Daily Ausaf:
2025-07-12@13:15:32 GMT

سیاسی لیبارٹری

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

کبھی کبھی سیاست کے صحرا میں جب دھوپ تیز ہو جائے منظر دھندلا جائے اور امیدیں سوکھنے لگیں تو کچھ آوازیں ابھرتی ہیں کچھ نعرے گونجنے لگتے ہیں۔ ایسے نعرے جو برسوں سے سننے کو ملتے رہے ہیں اور جن کا انجام کبھی سچائی تک نہیں پہنچا۔ ان ہی میں سے ایک نعرہ ہے قومی حکومت۔یہ نعرہ کچھ ایسا ہے جیسے ریت میں پانی کی جھلک جو دور سے سیرابی کا وعدہ کرے مگر قریب جا کر فقط سراب نکلے۔میں نے سیاست کو صرف اخباروں کے صفحات یا ٹی وی کی سکرین پر نہیں دیکھا۔ میں نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھتے، بگڑتے، سنورتے اور پھر بکھرتے دیکھا ہے۔ ضیاالحق کے عہدِ اقتدار سے لے کر آج کے سیاسی بیانیوں تک میں اس ملک کے ہر نشیب و فراز کا گواہ رہا ہوں۔میرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ راولپنڈی کی سڑکیں، عسکری گاڑیوں کی دھمک اور قومی سلامتی کے نعرے ہر طرف سنائی دیتے تھے۔ جنرل محمد ضیا الحق کا دور تھا۔ ریاست کا ہر شعبہ وردی کی چھتری تلے پنپ رہا تھا۔ مذہب کو سیاست کا جزو بنایا جا رہا تھا اور احتساب کو منتخب سیاست دانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ضیا الحق نے کبھی قومی حکومت کا اعلان نہیں کیا مگر ان کی حکومت ہی ایسی تھی جس میں منتخب چہرے محض ایک جمہوری چادر کے نیچے بٹھا دیے گئے تھے۔ وزارتیں دی جا رہی تھیں مگر اختیار کہیں اور تھا۔ یہ تجربہ قوم نے انیس سو ستتر سے لے کر گیارہ سال تک برداشت کیا یہاں تک کہ میں ایک فضائی حادثے نے اس باب کو بند کر دیا۔پھر بی بی آئی، بے نظیر بھٹو۔ ان کے چہرے پر سیاسی بلوغت کی جھلک، والد کی جدوجہد کا عکس اور جمہوریت کی امید جھلکتی تھی۔ مگر طاقت کے ایوان انہیں مکمل اختیار دینے کو تیار نہ تھے۔ کبھی صدر غلام اسحاق خان کبھی عدلیہ اور کبھی عسکری اشرافیہ سب نے اس جمہوریت کو ناپختہ رکھنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔پھر میاں نواز شریف آئے۔ بینظیر گئیں، پھر آئیں، پھر گئیں۔ اور یوں دو دہائیاں گزر گئیں۔ کبھی اقتدار میں ایک پارٹی تو کبھی دوسری۔ عوام کا حال وہی، غربت وہی، وعدے وہی مگر چہرے بدلتے رہے۔
انیسویں صدی کے آخری سال کے آخر یعنی اکتوبر میں تاریخ نے خود کو ایک بار پھر دہرایا۔ جنرل پرویز مشرف نے آئین کو پامال کیا اور مارشل لا کی نئی چادر اوڑھ لی۔ مگر اس بار چادر پر اصلاحات، ترقی ، احتساب کے موتی چمک رہے تھے۔بیسویں صدی یعنی سال میں سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دے قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔ پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو ابتدائی دنوں میں قومی حکومت کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ کہا گیا کہ اب سب جماعتوں کو ملا کر ایک ہم آہنگ حکومت بنائی جائے گی جو سیاست سے گند صاف کرے گی۔ قاف لیگ کی صورت میں ایک نئی سیاسی قوت تراشی گئی جسے ’’قومی مفاد‘‘کے نام پر میدان میں اتارا گیا۔اس وقت بھی سنا کہ چار سو کرپٹ افراد کی لسٹیں تیار ہیں۔ یہ لوگ ملک کو لوٹ چکے ہیں اب نیا پاکستان بنے گا۔ مگر پھر وہی پرانے چہرے نئی جماعتوں میں شامل ہو کر حکومت کا حصہ بن گئے۔ عوام کا مقدر وہی رہا۔ مایوسی، غربت، بے روزگاری۔سال میں تحریک انصاف نے مینار پاکستان پر ایک تاریخی جلسہ کیا۔ عمران خان نے تقریر کی، وعدے کیے اور عوام کو ایک نیا خواب دکھایا۔ احتساب، انصاف، قرضوں سے نجات باوقار خارجہ پالیسی ۔ سب کچھ سن کر لگا کہ اب شاید واقعی ایک نیا پاکستان بنے گا۔پھر نواز شریف کو پانامہ کی فرضی کاغذی رپورٹوں اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے نااہل کیا گیا۔ بیانیہ بنایا گیا کہ چوروں سے نجات چاہیے۔ پوری دنیا کے میڈیا پر پیسے کے بل بوتے پر نواز شریف کے نام کے ساتھ چور کے لفظ کی تشہیر کروائی گئی۔ چند بکائو یوٹیوبرز کے ذریعے ایک بیانیہ بنایا گیا اور عمران خان کو لاڈلا قرار دیا گیا۔
2018 ء کے انتخابات میں انجینئرنگ کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا۔ ایک نئی حکومت بنائی گئی جس کا دعوی تھا کہ وہ اسٹیٹس کو کو توڑے گی۔ ایک نعرہ تھا نیا پاکستان۔مگر تین سال کے اندر اندر حالات ایسے ہو گئے کہ ملکی وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔ تحریک انصاف کے دور میں پاکستان کا کرپشن انڈیکس آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا، ادارے کمزور ہوئے، میڈیا دبایا گیا، عدلیہ تقسیم ہوئی اور معیشت زمین بوس ہو گئی۔ مہنگائی آسمان پر اور سچائی جیلوں میں قید ہو گئی۔پارلیمنٹ میں ایسے لوگ بٹھائے گئے جنہیں سیاست کا ’’س‘‘بھی نہیں آتا تھا۔ فٹ پاتھ پر پیدل گھومنے والے اقتدار کے ایوانوں میں گھومنے لگے، سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر آنے والے لینڈ کروزرز میں پھرنے لگے۔ تین سال میں پاکستان کا قرضہ اتنا بڑھا دیا گیا کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ ریکارڈ پر آیا۔پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ پھر ایک بار پھر آوازیں آئیں کہ قومی حکومت بنا دی جائے اور عمران خان کو اگلے دس سال کے لئے صدر بنا دیا جائے۔یہ نعرہ کوئی نیا نہیں۔ ہر آمر، ہر کمزور حکومت اور ہر انجینئرنگ کے ماہر نے اس نعرے کو آزمایا ہے۔ اس کے پیچھے دلیل یہی دی جاتی ہے کہ ملک بحران میں ہے لہٰذا اب تمام جماعتوں کو ملا کر ایک غیر جماعتی حکومت بنائی جائے۔لیکن ہم پوچھتے ہیں کب، کہاں، اور کس آئینی شق میں قومی حکومت کا ذکر ہے؟ کیا یہ عوامی مینڈیٹ کا انکار نہیں؟ کیا یہ جمہوریت کی نفی نہیں؟ اور کیا یہ اصل مسئلوں سے توجہ ہٹانے کا ایک اور حربہ نہیں؟ ہم نے دیکھا ہے کیسے مخصوص صحافیوں، تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں کو استعمال کر کے رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے۔ ایک بیانیہ تیار ہوتا ہے اور پھر اسے میڈیا کے ذریعے عوام پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پاکستان میں نگران حکومتوں کا تصور آئینی طور پر موجود ہے جن کا کام صرف اور صرف منصفانہ انتخابات کرانا ہے۔ ان کا دائرہ محدود اور مدت مختصر ہوتی ہے۔ مگر جو کچھ بار بار قومی حکومت کے نام پر بیچا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک بے آئین، غیر قانونی اور غیر نمائندہ تجربہ ہوتا ہے۔ملک کو چلانے کے لیے صرف نیک نیتی کافی نہیں بلکہ آئینی دائرہ، عوامی مینڈیٹ اور شفاف نظام بھی ضروری ہے۔
قومی حکومت کی آڑ میں جب بھی جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا نتیجہ مزید ابتری کی صورت میں نکلا۔آج کی اتحادی حکومت جس نے 2024ء میں اقتدار سنبھالا، اپنی آئینی مدت 2029ء میں مکمل کرے گی۔ اس دوران اگر کارکردگی اچھی ہو گی تو عوام دوبارہ ووٹ دیں گے اور اگر نہ ہو گی تو عوام کا فیصلہ مختلف ہو گا۔ یہی جمہوریت ہے یہی آئینی عمل۔مگر اگر کسی کو لگتا ہے کہ پانچ چھ افراد بیٹھ کر فیصلے کریں، سب سیاسی جماعتوں کو بائی پاس کر کے اقتدار سنبھال لیں تو یہ خیال آج کے باشعور عوام کی توہین ہے۔قوم اب وہ نہیں رہی جو ماضی میں ہر فریب پر یقین کر لیتی تھی۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے، معلومات عام ہیں اور شعور کی سطح بلند ہو چکی ہے۔قومی حکومت کا نعرہ ایک ایسا سیاسی افسانہ ہے جسے ہر بار نئے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر اب وقت ہے کہ قوم اس سراب کو پہچانے اور مطالبہ کرے کہ فیصلے صرف بیلٹ باکس کے ذریعے ہوں نہ کہ بریف کیس، اسٹیبلشمنٹ یا کسی ’’سیاسی لیبارٹری‘‘کے ذریعے۔ پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف آئینی جمہوری اور شفاف سیاسی عمل سے جڑا ہے۔ کوئی قومی حکومت، کوئی انجینئرنگ، کوئی مصنوعی بندوبست اس قوم کو پائیدار ترقی کی طرف نہیں لے جا سکتا۔شفافیت ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے قومیں بنتی ہیں، سنبھلتی ہیں اور آگے بڑھتی ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان کا قومی حکومت حکومت کا کے ذریعے ہیں اور کیا یہ

پڑھیں:

بانی پی ٹی آئی کے بچے والد سے ملاقات کیلیے پاکستان آنا چاہتے ہیں تو کوئی اعتراض نہیں، وزیر مملکت

وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک  نے کہا ہے کہ بانی  پی ٹی آئی کے بیٹے والد سے ملنے  یا سیاحت کیلیے پاکستان آنا چاہتے ہیں تو انہیں اجازت ہے تاہم سیاسی  انتشار کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

 وزیر مملکت برائے قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے بیٹے برطانوی شہری ہیں،وہ پچھلی دفعہ بھی آئے تو پاکستان کا ویزہ  لے کر آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بھی کسی بیرون ملک جا کر حکومت کیخلاف سیاسی  احتجاج نہیں کر سکتے، آئین ہے  جو  بھی پاکستان کی شہریت رکھتا ہو وہ پر امن احتجاج کر سکتا ہے، یہ حق صرف پاکستانی شہری کے لیے  ہے، ہر فرد کے لیے نہیں ہے ۔

بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ کسی کو یہ اجازت  نہیں  دی جا سکتی کہ  وہ بیرون ملک سے آئے اور سیاسی تحریک یا سرگرمیوں میں حصہ لے، پی ٹی آئی والے احتجاج کی آڑ میں  انتشار پھیلاتے ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان تمام غیر ملکی شہریوں کو خوش آمدید اور اُن کا خیر مقدم کرتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو کاروبار یا سیاحت کلیے آتے ہیں تاہم کوئی بھی غیر ملکی سیاسی  سرگرمی کے لیے نہیں آسکتا۔

انہوں نے کہا کہ کچھ ویزہ کنڈیشنز ہوتی ہیں ، جس کے تحت  کوئی ملک  کسی کو مہمان کے طور پر دیکھتا ہے، یہ دنیا بھر میں ہے کہ غیر ملکی ویزہ  میں عائد پابندیوں کا خیال کرے ،یہ نہیں ہو سکتا کہ میں سیاح و تفریح کا ویزہ لوں اور سیاسی   کارروائیوں کا حصہ بنوں۔

رہنما ن لیگ  بیرسٹر  عقیل ملک نے کہا کہ  کیس یہ نہیں ہے کہ وہ بانی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، اگر والد مشکلات میں ہیں تو بانی کے بیٹے دو تین سال  سے کیوں نہیں آئے؟ ،دو  تین سال بعد  انہیں یاد آیا کہ وہ ہمارے والد ہیں، والد سے ملنے کی خواہش سیاسی چال ہے۔  

انہوں نے  کہا کہ علیمہ خان نے بانی کے بیٹوں کو یہ تجویز  دی ہے ، بانی کے  بیٹے پاکستان آنے سے پہلے امریکا کیوں جا رہے ہیں؟ ۔  ان کا کہنا تھا کہ بانی  کے بیٹے والد سے ملنے پاکستان  آنا چاہتے ہیں تو آ سکتے ہیں، والد سے ملنے کی اجازت ہے لیکن سیاسی  انتشار کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔

پیپلز پارٹی  کے ساتھ معاملات سے متعلق  سوال کا  جواب دیتے ہوئے  بیرسٹر عقیل نے واضح کیا کہ ہم نے اپنا سفر پیپلز پارٹی کے ساتھ شروع کیا  اور اسی کے ساتھ ہی ختم کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • تبدیلی پی ٹی آئی کے اندر سے آنی چاہیے، فضل الرحمان نے علی امین گنڈاپور حکومت کا تختہ الٹنے کی تجویز دیدی
  • پاک بھارت فوجی سیز فائر بھارتی سیاسی قیادت کو ہٖضم نہیں ہورہا ‘ اسحق ڈار
  • حکومت مضبوط بے شک نہ ہو لیکن مضبوط ہاتھوں میں ہے، ڈاکٹر رسول بخش رئیس
  • عمران خان کے بیٹوں کی پاکستان آمد اور سیاسی شمولیت کا معاملہ غیر یقینی صورتحال کا شکار
  • بھارت نے خود سیز فائر کی درخواست کی مگر اس کی سیاسی قیادت کو سیز فائر ہضم نہیں ہورہا.اسحاق ڈار
  • بھارت کے ساتھ ملٹری سیز فائر بھارتی سیاسی قیادت سے ہضم نہیں ہو رہا، اسحاق ڈار
  • سیاسی خلفشار
  • بانی پی ٹی آئی کے بچے والد سے ملاقات کیلیے پاکستان آنا چاہتے ہیں تو کوئی اعتراض نہیں، وزیر مملکت
  • عمران خان کے بچوں کو سیاسی سرگرمیوں سے  کوئی نہیں روکے گا، سینیٹر عرفان صدیقی