Daily Ausaf:
2025-09-19@01:44:17 GMT

سیاسی لیبارٹری

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

کبھی کبھی سیاست کے صحرا میں جب دھوپ تیز ہو جائے منظر دھندلا جائے اور امیدیں سوکھنے لگیں تو کچھ آوازیں ابھرتی ہیں کچھ نعرے گونجنے لگتے ہیں۔ ایسے نعرے جو برسوں سے سننے کو ملتے رہے ہیں اور جن کا انجام کبھی سچائی تک نہیں پہنچا۔ ان ہی میں سے ایک نعرہ ہے قومی حکومت۔یہ نعرہ کچھ ایسا ہے جیسے ریت میں پانی کی جھلک جو دور سے سیرابی کا وعدہ کرے مگر قریب جا کر فقط سراب نکلے۔میں نے سیاست کو صرف اخباروں کے صفحات یا ٹی وی کی سکرین پر نہیں دیکھا۔ میں نے اسے اپنی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھتے، بگڑتے، سنورتے اور پھر بکھرتے دیکھا ہے۔ ضیاالحق کے عہدِ اقتدار سے لے کر آج کے سیاسی بیانیوں تک میں اس ملک کے ہر نشیب و فراز کا گواہ رہا ہوں۔میرے لڑکپن کا زمانہ تھا۔ راولپنڈی کی سڑکیں، عسکری گاڑیوں کی دھمک اور قومی سلامتی کے نعرے ہر طرف سنائی دیتے تھے۔ جنرل محمد ضیا الحق کا دور تھا۔ ریاست کا ہر شعبہ وردی کی چھتری تلے پنپ رہا تھا۔ مذہب کو سیاست کا جزو بنایا جا رہا تھا اور احتساب کو منتخب سیاست دانوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ضیا الحق نے کبھی قومی حکومت کا اعلان نہیں کیا مگر ان کی حکومت ہی ایسی تھی جس میں منتخب چہرے محض ایک جمہوری چادر کے نیچے بٹھا دیے گئے تھے۔ وزارتیں دی جا رہی تھیں مگر اختیار کہیں اور تھا۔ یہ تجربہ قوم نے انیس سو ستتر سے لے کر گیارہ سال تک برداشت کیا یہاں تک کہ میں ایک فضائی حادثے نے اس باب کو بند کر دیا۔پھر بی بی آئی، بے نظیر بھٹو۔ ان کے چہرے پر سیاسی بلوغت کی جھلک، والد کی جدوجہد کا عکس اور جمہوریت کی امید جھلکتی تھی۔ مگر طاقت کے ایوان انہیں مکمل اختیار دینے کو تیار نہ تھے۔ کبھی صدر غلام اسحاق خان کبھی عدلیہ اور کبھی عسکری اشرافیہ سب نے اس جمہوریت کو ناپختہ رکھنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔پھر میاں نواز شریف آئے۔ بینظیر گئیں، پھر آئیں، پھر گئیں۔ اور یوں دو دہائیاں گزر گئیں۔ کبھی اقتدار میں ایک پارٹی تو کبھی دوسری۔ عوام کا حال وہی، غربت وہی، وعدے وہی مگر چہرے بدلتے رہے۔
انیسویں صدی کے آخری سال کے آخر یعنی اکتوبر میں تاریخ نے خود کو ایک بار پھر دہرایا۔ جنرل پرویز مشرف نے آئین کو پامال کیا اور مارشل لا کی نئی چادر اوڑھ لی۔ مگر اس بار چادر پر اصلاحات، ترقی ، احتساب کے موتی چمک رہے تھے۔بیسویں صدی یعنی سال میں سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ دے قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی۔ پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو ابتدائی دنوں میں قومی حکومت کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ کہا گیا کہ اب سب جماعتوں کو ملا کر ایک ہم آہنگ حکومت بنائی جائے گی جو سیاست سے گند صاف کرے گی۔ قاف لیگ کی صورت میں ایک نئی سیاسی قوت تراشی گئی جسے ’’قومی مفاد‘‘کے نام پر میدان میں اتارا گیا۔اس وقت بھی سنا کہ چار سو کرپٹ افراد کی لسٹیں تیار ہیں۔ یہ لوگ ملک کو لوٹ چکے ہیں اب نیا پاکستان بنے گا۔ مگر پھر وہی پرانے چہرے نئی جماعتوں میں شامل ہو کر حکومت کا حصہ بن گئے۔ عوام کا مقدر وہی رہا۔ مایوسی، غربت، بے روزگاری۔سال میں تحریک انصاف نے مینار پاکستان پر ایک تاریخی جلسہ کیا۔ عمران خان نے تقریر کی، وعدے کیے اور عوام کو ایک نیا خواب دکھایا۔ احتساب، انصاف، قرضوں سے نجات باوقار خارجہ پالیسی ۔ سب کچھ سن کر لگا کہ اب شاید واقعی ایک نیا پاکستان بنے گا۔پھر نواز شریف کو پانامہ کی فرضی کاغذی رپورٹوں اور عدالتی فیصلوں کے ذریعے نااہل کیا گیا۔ بیانیہ بنایا گیا کہ چوروں سے نجات چاہیے۔ پوری دنیا کے میڈیا پر پیسے کے بل بوتے پر نواز شریف کے نام کے ساتھ چور کے لفظ کی تشہیر کروائی گئی۔ چند بکائو یوٹیوبرز کے ذریعے ایک بیانیہ بنایا گیا اور عمران خان کو لاڈلا قرار دیا گیا۔
2018 ء کے انتخابات میں انجینئرنگ کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا۔ ایک نئی حکومت بنائی گئی جس کا دعوی تھا کہ وہ اسٹیٹس کو کو توڑے گی۔ ایک نعرہ تھا نیا پاکستان۔مگر تین سال کے اندر اندر حالات ایسے ہو گئے کہ ملکی وجود ہی خطرے میں پڑ گیا۔ تحریک انصاف کے دور میں پاکستان کا کرپشن انڈیکس آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا، ادارے کمزور ہوئے، میڈیا دبایا گیا، عدلیہ تقسیم ہوئی اور معیشت زمین بوس ہو گئی۔ مہنگائی آسمان پر اور سچائی جیلوں میں قید ہو گئی۔پارلیمنٹ میں ایسے لوگ بٹھائے گئے جنہیں سیاست کا ’’س‘‘بھی نہیں آتا تھا۔ فٹ پاتھ پر پیدل گھومنے والے اقتدار کے ایوانوں میں گھومنے لگے، سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر آنے والے لینڈ کروزرز میں پھرنے لگے۔ تین سال میں پاکستان کا قرضہ اتنا بڑھا دیا گیا کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اضافہ ریکارڈ پر آیا۔پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ پھر ایک بار پھر آوازیں آئیں کہ قومی حکومت بنا دی جائے اور عمران خان کو اگلے دس سال کے لئے صدر بنا دیا جائے۔یہ نعرہ کوئی نیا نہیں۔ ہر آمر، ہر کمزور حکومت اور ہر انجینئرنگ کے ماہر نے اس نعرے کو آزمایا ہے۔ اس کے پیچھے دلیل یہی دی جاتی ہے کہ ملک بحران میں ہے لہٰذا اب تمام جماعتوں کو ملا کر ایک غیر جماعتی حکومت بنائی جائے۔لیکن ہم پوچھتے ہیں کب، کہاں، اور کس آئینی شق میں قومی حکومت کا ذکر ہے؟ کیا یہ عوامی مینڈیٹ کا انکار نہیں؟ کیا یہ جمہوریت کی نفی نہیں؟ اور کیا یہ اصل مسئلوں سے توجہ ہٹانے کا ایک اور حربہ نہیں؟ ہم نے دیکھا ہے کیسے مخصوص صحافیوں، تجزیہ کاروں اور کالم نگاروں کو استعمال کر کے رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے۔ ایک بیانیہ تیار ہوتا ہے اور پھر اسے میڈیا کے ذریعے عوام پر تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ پاکستان میں نگران حکومتوں کا تصور آئینی طور پر موجود ہے جن کا کام صرف اور صرف منصفانہ انتخابات کرانا ہے۔ ان کا دائرہ محدود اور مدت مختصر ہوتی ہے۔ مگر جو کچھ بار بار قومی حکومت کے نام پر بیچا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک بے آئین، غیر قانونی اور غیر نمائندہ تجربہ ہوتا ہے۔ملک کو چلانے کے لیے صرف نیک نیتی کافی نہیں بلکہ آئینی دائرہ، عوامی مینڈیٹ اور شفاف نظام بھی ضروری ہے۔
قومی حکومت کی آڑ میں جب بھی جمہوریت کا گلا گھونٹا گیا نتیجہ مزید ابتری کی صورت میں نکلا۔آج کی اتحادی حکومت جس نے 2024ء میں اقتدار سنبھالا، اپنی آئینی مدت 2029ء میں مکمل کرے گی۔ اس دوران اگر کارکردگی اچھی ہو گی تو عوام دوبارہ ووٹ دیں گے اور اگر نہ ہو گی تو عوام کا فیصلہ مختلف ہو گا۔ یہی جمہوریت ہے یہی آئینی عمل۔مگر اگر کسی کو لگتا ہے کہ پانچ چھ افراد بیٹھ کر فیصلے کریں، سب سیاسی جماعتوں کو بائی پاس کر کے اقتدار سنبھال لیں تو یہ خیال آج کے باشعور عوام کی توہین ہے۔قوم اب وہ نہیں رہی جو ماضی میں ہر فریب پر یقین کر لیتی تھی۔ اب سوشل میڈیا کا دور ہے، معلومات عام ہیں اور شعور کی سطح بلند ہو چکی ہے۔قومی حکومت کا نعرہ ایک ایسا سیاسی افسانہ ہے جسے ہر بار نئے غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ مگر اب وقت ہے کہ قوم اس سراب کو پہچانے اور مطالبہ کرے کہ فیصلے صرف بیلٹ باکس کے ذریعے ہوں نہ کہ بریف کیس، اسٹیبلشمنٹ یا کسی ’’سیاسی لیبارٹری‘‘کے ذریعے۔ پاکستان کا مستقبل صرف اور صرف آئینی جمہوری اور شفاف سیاسی عمل سے جڑا ہے۔ کوئی قومی حکومت، کوئی انجینئرنگ، کوئی مصنوعی بندوبست اس قوم کو پائیدار ترقی کی طرف نہیں لے جا سکتا۔شفافیت ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے قومیں بنتی ہیں، سنبھلتی ہیں اور آگے بڑھتی ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پاکستان کا قومی حکومت حکومت کا کے ذریعے ہیں اور کیا یہ

پڑھیں:

جمہوریت کو درپیش چیلنجز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان میں سیاست، جمہوریت اور نظام کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ آج پاکستان کے داخلی اور خارجی محاذ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ 15 ستمبر کو پوری دنیا میں عالمی یوم جمہوریت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ جمہوری ریاستیں اپنے اپنے ملک میں پہلے سے موجود جمہوریت کو نہ صرف اور زیادہ مضبوط کریں بلکہ اس نظام کو عوام کے مفادات کے تابع کر کے اس کی ساکھ کو بہتر بنائیں۔ اگرچہ دنیا کے نظاموں میں جمہوریت کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے۔ لیکن آج کی جدید ریاستوں میں جو بھی نظام ریاست کو چلارہے ہیں ان میں جمہوری نظام ہی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جمہوریت کے مقابلے میں بادشاہت اور آمریت کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت نہیں دیتے بالخصوص سیاسی اور جمہوری آزادیوں کو کسی بھی سطح پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اب جب دنیا بھر میں عالمی یوم جمہوریت منایا گیا ہے ایسے میں پاکستان میں حقیقی جمہوریت ہم سے کافی دور کھڑی نظر آتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ نظام جمہوری کم اور ایک ہائبرڈ یا مرکزیت پر کھڑا نظام ہے جہاں غیر جمہوری حکمرانی کا رواج ہے۔ پس پردہ طاقتوں کو فوقیت حاصل ہے اور عملی طور پر نظام بڑی طاقتوں کے تابع نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارا جمہوری نظام طاقتوروں خوشنودی دی اور سیاسی مفادات کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ اس نظام میں عام آدمی کی حیثیت محض ایک نماشائی کی ہے۔ جمہوری نظام کی بنیادی خصوصیت شفاف انتخابات کا عمل ہے جہاں لوگ اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں شفاف انتخابات محض ایک خواب لگتا ہے۔ یہاں انتخابات کے نام پر سلیکشن ہوتی ہے اور اشرافیہ اپنی مرضی اور مفادات کے تابع حکمرانوں کا چناؤ کرتی ہے۔ اسی لیے ہمارا انتخابی نظام عوامی تائید و حمایت سے محروم نظر آتا ہے۔ عمومی طور پر کہا جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور جمہوری عمل کا تسلسل جمہوریت کو زیادہ مستحکم کرنے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن پاکستان کی کہانی مختلف ہے، یہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت اپنی افادیت کھوتی جا رہی ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک ہائبرڈ طرز کا جمہوری نظام ہے جہاں غیر جمہوری قوتیں اصل اختیارات کی مالک ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عملاً اس ملک میں جمہوری نظام سکڑ رہا ہے اور جمہوریت کو پاکستان میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ جمہوری طرز حکمرانی میں آزاد عدلیہ، میڈیا کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، مضبوط سیاسی جماعتیں، آئین اور قانون کے تابع انتظامی ڈھانچہ اور سول سوسائٹی کی موجودگی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام سیاسی اور جمہوری ادارے یا آئینی ادارے کمزور ہو رہے ہیں یا ان کو جان بوجھ کر کمزور اور مفلوج بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح جمہوری نظام میں اچھی حکمرانی کا نظام عام آدمی کے مفادات کے تابع ہوتا ہے اور لوگ اس نظام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن آج اس جدید دور میں ہمارا ایک بڑا بحران تسلسل کے ساتھ گورننس کی ناکامی کا ہے۔ جس نے ہمیں قانون کی حکمرانی سے بھی بہت دور کر دیا ہے۔ انسانی حقوق کے تقدس کا خیال کرنے کے بجائے طاقت کے زور پر انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے اور متبادل آوازوں کو دبانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ طاقت کے استعمال کی حکمت عملی نے لوگوں کو ریاست اور حکومت کے خلاف کر دیا ہے۔ لوگ کو لگتا ہے کہ یہ نام نہاد جمہوری نظام ہمارے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ جمہوریت میں متبادل آوازوں کو سنا جاتا ہے اور ان کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن یہاں متبادل آوازوں کو دشمنی کے طور پر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چیلنج کرتے ہیں ان کودشمن سمجھا جاتا ہے۔ یہ سوچ اور فکر لوگوں کو جمہوریت کے قریب لانے کے بجائے ان کو اس نظام سے دور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ مسئلہ محض ریاست اور حکمرانی کے نظام کا ہی نہیں بلکہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں کی ناکامی کا بھی ہے۔ سیاسی جماعتوں اور پس پردہ طاقتوں کے باہمی گٹھ جوڑ نے بھی جمہوری نظام کو داخلی محاذ پر بہت زیادہ کمزور کر دیا ہے۔ اس وقت بھی ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نمایاں ہیں۔ وہ غیر سیاسی طاقتوں کی سہولت کاری کی بنیاد پر حکومت میں ہیں۔ سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ عوام کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اصل حیثیت پس پردہ طاقتوں کی ہے اور انہی کی مدد اور مہربانی سے وہ اقتدار کا حصہ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط بنانے کے بجائے پس پردہ طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنانے پر توجہ دیتی ہیں۔ اس وقت بھی حکومت میں شامل بہت سے وزرا پس پردہ طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہائبرڈ نظام کی حمایت کر رہے ہیں اور ان کے بقول پاکستان کی سیاسی بقا اسی ہائبرڈ نظام کے ساتھ وابستہ ہے اور اسی کے تحت ہمیں جمہوری نظام کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ملک میں سیاسی انتہا پسندی یا مذہبی انتہا پسندی کا غلبہ ہے اس کی وجہ بھی جمہوری نظام سے دوری ہے۔ کیونکہ آپ جب طاقت کی بنیاد پر نظام چلائیں گے تو اس سے انتہا پسندی اور پرتشدد رجحانات کو تقویت ملتی ہے۔ اس ملک میں مارشل لا ہو یا جمہوریت یا ہائبرڈ طرزِ حکمرانی یہ ماڈل ہمیں ترقی کی طرف نہیں لے جا سکے گا۔ ماضی میں یہ تمام تجربات ناکام ہوئے ہیں اور ہمیں اپنی سابقہ اور موجودہ ناکامیوں سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے۔ اس ملک مسائل کا واحد حل آئین اور قانون اور جمہوری طرز عمل کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ پس پردہ قوتوں کو بھی یہ بات سمجھنی ہوگی ہم تضادات کی بنیاد پر اس ملک کو نہیں چلا سکیں گے۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم اپنی سیاسی ترجیحات کا ازسر نو تعین کریں اور جمہوری نظام کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ جمہوری نظام بنیادی طور پر کمزور افراد کی آواز ہوتا ہے اور کمزور افراد اس نظام کو اپنی سیاسی طاقت سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر ہمیں جمہوریت کے نام پر عام آدمی کا استحصال کرنا ہے یا اسے کمزور رکھنا ہے تو اسے کوئی بھی جمہوری نظام ماننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ پاکستان میں جمہوری نظام کی ناکامی میں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں اور سب کو اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوں گے۔ اس لیے اس کے موقع پر ہمیں اس عزم کا اظہار کرنا چاہیے کہ ہم اپنی اپنی سطح پر جمہوریت کے حق میں آواز اٹھائیں گے اور طاقتوروں پر زور دیں گے ریاست اور حکمرانی کے نظام کو چلانے کے لیے جمہوریت ہی کو اپنی طاقت بنایا جائے۔ پاکستان میں جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہوگی جب سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت جمہوری بنیادوں پر نہ صرف خود آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی بلکہ دوسروں کو بھی جمہوری خطوط پر استوار کریں گی۔ یہ عمل مسلسل جدوجہد کا نام ہے اور یہ کام سیاسی اور قانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے ایک بڑی مزاحمت کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بات سمجھنی ہوگی کہ آج دنیا بھر میں جب جمہوریت اور جمہوری نظام کی درجہ بندی کی جاتی ہے تو ہم دنیا کی فہرست میں بہت پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور ہماری اجتماعی ناکامی کا حصہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جامعات کی خود مختاری پر سیاسی کنٹرول
  • اڑان پاکستان کے تحت ٹیکنالوجی میں مہارت ہمارا ہدف ہے، احسن اقبال
  • تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے شہبازشریف حکومت کی خارجہ پالیسی کی تعریف کردی
  • پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تاریخی دفاعی معاہدہ، بھارت کا ردعمل بھی سامنے آگیا
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • 375 ٹریلین کی بے ضابطگیوں کی رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کی سازش قرار
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • بھارت کا رویہ غیر ذمہ دارانہ، دو قومی نظریئے کی اہمیت مزید بڑھ گئی: عطا تارڑ
  • اسرائیلی خاتون وزیر کی مشیر کے گھر سے منشیات بنانے کی لیبارٹری برآمد
  • ریاست کے خلاف کوئی جہاد نہیں ہو سکتا، پیغام پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے ،عطاء تارڑ