اسلام ٹائمز: غور سے سنو تمہارے دل کی دھڑکن کیا ترنم سنا رہی ہے: حُسین، حُسین، حُسین، حُسین۔ پوری کائنات عشق کے طواف میں مگن ہے، اس طواف کا مرکز حسینؑ ہے۔ ہمارا پیغام استقامت ہے اور یہ وہی نور ہے، جو زمان و مکان کی وسعتوں سے بالاتر ’’فاستقم کما اُمِرتُ وَ مَن تَابَ معک‘‘ کے سرچشمے سے فروزاں ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنے والا زمانہ ہمارا ہے۔ "العاقبۃ للمتقین۔" کوئی بند گلی نہیں ہے۔ ایک روشن مستقبل ہے۔ تنہائی کے گرداب میں پھنسنے اور ناامید ہونے کے بجائے سفینہ نجات میں داخل ہونے کی دیر ہے۔ تحریر: عارف بلتستانی
arifbaltistani125@gmail.
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں، جہاں دنیا ایک "گلوبل ولیج" میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ہر شخص سوشل میڈیا، ڈیجیٹل نیٹ ورکس اور جدید سہولتوں سے جُڑا ہوا ہے۔ لیکن اس ظاہری جُڑاؤ کے پیچھے ایک گہرا، اذیت ناک سناٹا چھپا ہوا ہے، تنہائی کا سناٹا۔ یہ وہ خاموش قاتل ہے، جو نہ شور مچاتا ہے، نہ خون بہاتا ہے، لیکن انسان کی روح کو اندر سے چاٹ کر کھوکھلا کر دیتا ہے۔ یہ تنہائی ایک ایسے زخم کی مانند ہے، جو نہ دکھائی دیتا ہے، نہ چھو کر محسوس کیا جا سکتا ہے، لیکن دل کے اندر خالی پن کا ایک سمندر بہا دیتا ہے۔ انسان لوگوں کے ہجوم میں بھی اپنے دِل کی بات کہنے کو ترسنے لگتا ہے۔ احساسِ موجودگی ماند پڑ جاتا ہے اور جب سوشل میڈیا پر لاکھوں فالوورز کے باوجود دل ایک سچے دوست کو ترسے، تو یہ سب کچھ بے معنی لگنے لگتا ہے۔
یہی وہ کیفیت ہے، جو رفتہ رفتہ انسان کو ڈپریشن، بے معنویت اور خودکشی جیسے المیوں کی طرف دھکیلتی ہے۔ کتنے ہی افراد صرف اس لیے دنیا چھوڑ چکے ہیں کہ اُن کی تنہائی کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہم نے کبھی ان سے یہ نہیں پوچھا کہ اُن کے دل میں کیا ہے۔؟ اُن کے پاس درد بانٹنے والا کوئی ہے یا نہیں؟ ہم نے کبھی اُن کے آس پاس کے خلا کو پُر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ہمیں بحیثیتِ قوم اب یہ سیکھنا ہوگا کہ کسی کو صرف کھانا کھلانا ہی کافی نہیں، بلکہ اُس کے دل کا حال سننا، اُس کے ساتھ وقت گزارنا، اُس کے وجود کو اہمیت دینا بھی ایک عظیم صدقہ ہے۔ کسی کے ساتھ بیٹھ کر چائے پینا، اُس کی باتوں کو توجہ سے سننا، اُسے یہ یقین دلانا کہ وہ اکیلا نہیں، یہ سب وہ انسانی صفات ہیں، جن سے معاشرہ جیتا ہے۔ اگر تنہائی ایک خاموش قاتل ہے، تو ہم میں سے ہر شخص ایک مسیحا بن سکتا ہے، جو کسی کی زندگی میں امید کی روشنی بنے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آج کے اس تیز رفتار، مشینی دور میں، جہاں ہر چیز ڈیجیٹل ہوچکی ہے، انسان پہلے سے کہیں زیادہ "کنیکٹڈ" ہونے کے باوجود اتنا تنہاء کیوں ہے۔؟ سوشل میڈیا، ویبینارز اور آن لائن کمیونٹیز کے باوجود دل کے سناٹے کیوں گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔؟ مغرب میں تنہائی کو "سائلنٹ کلر" کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی اور نفسیاتی خلا کی پیداوار ہے۔ یہ مسئلہ کسی ایک قوم یا نسل تک محدود نہیں رہا، بلکہ ایک عالمی بحران بن چکا ہے۔ اس کا حقیقی حل تلاش کرنے کے لیے ہمیں اس کے پیچھے چھپی تہذیبی سوچ کو سمجھنا ہوگا۔ مغربی تہذیب کا بنیادی نظریہ انفرادیت اور مادیت پر قائم ہے۔ اس سوچ کے مطابق انسان اپنی ذات میں مکمل، خودمختار اور آزاد ہے۔ وہ کسی خالق یا کسی اعلیٰ مقصد کا محتاج نہیں۔ اسی لیے وہاں رشتے، تعلقات اور قربتیں بھی وقتی یا مفاداتی ضرورتوں تک محدود ہوچکی ہیں۔
