قابض ریاست کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لبنانی صدر کی اسرائیل تعلقات کی دوٹوک تردید
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بیروت: لبنان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی سے متعلق اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر کے حالیہ بیان کو سختی سے مسترد کر تے ہوئے لبنانی صدر جنرل جوزف عون نے واضح کیا ہے کہ لبنان کا اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، اور صیہونی ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات خارجہ پالیسی کے دائرے سے باہر ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق لبنانی صدر نے کہا کہ اسرائیل اب بھی ہمارے جنوبی علاقوں پر قابض ہے اور واپسی سے انکار کر رہا ہے، ایسے میں ہم قابض ریاست کو کیسے تسلیم کر سکتے ہیں؟
انہوں نے مزید کہا کہ لبنان خطے میں امن کا خواہاں ضرور ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم ایسے دشمن کے ساتھ تعلقات بحال کریں جو ہمارے وطن کے ایک حصے پر قابض ہے اور مسلسل جارحیت میں مصروف ہے۔
صدر جوزف عون نے مزید کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی میں اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کی کوئی گنجائش موجود نہیں، ہم ایک آزاد اور باوقار قوم ہیں، اور ایسے کسی سمجھوتے کا حصہ نہیں بنیں گے جو ہماری خودمختاری یا عوامی جذبات کے منافی ہو۔
واضح رہے کہ ایک روز قبل اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر نے بیان دیا تھا کہ لبنان اور شام نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جس پر عالمی و علاقائی حلقوں میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہو گیا تھا۔
یہ بیان ان عرب ممالک کے تناظر میں آیا ہے جنہوں نے حالیہ برسوں میں اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کیے، جن میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان شامل ہیں، اب اطلاعات کے مطابق امریکا، سعودی عرب پر بھی زور دے رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے۔
خیال رہےکہ لبنان کی عوام اور سیاسی حلقوں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کی شدید مخالفت جاری ہے، لبنانی عوام کا مؤقف ہے کہ اسرائیل نہ صرف فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے بلکہ لبنانی علاقوں پر قبضے، فضائی حملوں اور سرحدی دراندازی جیسے اقدامات سے بھی باز نہیں آ رہا۔
یادر ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ اور جنوبی لبنان پر وقفے وقفے سے بمباری، ڈرون حملے اور فضائی نگرانی کا سلسلہ بدستور جاری ہے، جس سے نہ صرف فلسطینی بلکہ لبنانی شہری بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تعلقات کی کہ لبنان کے ساتھ
پڑھیں:
اسرائیل میں لاکھوں الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کا فوجی بھرتی کے خلاف احتجاج، 15 سالہ نوجوان ہلاک
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یروشلم: اسرائیل کے دارالحکومت یروشلم میں لاکھوں الٹرا آرتھوڈوکس مذہبی یہودی مردوں نے فوج میں جبری بھرتی کے خلاف تاریخی احتجاج کیا، جسے منتظمین نے ملین مارچ کا نام دیا، احتجاج اس وقت افسوسناک صورتحال اختیار کر گیا جب ایک 15 سالہ لڑکا عمارت کی بلندی سے گر کر ہلاک ہوگیا۔
غیر ملکی میڈیارپورٹس کے مطابق یہ ریلی اسرائیل کی تمام مذہبی جماعتوں کی غیر معمولی اتحاد کی علامت تھی، مظاہرین نے فوج میں بھرتی کے قانون اور بھرتی سے انکار کرنے والوں کی گرفتاریوں کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
احتجاج میں شریک 20 سالہ یہودا ہرش جو مذہبی گروہ ناتورئی کارتا سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم کسی صورت اسرائیلی فوج میں شامل نہیں ہوں گے، جیسے ہم حماس کے لیے نہیں لڑتے، ویسے ہی اسرائیلی فوج کے لیے بھی نہیں لڑیں گے، ہم اور اسرائیلی ریاست دو متضاد نظریات رکھتے ہیں۔
مظاہرے سے قبل چباد نامی مذہبی گروہ کے رہنماؤں نے عوام سے اجتماعی دعا اور احتجاجی ریلی میں شرکت کی اپیل کی تھی، یروشلم جانے والی ٹرینوں میں رش کے باعث اسٹیشنوں پر ہجوم لگ گیا جب کہ پولیس نے شہر کی مرکزی شاہراہ ہائی وے نمبر 1 سمیت متعدد راستے بند کر دیے۔ ہزاروں مظاہرین نے پیدل شہر کا رخ کیا۔
مظاہرے میں شریک ایک 25 سالہ نوجوان نے کہا کہ میں فوج میں نہیں جاؤں گا، چاہے مجھے جیل میں ڈال دیا جائے، میں پہلے بھی گرفتار ہو چکا ہوں، پھر ہو جاؤں گا مگر ریاست ہمیں سیکولر بنانے پر مجبور نہیں کر سکتی، نوجوان کے گرفتاری کے وارنٹ پہلے ہی جاری ہوچکے ہیں۔
اسی طرح 19 سالہ یشِیوا (مذہبی مدرسے) کے طالبعلم مائیکل نے بتایا کہ اسے بھی بھرتی کا نوٹس موصول ہوا ہے مگر اس نے کہا کہ جب تک ہمارے ربّی ہمیں اجازت نہیں دیتے، ہم فوج میں رپورٹ نہیں کریں گے، حماس میں قیدیوں کا حشر ہم نے دیکھ لیا ہے، جنہیں ایک وقت کا کھانا ملا کرتا تھااور زندہ رہنے کے لیے پینے کا پانی اور ان کے پاس جو لاشیں ہیں وہ اب تک ہم حاصل نہیں کرسکیں ہیں۔
یہ احتجاج ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل غزہ میں بدترین انسانی المیے کا باعث بننے والی جنگ میں مصروف ہے بکہ اندرونِ ملک مذہبی طبقہ ریاست کے سیکولر قوانین اور فوجی نظام کے خلاف کھل کر سراپا احتجاج ہے۔