بھارتی حمایت یافتہ دہشتگرد پراکسیز کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ناگزیر ہے، فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ بھارتی حمایت یافتہ دہشتگرد پراکسیز کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ناگزیر ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، نشانِ امتیاز (ملٹری)، کی زیر صدارت جی ایچ کیو راولپنڈی میں کور کمانڈرز کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ملکی داخلی و خارجی سلامتی، علاقائی صورتحال، اور قومی دفاعی حکمت عملی کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
کانفرنس کا آغاز حالیہ دہشت گردانہ حملوں میں شہید ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی سے کیا گیا۔ فورم نے بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والی دہشتگرد تنظیموں کے ہاتھوں ہونے والے ان بزدلانہ حملوں کی شدید مذمت کی اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ ’ہمارے شہدا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا‘۔
فورم نے دہشتگرد پراکسیز کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی حالیہ کامیابیوں کو سراہتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ’پاکستان کے عوام کا تحفظ اور سلامتی مسلح افواج کی اولین ترجیح ہے‘۔ شرکا نے متفقہ طور پر اس موقف کی توثیق کی کہ ’بھارتی حمایت یافتہ اور اسپانسرڈ پراکسیز کے خلاف ہر سطح پر فیصلہ کن اور جامع کارروائیاں جاری رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے‘۔
فورم نے اس امر پر گہری تشویش کا اظہار کیا کہ ’پہلگام واقعے میں واضح شکست کے بعد بھارت اب فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشت گرد نیٹ ورکس کے ذریعے اپنے مذموم ایجنڈے کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے‘۔
کور کمانڈرز کانفرنس میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے وزیراعظم پاکستان کے ہمراہ ایران، ترکیے، آذربائیجان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حالیہ کامیاب دوروں پر فورم کو بریفنگ دی۔ اس کے ساتھ ہی فورم کو فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے تاریخی اور منفرد دورہ امریکا کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔
بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ دورہ امریکہ میں اعلیٰ سطحی امریکی قیادت کو پاکستان کا بامقصد مؤقف براہِ راست پیش کیا گیا، جس میں دو طرفہ تعلقات، علاقائی سلامتی اور بین الاقوامی امور شامل تھے۔
کانفرنس میں مشرق وسطیٰ اور ایران کی حالیہ پیش رفت کے تناظر میں داخلی و خارجی سلامتی کے مختلف پہلوؤں کا گہرائی سے جائزہ لیا گیا۔ فورم نے دنیا میں ’طاقت کے استعمال‘ کو بطور پالیسی ٹول اختیار کیے جانے کے بڑھتے رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کیا، اور کہا کہ ’یہ بدلتا ہوا عالمی رجحان پاکستان کے لیے نہ صرف خود انحصاری کی صلاحیتوں کو بڑھانے بلکہ قومی اتحاد و عزم کو مزید مضبوط بنانے کا متقاضی ہے‘۔
آرمی چیف نے اس موقع پر بھارت کے جانب سے دوطرفہ کشیدگی میں کسی تیسرے فریق کو شامل کرنے کی کوششوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بھارت کی بلاک پولیٹکس کو فروغ دینے کی بھونڈی کوشش ہے، جس کا مقصد بھارت کے خود ساختہ نیٹ سیکیورٹی پرووائڈر کردار کو غلط انداز میں پیش کرنا ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’دنیا اب بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور ہندوتوا انتہاپسندی کے خطرناک رجحانات سے بدظن ہوتی جا رہی ہے‘۔
فورم کو جنگ کی بدلتی نوعیت اور ابھرتے ہوئے سیکیورٹی چیلنجز کے تناظر میں پاک فوج کی اسٹریٹیجک حکمت عملی اور جدید رجحانات سے ہم آہنگ تیاریوں پر بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
اس موقع پر آرمی چیف نے ٹرائی سروسز (بری، بحری، فضائی افواج) کی ہم آہنگی کو مزید مضبوط بنانے پر زور دیتے ہوئے پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کی قیادت کو سراہا۔
کانفرنس کے اختتام پر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے ملک کو درپیش تمام خطرات کے خلاف پاک فوج کی آپریشنل تیاریوں پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی سلامتی، خودمختاری اور عوام کی حفاظت کے لیے مسلح افواج ہر قیمت پر اپنے فرائض سرانجام دیتی رہیں گی‘۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر پراکسیز کے خلاف فورم نے کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
پاکستان میں دہشتگردی کی پشت پر طالبان حکومت کے حمایت یافتہ افغان باشندے ملوث ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ نے تصدیق کردی
پاکستان میں دہشتگردی کی حالیہ کارروائیوں میں افغان شہریوں کی شمولیت کے واضح شواہد سامنے آئے ہیں۔
مختلف آپریشنز میں مارے جانے والے دہشت گردوں میں اکثریت افغان باشندوں کی پائی گئی ہے، جبکہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ نے بھی افغان طالبان کی دہشت گرد گروہوں سے تعلقات کی تصدیق کی ہے۔
باجوڑ آپریشن میں افغان دہشت گردوں کی ہلاکت
19 اکتوبر کو باجوڑ میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے جن میں سے 3 افغان شہری تھے، یعنی 75 فیصد دہشت گرد افغان تھے۔
ہلاک ہونے والوں میں ایک دہشتگرد ملا صدام عرف حذیفہ شامل تھا جو افغانستان کے صوبہ قندوز کا رہائشی تھا۔
افغانستان اور فرانس میں دہشتگرد کے لیے تعزیتی اجتماعات
ملا صدام کی تعزیتی تقریب 24 اکتوبر کو قندوز کی جامع مسجد خاما کاری میں ہوئی، جبکہ اس کے رشتہ داروں نے 26 اکتوبر کو فرانس کے شہر رینز میں مسجد التقویٰ میں ایک اور تعزیتی اجتماع منعقد کیا۔
فرانس میں اس تقریب کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد متعلقہ پوسٹس حذف کر دی گئیں، خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پوسٹ کرنے والوں کو فرانسیسی حکومت کے ردِعمل کا خوف تھا۔
افغان معاشرے میں دہشتگردی کی سوچ معمول بن چکی ہے
رپورٹ کے مطابق افغان معاشرہ دہشتگردی کو معمول سمجھنے لگا ہے۔ یہاں تک کہ فرانس جیسے پرامن ملک میں مقیم افغان شہری بھی ایک دہشتگرد کی تعریف کرتے نظر آئے، بجائے اس کے کہ وہ اس کی کارروائی کی مذمت کرتے۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان مذاکرات میں مثبت پیشرفت، فریقین کا جنگ بندی پر اتفاق،آئندہ اجلاس 6 نومبر کو ہوگا
طالبان حکومت کی پشت پناہی اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی
اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں سرحد پار دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اپریل سے ستمبر 2025 کے دوران کارروائیوں میں مارے جانے والے 267 افغان دہشت گردوں کی شناخت کی جا چکی ہے۔
رپورٹس کے مطابق پاکستان میں ہونے والی حالیہ دراندازیوں میں 70 سے 80 فیصد دہشتگرد افغان شہری ہیں، جبکہ افغانستان میں 60 سے زائد ٹی ٹی پی کے تربیتی کیمپ سرگرم ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں افغان طالبان کے کردار کی تصدیق
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی 36ویں مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق افغان طالبان مختلف دہشتگرد تنظیموں کی سرپرستی کر رہے ہیں، جن میں تحریکِ طالبان پاکستان (TTP)، داعش خراسان (ISKP)، القاعدہ، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک (ETIM) اور ترکستان اسلامی پارٹی (TIP) شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے تقریباً 6 ہزار دہشت گرد افغانستان میں موجود ہیں، جنہیں افغان حکام سے مالی و عسکری مدد حاصل ہے۔
القاعدہ اور بلوچ عسکریت پسندوں سے روابط
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) کے درمیان بھی رابطے ہیں، جو جنوبی افغانستان کے تربیتی مراکز میں مشترکہ طور پر سرگرم ہیں۔
طالبان کی پالیسی دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی
رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے اپنی سرزمین کو دہشت گرد گروہوں کے استعمال سے روکنے میں ناکامی دوحہ معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے، جس کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
تازہ شواہد اور بین الاقوامی رپورٹس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین نہ صرف پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے بلکہ افغان شہری بڑی تعداد میں اس میں شریک بھی ہیں۔
پاکستانی حکام نے مطالبہ کیا ہے کہ افغان حکومت اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے، جبکہ فرانسیسی حکومت سے بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی حدود میں دہشتگردوں کی حمایت کرنے والے عناصر کے خلاف کارروائی کرے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں