Daily Ausaf:
2025-09-18@23:26:31 GMT

اردو شناس

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

اس سے لگتا ہے کہ سرمد خان نہ صرف کتابوں کا شوق رکھتے ہیں بلکہ وہ کثیرالمطالعہ بھی ہیں۔ وہ جس گھر میں رہتے ہیں وہ گھر ہی نہیں بلکہ ایک لائبریری بھی ہے۔ جن دوستوں کو وہاں سے جو بھی کتاب پسند آئے وہ اسے ساتھ لے جانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ ان کے لائبریری نما مہمان خانہ پر میرا اکثر آنا جانا لگا رہتا ہے۔ کتابیں پڑھنے کا مجھے بھی بہت شوق ہے مگر بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے میں زیادہ کتابیں خرید نہیں سکتا، مگر پھر بھی میرے پاس ڈھیر ساری کتابوں کا خزانہ جمع ہو گیا ہے۔ سچ پوچھو تو میرے پاس جتنی بھی کتابیں ہیں وہ ساری میں نے سرمد خان صاحب کے گھر سے اچکی کی ہیں۔
انہیں اردو کتابوں کی ترویج اور علم کے فروغ سے جتنا جنون ہے، وہ کسی بھی لمحے اردو علم و ادب کے فروغ کے لئے کوئی بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں۔انسانی تاریخ کے جتنے بھی مفکر اور دانشور گزرے ہیں وہ غوروفکر اور مطالعہ کے شوقین ہوتے تھے اور اس میں اتنے مگن رہتے تھے کہ انہیں اس کے سوا کوئی دوسرا کام نہیں آتا تھا جس وجہ سے ان کی مالی حالت بہت پتلی ہوتی تھی مگر وہ علم کے آسمان پر اسی وقت جگمگائے جب سرمد خان جیسے کسی علم دوست انسان نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
اللہ پاک اس علم پرور ہستی کو لمبی عمر عطا فرمائے تاکہ، وہ علم کے گلشن کا یہ کاروبار تادیر تک چلاتے رہیں۔ انہوں نے اردو علم و ادب کے فروغ کے لئے 2023 ء میں ’’اردو بکس ورلڈ‘‘ کی بنیاد رکھی اور پھر دسمبر 2024 ء میں ’’اردو ریسرچ بکس‘‘ بھی قائم کر دی۔ دنیا کے اسلامی شہروں میں شارجہ کو علم کے فروغ کے لئے دنیا بھر میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ متحدہ عرب امارات میں کتاب میلوں کی بنیاد شارجہ کے عزت مآب حکمران ڈاکٹر سلطان بن محمد القاسمی نے رکھی تھی۔ سرمد خان صاحب شارجہ کے آخری دو بک فیئرز پر ’’اردو بکس ورلڈ‘‘ کا سٹال لگا کر اردو شعر و ادب اور فن سے محبت کرنے والوں کو کتب کی فراہمی کی سہولت فراہم کر چکے ہیں۔ امسال انہوں نے ابوظہبی بک فیئر میں بھی حصہ لیا۔ ان کی کوششوں کی وجہ سے ’’ابوظہبی بک فیئر اتھارٹی‘‘ نے اس سال ’’جناح پولین‘‘ کے نام سے انہیں اردو کتابوں کی نمائش اور فروخت کے لئے پہلے سے زیادی بڑی جگہ فراہم کی۔
سال رواں ابوظہبی بک فیئر 9 روز تک جاری رہا جس میں اورسیز پاکستانیوں سمیت دیگر ممالک میں اردو میں دلچسپی رکھنے والے مہمانوں نے بھی بھرپور دلچسپی لی۔ خاص طور پر پاکستانی سفیر محترم فیصل نیاز ترمذی ان 9 دنوں میں 6 بار اردو بکس ورلڈ کے پولین پر تشریف لائے۔ ایک دوسری اچھی پیش رفت یہ ہوئی کہ اردو بکس ورلڈ پر ابوظہبی جیل کے ایک لوکل افسر نے بھی وزٹ کیا اور اردو کتابوں میں دلچسپی لیتے ہوئے قیدیوں کے مطالعہ کے بیک وقت 7 ہزار درہم کی کتابیں خریدیں۔
اردو دنیا کی تیسری سب سے بڑی زبان ہے اور یہ نہ صرف انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ میں بولی جاتی ہے، بلکہ دنیا کے جن جن ممالک میں بھی پاکستانی اوورسیز موجود ہیں وہاں کے لوگوں کا بھی ایک حاصہ بڑا حصہ اردو کو سمجھتا ہے۔ خاص طور پر خلیجی ممالک کے 50فیصد سے زیادہ عربی اردو بول چال جانتے ہیں۔ بہت سے عربی لوکل سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اومان، کویت اور قطر میں ایسے ہیں جو اردو زبان سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے لاہور اور کراچی کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اردو زبان اپنے ہی ملک میں رہ کر شوقیہ طور پر سیکھی۔ ایک دو شخصیات کو تو میں بھی جانتا ہوں جن میں امارات کے ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی اور سعودی عرب کی ڈاکٹر سمیرا عزیز سرفہرست ہیں۔ ان دونوں نے اردو میں درجنوں کتابیں تحریر کی ہیں اور یہ دونوں اردو کے معروف شاعر بھی ہیں۔
مکرمی! سرمد خان نے اردو فن و ادب کی جو شمع جلائی ہے اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ اس مد میں وہ جن حکام سے ملتے ہیں یا جتنی بھی جدوجہد کرتے ہیں، میں اس کا چشم دید گواہ ہوں۔ دعا گو ہوں کہ اردو لوورز پر ان کا سایہ تادیر قائم رہے: اقبال نے ایسی ہی نابغہ روزگار شخصیات کے لئے کہا تھا:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اردو بکس ورلڈ کے فروغ علم کے کے لئے ہیں وہ

پڑھیں:

سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں: سعودی وزیر دفاع کی اردو ٹویٹ

سعودی وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے پاکستان اور سعودی عرب کے مابین ہونے والے اہم ترین دفاعی معاہدے کی خبر اردو زبان میں بھی پوسٹ کی، جس میں انہوں نے کہا کہ سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں، ہمیشہ اور ابد تک۔رائٹرز نے اس خبر کو کچھ اس انداز میں شائع کیا کہ سعودی عرب اور ایٹمی طاقت رکھنے والے پاکستان نے ایک باضابطہ باہمی دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس سے عشروں پر محیط سلامتی شراکت داری کو نمایاں طور پر مزید مضبوطی ملی ہے۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب خطے میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے دفاعی تعلقات میں اضافہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب خلیجی عرب ریاستیں اپنے دیرینہ سلامتی ضامن امریکا کی قابلِ اعتماد حیثیت کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کا شکار ہیں، گزشتہ ہفتے اسرائیل کی جانب سے قطر پر حملے نے ان خدشات کو مزید بڑھا دیا ہے۔ایک سینئر سعودی اہلکار نے رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے معاہدے کے وقت سے متعلق سوال پر کہا کہ یہ معاہدہ کئی برسوں کی بات چیت کا نتیجہ ہے، یہ کسی خاص ملک یا کسی مخصوص واقعے کے ردِعمل میں نہیں بلکہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ اور گہرے تعاون کو ادارہ جاتی شکل دینے کا عمل ہے۔رائٹرز کے مطابق یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب حماس کی سیاسی قیادت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جنگ بندی کی تجویز پر بات چیت کر رہی تھی، تو اسرائیل کی جانب سے حماس قیادت پر فضائی حملے کی کوشش نے عرب ممالک کو شدید برانگیختہ کر دیا۔عالمی خبر رساں ادارے نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ ایک پیچیدہ خطے میں سٹریٹجک حساب کتاب کو بدل سکتا ہے، اس سے قبل واشنگٹن کے اتحادی خلیجی ممالک اپنی دیرینہ سلامتی کے خدشات دور کرنے کے لیے ایران اور اسرائیل دونوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔غزہ کی جنگ نے خطے کی صورتِ حال کو تہ و بالا کر دیا ہے اور خلیجی ریاست قطر ایک ہی سال میں 2 مرتبہ براہِ راست حملوں کا نشانہ بنی ہے، ایک بار ایران کی جانب سے اور دوسری بار اسرائیل کی طرف سے۔سینئر سعودی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، ان سے پوچھا گیا کہ آیا اس معاہدے کے تحت پاکستان سعودی عرب کو جوہری تحفظ (نیوکلیئر امبریلا) فراہم کرنے کا پابند ہوگا، تو اہلکار نے کہا کہ یہ ایک جامع دفاعی معاہدہ ہے جو تمام فوجی شعبوں کو شامل کرتا ہے۔واضح رہے کہ پاکستانی سرکاری ٹیلی وژن نے یہ منظر دکھایا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، جو مملکت کے عملی حکمران سمجھے جاتے ہیں، معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ایک دوسرے کو گلے لگا رہے ہیں، رائٹرز کے مطابق اس موقع پر پاکستان کے طاقتور ترین شخص قرار دیے جانے والے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی موجود تھے۔پاکستانی وزیرِ اعظم کے دفتر سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے اس مشترکہ عزم کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اپنی سلامتی کو بہتر بنائیں اور خطے و دنیا میں امن و سلامتی کے قیام کو یقینی بنائیں۔ اس معاہدے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کے پہلوؤں کو فروغ دینا اور کسی بھی جارحیت کے خلاف مشترکہ روک تھام کو مضبوط بنانا ہے، معاہدے میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر جارحیت کی گئی تو اسے دونوں پر جارحیت تصور کیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی کی میڈیسن مارکیٹ اور اردو بازار سیوریج نالے بن گئے، طالبات اور حاملہ خواتین کیلئے مشکلات
  • سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں: سعودی وزیر دفاع کی اردو ٹویٹ
  • سعودیہ اور پاکستان جارح کے مقابل ایک ہی صف میں، سعودی وزیر دفاع کی اردو میں ٹویٹ
  • افروز عنایت کی کتاب ’’سیپ کے موتی‘‘ شائع ہوگئی
  • جامعہ اردو کا سینیٹ اجلاس کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملتوی