Daily Ausaf:
2025-11-03@18:12:21 GMT

سیاسی لیبارٹری

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

کبھی کبھی سیاست کے صحرا میں جب دھوپ تیز ہو جائے منظر دھندلا جائے اور امیدیں سوکھنے لگیں تو کچھ آوازیں ابھرتی ہیں کچھ نعرے گونجنے لگتے ہیں۔ ایسے نعرے جو برسوں سے سننے کو ملتے رہے ہیں اور جن کا انجام کبھی سچائی تک نہیں پہنچا۔ ان ہی میں سے ایک نعرہ ہے قومی حکومت۔یہ نعرہ کچھ ایسا ہے جیسے ریت میں پانی کی جھلک جو دور سے سیرابی کا وعدہ کرے مگر قریب جا کر فقط سراب نکلے۔میں نے سیاست کو صرف اخباروں کے صفحات یا ٹی وی کی سکرین پر نہیں دیکھا۔ میں نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھتے، بگڑتے، سنورتے اور پھر بکھرتے دیکھا ہے۔ ضیاالحق کے عہدِ اقتدار سے لے کر آج کے سیاسی بیانیوں تک میں اس ملک کے ہر نشیب و فراز کا گواہ رہا ہوں۔میرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ راولپنڈی کی سڑکیں، عسکری گاڑیوں کی دھمک اور قومی سلامتی کے نعرے ہر طرف سنائی دیتے تھے۔ جنرل محمد ضیا الحق کا دور تھا۔ ریاست کا ہر شعبہ وردی کی چھتری تلے پنپ رہا تھا۔ مذہب کو سیاست کا جزو بنایا جا رہا تھا اور احتساب کو منتخب سیاست دانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ضیا الحق نے کبھی قومی حکومت کا اعلان نہیں کیا مگر ان کی حکومت ہی ایسی تھی جس میں منتخب چہرے محض ایک جمہوری چادر کے نیچے بٹھا دیے گئے تھے۔ وزارتیں دی جا رہی تھیں مگر اختیار کہیں اور تھا۔ یہ تجربہ قوم نے انیس سو ستتر سے لے کر گیارہ سال تک برداشت کیا یہاں تک کہ میں ایک فضائی حادثے نے اس باب کو بند کر دیا۔پھر بی بی آئی، بے نظیر بھٹو۔ ان کے چہرے پر سیاسی بلوغت کی جھلک، والد کی جدوجہد کا عکس اور جمہوریت کی امید جھلکتی تھی۔ مگر طاقت کے ایوان انہیں مکمل اختیار دینے کو تیار نہ تھے۔ کبھی صدر غلام اسحاق خان کبھی عدلیہ اور کبھی عسکری اشرافیہ سب نے اس جمہوریت کو ناپختہ رکھنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔پھر میاں نواز شریف آئے۔ بینظیر گئیں، پھر آئیں، پھر گئیں۔ اور یوں دو دہائیاں گزر گئیں۔ کبھی اقتدار میں ایک پارٹی تو کبھی دوسری۔ عوام کا حال وہی، غربت وہی، وعدے وہی مگر چہرے بدلتے رہے۔
انیسویں صدی کے آخری سال کے آخر یعنی اکتوبر میں تاریخ نے خود کو ایک بار پھر دہرایا۔ جنرل پرویز مشرف نے آئین کو پامال کیا اور مارشل لا کی نئی چادر اوڑھ لی۔ مگر اس بار چادر پر اصلاحات، ترقی ، احتساب کے موتی چمک رہے تھے۔بیسویں صدی یعنی سال میں سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دے قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔ پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو ابتدائی دنوں میں قومی حکومت کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ کہا گیا کہ اب سب جماعتوں کو ملا کر ایک ہم آہنگ حکومت بنائی جائے گی جو سیاست سے گند صاف کرے گی۔ قاف لیگ کی صورت میں ایک نئی سیاسی قوت تراشی گئی جسے ’’قومی مفاد‘‘کے نام پر میدان میں اتارا گیا۔اس وقت بھی سنا کہ چار سو کرپٹ افراد کی لسٹیں تیار ہیں۔ یہ لوگ ملک کو لوٹ چکے ہیں اب نیا پاکستان بنے گا۔ مگر پھر وہی پرانے چہرے نئی جماعتوں میں شامل ہو کر حکومت کا حصہ بن گئے۔ عوام کا مقدر وہی رہا۔ مایوسی، غربت، بے روزگاری۔سال میں تحریک انصاف نے مینار پاکستان پر ایک تاریخی جلسہ کیا۔ عمران خان نے تقریر کی، وعدے کیے اور عوام کو ایک نیا خواب دکھایا۔ احتساب، انصاف، قرضوں سے نجات باوقار خارجہ پالیسی ۔ سب کچھ سن کر لگا کہ اب شاید واقعی ایک نیا پاکستان بنے گا۔پھر نواز شریف کو پانامہ کی فرضی کاغذی رپورٹوں اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے نااہل کیا گیا۔ بیانیہ بنایا گیا کہ چوروں سے نجات چاہیے۔ پوری دنیا کے میڈیا پر پیسے کے بل بوتے پر نواز شریف کے نام کے ساتھ چور کے لفظ کی تشہیر کروائی گئی۔ چند بکائو یوٹیوبرز کے ذریعے ایک بیانیہ بنایا گیا اور عمران خان کو لاڈلا قرار دیا گیا۔
2018 ء کے انتخابات میں انجینئرنگ کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا۔ ایک نئی حکومت بنائی گئی جس کا دعوی تھا کہ وہ اسٹیٹس کو کو توڑے گی۔ ایک نعرہ تھا نیا پاکستان۔مگر تین سال کے اندر اندر حالات ایسے ہو گئے کہ ملکی وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔ تحریک انصاف کے دور میں پاکستان کا کرپشن انڈیکس آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا، ادارے کمزور ہوئے، میڈیا دبایا گیا، عدلیہ تقسیم ہوئی اور معیشت زمین بوس ہو گئی۔ مہنگائی آسمان پر اور سچائی جیلوں میں قید ہو گئی۔پارلیمنٹ میں ایسے لوگ بٹھائے گئے جنہیں سیاست کا ’’س‘‘بھی نہیں آتا تھا۔ فٹ پاتھ پر پیدل گھومنے والے اقتدار کے ایوانوں میں گھومنے لگے، سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر آنے والے لینڈ کروزرز میں پھرنے لگے۔ تین سال میں پاکستان کا قرضہ اتنا بڑھا دیا گیا کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ ریکارڈ پر آیا۔پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ پھر ایک بار پھر آوازیں آئیں کہ قومی حکومت بنا دی جائے اور عمران خان کو اگلے دس سال کے لئے صدر بنا دیا جائے۔یہ نعرہ کوئی نیا نہیں۔ ہر آمر، ہر کمزور حکومت اور ہر انجینئرنگ کے ماہر نے اس نعرے کو آزمایا ہے۔ اس کے پیچھے دلیل یہی دی جاتی ہے کہ ملک بحران میں ہے لہٰذا اب تمام جماعتوں کو ملا کر ایک غیر جماعتی حکومت بنائی جائے۔لیکن ہم پوچھتے ہیں کب، کہاں، اور کس آئینی شق میں قومی حکومت کا ذکر ہے؟ کیا یہ عوامی مینڈیٹ کا انکار نہیں؟ کیا یہ جمہوریت کی نفی نہیں؟ اور کیا یہ اصل مسئلوں سے توجہ ہٹانے کا ایک اور حربہ نہیں؟ ہم نے دیکھا ہے کیسے مخصوص صحافیوں، تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں کو استعمال کر کے رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے۔ ایک بیانیہ تیار ہوتا ہے اور پھر اسے میڈیا کے ذریعے عوام پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پاکستان میں نگران حکومتوں کا تصور آئینی طور پر موجود ہے جن کا کام صرف اور صرف منصفانہ انتخابات کرانا ہے۔ ان کا دائرہ محدود اور مدت مختصر ہوتی ہے۔ مگر جو کچھ بار بار قومی حکومت کے نام پر بیچا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک بے آئین، غیر قانونی اور غیر نمائندہ تجربہ ہوتا ہے۔ملک کو چلانے کے لیے صرف نیک نیتی کافی نہیں بلکہ آئینی دائرہ، عوامی مینڈیٹ اور شفاف نظام بھی ضروری ہے۔
قومی حکومت کی آڑ میں جب بھی جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا نتیجہ مزید ابتری کی صورت میں نکلا۔آج کی اتحادی حکومت جس نے 2024ء میں اقتدار سنبھالا، اپنی آئینی مدت 2029ء میں مکمل کرے گی۔ اس دوران اگر کارکردگی اچھی ہو گی تو عوام دوبارہ ووٹ دیں گے اور اگر نہ ہو گی تو عوام کا فیصلہ مختلف ہو گا۔ یہی جمہوریت ہے یہی آئینی عمل۔مگر اگر کسی کو لگتا ہے کہ پانچ چھ افراد بیٹھ کر فیصلے کریں، سب سیاسی جماعتوں کو بائی پاس کر کے اقتدار سنبھال لیں تو یہ خیال آج کے باشعور عوام کی توہین ہے۔قوم اب وہ نہیں رہی جو ماضی میں ہر فریب پر یقین کر لیتی تھی۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے، معلومات عام ہیں اور شعور کی سطح بلند ہو چکی ہے۔قومی حکومت کا نعرہ ایک ایسا سیاسی افسانہ ہے جسے ہر بار نئے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر اب وقت ہے کہ قوم اس سراب کو پہچانے اور مطالبہ کرے کہ فیصلے صرف بیلٹ باکس کے ذریعے ہوں نہ کہ بریف کیس، اسٹیبلشمنٹ یا کسی ’’سیاسی لیبارٹری‘‘کے ذریعے۔ پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف آئینی جمہوری اور شفاف سیاسی عمل سے جڑا ہے۔ کوئی قومی حکومت، کوئی انجینئرنگ، کوئی مصنوعی بندوبست اس قوم کو پائیدار ترقی کی طرف نہیں لے جا سکتا۔شفافیت ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے قومیں بنتی ہیں، سنبھلتی ہیں اور آگے بڑھتی ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان کا قومی حکومت حکومت کا کے ذریعے ہیں اور کیا یہ

پڑھیں:

ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل

 

کراچی (اسٹاف رپورٹر)سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے کہا ہے کہ حال ہی میں کچھ لوگ ہماری سیاسی کوششوں کو ’مائنس فارمولے‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جیسے یہ عمران خان کو کمزور کرنے یا پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر قبضہ کرنے کی سازش ہو، واضح رہے کہ پی ٹی آئی عمران خان کے بغیر ممکن ہی نہیں، وہ اس کے بانی، چہرہ اور قوت ہیں۔سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ محمود مولوی، فواد چوہدری اور میں نے جو کاوش کی ہے یہ کسی سازش کا حصہ نہیں بلکہ ایک شعوری کوشش ہے کہ جس کے تحت پاکستانی سیاست کو ٹکراؤ سے نکال کر مفاہمت کی طرف واپس لایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ مزاحمت اور مسلسل احتجاج کی سیاست نے پی ٹی آئی کے لیے صرف گرتی ہوئی سیاسی گنجائش، گرفتاریوں اور تھکن کے سوا کچھ نہیں چھوڑا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم رک کر سوچیں، جائزہ لیں اور دوبارہ تعمیر کریں۔ہم نے ذاتی طور پر پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں سے مشاورت کی، تقریبا سب نے تسلیم کیا کہ محاذ آرائی ناکام ہو چکی ہے اور مفاہمت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔مزید لکھا کہ جب ہم نے کوٹ لکھپت جیل میں چوہدری اعجاز سے اور پی کے ایل آئی ہسپتال میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی، تو دونوں نے عمران خان کے ساتھ اپنی پختہ وابستگی برقرار رکھتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ جمود ختم ہونا چاہیے، ان کا مطالبہ سیاسی سانس لینے کی معمول کی گنجائش تھا، سرنڈر نہیں۔

بدقسمتی سے رابطوں کی کمی، خوف اور سوشل میڈیا کی مسلسل گرمی نے پی ٹی آئی کے اندر کسی مکالمے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔سابق گورنر کا کہنا تھا کہ دوسری طرف بیرونِ ملک بیٹھے کچھ خودساختہ اینکرز نے دشمنی اور انتشار کو ہوا دے کر اسے ذاتی مفاد کا کاروبار بنا لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بڑھتی ہوئی سفارتی ساکھ نے پاکستان کے بارے میں دنیا کے تاثر کو بدل دیا، یہ توقع کہ غیر ملکی طاقتیں خود بخود عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوں گی، پوری نہیں ہوئی۔یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر کوئی پی ٹی آئی رہنما سمجھتا ہے کہ تصادم اور احتجاج ہی درست راستہ ہے، تو وہ آگے بڑھے اور ہم میں سے ان لوگوں کو قائل کرے جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں، بحث و مباحثہ خوش آئند ہے مگر اندھی محاذ آرائی مستقل سیاسی حکمتِ عملی نہیں بن سکتی۔

ہماری کوشش آزاد، مخلص اور صرف ضمیر کی آواز پر مبنی ہے، ہم چاہتے ہیں معمول کی سیاست بحال ہو، ادارے اپنا کردار ادا کریں اور سیاسی درجہ حرارت نیچے آئے۔اگر مفاہمت کو غداری سمجھا جاتا ہے، تو ٹھیک ہے، ہم دل سے پی ٹی آئی کی بقا اور پاکستان کے استحکام کے لیے سوچ رہے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما فواد چوہدری نے بھی یکم نومبر کو کہا تھا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں سب سے اہم یہ ہے کہ سیاسی درجہ حرارت نیچے لایا جائے اور وہ اس وقت تک کم نہیں ہو سکتا جب تک دونوں سائیڈ یہ فیصلہ نہ کریں کہ انہوں نے ایک قدم پیچھے ہٹنا اور ایک نے قدم بڑھانا ہے۔

سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں میں سابق پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایک قدم بڑھانا اور پی ٹی آئی نے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے، تاکہ ان دونوں کو جگہ مل سکے، پاکستان نے جو موجودہ بین الاقوامی کامیابیاں حاصل کیں، سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔لہذا جب تک یہ درجہ حرارت کم نہیں ہوتا، اُس وقت تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔اس سے قبل 31 اکتوبر کو فواد چوہدری، عمران اسمٰعیل اور محمود مولوی نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے لاہور میں اہم ملاقات کی تھی۔

 

متعلقہ مضامین

  •  محسن نقوی سے گورنر پنجاب کی ملاقات: سیاسی و ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • وفاقی وزیرداخلہ اور گورنر پنجاب کی ملاقات، سیاسی اور ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • وزیرداخلہ محسن نقوی سے گورنر پنجاب کی ملاقات،سیاسی و ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری
  • تناؤ میں کمی کیلئے پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری
  • خیبرپختونخوا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سکیورٹی اور گورننس کے معاملات میں بہتری لائے؛ رانا ثناءاللہ
  • ترک تنظیم ٹکاکے نمائندوں کا الخدمت آفس اور ڈائیگنوسٹک لیبارٹری کا دورہ
  • پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن