Jasarat News:
2025-11-03@03:23:48 GMT

سرینڈر اور پاکستان کے حکمرانوں کی تاریخ

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

سرینڈر اور پاکستان کے حکمرانوں کی تاریخ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بلاول زرداری جب سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سایہ عاطفت میں آئے ہیں بڑے بڑے خواب دیکھ رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے وزیر خارجہ بننے کا خواب دیکھا اور وہ وزیر خارجہ بن گئے۔ اب وہ ملک کا وزیراعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اسی لیے وہ تواتر کے ساتھ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے والے بیانات دے رہے ہیں۔ مثلاً انہوں نے ایک بیان میں فرمایا ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور سرینڈر کرنا پاکستان کی ڈکشنری میں نہیں ہے۔ انہوں نے عالمی برادری سے کہا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مدد کرے۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ خطے میں امن کے لیے پاکستان سے مذاکرات کرے، بلاول زرداری نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ فوج کے ضرب عضب اور ردالفساد جیسے آپریشنز نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان دہشت گردوں کے آگے نہیں جھکے گا اس لیے کہ سرینڈر کرنا پاکستان کی ڈکشنری میں نہیں ہے۔ (روزنامہ جسارت 3 جولائی 2025ء)

ہم نے بلاول زرداری کا یہ بیان پڑھا تو ہمیں بے ساختہ یہ شعر یاد آگیا

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

پاکستان کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ یہ تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں صرف دو رہنما ایسے ہوئے ہیں جن کی لغت میں سرینڈر یا ہتھیار ڈالنے کا لفظ موجود نہیں تھا۔ ایسے پہلے رہنما قائد اعظم تھے۔ ہندو قیادت نے جب یہ دیکھا کہ قائد اعظم کسی طرح مطالبہ پاکستان سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تو اس نے قائداعظم کو پورے ہندوستان کا وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی مگر شرط یہ رکھی کہ پھر قائداعظم کو مطالبہ پاکستان سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ قائد اعظم اگر پاکستان کے کوئی جرنیل یا سیاست دان ہوتے تو وہ متحدہ ہندوستان کی وزارت عظمیٰ قبول کرلیتے اور ہندو قیادت کے آگے ہتھیار ڈال دیتے مگر قائداعظم صرف Leader نہیں ’’مدبر‘‘ بھی تھے اس لیے انہوں نے ایک لمحے میں مذکورہ پیشکش کو مسترد کردیا۔ قائداعظم کے اس استراد پر گاندھی اور نہرو حیران رہ گئے۔ قائداعظم کو معلوم تھا کہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں خاص طور پر یوپی کے مسلمانوں

نے تحریک پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا ہے اس لیے قائد اعظم کو مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں سے بے انتہا محبت تھی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ قائد اعظم نے قیام پاکستان کے بعد فرمایا کہ اگر ہندوستان نے مسلمانوں کا تحفظ نہیں کیا تو پاکستان بھارت میں فوجی مداخلت کرے گا۔ یہ بھارت کے آگے ہتھیار ڈالنے کا نہیں اس کے خلاف ہتھیار اُٹھانے کا عمل تھا۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی معاشی حالت خراب تھی اس کے باوجود بھارت نے جب کشمیر پر لشکر کشی کی تو قائد اعظم نے پاک فوج کے سربراہ جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ کشمیر میں پاک فوج کو داخل کردیں۔ قائد اعظم صرف بھارت اور کشمیر کے مسلمانوں کے لیے فکر مند نہیں تھے وہ 1940ء کی دہائی میں فلسطینی مسلمانوں تک کے لیے پریشان رہتے تھے اور ایک موقع پر قائد اعظم نے فرمایا کہ اگر ہمیں فلسطینی مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ’’تشدد‘‘ سے کام لینا پڑا تو ہم ضرور تشدد سے کام لیں گے۔ قائد ملت لیاقت علی خان بھی قائد اعظم کی طرح بے باک تھے۔ ہندوستان نے پاکستان کو آنکھیں دکھائیں تو قائد ملت نے ہندوستان کو گھونسہ دکھایا۔ لیاقت علی خان کو بھی ہندوستان کے مسلمانوں کی فکر تھی۔ چنانچہ انہوں نے بھارتی وزیراعظم کے ساتھ اقلیتوں کے تحفظ کے سلسلے میں ایک معاہدے کو ممکن بنایا۔ یہ معاہدہ تاریخ میں لیاقت نہرو پیکٹ کہلایا۔ آج پاکستان کا کوئی رہنما، کوئی جرنیل پاکستان بنانے والے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک لفظ کہنے پر تیار نہیں۔

جنرل ایوب قوم کے لیے ببر شیر اور بھارت کے لیے ایک بھیگی بلی تھے۔ 1962ء میں چین بھارت جنگ ہوئی تو بھارت اپنی ساری فوجی طاقت کو چین کی سرحد پر لے گیا۔ یہ دیکھ کر چین نے جنرل ایوب سے کہا کہ بھارت نے آپ کی سرحد سے فوج ہٹالی ہے۔ چنانچہ آگے بڑھیے اور بھارت سے اپنا کشمیر چھین لیجیے۔ یہ ایک نادر موقع تھا۔ ایسا موقع صدیوں میں ملتا ہے لیکن امریکا نے جنرل ایوب سے کہا کہ خبردار بھارت سے کشمیر لینے کی کوشش نہ کرنا۔ چین بھارت جنگ ختم ہونے دو ہم بھارت پر دبائو ڈال کر مسئلہ کشمیر حل کرادیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اور کشمیر پاکستان کا حصہ نہ بن سکا۔ یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے تین دریا بھارت کے حوالے کردیے۔ آج بھارت سندھ طاس معاہدے کا مذاق اُڑا رہا ہے۔

1971ء میں پاک بھارت جنگ شروع ہوئی تو جنرل نیازی نے فرمایا کہ بھارتی فوج میری لاش سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہوگی، جنرل یحییٰ خان نے قوم کو سقوط ڈھاکا سے صرف 15 دن پہلے یقین دلایا تھا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ مگر جب بھارتی فوج ڈھاکا میں داخل ہوئی تو جنرل نیازی کی لاش کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ اس کے برعکس جنرل نیازی بھارت کے آگے سرینڈر کرتے ہوئے بھارتی جنرل کو فحش لطیفے سنا رہے تھے۔ سقوط ڈھاکا نے جنرل یحییٰ کے قوم سے اس خطاب کے بھی پرخچے اڑا دیے۔ جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ قوم پریشان نہ ہو ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ تاریخ کے اس نازک موڑپر جنرل نیازی بھی سرینڈر کی علامت بن کر اُبھرے اور جنرل یحییٰ بھی سرینڈر کا استعارہ بن کر ابھرے۔ ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔

سقوط ڈھاکا کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے مزے ہوگئے۔ وہ ملک کے وزیراعظم بن کر ابھرے۔ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ ہم بھارت کے خلاف ایک ہزار سال تک جنگ کریں گے۔ ان کا یہ بیان پاکستان کیا ہندوستان کے مسلمانوں میں بھی بے حد مقبول تھا مگر جب بھٹو شملہ سمجھوتے کے لیے بھارت پہنچے تو اندرا گاندھی نے بھٹو سے ملاقات میں کہا کہ آپ بھارت سے ایک ہزار سال تک جنگ کرنے کی بات کرتے ہیں تو پھر ہم کیوں آپ کے 90 ہزار قیدیوں کو رہا کریں۔ بھٹو نے ایک لمحے میں سرینڈر کرتے ہوئے فرمایا کہ میڈم ایسی باتیں سیاست دان اپنے عوام کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہی رہتے ہیں۔ اندرا گاندھی نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو ہم آپ کے 90 ہزار فوجی رہا کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ہمیں یہ بات جماعت اسلامی کے نائب امیر پروفیسر خورشید احمد نے ایک ملاقات میں خود بتائی۔ انہوں نے فرمایا کہ جنرل ضیا الحق نے خانہ کعبہ کے احاطے میں مقبوضہ کشمیر کی قیادت سے ملاقات کی اور کہا کہ اگر آپ مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد شروع کریں اور اسے مقبولیت کی بلند سطح پر لے آئیں تو پاکستان مقبوضہ کشمیر میں فوجی مداخلت کرکے آپ کی مدد کرے گا۔ کشمیریوں کی تاریخ اور مزاج میں مسلح جدوجہد کہیں تھی ہی نہیں۔ مگر انہوں نے جنرل ضیا کے مشورے پر مسلح جدوجہد شروع کی اور اسے مقبولیت کی بلند سطح پر بھی پہنچادیا۔ جب ایسا ہو گیا تو کشمیریوں نے جنرل ضیا الحق سے فوجی مداخلت کا مطالبہ کیا۔ اس کے جواب میں کشمیریوں سے کہا گیا کہ ہم کشمیر کے لیے پاکستان کو دائو پر نہیں لگا سکتے۔

جنرل پرویز مشرف فاتح کارگل تھے۔ کارگل آپریشن ایک زبردست آپریشن تھا۔ اس آپریشن میں پاکستان نے بھارت کے ہزاروں فوجیوں کے لیے یہ صورت حال پیدا کردی تھی کہ وہ یا تو پاکستان کے آگے ہتھیار ڈالتے یا کارگل کی برف سے ٹھٹھر کر مر جاتے۔ لیکن امریکی صدر بل کلنٹن نے واجپائی کی درخواست پر مداخلت کی تو جنرل پرویز نے ایک لمحے میں امریکا کے آگے سرینڈر کردیا۔ بعدازاں یہی جنرل پرویز مشرف واجپائی سے روزانہ کی بنیاد پر مذاکرات کی بھیک مانگتے ہوئے پائے گئے۔

انہی جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد ایک ٹیلی فون کال پر پورا پاکستان امریکا کے حوالے کردیا۔ جنرل پرویز بھی دیگر جرنیلوں کی طرح قوم کے لیے ببر شیر اور بھارت اور امریکا کے لیے بھیگی بلی تھے۔

جہاں تک شریف خاندان کا تعلق ہے تو پورا شریف خاندان امریکا، بھارت اور پاکستانی جرنیلوں کا پالتو کتا ہے۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب اسپائی کرونیکلز میں لکھا ہے کہ میاں شہباز شریف بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے منصوبے پر مذاکرات فرما رہے تھے۔ مودی بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوئے تو انہوں نے جنوبی ایشیا کے چھوٹے ملکوں کے سربراہوں کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں ’’طلب‘‘ فرمالیا۔ میاں نواز شریف کو بہت سمجھایا گیا کہ وہ اس تقریب میں شرکت نہ کریں مگر وہ سرینڈر، سرینڈر کا نعرہ لگاتے ہوئے مودی کے ایک غلام کی طرح مودی کی تقریب حلف برداری میں پہنچے۔ اپنے اس پس منظر کے باوجود یہی شریف خاندان اب جنرل عاصم منیر کی بادشاہت میں ہر سطح پر اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے، واہ کیا پاکستانیت ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے مسلمانوں پاکستان کی جنرل نیازی پاکستان کے جنرل پرویز جنرل ایوب فرمایا کہ اور بھارت نے فرمایا انہوں نے بھارت کے اعظم کو کے خلاف کے ا گے سے کہا کہا کہ کہ اگر نے ایک کے بعد کے لیے

پڑھیں:

غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ

دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل کے تقریباً 10 میں سے 9 واقعات تاحال حل طلب ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے صحافیوں کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ غزہ اس وقت دنیا میں صحافیوں کیلئے سب سے خطرناک خطہ ثابت ہوا ہے، اور آج کے دن عالمی سطح پر صحافیوں کیلئے انصاف کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: 200 سال کی جنگوں سے زیادہ صحافی غزہ میں مارے گئے، جیکسن ہنکل

انتونیو گوتریس نے کہا کہ یہ تشویشناک امر ہے کہ صحافیوں کے قتل کے بیشتر کیسز میں تفتیش آگے نہیں بڑھتی اور مجرموں کو سزا نہیں ملتی، جس کے باعث تشدد کا سلسلہ بڑھتا ہے اور جمہوری اصول کمزور ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق سزا نہ ملنا صرف ناانصافی نہیں بلکہ صحافتی آزادی پر براہِ راست حملہ ہے۔

صحافیوں کے قتل کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ صحافیوں کے قتل کے ہر کیس کی شفاف تحقیقات کریں، ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور ایسے ماحول کی ضمانت دی جائے جہاں صحافی بغیر دباؤ اور خوف کے اپنا پیشہ ورانہ فریضہ انجام دے سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’45 دن ایسے گزرے جیسے 45 سال‘، فلسطینی صحافی کی غزہ میں اپنی رپورٹنگ پر مبنی یادداشتیں شائع

انہوں نے کہا کہ جب صحافیوں کی آواز دبائی جاتی ہے تو حقیقت، شفافیت اور انسانی حقوق بھی دب جاتے ہیں، اس لیے صحافتی آزادی کا دفاع اجتماعی ذمہ داری ہے اور اسے ہر قیمت پر برقرار رکھا جانا چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اقوام متحدہ انتونیو گوتریس صحافی شہید غزہ فلسطین

متعلقہ مضامین

  • امریکا بھارت معاہدہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے،صاحبزادہ ابوالخیر زبیر
  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • بھارتی تاریخ کا سب سے وزنی ترین مواصلاتی سیٹلائٹ خلا کیلئے روانہ
  • ویمنز ورلڈکپ: جنوبی افریقا اور بھارت پہلی مرتبہ ٹائٹل جیتنے کیلیے بےتاب
  • نومبر 1984ء میں سکھوں کی نسل کشی بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب ہے
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب
  • تاریخ کی نئی سمت
  • بھارت نے اعجاز ملاح کو کونسا ٹاسک دے کر پاکستان بھیجا؟ وزیر اطلاعات کا اہم بیان
  • یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
  • حکمرانوں کو مانگنے اور کشکول اٹھانے کی عادت پڑ چکی ہے، حافظ تنویر احمد