Express News:
2025-07-11@02:36:10 GMT

سیاسی خلفشار

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

وطن عزیز کو ان دنوں سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی سے لے کر فتنہ الہندوستان تک اور آپریشن بنیان المرصوص کی کامیابی پر بھارت کے بیرونی حمایت کے بودے، بے بنیاد اور جھوٹے الزامات سے لے کر مودی سرکار کے پاکستان کے خلاف دوبارہ امکانی جارحیت تک وطن عزیز کو جو بیرونی چیلنجز درپیش ہیں وہ ہر لحاظ سے سنجیدہ توجہ کے طالب اور غیر معمولی اقدامات کے متقاضی ہیں۔

اسی پس منظر میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے بڑے واضح اور واشگاف الفاظ میں مودی سرکار کو خبردار کیا ہے کہ اگر ہماری آبادیوں، فوجی اڈوں، اقتصادی مراکز اور بندرگاہوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تو انتہائی شدید، گہرا، تکلیف دہ اور سوچ سے بڑھ کر سخت ترین جواب دیا جائے گا۔

فیلڈ مارشل نے آپریشن بنیان المرصوص کی کامیابی پر بھارت کی جانب سے بیرونی حمایت جیسے بودے، من گھڑت اور گھٹیا الزامات کو بے بنیاد، غیر ذمے دارانہ قرار دیتے ہوئے حقائق کے منافی ٹھہرایا۔ انھوں نے جنگ میں کامیابی کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ جنگیں میڈیا کی بیان بازی، درآمد شدہ فینسی ساز و سامان یا سیاسی نعرے بازی سے نہیں جیتی جاتیں بلکہ جنگیں تو یقین محکم، پیشہ وارانہ قابلیت، آپریشنل شفافیت، اداروں کی مضبوطی اور قومی عزم و حوصلے سے جیتی جاتی ہیں۔ جیساکہ پاکستان نے بھارت کے خلاف فتح حاصل کرکے ثابت کیا۔

درحقیقت بھارت اپنے نام نہاد آپریشن سندور کے ذریعے مقررہ اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا، الٹا اسے جانی و حربی نقصانات اٹھانا پڑے۔ اب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق بھارت اپنے دروغ گو میڈیا کے ذریعے اپنی جھوٹی برتری کے قصیدے پڑھنے کے پہلو بہ پہلو پاکستان پر دوبارہ جارحیت کے تانے بانے بن رہا ہے۔

ساتھ ہی پاکستان کی فتح کو متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا اور عالمی برادری پوری طرح بھارت کے خلاف پاکستان کی کامیابی کو کھلے دل سے تسلیم کر رہی ہے۔ بس یہی بات بھارتی حکومت اور اس کے میڈیا کے لیے تکلیف دہ اور ناقابل قبول ہے۔ مودی سرکار اپنی خفت مٹانے کے لیے من گھڑت الزامات کا پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے پاک فوج اپنی قوت ایمانی، حربی صلاحیتوں اور پیشہ وارانہ مہارت سے بھارت کی آیندہ جارحیت کا ایسا دندان شکن جواب دے گی کہ اس کے تکبر و غرور کا سندور ہزیمت اور شرم و ندامت کے تندور میں جل کر راکھ ہو جائے گا۔

اندرون وطن پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ اور چیلنج دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ فتنہ الخوارج افغانستان کے راستے پاک سرزمین کو دہشت گردی سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان نے افغان حکومت سے اعلیٰ ترین سطح پر بارہا یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ ابھی چار روز پیشتر اسلام آباد میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات کے پہلے دور میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کی جانب سے یہ مطالبہ دہرایا گیا ہے کہ افغان دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات کرے تاکہ پاکستان میں قیام امن کی راہ ہموار ہو سکے۔ کیوں بڑھتی ہوئی دہشت گردی علاقائی امن کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے جس کے تدارک کے بغیر خطے میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

اندرونی محاذ پر دوسرا بڑا چیلنج معاشی اور سیاسی استحکام کے تسلسل کا فقدان ہے۔ بجا کہ شہباز حکومت کے بعض معاشی اقدامات سے پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر آ گیا ہے لیکن حکومت کے معاشی استحکام کے دعوؤں پر معاشی ماہرین سوالات اٹھا رہے ہیں جن میں موجود وزن کو کلیتاً نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ قومی معیشت قرضوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کے قرضے ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں اور تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔

مئی 2025 تک مرکزی حکومت کے قرضے ریکارڈ 75 ہزار 45 ارب روپے ہو گئے ہیں۔ قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت کو مستحکم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس پہ مستزاد قرضوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہو تو پھر معاشی استحکام کا دعویٰ دیوانے کا خواب ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بعینہ سیاسی حوالے سے بھی موجودہ ’’ہائبرڈ نظام‘‘ ہچکولے کھاتا نظر آ رہا ہے۔ خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں کہ صدر زرداری اور وزیر اعظم شہباز کی جگہ ’’اوپر‘‘ سے کسی نئے چہرے کو سامنے لانے کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔

یہ خبر بھی گرم ہو رہی ہے کہ میاں نواز شریف بانی پی ٹی آئی سے ملنے اڈیالہ جانے والے ہیں۔ بظاہر مذکورہ خبروں میں صداقت کا کوئی عنصر غالب نظر نہیں آتا، محض قیاس آرائیاں اور افواہیں ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی محرم کے بعد تحریک چلانے اور کے پی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی خبریں اس پہ مستزاد پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 26 ارکان کے خلاف ریفرنس کی اطلاعات سے سیاسی اضطراب اور بے چینی کو دوآتشہ کر رہی ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اندرونی و بیرونی محاذوں پر وطن دشمن قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی اختلافات، سیاسی خلفشار اور عوامی سطح پر پائی جانے والی بے یقینی و اضطراب کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حکومت کے کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

پاکستانی سیاست اور مہنگائی

پاکستانی سیاست پر اس وقت ابہام اور افواہوں کا راج ہے۔ حکومتی ایوانوں میں اندرونی خلفشار کی افواہیں، سیاسی لیڈروں کی مبہم باتیں اور یوٹیوبرز کی بغیر ثبوت باتیں، سیاسی موسم کو ترو تازہ رکھے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کا عفریت بے قابو ہے جس نے ہر پاکستانی کی زندگی اجیرن کر دی ہے، حکومت کے مثبت اقدامات بھی وہ ثمرات نہیں دے پا رہے جن کی توقع کی جارہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پر گہری نظر ڈالیں تو کئی ایسے عوامل ہیں جو بحث و مباحث کا باعث بن رہے ہیں۔

اپوزیشن کی ناراضگی برقرار ہے اور وہ موجودہ حکومت کو اپنی ترجمان حکومت نہیں سمجھتے۔ اگرچہ پاک بھارت جنگ کے بعد افواج پاکستان کی حمایت میں قوم متحد نظر آئی ہے لیکن حکومت سے ا پوزیشن کی ناراضگی واضح ہے۔ اس ناراضگی کا حکومت کو بخوبی علم ہے اور اس ناراضگی کا تدارک کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس وقت عوام کی سب سے بڑی پریشانی مہنگائی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات سے لے کر روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔

حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں جن میں سبسڈی دینا، درآمدات کو منظم کرنا اور مالیاتی پالیسیوں میں تبدیلیاں شامل ہیں۔ تاہم ان اقدامات کے ثمرات ابھی تک عوام تک واضح طور پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا براہ راست اثر عوام کی قوت خرید پر پڑ رہا ہے۔ جب تک عوام کو اپنی زندگی میں بہتری محسوس نہیں ہوگی حکومت کے حق میں عوامی رائے سازی مشکل ہی رہے گی۔

حکومت اور اس کے اتحادیوں کے درمیان کھینچا تانی اور بعض اوقات پالیسیوں پر غیر یقینی کی کیفیت یہ سب حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ عوام ایسے حکمرانوں پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں جو متحد ہوں جن کی پالیسیاں واضح ہوں اور جو ایک سمت میں ملک کو لے کر چل رہے ہوں۔ جب حکومتی ایوانوں میں ہی بے چینی اور عدم اطمینان کا تاثر ابھرتا ہے تو لا محالہ اس کا اثر عوامی تاثر پر بھی پڑتا ہے۔

حکومتی اتحادی وقتاً فوقتاً حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کر کے اپنی ناراضی کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن پھر کوئی بڑا بیچ میں پڑ جاتا ہے اور یہ ناراضگی وقتی طور پر دور ہو جاتی ہے گو کہ حکومت کو مقتدرہ کی بھر پور حمائیت حاصل ہے لیکن حکومت کو اپنی رٹ مضبوط بنانے اور عوامی تاثر بہتر بنانے کے لیے از خود کام کرنا ہے، سیاسی میدان میں سیاست دان ہی کھیلتے اچھے لگتے ہیں اور سیاست دانوں کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ انھوں نے ایک لمبی اننگز کھیلنی ہوتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہوں۔

پاکستانی سیاست میں اپوزیشن کا کردار بھی حکومت کی عوامی پذیرائی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اگر اپوزیشن مضبوط اور متحرک ہو تو وہ حکومتی کمزوریوں کو اجاگر کرتی ہے اور عوام کو متبادل فراہم کرتی ہے۔ اس وقت پاکستانی سیاست میں ایک شدید تناؤ کی کیفیت ہے جس میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے ۔اسمبلیوں میں اپوزیشن اراکین کی آواز کو دبانے کے لیے جو حربے استعمال کیے جارہے ہیں، وہ جمہوریت کے پنپنے سے زیادہ جمہوریت کو کمزور کررہے ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کی معطلی اور بعد ازاں ان کی رکنیت کے خاتمے کے لیے اسپیکر کا الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا معاملات کو مزید تلخ بنا رہا ہے ۔حکومتی عہدیداروں کو وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے ساتھ مکالمے کے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں، یہی عمل ملک اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں ہے ۔ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ سیاسی تاریخ میں کوئی بھی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت مکمل نہیں پایا۔ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے اس کی حکومت کو ختم کر دیا گیا یا اسے حکومت سے الگ کر دیا گیا۔ اسلام آباد کے اقتدار کے ایوانوں کی غلام گردشوں میں کیا کچھ نیا ہونے والا ہے یا یہ صرف افواہیں ہی ہیں لیکن سیانے کہتے ہیں کہ ہر افواہ کے پس پردہ کچھ نہ کچھ حقیقت ضرور ہوتی ہے ۔ اسلام آباد کا موسم گو کہ حبس زدہ ہے لیکن ابھی تک سیاسی موسم میں اتنی حبس عود نہیں کر آئی کہ یہ حبس زدہ موسم حکومت کی سانس ہی بند کر دے ۔ البتہ ایک واضح بے چینی دیکھنے سننے میںضرور آرہی ہے ۔

معلوم نہیں کہ مملکت پاکستان کا موسم کب خوشگوار ہو گا جس میں عوام اور حکمران چین کی بانسری بجائیں گے ۔ پاکستان کی سیاست کو اس نہج پر لے جانا جہاں استحکام اور عوامی فلاح کا راج ہو ایک مشکل لیکن ضروری کام ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب حکومت، اپوزیشن اور تمام اسٹیک ہولڈرز ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو ذاتی اور سیاسی مفادات پر ترجیح دیں۔ بصورت دیگر بے یقینی کا یہ بھنور ملکی ترقی اور جمہوریت کے بقاء کے لیے مزید چیلنجز پیدا کرتا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • غیر ریاستی عناصر کے خلاف مشترکہ چیلنج
  • بھارتی حمایت یافتہ دہشتگرد پراکسیز کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ناگزیر ہے، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس، بھارت اسپانسرڈ دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات پر زور
  • بھارت کا ایشین کرکٹ کونسل کے اجلاس میں شرکت سے انکار
  • بھارت کا ڈھاکا میں اے سی سی میٹنگ پر اعتراض، آخر انڈیا چاہتا کیا ہے؟
  • بھارت نے ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشتگردی کو پاکستان کے خلاف پالیسی کے طور پر اپنایا ہوا ہے، ترجمان پاک فوج
  • پاکستانی سیاست اور مہنگائی
  • بنگلہ دیش: انقلاب کے بعد پاکستان اور چین کی طرف جھکاؤ، بھارت سے تناؤ
  • عمران خان سزا یافتہ مجرم ہیں‘کوئی سیاسی مقدمہ نہیں‘احسن اقبال