یہی سوچ انسان کو اپنے خالق سے کاٹ دیتی ہے اور یوں وہ دوسروں سے بھی کٹ جاتا ہے۔ جب زندگی کا مرکز صرف "میں" بن جائے تو "ہم" بکھر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا میں خاندانی نظام بکھر چکا ہے، اولڈ ہاؤسز بڑھتے جا رہے ہیں، نوجوان تنہائی میں جی رہے ہیں اور سوشل میڈیا کا دھوکہ انہیں وقتی توجہ دے کر مزید اندر سے خالی کر رہا ہے۔ مغرب تنہائی کا صرف سطحی علاج کرتا ہے۔ یعنی علامات کو دباتا ہے، لیکن بیماری کی جڑ، یعنی روحانی اور سماجی بے معنویت کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام ایک مکمل اور مربوط تصورِ حیات دیتا ہے، جو انسان کی روحانی، نفسیاتی اور سماجی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ اسلام کا تصورِ کائنات توحید پر مبنی ہے، یعنی اس یقین پر کہ انسان تنہاء نہیں، اُس کا ایک خالق ہے، جو اُس کو جانتا ہے، اُس سے محبت کرتا ہے اور اُس کی رہنمائی کے لیے ہر لمحہ موجود ہے۔
اس نظامِ فکر میں انسان کے چار اہم رشتے ہوتے ہیں: خود سے، خالق سے، دوسرے انسانوں سے اور باقی مخلوقات سے۔ جب یہ رشتے مضبوط ہوں تو تنہائی کی گنجائش نہیں رہتی۔ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ تنہائی کا سب سے پہلا علاج اللہ سے تعلق کو بحال کرنا ہے۔ دلوں کا سکون دولت، شہرت، یا سوشل میڈیا میں نہیں، بلکہ اُس ہستی کے ذکر میں ہے، جو دلوں کے حال سے واقف ہے۔ "أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ" یقیناً دلوں کو سکون صرف اللہ کے ذکر سے ملتا ہے۔ عبادت، دعا اور قرآن کے ساتھ وقت گزارنا ہمیں اُس اصل مرکز سے جوڑتا ہے، جس سے جڑنے کے بعد کوئی دل تنہا نہیں رہتا۔ اس کے ساتھ ہی اسلام معاشرتی تعلقات کو بھی نہایت اہمیت دیتا ہے۔ صلہ رحمی، احسان، ہمسایہ داری، مجلس، خیر خواہی اور خدمتِ خلق جیسے اعمال انسان کو ایک زندہ، متحرک اور پرمعنی تعلق میں جوڑتے ہیں۔
جب انسان کسی دوسرے کے درد میں شریک ہوتا ہے، اُس کی بات سنتا ہے، اُس کا سہارا بنتا ہے، تو نہ صرف دوسرے کی تنہائی کم ہوتی ہے، بلکہ خود اس انسان کی زندگی میں بھی ایک نئی معنویت شامل ہو جاتی ہے۔ اسلامی طرزِ زندگی ہمیں دکھاتا ہے کہ زندگی صرف جینے کا نام نہیں، بلکہ کسی کے لیے جینے کا نام ہے۔ جب انسان اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے مفید بننے لگے تو اس کی اپنی زندگی میں بھی سکون، مقصد اور روشنی بھر جاتی ہے۔ تنہائی ایک خاموش قاتل ضرور ہے، لیکن اس کا علاج بھی ہمارے پاس ہے۔ وہ علاج نہ صرف دینی ہے بلکہ انسانی بھی ہے۔ ہمیں صرف یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اس خاموشی کو کب توڑتے ہیں، کب کسی کا حال پوچھتے ہیں، کب کسی کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔۔۔۔ اور کب خود کو بھی اُس نور سے جوڑتے ہیں، جو تنہائی کے اندھیروں کو مٹا سکتا ہے۔
اس الہیٰ نور کا سرچشمہ حسین علیہ السلام ہے۔ جو کربلا سے طلوع ہوا ہے۔ کربلا عشق کا مسکن ہے اور کربلا کے لائق وہی لوگ ہیں، جو حریت پسند ہو اور جن کے دل عشق سے ایسے لبریز ہیں۔ تعصب کی عینک کو اتار کر اگر دیکھیں تو جان لو! تمہارا سینہ بھی لا محدود آسمان کی مانند ہے اور اس میں تمہارا دل وہ سورج ہے، جس سے روشنی پھوٹ رہی ہے اور غور سے سنو تمہارے دل کی دھڑکن کیا ترنم سنا رہی ہے: حُسین، حُسین، حُسین، حُسین۔ پوری کائنات عشق کے طواف میں مگن ہے، اس طواف کا مرکز حسینؑ ہے۔ ہمارا پیغام استقامت ہے اور یہ وہی نور ہے، جو زمان و مکان کی وسعتوں سے بالاتر ’’فاستقم کما اُمِرتُ وَ مَن تَابَ معک‘‘ کے سرچشمے سے فروزاں ہے اور یہی وجہ ہے کہ آنے والا زمانہ ہمارا ہے۔ "العاقبۃ للمتقین۔" کوئی بند گلی نہیں ہے۔ ایک روشن مستقبل ہے۔ تنہائی کے گرداب میں پھنسنے اور ناامید ہونے کے بجائے سفینہ نجات میں داخل ہونے کی دیر ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: خاموش قاتل سوشل میڈیا ہے اور یہ دیتا ہے رہے ہیں جاتا ہے کے ساتھ بلکہ ا کے لیے
پڑھیں:
تجدید وتجدّْد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
3
مْجدِّد یقینا اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ظہور میں آتا ہے‘ وہ ماضی کے علمی ذخیرہ سے انحراف کرتا ہے اور نہ پہلے سے تسلسل کے ساتھ روبہ عمل مسلّمہ فقہی اصولوں سے تجاوز کرتا ہے‘ بلکہ وہ جدید پیش آمدہ مسائل کو بھی دین کے مسلَّمات سے انحراف کیے بغیر حل کرنے کی سعی کرتا ہے اور ماضی کی علمی وفقہی روایت سے رشتہ توڑنے کے بجائے اسی تسلسل کو قائم رکھنا ہی اس کی تگ ودو کا سب سے بڑا ہدف ہوتا ہے۔ اب تک امت میں جن بزرگوں کو مْجدِّددین کی فہرست میں مسلَّمہ طور پر شامل سمجھا گیا ہے‘ ان میں سے ہر ایک کی محنت کا فرداً فرداً جائزہ لیا جائے تو بھی سب کی محنت کا ایک ہی محور دکھائی دے گا کہ حال کو ماضی سے جوڑ کر رکھا جائے۔
متحدہ ہندوستان میں اکبر بادشاہ کو جب مْجدِّد اعظم اور مْجتہد اعظم کا لقب دے کر اس سے دین کے پورے ڈھانچے کی تشکیلِ جدیدکی درخواست کی گئی تو اس کے ساتھ یہ تصور بھی شامل تھا کہ دین اسلام کی پرانی تعبیر وتشریح کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے‘ اس لیے اگلے ہزار سال کے لیے نئی تعبیر وتشریح کے ساتھ دین کے نئے ڈھانچے کی تشکیل ضروری ہو گئی ہے‘ جو اکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے پیش کی۔ جبکہ اس مکر وفریب کے تار وپود کو بکھیرنے میں شیخ احمد سرہندی نے مسلسل محنت کر کے فقہ وشریعت کی اصل روایت کو باقی رکھنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اس پس منظر میں انہیں ’’مجدّدِ الفِ ثانی‘‘ کا خطاب دیا گیا کہ اگلے ہزار سال میں بھی اکبر بادشاہ کی پیش کردہ تعبیر وتشریح کے بجائے وہی پرانی اِجماعی تعبیر وتشریح ہی چلے گی جس کی نمائندگی شیخ احمد سرہندی کر رہے تھے اور الحمدللہ! اب تک عملاً ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ان کی بابت علامہ اقبال نے کہا: ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے؍ جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار ٭ وہ ہِند میں سرمایہ؍ ملّت کا نِگہباں؍ اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘۔
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کو اس کے نو رتنوں (چاپلوس درباریوں) نے یہ باور کرایا کہ وہ اسلام‘ ہندومت‘ بدھ مت وغیرہ تمام ادیان کے من پسند اجزا کو جمع کر کے ایک نیا دین وضع کریں جو اْن کے نام سے منسوب ہو اور ’’اکبر شاہی دینِ الٰہی‘‘ کا لیبل لگا کر اسے رائج کیا جائے۔ یہ ’’وحدتِ ادیان‘‘ کا ایک فتنہ تھا اور ہر دور میں رنگ بدل بدل کر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے‘ گویا ’’کہیں کی اینٹ‘ کہیں کا روڑا‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘۔ اس کے نو رتنوں میں راجا بیربل‘ ابوالفیض فیضی‘ ابوالفضل‘ تان سین‘ عبدالرحیم المعروف خانِ خاناں‘ راجا مان سنگھ‘ ابوالحسن المعروف ملا دو پیازہ‘ راجا ٹوڈرمل اور مرزا عزیز کوکلتاش تھے۔ رتن کے معنی ہیں: ’’ہیرا‘‘۔ اس کے برعکس مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے علماء کی ایک مجلس تشکیل دی اور فقہِ حنفی پر مشتمل ایک جامع کتاب ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ مرتب کرائی‘ جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں شرعی احکام یکجا ہو گئے۔
تجدّْد پسندوں کا گروہ ایک طرف تو اپنی تجدد پسندی کو تجدید کا نام دے کر سندِ جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف دین اسلام کے بیان کردہ حقائق کے وزن کو گھٹانے کے لیے تسلسل اور توارث کے ساتھ منتقل ہونے والے اصل دین اور اس کے حقیقی مفہوم وتفسیر کو جو سلفِ صالحین سے تعامل وتوارث کے ساتھ چلی آ رہی ہوتی ہے‘ اْسے روایتی فکر کا نام دیتا ہے۔ روایتی فکر کی اس تعبیر میں دراصل ایک قسم کا طنز پوشیدہ ہے اور یہ تعبیر بالکل مغربی مصنّفین کی اس تعبیر سے قریب ہے جو اسلام کو رَجعت پسندی اور دقیانوسیت قرار دیتے ہیں۔ یہ تجدّد پسند حضرات شاید یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح تہذیب ترقی کے مدارج طے کرتی ہے‘ اسی طرح مذہب کو بھی ترقی کرنی چاہیے۔ حالانکہ دینِ اسلام سراپا تسلیم ورضا کا نام ہے‘ اس میں جدت کے نام پر بدعت کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ کسی نئی تعبیر یا تفسیر کی ضرورت ہے۔ البتہ جدید نادر مسائل کا حل بھی پرانے مسائل ہی میں تلاش کیا جائے گا‘ اْنہیں قیاس کے ذریعے یا نصوص کے عموم سے یا اْصول فقہ کے قواعد کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: ’’تم طے شدہ طریقے پر چلو اور نئی نئی باتوں کے چکر میں نہ پڑو‘ کیونکہ تمہیں ایسی کسی بھی جدت سے بے نیاز کر دیا گیا ہے‘‘۔ (سننِ دارمی)
آپ تجدّْد پسندوں کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو ان کے اندر یہ بات قدرِ مشترک ہے کہ ان میں سے اکثر کا حدیث وسنت کا علم سطحی درجے کا ہوگا۔ بعض تو اس سطحی علم سے بھی کورے ہوں گے‘ الٹا وہ یہ باور کرائیں گے کہ ان کو حدیث کی روایت سے آگے کی چیز‘ یعنی عقلیت وتجدّْد پسندی حاصل ہے‘ اس لیے ان سے روایتِ حدیث کی بابت سوال کرنا دراصل سائل کی کم فہی یا کج فہمی کی دلیل ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی باور کرائیں گے کہ جس شعور وآگہی کے ہم حامل ہیں‘ علماء کا طبقہ اس سے محروم ہے‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ علما ان وادیوں سے بخوبی واقف ہیں‘ جن وادیوں کے شناسا یہ تجدّد پسند ہیں اور اس سفر کے انجام سے بھی باخبر ہیں‘ اس لیے وہ اس راہ پر نہیں چلتے جو تجدّد پسندوں کی نظر میں شاہراہ ہے‘ وہ اسے بدعت یا آزاد خیالی سمجھتے ہیں‘ جیسا کہ آوارہ منش شعرا کے بارے میں قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور (آوارہ) شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں‘ کیا آپ نے انہیں دیکھا نہیں کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور بیشک وہ جو کچھ کہتے ہیں‘ اس پر عمل نہیں کرتے‘‘۔ (الشعراء: 224 تا 226)۔ پاکستان کے حکمرانوں میں لبرل ازم اور آزاد روی کے پْرجوش علمبردار جنرل پرویز مشرف نے اسی کو ’’اعتدال پر مبنی روشن خیالی‘‘ کا نام دیا تھا۔
الغرض انہی خطرات کا ادراک کرتے ہوئے عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا تھا: ’’تم دین کے معاملہ میں خود کو وہاں پر روک لو‘ جہاں وہ (سلَف صالحین) رک گئے تھے‘ کیونکہ وہ علم رکھتے ہوئے رکے ہیں اور گہری نظر کی وجہ سے باز آ گئے ہیں۔ حالانکہ وہ ان باتوں پر سے پردہ اٹھانے کی پوری علمی صلاحیت رکھتے تھے اور اگر ایسا کرنا کوئی فضیلت کی بات ہوتی تو وہ اس کے زیادہ اہل تھے۔ اگر تم کہتے ہو کہ یہ (تجدّد پسندی) ان کے دور کے بعد وجود میں آئی ہے تو پھر جان لو کہ یہ ایسے ہی شخص کی ایجاد ہے جو ان کے راستے سے ہٹ کر چل رہا ہے اور ان کے طریقے سے منہ موڑ رہا ہے۔ سلَفِ صالحین نے اس دین کے وہ مَبادیات‘ اصولی عقائد اور مسلّمات بتا دیے ہیں جو کافی وشافی ہیں اور دین کے جتنے مسائل کی انہوں نے وضاحت کر دی ہے وہ کافی ہے۔ ان سے آگے بڑھ کر کوئی معرکہ سر ہونے والا نہیں ہے اور ان سے پیچھے رہ جانے سے بڑی کوئی تقصیر نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے ان سے پیچھے رہ جانا پسند کیا تو وہ جفاکار ہوئے اور بعض لوگوں نے ان سے آگے بڑھ جانا چاہا تو غْلوّ کا شکار ہوئے اور سلَفِ صالحین اِفراط وتفریط اور غْلْو وجفا کے مابین ہمیشہ توسط واعتدال کی راہ پر گامزن رہے ہیں‘‘۔ (ابودائود) علامہ اقبال نے بھی اسی فکر کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: اجتہاد اندر زمانِ اِنحطاط ؍ قوم را برہم ہمی پیچد بساط…زِاجتہادِ عالمانِ کم نظر ؍ اِقتدا بر رفتگاں محفوظ تر
مفہومی ترجمہ: ’’زوال کے زمانے میں (کم نظروں اور کم ہمتوں کا) اجتہاد امت کے نظم وضبط کی بساط کو لپیٹ دیتا ہے اور کم نظر عالموں کے اجتہاد کے مقابلے میں گزشتہ بزرگوں کی اقتدا (دین کے لیے) زیادہ محفوظ حکمتِ عملی ہے‘‘۔
غامدی صاحب کے استاذ امام مولانا امین احسن اصلاحی نے بھی تدبرِ قرآن کی نویں جلد کے دیباچے میں سیدنا علیؓ کا یہ قول کسی حوالے کے بغیر نقل کیا ہے: ترجمہ: ’’اس امت کے پچھلے دور کے لوگ بھی اسی چیز سے اصلاح پائیں گے‘ جس سے دورِ اول کے لوگ اصلاح پذیر ہوئے‘‘۔ (الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)۔
(جاری)