Daily Ausaf:
2025-07-12@13:07:45 GMT

مذہب اور فلسفہ میں ٹکرائو کہاں پیدا ہوتا ہے ؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

فلسفہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مغرب و مشرق بے بہا لکھا گیا مگر مفکرین اور مورخین آج بھی اس موضوع پرایک تسلسل کے ساتھ لکھ رہے ہیں ۔وطن پاک کے فلاسفہ نے اس پر مختلف حوالوں سے بہت کچھ لکھا اور جب تک یہ کائنات موجود ہے اور جامعات موجود ہیں وارثان قلم دیگر علوم کے ساتھ ساتھ علم فلسفہ کی آبیاری کرتے رہیں گے۔ایک اہم سوال جو علمائے فلسفہ کی فکر کا صدیوں سے موضوع رہا ہے اور رہے گا کہ ’’مذہب اور فلسفے میں کہاں ٹکرائو پیدا ہوتا ہے؟‘‘
مذہب اور فلسفہ روز اول سے ایک دوسرے کے ممد و مدد گاربھی رہے ہیں اور سخت ناقد بھی ۔اس اختلاف کو سمجھنے کے لئے دونوں کی ماہیت ،علم کے ذرائع اور مقاصد کو سامنے رکھا جاتا رہا ہے ۔یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ مذہبی علوم کا ماخذ وحی یعنی الوہی پیغام رہا ہے اور اس مقصد ہدایت،فکر نجات ،عبادات ،حقیقت اور علم کے ساتھ ساتھ رویوں کا قطعی فہم رہا ہے ۔جبکہ فلسفہ میں یقین سے زیادہ شکوک ،سوالات اور تجزیہ و تحقیق کے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ان کے درمیان ٹکرائو یا تصادم کہاں شروع ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ’’فلسفہ عقل اور تجزیہ کو علم کا اصل مقصد گردانتا ہے اور وحی کو غیر عقلی اور غیر سائنٹیفک تصور کرتا ہے اور مذہب کو عقلی اعتبار سے نامعتبر یا محدود قرار دیتا ہے ۔مذہب خدا کو حاضر و ناظراور قادر مطلق ہستی سمجھتا ہے۔بعض فلسفی ایسے بھی ہیںجو “خدا کو ایک مفروضہ،تصوریا غیر شخصی طاقت خیال کرتے ہیں یا بعض ایسے ہیں جوسرے سے خدا کو تسلیم ہی نہیں کرتے‘‘۔
مذہب کادارو مدار ہی خدا پر ہے جبکہ فلسفہ مذہب کے بارے تشیک کا شکارہے ۔مذہب میں نیکی اور بدی کے پیمانے الوہی سطح پر قطعی ہیں جبکہ فلسفہ ’’اخلاق نسبتی،معاشرتی اور عقلی اصولوں پر یقین رکھتا ہے۔‘‘ مثلاً مذہب جھوٹ، فریب ،اور دھوکا و چوری چکاری سے منع کرتا ہے اور اس کے لئے سزائیں تجویز کرتا ہے جبکہ فلسفہ ان امور کو اس حد تک غلط تسلیم کرتا ہے کہ یہ سوسائٹی کے لئے نقصان دہ ہیں اور بس ۔مذہب جنت ،دوزخ ، آخرت ،،تقدیر اور فرشتوں اور جنات کو عقائد کا حصہ مانتا ہے ،فلسفہ ان سب کو عقلی یا تجزیاتی بنیادوں پر رد کرتا ہے ۔ فقط یہی نہیں بلکہ ’’مذہب جب کسی عقیدے کو ماننے کا تقاضہ کرتا ہے تو فلسفہ اس پر ثبوت کا سوال کھڑا کردیتا ہے‘‘۔ مذہب میں تسلیم و رضا مثلاً ایمان بالغیب وغیرہ کو لازمی سمجھتا ہے جبکہ فلسفہ میں مکمل تسلیم کا پہلو ہے ہی نہیں، وہ امر کو سوال کے کٹہرے میں کھڑا کرنے پر زور دیتا ہے۔’’مختصر یہ کہ فلسفہ اور مذہب کے ٹکرائو کی اصل بنیاد ڈک اور یقین ہے’’۔
تاریخ کے تناظر میں پرکھنا شروع کریں تو امام غزالی نے فلاسفہ پر ’’کفر ‘‘ کا فتوی نافذ کیا ہے جب کہ ابن رشد نے فلسفیوں کا دفاع کیا ہے ۔ قرون وسطی میں کلیسا نے فلسفہ ہی نہیں سائنس پر بھی پابندیاں عائد کردیں ،جس کے نتیجے میں گلیلیو کو زہر کا پیالہ نوش جاں کرنا پڑا۔انیسویں اور بیسویں صدی تک پہنچتے پہنچتے فلسفیوں نے مذہب کو افیون قرار دے دیا‘سارتر ،نطشے اور مارکس وغیرہ اسی نظریے کے داعی تھے۔یہ انتہائی اقدام تھے ،فلسفہ مذہبی افکار کی عقلی توجیہ کرسکتا تھا ،اسی طرح مذہب بھی فلسفے کی سوالیہ فکر کو وحی کی روشنی میں جواب دے سکتاتھا ۔اس کے لئے بھر پور مکالمے کی احتیاج تھی ،جسے زیادہ تر فلاسفہ اور داعیان مذہب نے درخور اعتنا نہ سمجھا ۔
تاہم مولانا روم ،ابن سینا امام فارابی اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے ہم آہنگ کرنے کی جستجوئے پیہم کی۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ’’اگر عقل وحی کی روشنی میں چلنے پر آمادہ ہوجائے تو فلسفے اور مذہب کا ٹکرائو مکالمے میں بدل سکتا ہے اور یہی اعلیٰ تہذیبوں کا وطیرہ ہے‘‘ یہ کوئی پتھر پر لکیر والا معاملہ بھی ہرگز نہیں تھا ۔تاریخ میں ایسے بھی کئی ادوار گزرے جب عقلیت پسند فلاسفہ اور وحی پر کامل یقین رکھنے والوں کے درمیان نہ صرف مکالمہ ہوا بلکہ ایک فکری ہم آہنگی بھی قائم ہوئی۔
ہم آہنگی کے اسی دور میں تہذیبوں کا ارتقا ہوا،علمی روایات میں توسیع ہوئی،مذہب اور فلسفے کو ایک صفحے پر لانے کی شعوری کوشش کی گئی۔ عباسی دور خلافت 750 تا 1258 یہ وہ زریں دور تھا جس میں عباسی خلفا نے مذہب اور فلسفے کے موضوع ہی دیگر مو ضوعات پر بھی مکالمے کا آغاز کیا جس کے لئے باقاعدہ ’’بیت الحکمت ‘‘کی بنیاد رکھی ،چس کے تحت منطق، فلسفہ ،سائنس اور مذہبی علوم کی سرپرستی کی۔یہی سنہری دور تھا جس میں یونانی، ہندی ، اور ایرانی علوم کے عربی میں تراجم کئے گئے۔ایسے علمی اور فکری حلقے قائم کئے گئے جن میں مناظرے اور مکالماتی مجالس کا اہتمام کیا جاتا۔
امام ابویوسف جیسے علما و فقہا وحی اور فقہ پر لیکچر دیتے جبکہ عقلی دلائل کے لئے حاجظ اور کندی، فلسفے کے لئے فارابی جو عقلیت پسند ہونے کے باوجود مذہب بے زار نہیں تھے ان کو شامل مکالمہ کیا جاتاجبکہ فلسفے کا تنقیدی محاسبہ کرنے والے تاریخ کے معتبر دانشور امام غزالی جو مکالمے کے داعی اور بانی بھی تھے اپنی گفتگو سے مذہب کا دفاع کرتے۔
عباسی دور خصوصاً خلیفہ ہارون الرشید کی خلافت کے دوران ’’بیت الحکمت ‘‘قائم کرکے علوم و فنون کی خدمت کا ایسا دروازہ کھولا کہ دنیائے علم و ہنر اور فکری حلقے حیران و ششدر رہ گئے تاہم اس ادارے کے فروغ کا اور نظم کا اصل زمانہ مامون الرشید کا تھا جس نے اسے بام عروج تک پہنچایا۔مامون الرشید نے فقط مذہب اور فلسفہ ہی نہیں ریاضی،طب،علم الفلکیات اور سائنسی و عقلی علوم پر نہ صرف مکالمہ کرایا بلکہ تحقیقی کام تک سرانجام دیا۔
جہاں تک تراجم کا تعلق ہے اس نے فقط یونانی ہی نہیں سریانی اور سنسکرت تک کے علوم کو عربی زبان میں ڈھلوان کا سہرا اپنے سر باندھا۔ کہاں کہاں کے ماہرین علم و فنون کو اس نے ’’بیت الحکمت ‘‘ میں جمع نہیں کیا۔اس نے مذہب اور فلسفے کے ٹکرائو کو ہم آہنگی کے مقام پر لا کھڑا کرنے میں انتہائی کامیاب اور معتبر کردار ادا۔ جسے دیکھتے ہوئے دیگر اقوام نے بھی فکری جمود کو توڑنے کے بے بہا کوششوں کو حرز جاں بنایا۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مذہب اور فلسفے اور مذہب کرتا ہے ہی نہیں ہے اور رہا ہے کے لئے

پڑھیں:

کیا انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں فلسفہ شامل تھا؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں فلسفہ کے مفہوم اور ’’نبوت‘‘کے مقاصد پر غور کرنا ہوگا اور یہ کہ ان دونوں کی ماہیت، دائرہ کار اور اظہار کے طریقے کا ادراک حاصل کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر مطلوبہ جواب کی آگہی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔فلسفے کا دائرہ کار یہ ہے کہ یہ عقل ،منطق اور دلیل کے ذریعے وجود ، علم ،حقیقت، اخلاق وجمالیات اور امور سیاست کے بنیادی سوالات کی تہہ تک پہنچتا ہے ۔تاکہ مشاہدات کے ذریعے جوابات کا کھوج لگایا جاسکے ۔جہاں تک نبوت کا تعلق ہے یہ مبنی بروحی کا علم ہے جو اللہ کی طرف سے اس کے منتخب کئے گئے خاص انسانوں پر اتارا جاتا ہے جنہیں انبیا علیہم السلام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نبوت انسان کی روحانی،اخلاقی اور عملی رہنمائی کرتی ہے جس کے نتیجے میں توحید ،عدل و قسط اور آخرت کا شعور اپنی ذات کی پہچان اور اس کی منزل سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔یہیں سے ہمارے سوال کہ ’’انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میںفلسفہ بھی تھا؟‘‘ کا جواب اخذ ہوتا ہے اور یہ وہ سوال ہے جوصدیوں سے فلاسفہ کے زیر غور رہا ہے اور انبیا علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں انسان کے دل و دماغ میں یہ اس سوال نے سر اٹھایا کہ’ ’میںکون ہوں ؟‘‘ اس پر آشکار کیا گیا کہ ’’تو اللہ کا بندہ ہے اور زمین پر اس کا خلیفہ بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘
اگلا سوال یہ پیدا ہوا کہ ’’مقصد حیات کیا ہے؟‘‘ بتایا گیا کہ ’’اللہ کی عبادت ،عدل کا قیام، حسن اخلاق اور فلاح ‘‘ پھر اس سوال نے جنم لیا کہ ’’موت کے بعد کیا ہوگا ؟‘‘ بتایا گیا کہ ’’جو اعمال کئے ان کا حساب ہوگا اور سزا و جزا تجویز کی جائے گی۔‘‘گویا فلسفہ سوال اٹھاتا ہے اور ان کے غیر حتمی جوب دینے کی بجائے ممکنہ جواب دیتا ہے ،مگر نبوت ہر سوال کا قطعی اور الہامی جواب دیتی ہے ۔فلسفے اور نبوت کا بعض مقامات پر اشتراک بھی ہوتا ہے ۔ مثلاً فلسفے کا ایک اہم جز اخلاق ہے اور نبوت کی تعلیمات کا بنیادی محور ہی اخلاق ہے ۔اسی لئے نبی آخرالزمان ﷺنے فرمایا ’’میں اخلاق سنوارنے کے لئے مبعوث فرمایا گیا ہوں ۔‘‘
فلسفے اور نبوت میں ایک فرقیہ ہے فلسفہ وجود کی بات کرتاہے نبوت کا پیغام یہ ہے کہ’’جن و انس کو اللہ کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا۔‘‘ اسی طرح فلسفہ علم کی ماہیت کو بیان کرتا ہے جبکہ نبوت علم کو وحی ،عقل اور بصیرت کی کسوٹی پر پرکھتی ہے اور یہ کہ فلسفہ ریاستی انصاف کی بنیادوں کا سراغ لگاتا ہے جبکہ نبوت انبیا علیہم السلام کے ذریعے معاشرے میں عملی طور پر عدل و انصاف نافذ کرتی ہے۔ وحی علم کی نوعیت قطعی ،حتمی اور الہامی صورت میں منطق و استدلال کے طریقہ اور حکمت و بصیرت کی روشنی میں پیش کرتی ہے جس کا بڑامقصد فہم و ادراک ،آزادی اظہار ہدایت اور نجات کا راستہ اللہ کی اطاعت میں اجاگر کرتی ہے۔
یہاں ایک اور سوال اٹھا جا سکتا ہے کہ کیا انبیا علیہم السلام فلسفی بھی تھے ؟اس کا قطعی جواب یہ ہے کہ ہرگز اور مطلق نہیں ۔تاہم ان کی تعلیمات میں وہ تمام فکری گہرائیاں موجود ہیں جو فلسفے کی بنیاد بنیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کاچاند ستاروں اور سورج پر غور و فکر، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون سے مکالمہ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاشرتی اخلاقی اقدار پر زور دینا اور نبی آخرالزمان ﷺ کے مثالی خطبات اور حسن اخلاق کی سیاست کرنا ،یہ سب عقلی توحید کے دلائل ہیں ۔اس لئے یہ کہنا کہ انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں فکری طور پر فلسفہ شامل تھا مگر اس کا ماخذ انسانی عقل نہیں بلکہ وحی الٰہی تھی۔جس کا قطعی جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فلسفہ جن سوالات کو جنم دیتا ہے نبوت ان کے جوابات مہیا کرتی ہے ،فلسفہ راستے کی جانب اشارہ کرتا ہے اور نبوت منزل کی خبر ہی نہیں دیتی بلکہ عین اس پر جا کھڑا کرتی ہے۔اگر ہم یہ کہیں کہ فلسفہ نبوت کی برکت اور وحی کی حکمت کا فکری اثاثہ ہے تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • لا وارث لاش، لاوارث سچ
  • قابض ریاست کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لبنانی صدر کی اسرائیل تعلقات کی دوٹوک تردید
  • کیا انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں فلسفہ شامل تھا؟
  • مسلم لیگ ن والے پہلے کہتے تھے کہ قاسم اور سلمان کہاں ہیں، اب پاکستان آنے کا فیصلہ کیا توکہتے ہیں وہ کیوں آ رہے ہیں؟حامد میر
  • انسانی زندگی میں فلسفے کا کردار اور اس کی تاریخی اہمیت
  • پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دینے والے بھارت کو اپنا پانی بند ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا
  • سسٹم میں رہ کر نہیں توڑ کر پاکستان کو بچائیں
  • پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کب اور کہاں سے شروع ہوگی؟ دو دن میں پتا چل جائے گا، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور
  • پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کب اور کہاں سے شروع ہوگی؟ دو دن میں پتا چل جائے گا، وزیراعلیٰ کے پی