Express News:
2025-11-03@16:30:32 GMT

سیاسی خلفشار

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

وطن عزیز کو ان دنوں سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی سے لے کر فتنہ الہندوستان تک اور آپریشن بنیان المرصوص کی کامیابی پر بھارت کے بیرونی حمایت کے بودے، بے بنیاد اور جھوٹے الزامات سے لے کر مودی سرکار کے پاکستان کے خلاف دوبارہ امکانی جارحیت تک وطن عزیز کو جو بیرونی چیلنجز درپیش ہیں وہ ہر لحاظ سے سنجیدہ توجہ کے طالب اور غیر معمولی اقدامات کے متقاضی ہیں۔

اسی پس منظر میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے بڑے واضح اور واشگاف الفاظ میں مودی سرکار کو خبردار کیا ہے کہ اگر ہماری آبادیوں، فوجی اڈوں، اقتصادی مراکز اور بندرگاہوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تو انتہائی شدید، گہرا، تکلیف دہ اور سوچ سے بڑھ کر سخت ترین جواب دیا جائے گا۔

فیلڈ مارشل نے آپریشن بنیان المرصوص کی کامیابی پر بھارت کی جانب سے بیرونی حمایت جیسے بودے، من گھڑت اور گھٹیا الزامات کو بے بنیاد، غیر ذمے دارانہ قرار دیتے ہوئے حقائق کے منافی ٹھہرایا۔ انھوں نے جنگ میں کامیابی کا راز بتاتے ہوئے کہا کہ جنگیں میڈیا کی بیان بازی، درآمد شدہ فینسی ساز و سامان یا سیاسی نعرے بازی سے نہیں جیتی جاتیں بلکہ جنگیں تو یقین محکم، پیشہ وارانہ قابلیت، آپریشنل شفافیت، اداروں کی مضبوطی اور قومی عزم و حوصلے سے جیتی جاتی ہیں۔ جیساکہ پاکستان نے بھارت کے خلاف فتح حاصل کرکے ثابت کیا۔

درحقیقت بھارت اپنے نام نہاد آپریشن سندور کے ذریعے مقررہ اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا، الٹا اسے جانی و حربی نقصانات اٹھانا پڑے۔ اب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق بھارت اپنے دروغ گو میڈیا کے ذریعے اپنی جھوٹی برتری کے قصیدے پڑھنے کے پہلو بہ پہلو پاکستان پر دوبارہ جارحیت کے تانے بانے بن رہا ہے۔

ساتھ ہی پاکستان کی فتح کو متنازعہ بنانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا اور عالمی برادری پوری طرح بھارت کے خلاف پاکستان کی کامیابی کو کھلے دل سے تسلیم کر رہی ہے۔ بس یہی بات بھارتی حکومت اور اس کے میڈیا کے لیے تکلیف دہ اور ناقابل قبول ہے۔ مودی سرکار اپنی خفت مٹانے کے لیے من گھڑت الزامات کا پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے پاک فوج اپنی قوت ایمانی، حربی صلاحیتوں اور پیشہ وارانہ مہارت سے بھارت کی آیندہ جارحیت کا ایسا دندان شکن جواب دے گی کہ اس کے تکبر و غرور کا سندور ہزیمت اور شرم و ندامت کے تندور میں جل کر راکھ ہو جائے گا۔

اندرون وطن پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ اور چیلنج دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ فتنہ الخوارج افغانستان کے راستے پاک سرزمین کو دہشت گردی سے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ پاکستان نے افغان حکومت سے اعلیٰ ترین سطح پر بارہا یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔ ابھی چار روز پیشتر اسلام آباد میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات کے پہلے دور میں ایک مرتبہ پھر پاکستان کی جانب سے یہ مطالبہ دہرایا گیا ہے کہ افغان دہشت گرد گروپوں کے خلاف ٹھوس عملی اقدامات کرے تاکہ پاکستان میں قیام امن کی راہ ہموار ہو سکے۔ کیوں بڑھتی ہوئی دہشت گردی علاقائی امن کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے جس کے تدارک کے بغیر خطے میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

اندرونی محاذ پر دوسرا بڑا چیلنج معاشی اور سیاسی استحکام کے تسلسل کا فقدان ہے۔ بجا کہ شہباز حکومت کے بعض معاشی اقدامات سے پاکستان ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر آ گیا ہے لیکن حکومت کے معاشی استحکام کے دعوؤں پر معاشی ماہرین سوالات اٹھا رہے ہیں جن میں موجود وزن کو کلیتاً نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ قومی معیشت قرضوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کے قرضے ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں اور تمام سابقہ ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔

مئی 2025 تک مرکزی حکومت کے قرضے ریکارڈ 75 ہزار 45 ارب روپے ہو گئے ہیں۔ قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت کو مستحکم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس پہ مستزاد قرضوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہو تو پھر معاشی استحکام کا دعویٰ دیوانے کا خواب ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ بعینہ سیاسی حوالے سے بھی موجودہ ’’ہائبرڈ نظام‘‘ ہچکولے کھاتا نظر آ رہا ہے۔ خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں کہ صدر زرداری اور وزیر اعظم شہباز کی جگہ ’’اوپر‘‘ سے کسی نئے چہرے کو سامنے لانے کے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔

یہ خبر بھی گرم ہو رہی ہے کہ میاں نواز شریف بانی پی ٹی آئی سے ملنے اڈیالہ جانے والے ہیں۔ بظاہر مذکورہ خبروں میں صداقت کا کوئی عنصر غالب نظر نہیں آتا، محض قیاس آرائیاں اور افواہیں ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کی محرم کے بعد تحریک چلانے اور کے پی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی خبریں اس پہ مستزاد پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 26 ارکان کے خلاف ریفرنس کی اطلاعات سے سیاسی اضطراب اور بے چینی کو دوآتشہ کر رہی ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اندرونی و بیرونی محاذوں پر وطن دشمن قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی اختلافات، سیاسی خلفشار اور عوامی سطح پر پائی جانے والی بے یقینی و اضطراب کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حکومت کے کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن

پیپلز پارٹی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس لیے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے کہ اقتدار پر اقتدار اسے حاصل ہو رہا ہے مگر اس کے مطابق وہ وفاقی حکومت میں شامل نہیں، مگر ملک کے دو بڑے اور دو چھوٹے وفاقی عہدے اور دو صوبوں کی حکومتیں اس کے پاس تو تھیں ہی مگر اس نے حصول اقتدار میں اضافے کے لیے 8 ماہ کی بچی ہوئی آزاد کشمیرکی حکومت بھی حاصل کر لی مگر پھر بھی مطمئن نہیں، کیونکہ اسے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اقتدار میں حصہ نہیں مل رہا۔

صوبہ سندھ میں اس کی واضح اکثریت ہے کہ جہاں اس نے اپنے تمام بڑے لیڈروں کو وزارتوں سے نواز رکھا ہے اور تھوک کے حساب سے سندھ حکومت کے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں بلکہ بعض کو کئی کئی عہدوں اور محکموں سے نواز رکھا ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس نے سکھر کے میئر کو سندھ حکومت کا ترجمان بھی بنا رکھا ہے۔ سندھ حکومت نے پی پی سے باہر صرف ایک عہدہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور کراچی کے سابق ڈپٹی ناظم کو دیا ہے۔ سندھ کی تمام میونسپل کارپوریشنوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ سندھ حکومت نے ان شہروں میں بھی اپنے میئر منتخب کرا رکھے ہیں، جہاں پہلے ایم کیو ایم کے میئر منتخب ہوا کرتے تھے۔

پہلی بار سندھ کابینہ کی تشکیل میں بلاول بھٹو ہی کا اہم کردار ہے مگر نہ جانے کیوں انھوں نے لاڑکانہ ڈویژن کو نظرانداز کیا اور وہاں سے سندھ کابینہ میں کوئی وزیر شامل نہیں کیا۔ مرحوم آغا سراج درانی پیپلز پارٹی کی سندھ کی پانچ حکومتوں میں اہم وزارتوں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر رہے مگر پہلی بار انھیں موجودہ سندھ حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا تھا جن کا تعلق شکارپور ضلع سے تھا اور اس بار آغا سراج پہلی بار کسی عہدے سے محروم رہے اور بلاول بھٹو ان کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے آبائی گھر گڑھی یاسین ضرور گئے ہیں۔

بھٹو صاحب سے بے نظیر بھٹو تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی مختلف سالوں میں تین حکومتیں رہیں مگر پی پی کی سربراہی آصف زرداری کو ملنے کے بعد 2008 سے 2024 تک سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا رہا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور میں نہیں ملی، جتنی آصف زرداری نے دلوائی اور انھوں نے سندھ کے تمام بڑے سرداروں، پیروں اور وڈیروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرا رکھا ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہی ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی اپنے ارکان اسمبلی ان علاقوں سے بھی پہلی بار منتخب کرانے میں کامیاب رہی جہاں سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کامیاب ہوا کرتی تھی۔ اس وقت سندھ کے اقتدار پر پیپلز پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے اور اندرون سندھ تو پی پی کا مکمل گڑھ ہے۔

سندھ کے قریب بلوچستان کا صوبہ ہے جہاں کئی بار پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ رہا۔ بلوچستان سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو ایک جیسی نشستیں ملی تھیں مگر 2024کے (ن) لیگ سے انتخابی معاہدے میں آصف زرداری نے بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا بنوایا اور پنجاب و کے پی کے گورنروں، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر، قومی اسمبلی کے عہدے جو آئینی ہیں پیپلز پارٹی نے حاصل کر رکھے ہیں۔پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کی حمایت ترک کرنے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے بیانات اس لیے آئے دن آتے ہیں کہ پی پی چاہے تو حکومت کی حمایت ترک کر کے (ن) لیگی حکومت ختم کرا سکتی ہے مگر (ن) لیگ پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آئینی عہدہ مسلم لیگ (ن) پی پی سے لے سکتی ہے اور پی پی رہنماؤں کے مطابق دونوں پارٹیوں کا اتحاد مجبوری کا اتحاد ہے جو کسی وجہ سے اب تک قائم ہے مگر مسلم لیگ پر پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے۔

 اس لیے پی پی دھمکیاں بھی دیتی رہتی ہے مگر (ن) لیگ پی پی کو دھمکی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے اس لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے زیادہ بہتر سیاسی پوزیشن میں ہے۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کو دھمکیاں دے کر اپنے کئی مطالبے منوائے ہیں جن میں دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا اہم مسئلہ بھی شامل تھا جو تسلیم نہ کیے جانے سے سندھ میں پی پی کو سیاسی نقصانات پہنچا سکتا تھا۔

پیپلز پارٹی اپنی سیاسی برتری کے باعث اب تک پنجاب میں ہوئے پاور شیئرنگ معاہدے پر (ن) لیگ سے عمل نہیں کرا سکی، کیونکہ (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں برتری حاصل ہے اور وہ پی پی کی محتاج تو نہیں مگر دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدے میں پنجاب حکومت میں پی پی رہنماؤں کو شامل کرنے کا معاہدہ موجود ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا جس پر پی پی رہنما کہتے ہیں کہ اس سے وفاقی حکومت خطرے میں ڈالی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے واضح اکثریت موجود ہے اور وہ اب پیپلز پارٹی کی محتاج نہیں ہے اور بلوچستان حکومت سے الگ ہو کر وہاں پی پی کی حکومت ضرور ختم کرا سکتی ہے مگر 27 ویں ترمیم منظور کرانے کے لیے اسے پی پی کی ضرورت ہے اس لیے بلاول بھٹو مولانا سے ملنے گئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے : عطاء اللہ تارڑ
  • بھارت ابھی تک پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے، عطاء اللہ تارڑ
  • پاک افغان مذاکرات پر بھارت کی پریشانی بڑھنے لگی ہے: وزیر دفاع
  • بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے کوشاں، ہمیں مل کر ٹیکس چوری کے خلاف لڑنا ہوگا، احسن اقبال
  • پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری
  • ’را‘ ایجنٹ کی گرفتاری: بھارت کی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم ناکام
  • دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا
  • تناؤ میں کمی کیلئے پی ٹی آئی کو ایک قدم پیچھے ہٹنا اور حکومت کو ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا، فواد چوہدری
  • یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
  • پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن