Daily Ausaf:
2025-09-17@23:41:23 GMT

مذہب اور فلسفہ میں ٹکرائو کہاں پیدا ہوتا ہے ؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

فلسفہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مغرب و مشرق بے بہا لکھا گیا مگر مفکرین اور مورخین آج بھی اس موضوع پرایک تسلسل کے ساتھ لکھ رہے ہیں ۔وطن پاک کے فلاسفہ نے اس پر مختلف حوالوں سے بہت کچھ لکھا اور جب تک یہ کائنات موجود ہے اور جامعات موجود ہیں وارثان قلم دیگر علوم کے ساتھ ساتھ علم فلسفہ کی آبیاری کرتے رہیں گے۔ایک اہم سوال جو علمائے فلسفہ کی فکر کا صدیوں سے موضوع رہا ہے اور رہے گا کہ ’’مذہب اور فلسفے میں کہاں ٹکرائو پیدا ہوتا ہے؟‘‘
مذہب اور فلسفہ روز اول سے ایک دوسرے کے ممد و مدد گاربھی رہے ہیں اور سخت ناقد بھی ۔اس اختلاف کو سمجھنے کے لئے دونوں کی ماہیت ،علم کے ذرائع اور مقاصد کو سامنے رکھا جاتا رہا ہے ۔یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ مذہبی علوم کا ماخذ وحی یعنی الوہی پیغام رہا ہے اور اس مقصد ہدایت،فکر نجات ،عبادات ،حقیقت اور علم کے ساتھ ساتھ رویوں کا قطعی فہم رہا ہے ۔جبکہ فلسفہ میں یقین سے زیادہ شکوک ،سوالات اور تجزیہ و تحقیق کے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ان کے درمیان ٹکرائو یا تصادم کہاں شروع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ’’فلسفہ عقل اور تجزیہ کو علم کا اصل مقصد گردانتا ہے اور وحی کو غیر عقلی اور غیر سائنٹیفک تصور کرتا ہے اور مذہب کو عقلی اعتبار سے نامعتبر یا محدود قرار دیتا ہے ۔مذہب خدا کو حاضر و ناظراور قادر مطلق ہستی سمجھتا ہے۔بعض فلسفی ایسے بھی ہیںجو “خدا کو ایک مفروضہ،تصوریا غیر شخصی طاقت خیال کرتے ہیں یا بعض ایسے ہیں جوسرے سے خدا کو تسلیم ہی نہیں کرتے‘‘۔
مذہب کادارو مدار ہی خدا پر ہے جبکہ فلسفہ مذہب کے بارے تشیک کا شکارہے ۔مذہب میں نیکی اور بدی کے پیمانے الوہی سطح پر قطعی ہیں جبکہ فلسفہ ’’اخلاق نسبتی،معاشرتی اور عقلی اصولوں پر یقین رکھتا ہے۔‘‘ مثلاً مذہب جھوٹ، فریب ،اور دھوکا و چوری چکاری سے منع کرتا ہے اور اس کے لئے سزائیں تجویز کرتا ہے جبکہ فلسفہ ان امور کو اس حد تک غلط تسلیم کرتا ہے کہ یہ سوسائٹی کے لئے نقصان دہ ہیں اور بس ۔مذہب جنت ،دوزخ ، آخرت ،،تقدیر اور فرشتوں اور جنات کو عقائد کا حصہ مانتا ہے ،فلسفہ ان سب کو عقلی یا تجزیاتی بنیادوں پر رد کرتا ہے ۔ فقط یہی نہیں بلکہ ’’مذہب جب کسی عقیدے کو ماننے کا تقاضہ کرتا ہے تو فلسفہ اس پر ثبوت کا سوال کھڑا کردیتا ہے‘‘۔ مذہب میں تسلیم و رضا مثلاً ایمان بالغیب وغیرہ کو لازمی سمجھتا ہے جبکہ فلسفہ میں مکمل تسلیم کا پہلو ہے ہی نہیں، وہ امر کو سوال کے کٹہرے میں کھڑا کرنے پر زور دیتا ہے۔’’مختصر یہ کہ فلسفہ اور مذہب کے ٹکرائو کی اصل بنیاد ڈک اور یقین ہے’’۔
تاریخ کے تناظر میں پرکھنا شروع کریں تو امام غزالی نے فلاسفہ پر ’’کفر ‘‘ کا فتوی نافذ کیا ہے جب کہ ابن رشد نے فلسفیوں کا دفاع کیا ہے ۔ قرون وسطی میں کلیسا نے فلسفہ ہی نہیں سائنس پر بھی پابندیاں عائد کردیں ،جس کے نتیجے میں گلیلیو کو زہر کا پیالہ نوش جاں کرنا پڑا۔انیسویں اور بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے فلسفیوں نے مذہب کو افیون قرار دے دیا‘سارتر ،نطشے اور مارکس وغیرہ اسی نظریے کے داعی تھے۔یہ انتہائی اقدام تھے ،فلسفہ مذہبی افکار کی عقلی توجیہ کرسکتا تھا ،اسی طرح مذہب بھی فلسفے کی سوالیہ فکر کو وحی کی روشنی میں جواب دے سکتاتھا ۔اس کے لئے بھر پور مکالمے کی احتیاج تھی ،جسے زیادہ تر فلاسفہ اور داعیان مذہب نے درخور اعتنا نہ سمجھا ۔
تاہم مولانا روم ،ابن سینا امام فارابی اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے ہم آہنگ کرنے کی جستجوئے پیہم کی۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ’’اگر عقل وحی کی روشنی میں چلنے پر آمادہ ہوجائے تو فلسفے اور مذہب کا ٹکرائو مکالمے میں بدل سکتا ہے اور یہی اعلیٰ تہذیبوں کا وطیرہ ہے‘‘ یہ کوئی پتھر پر لکیر والا معاملہ بھی ہرگز نہیں تھا ۔تاریخ میں ایسے بھی کئی ادوار گزرے جب عقلیت پسند فلاسفہ اور وحی پر کامل یقین رکھنے والوں کے درمیان نہ صرف مکالمہ ہوا بلکہ ایک فکری ہم آہنگی بھی قائم ہوئی۔
ہم آہنگی کے اسی دور میں تہذیبوں کا ارتقا ہوا،علمی روایات میں توسیع ہوئی،مذہب اور فلسفے کو ایک صفحے پر لانے کی شعوری کوشش کی گئی۔ عباسی دور خلافت 750 تا 1258 یہ وہ زریں دور تھا جس میں عباسی خلفا نے مذہب اور فلسفے کے موضوع ہی دیگر مو ضوعات پر بھی مکالمے کا آغاز کیا جس کے لئے باقاعدہ ’’بیت الحکمت ‘‘کی بنیاد رکھی ،چس کے تحت منطق، فلسفہ ،سائنس اور مذہبی علوم کی سرپرستی کی۔یہی سنہری دور تھا جس میں یونانی، ہندی ، اور ایرانی علوم کے عربی میں تراجم کئے گئے۔ایسے علمی اور فکری حلقے قائم کئے گئے جن میں مناظرے اور مکالماتی مجالس کا اہتمام کیا جاتا۔
امام ابویوسف جیسے علما و فقہا وحی اور فقہ پر لیکچر دیتے جبکہ عقلی دلائل کے لئے حاجظ اور کندی، فلسفے کے لئے فارابی جو عقلیت پسند ہونے کے باوجود مذہب بے زار نہیں تھے ان کو شامل مکالمہ کیا جاتاجبکہ فلسفے کا تنقیدی محاسبہ کرنے والے تاریخ کے معتبر دانشور امام غزالی جو مکالمے کے داعی اور بانی بھی تھے اپنی گفتگو سے مذہب کا دفاع کرتے۔
عباسی دور خصوصاً خلیفہ ہارون الرشید کی خلافت کے دوران ’’بیت الحکمت ‘‘قائم کرکے علوم و فنون کی خدمت کا ایسا دروازہ کھولا کہ دنیائے علم و ہنر اور فکری حلقے حیران و ششدر رہ گئے تاہم اس ادارے کے فروغ کا اور نظم کا اصل زمانہ مامون الرشید کا تھا جس نے اسے بام عروج تک پہنچایا۔مامون الرشید نے فقط مذہب اور فلسفہ ہی نہیں ریاضی،طب،علم الفلکیات اور سائنسی و عقلی علوم پر نہ صرف مکالمہ کرایا بلکہ تحقیقی کام تک سرانجام دیا۔
جہاں تک تراجم کا تعلق ہے اس نے فقط یونانی ہی نہیں سریانی اور سنسکرت تک کے علوم کو عربی زبان میں ڈھلوان کا سہرا اپنے سر باندھا۔ کہاں کہاں کے ماہرین علم و فنون کو اس نے ’’بیت الحکمت ‘‘ میں جمع نہیں کیا۔اس نے مذہب اور فلسفے کے ٹکرائو کو ہم آہنگی کے مقام پر لا کھڑا کرنے میں انتہائی کامیاب اور معتبر کردار ادا۔ جسے دیکھتے ہوئے دیگر اقوام نے بھی فکری جمود کو توڑنے کے بے بہا کوششوں کو حرز جاں بنایا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مذہب اور فلسفے اور مذہب کرتا ہے ہی نہیں ہے اور رہا ہے کے لئے

پڑھیں:

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ نے اسے ہرن جیسی ٹانگیں اور گھوڑے جیسے پھیپھڑے دیے تھے‘ وہ پورے گاؤں میں سب سے تیز بھاگتا تھا‘ وہ مسلسل سارا دن بھی بھاگ سکتا تھا‘ یہ غیرمعمولی صلاحیت تھی اور اس نے اس صلاحیت سے میرا تھن چیمپیئن بننے کا فیصلہ کیا‘ اس نے جب لوگوں کو اپنے ارادے کے بارے میں مطلع کیا تو سب نے پہلے قہقہہ لگایا اور پھر اسے بتایا میرا تھن گوروں کی اسپورٹس ہے۔

 سیاہ فام لوگ یہ نہیں کھیل سکتے‘ ہم ان سے جیت بھی نہیں سکتے‘ ایلوڈ نے وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا‘ گوروں کے پاس پیسہ ہوتا ہے‘ ان کے پاس ٹرینر بھی ہوتے ہیں اور ان کی خوراک بھی ہم سے بہتر ہوتی ہے لہٰذا یہ جی جان سے پریکٹس کرسکتے ہیں‘ اسے یہ بھی بتایا گیا میرا تھن کے سارے ریفری‘ کمنٹیٹرز اور شائقین بھی گورے ہوتے ہیں‘ گورے گوروں کو سپورٹ کرتے ہیں‘ یہ سیاہ فام کو کام یاب نہیں ہونے دیتے‘ تم بھی یہ خواب دیکھنا بند کر دو‘اس کے دوستوں اور بزرگوں نے یہ باتیں اتنی بار دہرائیں کہ یہ اس کے ذہن میں بیٹھ گئیں لیکن اس کے باوجود ایتھلیٹکس اس کا جنون تھا‘ وہ سارا دن بھاگتا رہتا تھا‘ اس کے پاس جوتے نہیں تھے‘ وہ ننگے پاؤں بھی بھاگتا تھا‘ اس کے پاس گراؤنڈ نہیں تھا‘ وہ جنگل میں بھی بھاگتا تھا‘ اس نے میرا تھن میں شریک نہیں ہونا تھا لیکن وہ اس کے باوجود بھی بھاگتا تھا‘ بھاگنا اس کی زندگی تھا۔

وہ فارغ وقت میں جس گراؤنڈ میں بھاگتا تھا وہاں پیٹرک نام کا ایک کوچ نوجوانوں کو پریکٹس کراتا تھا‘ کوچ نے دیکھا ایک سیاہ فام لڑکا کوچنگ کے بغیر اس کے تمام اسٹوڈنٹس سے زیادہ تیز دوڑتا ہے‘ اس نے ایک دن اسے روک کر انٹرویو کیا تو پتا چلا یہ لڑکا غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ دن کے وقت والدین کے ساتھ محنت مزدوری کرتا ہے اور شام کے وقت دوڑنا شروع کر دیتا ہے‘ پیٹرک کو اس پر رحم آ گیا۔

 اس نے اسے اپنی کلاس میں شامل کر لیا اور وہ اسے ایتھلیٹس کی بنیادی تکنیکس سکھانے لگا‘ لڑکا پیدائشی اسپورٹس مین تھا‘ یہ بہت جلد تمام تکنیکس سیکھ گیاجس کے بعد پیٹرک نے اس کا نام کینیا کی اگلی میراتھن میں لکھوا دیا‘ وہ میراتھن میں شریک ہوا لیکن ہار گیا‘ اس کی ہار نے کوچ کو ڈسٹرب کر دیا‘کیوں؟ کیوں کہ وہ جانتا تھا اس میں کینیا کے تمام ایتھلیٹس سے زیادہ پوٹینشل ہے‘ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا‘ کوچ نے میراتھن کی ریکارڈنگ منگوائی اور دیکھنا شروع کر دی‘ وہ بار بار ٹیپ دیکھتا تھا اور کیپ چوج کو دیکھتا تھا‘ اس نے نوٹ کیا دوڑتے وقت جوں ہی کوئی گورا کھلاڑی اس کے قریب آتا تھا تو اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی تھی جب کہ یہ تمام سیاہ فام کھلاڑیوں کو آسانی سے پیچھے چھوڑ دیتا ہے یوں محسوس ہوتا تھا گورے کو دیکھ کر اس کا گیئر ڈاؤن ہو گیا ہو۔

 کوچ بار بار ٹیپ دیکھتا رہا اور یہ سوچتا رہا آخر ایشو کیا ہے؟ یہ گورے کھلاڑی کو دیکھ کر آہستہ کیوں ہو جاتا ہے؟ اس کا سانس کیوں پھول جاتا ہے‘ بار بار ٹیپ دیکھنے کے بعد پتا چلا یہ ذہنی طور پر سفید فام کھلاڑیوں سے خائف ہے‘ یہ ان سے گھبراتا ہے اور اس وجہ سے اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے‘ یہ ایک دل چسپ صورت حال تھی‘ کوچ نے اس کا انٹرویو شروع کیا تو پتا چلا اس نے جب بھاگنا شروع کیا تھا تو تمام لوگوں نے اسے بتایا تھا ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے‘ اس میں صرف گورے جیتتے ہیں لہٰذا بھاگتے ہوئے جوں ہی کوئی گورا اس کے قریب پہنچتا ہے تو آٹومیٹک اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے۔

کوچ نے اسے سمجھانا شروع کیا لیکن صورت حال جوں کی توں رہی‘ کوچ نے مجبوراً اسپورٹس سائیکالوجسٹ سے رابطہ کیا‘ اس نے کیپ چوج کو اسٹڈی کیا تو پتا چلا گوروں کا غلبہ اس کے سب کانشیس میں چلا گیا ہے‘ یہ اب جتنا چاہے کوشش کر لے اس کا سب کانشیس اسے ہلنے نہیں دے رہا‘ سائیکالوجسٹ نے کوچ کو بتایا‘ ہمارے سب کانشیس میں جب کوئی بات بیٹھ جاتی ہے تو پھر ہمارے اندر سیلف سبوتاژ کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد ہمیں باہر سے کوئی نہیں ہراتا‘ ہم اندر سے ہار جاتے ہیں‘ ہم اندر سے شکست تسلیم کر بیٹھتے ہیں۔

کوچ کو مسئلہ سمجھ آ گیا لہٰذا  اس نے کیپ چوج کو سمجھایا تم نے دوڑتے وقت دائیں بائیں نہیں دیکھنا صرف اور صرف اپنے ہدف پر توجہ دینی ہے‘ دوسرا تم نے یہ گنتے رہنا ہے تم نے کتنے سیاہ فام باشندوں کو پیچھے چھوڑا‘ کیپ چوج کوچ کی بات کو سیریس لیتا تھا لہٰذا اس نے یہ مشورہ پلے باندھ لیا اور نتائج نے سب کو حیران کر دیا‘ آپ بھی یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ ایلوڈ کیپ چوج 2019میں دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کی میراتھن دو گھنٹے سے کم وقت میں مکمل کرلی اور یہ ورلڈ ریکارڈ تھا اور اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ آپ اگر آج اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز دیکھیں تو آپ کی آنکھیں اور دماغ تھک جائے گا لیکن اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز کی فہرست ختم نہیں ہوگی۔

 میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میراتھن 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کیوں ہوتی ہے؟ 1908میں کوئین الیگزینڈرا برطانیہ کی ملکہ تھی‘ 1908 میں لندن میں اولمپکس ہوئیں‘ ملکہ نے حکم جاری کیا‘ میرا تھن ونڈسر کاسل کے لان سے اسٹارٹ ہو گی اور وائیٹ سٹی اسٹیڈیم میں رائل باکس کے سامنے ختم ہو گی‘ اس حکم کی دو وجوہات تھیں‘ ملکہ چاہتی تھی جب ریس شروع ہو تو اس کا خاندان ونڈسر کاسل کی کھڑکی سے ریس دیکھ سکے اور جب یہ ختم ہو تو ملکہ اور اس کا خاندان رائل باکس میں جیتنے والے کھلاڑی کو دیکھ سکیں اور دوسری وجہ ملکہ کام یاب کھلاڑی کو سب سے پہلے دیکھنا چاہتی تھی‘ ماہرین نے کھڑکی اور باکس کے درمیان کا فاصلہ ماپا تو یہ 26 میل اور 385 میٹر یعنی 42 اعشاریہ 195کلومیٹر تھا یوں میرا تھن 42 اعشاریہ 195 کلو میٹر ہو گئی‘ میں کیپ چوج کی طرف واپس آتا ہوں۔

ایلوڈ کیپ چوج سب کانشیس کے سیلف سبوتاژ کا شکار تھا‘ اب سوال یہ ہے یہ کیا بلا ہوتی ہے؟ ہمارے دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں‘ کانشیس (Concious) اور سب کانشیس (Subconcious) کانشیس صرف معلومات اکٹھی کرتا ہے جب کہ سب کانشیس اسے پراسیس کر کے ہمارے یقین کا حصہ بناتا ہے‘ ہماری زندگی کا نوے فیصد حصہ سب کانشیس کے کنٹرول میں ہوتا ہے‘ ہم مسلمان اور پاکستانی ہیں‘ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں یہ سارا ڈیٹا ہمارے بلیو (Believe) سسٹم یا سب کانشیس کاحصہ ہوتا ہے‘ بچوں کا کانشیس اور سب کانشیس پیدائش کے بعد کورا کاغذ ہوتے ہیں‘ ہم سب مل کر اسے بھرتے ہیں یا پر کرتے ہیں‘ بچے ہمیں دیکھ اور سن کر زبان سے لے کر عادتوں تک ہر چیز سیکھتے ہیں اور یہ آگے چل کر ان کا بلیو یعنی یقین بنتا ہے اور یہیں سے ان کی کام یابی اور ناکامی کا سفر شروع ہو تا ہے‘ کیپ چوج کو اس کے ماحول نے اتنی بار گوروں سے ڈرایا تھا‘ اسے اتنی مرتبہ یہ بتایا گیا تھا کہ ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے۔

 تم سیاہ فام ہو اورتم خواہ کتنا ہی تیز دوڑ لو تم کام یاب نہیں ہو سکتے اور یہ بات بار بار دہرانے کی وجہ سے اس کے سب کانشیس میں چلی گئی جس کے بعد یہ جوں ہی کسی گورے کو دوڑتا ہوا دیکھتا تھا تو اس کا سب کانشیس اسے پیغام دے دیتا تھا تم اس گورے سے نہیں جیت سکتے‘تمہیں زیادہ توانائی ضایع کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کے بعد اس کے پھیپھڑے خود بخود ڈھیلے پڑ جاتے تھے اور ٹانگوں کی توانائی کم ہو جاتی تھی یوں اس کے ساتھ بھاگنے والا گورا اس سے آگے نکل جاتا تھا‘ نفسیات کی زبان میں اس عمل کو سیلف سبوتاژ (Self Sabotage) کہتے ہیں یعنی آپ اپنی جیت کو خود ہی ہار میں تبدیل کر دیں‘ آپ اپنی کام یابی کو ناکامی میں بدل دیں یا آپ چھکا مارتے ہوئے جان بوجھ کر آؤٹ ہو جائیں‘ کیپ چوج بھی سیلف سبوتاژ کا شکار ہو گیا تھا‘ اس کے خاندان اور ماحول نے مل کر اس کے دل میں گوروں کا خوف بٹھا دیا تھا جس کے بعد اس کا سب کانشیس اسے گوروں کے مقابلے میں جیتنے نہیں دیتا تھا۔

آپ اگر کیپ چوج کی کہانی توجہ سے پڑھیں تو آپ خود کو بھی سیلف سبوتاژ کا شکار پائیں گے بلکہ رکیے آپ کو پوری قوم سیلف سبوتاژ کا شکار ملے گی‘ آپ کبھی نوٹ کیجیے آپ کو ہر طرف سے ہم ترقی نہیں کر سکتے‘ ہم ٹھیک نہیں ہو سکتے‘ ہم بے ایمان لوگ ہیں‘ ہم میں خداترسی نام کی چیز نہیں‘ ہم بہت گندے ہیں‘ ہم سسٹم نہیں بنا سکتے‘ ہماری حکومت بہت نکمی ہے‘ سارا نظام کرپٹ ہے ‘ ہمیں عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا‘ پاکستان میں کوئی چیز خالص نہیں‘ پولیس بڑی ظالم ہے۔

 سیاست دان نالائق اور کرپٹ ہیں‘ مولوی جاہل اور سخت ہیں‘ ہماری فوج بہت کم زور ہے اور ہم سیلاب کنٹرول نہیں کر سکیں گے جیسے فقرے سننے کو ملیں گے‘ آپ کسی جگہ بیٹھ جائیں آپ یہ سوال ضرور سنیں گے پاکستان کا کیا بنے گا‘ کیا ہم ٹھیک ہو جائیں گے اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘ آپ حد ملاحظہ کریں‘ ہم نے 10مئی کو جب بھارت کو شکست دی تھی تو پورے ملک نے کہنا شروع کر دیا تھا اگر چین ہماری مدد نہ کرتا تو ہمیں بڑی مار پڑتی‘ یہ کیا ہے؟ یہ سیلف سبوتاژ کی آخری اسٹیج ہے اور اس اسٹیج میں انسان ہو یا ملک یہ اپنا اعتماد مکمل طور پر کھو بیٹھتا ہے اور ہم بدقسمتی سے اس عمل سے گزر رہے ہیں بالخصوص ہماری کرکٹ ٹیم کے سب کانشیس میں یہ بات بیٹھ چکی ہے ہم بھارت سے نہیں جیت سکتے چناں چہ ہم جیتا ہوا میچ بھی ہار جاتے ہیں۔

 ہم اگر واقعی زندہ رہنا چاہتے ہیں یا ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سیلف سبوتاژ سے باہر آنا ہو گا‘ ہمیں اپنے اوپر اعتماد کرنا ہو گا‘ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہو گا اگر ایلوڈ کیپ چوج تھوڑی سی حکمت عملی بدل کر کام یاب ہو سکتا ہے تو پھر ہم من حیث القوم یہ کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم بھی کر سکتے ہیں بس ہمیں حکمت عملی اور جیت کو اپنا یقین بنانا ہو گا اور پھر چند برسوں میں وہ ہو جائے گا جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • کیا زیادہ مرچیں کھانے سے واقعی موٹاپے سے نجات مل جاتی ہے؟
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • Self Sabotage
  • ہڈیوں کو مضبوط بنانے کیلئے دہی کھانے کا بہترین وقت کونسا ہوتا ہے؟
  • وزیرِاعظم کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات ، اسرائیل کی جارحیت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • 80 کی دہائی کی مقبول اداکارہ سلمی آغا اب کہاں ہیں؟
  • جِلد سے ٹیٹو کو مٹانے والی جدید کریم