرنے کے لیے ہمیں اس کے پیچھے چھپی تہذیبی سوچ کو سمجھنا ہوگا۔ مغربی تہذیب کا بنیادی نظریہ انفرادیت اور مادیت پر قائم ہے۔ اس سوچ کے مطابق انسان اپنی ذات میں مکمل، خودمختار اور آزاد ہے۔ وہ کسی خالق یا کسی اعلیٰ مقصد کا محتاج نہیں۔ اسی لیے وہاں رشتے، تعلقات اور قربتیں بھی وقتی یا مفاداتی ضرورتوں تک محدود ہوچکی ہیں۔

یہی سوچ انسان کو اپنے خالق سے کاٹ دیتی ہے اور یوں وہ دوسروں سے بھی کٹ جاتا ہے۔ جب زندگی کا مرکز صرف "میں" بن جائے تو "ہم" بکھر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا میں خاندانی نظام بکھر چکا ہے، اولڈ ہاؤسز بڑھتے جا رہے ہیں، نوجوان تنہائی میں جی رہے ہیں اور سوشل میڈیا کا دھوکہ انہیں وقتی توجہ دے کر مزید اندر سے خالی کر رہا ہے۔ مغرب تنہائی کا صرف سطحی علاج کرتا ہے۔ یعنی علامات کو دباتا ہے، لیکن بیماری کی جڑ، یعنی روحانی اور سماجی بے معنویت کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام ایک مکمل اور مربوط تصورِ حیات دیتا ہے، جو انسان کی روحانی، نفسیاتی اور سماجی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ اسلام کا تصورِ کائنات توحید پر مبنی ہے، یعنی اس یقین پر کہ انسان تنہاء نہیں، اُس کا ایک خالق ہے، جو اُس کو جانتا ہے، اُس سے محبت کرتا ہے اور اُس کی رہنمائی کے لیے ہر لمحہ موجود ہے۔

اس نظامِ فکر میں انسان کے چار اہم رشتے ہوتے ہیں: خود سے، خالق سے، دوسرے انسانوں سے اور باقی مخلوقات سے۔ جب یہ رشتے مضبوط ہوں تو تنہائی کی گنجائش نہیں رہتی۔ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تنہائی کا سب سے پہلا علاج اللہ سے تعلق کو بحال کرنا ہے۔ دلوں کا سکون دولت، شہرت، یا سوشل میڈیا میں نہیں، بلکہ اُس ہستی کے ذکر میں ہے، جو دلوں کے حال سے واقف ہے۔ "أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ" یقیناً دلوں کو سکون صرف اللہ کے ذکر سے ملتا ہے۔ عبادت، دعا اور قرآن کے ساتھ وقت گزارنا ہمیں اُس اصل مرکز سے جوڑتا ہے، جس سے جڑنے کے بعد کوئی دل تنہا نہیں رہتا۔ اس کے ساتھ ہی اسلام معاشرتی تعلقات کو بھی نہایت اہمیت دیتا ہے۔ صلہ رحمی، احسان، ہمسایہ داری، مجلس، خیر خواہی اور خدمتِ خلق جیسے اعمال انسان کو ایک زندہ، متحرک اور پرمعنی تعلق میں جوڑتے ہیں۔

جب انسان کسی دوسرے کے درد میں شریک ہوتا ہے، اُس کی بات سنتا ہے، اُس کا سہارا بنتا ہے، تو نہ صرف دوسرے کی تنہائی کم ہوتی ہے، بلکہ خود اس انسان کی زندگی میں بھی ایک نئی معنویت شامل ہو جاتی ہے۔ اسلامی طرزِ زندگی ہمیں دکھاتا ہے کہ زندگی صرف جینے کا نام نہیں، بلکہ کسی کے لیے جینے کا نام ہے۔ جب انسان اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے مفید بننے لگے تو اس کی اپنی زندگی میں بھی سکون، مقصد اور روشنی بھر جاتی ہے۔ تنہائی ایک خاموش قاتل ضرور ہے، لیکن اس کا علاج بھی ہمارے پاس ہے۔ وہ علاج نہ صرف دینی ہے بلکہ انسانی بھی ہے۔ ہمیں صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس خاموشی کو کب توڑتے ہیں، کب کسی کا حال پوچھتے ہیں، کب کسی کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔۔۔۔ اور کب خود کو بھی اُس نور سے جوڑتے ہیں، جو تنہائی کے اندھیروں کو مٹا سکتا ہے۔

اس الہیٰ نور کا سرچشمہ حسین علیہ السلام ہے۔ جو کربلا سے طلوع ہوا ہے۔ کربلا عشق کا مسکن ہے اور کربلا کے لائق وہی لوگ ہیں، جو حریت پسند ہو اور جن کے دل عشق سے ایسے لبریز ہیں۔ تعصب کی عینک کو اتار کر اگر دیکھیں تو جان لو!  تمہارا سینہ بھی لا محدود آسمان کی مانند ہے اور اس میں تمہارا دل وہ سورج ہے، جس سے روشنی پھوٹ رہی ہے اور غور سے سنو تمہارے دل کی دھڑکن کیا ترنم سنا رہی ہے: حُسین، حُسین، حُسین، حُسین۔ پوری کائنات عشق کے طواف میں مگن ہے، اس طواف کا مرکز حسینؑ ہے۔ ہمارا پیغام استقامت ہے اور یہ وہی نور ہے، جو زمان و مکان کی وسعتوں سے بالاتر ’’فاستقم کما اُمِرتُ وَ مَن تَابَ معک‘‘ کے سرچشمے سے فروزاں ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنے والا زمانہ ہمارا ہے۔ "العاقبۃ للمتقین۔" کوئی بند گلی نہیں ہے۔ ایک روشن مستقبل ہے۔ تنہائی کے گرداب میں پھنسنے اور ناامید ہونے کے بجائے سفینہ نجات میں داخل ہونے کی دیر ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: خاموش قاتل سوشل میڈیا ہے اور یہ دیتا ہے رہے ہیں جاتا ہے کے ساتھ بلکہ ا کے لیے

پڑھیں:

خاموش لابی۔۔۔۔۔بلندسازشیں

تاریخ کے اوراق پرجب کبھی انسانیت کے مستقبل کے حوالے سے سوالات ابھرتے ہیں،تب سیاست کی بازی گری،عسکری چالاکی اور سفارتی مکاری اپنے جوبن پرنظرآتی ہے۔ حالیہ دنوں میں مشرقِ وسطی کے افق پروہی کہانی ایک نئے باب کے ساتھ ابھری،جہاں امریکی پینٹاگون میں تیارکی گئی خفیہ حکمتِ عملی نے دنیاکی نظریں ایران کی جوہری تنصیبات سے ہٹاکرایک گمنام جزیرے پر مرکوزکردیں۔گویایہ منظروہی تھاجسے عربی محاورے کے مطابق’’چشمِ زدن میں صحراؤں کو گلستان اورگلستانوں کوویرانہ کرنے والی‘‘چال کہاجاسکتا ہے ۔امریکااوراسرائیل کاتعلق محض دو ریاستوں کادوستانہ رشتہ نہیں،بلکہ بیسویں اوراکیسویں صدی کی تاریخ کاسب سے پیچیدہ،ہمہ گیر اورہمہ جہت باب ہے۔یہ باب محض مادی امداداورسیاسی حمایت تک محدود نہیں،بلکہ تاریخی،تہذیبی،اقتصادی اوراسٹریٹجک پہلوئوں کا ہمہ گیرامتزاج ہے۔اس کی بنیادمحض ’’دوستی‘‘ یا ’’اتحاد‘‘کی سادہ تعریف میں سمیٹ دینا تاریخ اور سیاسیات دونوں کی توہین ہوگی۔امریکی سیاسی تاریخ میں اسرائیلی لابی کااثرورسوخ محض محاورہ نہیں بلکہ وہ محکم حقیقت ہے،جووائٹ ہاس اورکیپیٹل ہِل تک پھیلی ہوئی ہے۔اسرائیل اورامریکاکارشتہ محض دوریاستوں کا دوستانہ بندھن نہیں،بلکہ اس کی بنیادگہری اسٹریٹجک ہم آہنگی،مشترکہ تہذیبی بیانیے اورسرمایہ واثرونفوذکی مضبوط زنجیر پراستوارہے۔
(اے آئی پی اے سی)،(اے ڈی ایل)، (جے آئی این ایس اے)،وہ تمام تنظیمیں ہیں جن کے مختلف کرداراورتوجہ اسرائیل اوریہودی قوم سے متعلق ہے،حالانکہ وہ الگ الگ ادارے ہیں۔اے آئی پی اے سی،امریکامیں اسرائیل نوازلابنگ گروپ ہے۔ اے ڈی ایل،(اینٹی ڈیفیمیشن لیگ)سام دشمنی اورنفرت کی دیگراقسام کامقابلہ کرتی ہے،جبکہ اسرائیل سے متعلق مسائل کوبھی حل کرتی ہے۔جے آئی این ایس اے (یہودی انسٹی ٹیوٹ برائے قومی سلامتی امور) امریکی قومی سلامتی اور اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات پر توجہ مرکوزکرتاہے، گویاامریکی سیاست میں اسرائیلی لابی کے اثرورسوخ کایہ عالم ہے کہ امریکامیں کوئی بھی جماعت ان کے تعاون کے بغیرحکومت سے قاصررہتی ہے۔
1948ء میں اسرائیل کی تشکیل کے بعد، سردجنگ کے سائے تلے امریکانے اسرائیل کومحض خطے کااتحادی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کا’’نگہبانِ اقتدار‘‘ قرار دیا۔اسرائیل کا جغرافیائی محلِ وقوع،اس کی جدیدعسکری صلاحیت اوراس کا سٹریٹجک محاذپرہمہ تن مصروف رہناواشنگٹن کی پالیسی کاحصہ بن گیا۔یوں اسرائیل، امریکی سامراجی پالیسی کامحوری ستون بن کر ابھرا اور امریکااوراسرائیل کے مابین حربی اوراسٹریٹجک تانے بانے لازم وملزوم ہوگئے۔امریکاکی سیاسی تاریخ میں اسرائیل کی لابی کااثرورسوخ محض خارجی پالیسی تک محدود نہیں ،بلکہ انتخابی مہمات، قانون سازی اور وائٹ ہاس کی پالیسی ترجیحات تک پھیلاہواہے۔ یہی وجہ ہے کہ1948ء میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے فورابعدامریکااس کاسب سے بڑاسفارتی واقتصادی پشت پناہ بن کرسامنے آیا۔
امریکااوراسرائیل کارشتہ محض ریاستی یا اسٹریٹجک اتحادتک محدودنہیں۔یہ تاریخی،تہذیبی اور اقتصادی پہلوئوں کاہمہ گیرحصہ ہے۔ امریکی صدر،خواہ ری پبلکن ہو یا ڈیموکریٹ،اس ناطے کاحصہ بننے اوراس کاتحفظ کرنے پرمجبورہے۔ اے آئی پی اے سی اوردیگر یہودی لابی تنظیمیں امریکاکی داخلی سیاست میں اس درجہ نفوذرکھتی ہیں کہ کسی بھی امریکی صدرکو اسرائیل کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے تاریخی نتائج کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔امریکی تاریخ میں اس امرکی مثالیں موجودہیں کہ اسرائیلی لابی کااثرورسوخ امریکی صدراور پالیسی سازوں پرکس طرح غالب آسکتاہے۔
اس تناظرمیں جان ایف کینیڈی،رچرڈنکسن اوربارک اوباما تین ایسے امریکی صدورتھے، جنہوں نے اپنے دورمیں اسرائیل یااس کی پالیسیوں کوچیلنج کرنے کی جرت کی،یاآزادی سے اقدامات کیے لیکن اس آزادی کی قیمت چکانی پڑی،کیونکہ یہودی لابیوں اور طاقتور تنظیموں نے تینوں کی سخت مخالفت کی۔
1960ء کی دہائی میں جان ایف کینیڈی اوراسرائیل کاتاریخی تنااس بات کااولین مظہر ہے۔ کینیڈی نے اسرائیل کودیمونانیوکلیئرری ایکٹر پرعالمی معائنے کی شرط عائدکرنے کی کوشش کی،اوراس پالیسی نے اسرائیل اوراس کی لابی میں شدیدبے چینی اور مزاحمت کوجنم دیا۔کینیڈی نے اسرائیل پرزور دیا تھا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کوبین الاقوامی معائنے اورکنٹرول میں لائے۔اس کامقصدمشرقِ وسطی میں جوہری اسلحے کی دوڑکاسد باب تھا۔اسرائیلی حکومت نے اس دباؤکو شدید ناپسندکیا۔کینیڈی کاکھلے عام قتل اوراس کے اردگرد تاریخی سازشوں کاتذکرہ محض سازشی نظریہ نہیں بلکہ امریکی سیاسی ذہن میں پائے جانے والے شکوک کاحصہ بھی ہے۔یہ واقعہ اس امرکی طرف اشارہ کرتاہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اوراسرائیلی لابی کاتنامحض سیاسی نہیں،بلکہ تاریخی،اسٹریٹجک اورنفسیاتی محاذکاحصہ ہے۔
رچرڈ نکسن (1969۔1974)کا دور سردجنگ کاحساس ترین حصہ تھا۔اسرائیل اورعرب ریاستوں کامحاذگرم تھااورامریکا دونوں طرف توازن قائم کرنے کی جدوجہدمیں تھا۔ 1973ء کی یومِ کپورجنگ میں اسرائیل کی بقاخطرے میں تھی۔ نکسن نے بڑے پیمانے پراسلحہ اورسازوسامان اسرائیل کومہیاکیا، تاہم اس عمل میں اس کی پالیسی میں تذبذب اور دیگرعرب ریاستوں کوبھی انگیج کرنے کی خواہش اسرائیلی لابی کوناگوارگزری۔
اس دورمیں وزیرخارجہ ہینری کسنجر نے عرب۔ اسرائیل معاملے میں نسبتاً متوازن رویہ اپنایالیکن ہینری کسنجر کااعتدال پسندرویہ جو یہودی لابیوں اوراسرائیل کی سخت گیرقیادت کو ناپسندتھا۔لابیوں نے نکسن کواسرائیل کی حمایت میں ’’کمزور‘‘ اور’’دوغلا‘‘ قراردیا۔ مکافاتِ عمل میں واٹرگیٹ اسکینڈل نے نکسن کواقتدارچھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ بعض مبصرین نے اس ضمن میں یہودی لابیوں اورمیڈیا کارویہ غیرمعمولی سخت قراردیاحالانکہ واٹرگیٹ کامعاملہ قانون اوراحتساب کاحصہ تھالیکن اسرائیل اوریہودی تنظیموں نے اس دوران نکسن کی پالیسیوں کوتنقیدکاحصہ بناتے ہوئے اس کی ساکھ اورسیاسی طاقت کو مزید کمزورکرنے کی کوشش کی۔ واٹرگیٹ کا معاملہ محض قانون شکنی کامعاملہ نہیں رہا بلکہ اقتدارکے قبل ازوقت خاتمہ کے علاوہ سیاسی محاذ پربھی تاریخی دھبہ اور دشمنیوں کاحصہ بن گیا۔ اسرائیل اوریہودی تنظیموں نے یہ پیغام دیاکہ جو امریکی صدراسرائیل یااس کی پالیسیوں پرتنقید کرے گا،وہ اقتدارمیں مشکلات کاشکار ہو سکتا ہے ۔
بارک اوباما 2009۔2017ء ) کا دور مشرقِ وسطیٰ میں نئے چیلنجوں اورنئے رجحانات کادورتھا۔عرب اسپرنگ،ایران نیوکلیئرڈیل اور اسرائیل کی بستیاں بسانے کی پالیسی جیسے مسائل اس دورکی نمایاں نشانیاں بنے۔اوبامانے ایران کونیوکلیئرمیدان میں محدودکرنے اور خطے کوبڑے جنگی خطرے سے بچانے کی خاطر جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن تاریخی معاہدہ کیا۔ اسرائیل اوراس کی حامی یہودی لابیوں نے اس معاہدے کواسرائیل کی سلامتی اورامریکی اسٹریٹجک مفادکا ’’ناقابلِ معافی سودا‘‘قراردیا۔نیتن یاہونے امریکی کانگریس میں خطاب کرتے ہوئے اس معاہدے کی شدیدمخالفت کی،اوراوباماانتظامیہ کواسرائیل دشمن قراردیا۔امریکی یہودی لابی نے اوباماکی پالیسیوں کو ’’تاریخی غلطی ‘‘قرار دیا ۔
اوبامانے فلسطین۔اسرائیل تنازعے میں دوریاستی حل کی تائیداورمغربی کنارے میں اسرائیل کی بستیاں بسانے کی مخالفت کی۔اس پالیسی کوامریکی یہودی لابی نے اسرائیل کی سکیورٹی اوربقاپرحملہ تصورکیا۔اوبامااورنیتن یاہوکی ذاتی اورسیاسی کشمکش وتناؤ اس دورکا حصہ رہی۔اس تناؤنے یہ تاثرمضبوط کیاکہ اوبامااسرائیل اوریہودی لابی کی روایتی حمایت سے کچھ فاصلے پرکھڑے تھے۔ایران ڈیل کی حمایت کرنے والاامریکی صدر،اسرائیل اوراس کی لابی کی نظروں میں’’مخالف‘‘قرار پایا۔ نیتن یاہواوراوباماکی سردمہری نے اسرائیل ۔ امریکاتعلقات میں عارضی تناؤپیداکیا، تاہم روایتی امداداوراسٹریٹجک اتحادبرقراررہا۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ رچرڈنکسن اوربارک اوباماکی مثال اس تاریخی سچائی کاحصہ ہے کہ امریکاکی داخلی سیاسی بساط پریہودی لابیوں اوراسرائیلی اثرورسوخ کاغیرمعمولی اثرہے۔ نکسن کادوراس بات کی مثال ہے کہ امریکی صدور کو اسرائیل کی پالیسیوں پر آزادی یاتذبذب کی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔اوباماکادوریہ درس دیتاہے کہ ایک مضبوط صدر،جو سفارت کاری اورامن کی زبان بولے،بھی لابیوں اورتنظیموں کی طاقت کا سامنا کرتے ہوئے تنقید،سیاسی دبااور تاریخی جدوجہد کا حصہ بن سکتاہے۔نکسن اوراوباماکی مثال اس امر کا بھی اعلان ہے کہ اسرائیل کی پالیسیوں اوراس کی لابیوں کا اثر امریکی نظامِ سیاست اوراقتدارکی راہ گزرپرکس حدتک محیط ہے۔
امریکی سیاسی روایت گواہ ہے کہ اسرائیلی لابی کسی بھی صدریاقانون سازکو،جواس کی پالیسی یا مفادات سے متصادم ہو،مختلف محاذوں پرچیلنج کرسکتی ہے۔ میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اوردیگربڑے ذرائع ابلاغ میں اسرائیل نواز بیانیے کافروغ سب سے بڑاہتھیارہوتاہے۔ دوسرااسرائیلی لابی اپنے مالی اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے انتخابی مہمات میں تمام سیاسی پارٹیوں میں چندہ اورسرمایہ کاری کابے دریغ استعمال کرتی ہیں۔قانون سازمحاذمیں مضبوط عمل دخل کے ساتھ سینیٹ اورایوانِ نمائندگان میں اسرائیل حامی ارکان کامحاذآرائی پرآمادہ ہونابھی اس بات کی دلیل ہے اوراس کے ساتھ ہی پینٹاگون اوراسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں اسرائیل نوازبیوروکریٹس کامؤثر انتظامی دباؤبھی حکومت کومجبور کردیتاہے۔تین تاریخی مثالوں سے باآسانی سمجھاجاسکتاہے۔ (جاری ہے)

متعلقہ مضامین

  • نوجوان اور ڈی ہومینائیزیشن
  • شہر میں جرائم کا راج ہے، حکومت مکمل طور پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے‘منعم ظفر خان
  • معصوم جانوں کے قاتل کسی رعایت کے مستحق نہیں: وزیرِ اعلیٰ بلوچستان
  • بلوچستان میں معصوم جانوں کے قاتل کسی رعایت کے مستحق نہیں، وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی 
  • تہذیبی بحران اور سماجی تنہائی کا المیہ
  • بھارت اب دنیا میں تنہائی کا شکار ہے: اسحاق ڈار
  • خاموشیوں میں ڈوبتا معاشرہ، تنہائی، بیٹیاں اور بکھرتے رشتے
  • خاموش لابی۔۔۔۔۔بلندسازشیں
  • انسانی زندگی میں فلسفے کا کردار اور اس کی تاریخی اہمیت