سویز سے شکست تک: جمال عبدالناصر کا عروج و زوال
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
جمال عبدالناصر۔۔۔ ایک ایسا نام جو عرب سیاست میں آج بھی گونجتاہے، جیسے وقت کے ساتھ مدھم ہونے کے بجائے اور زیادہ واضح ہوتا جا رہا ہو۔ وہ ایک ایسے لیڈر تھے جنہوں نے مصر کے عوام کو آزادی کی امید دلائی اور عرب دنیا کو ایک آواز میں بولنے کا حوصلہ دیا۔ ان کی قیادت نے صرف قاہرہ یا اسکندریہ نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی منظرنامے کو متاثر کیا لیکن جیسے جیسے وقت آگے بڑھا، ان کی شخصیت کا وہ چمکتا ہوا عکس دھیرے دھیرے مختلف رنگ اختیار کرتا گیا یعنی روشنی اور سائے دونوں کے امتزاج کے ساتھ۔ ناصر صرف ایک سیاست دان نہیں تھےبلکہ وہ ایک سوچ، ایک جذبہ اور کئی لوگوں کے لیے ایک خواب تھے۔
1956ء میں جب انہوں نے سویز نہر کو قوم کے نام کیا تو یہ قدم محض برطانیہ اور فرانس کے خلاف بغاوت نہیں تھا بلکہ یہ اعلان تھا کہ مصر اب اپنے فیصلے خود کرے گا۔ ان کی آواز صرف مصر کے شہروں تک محدود نہیں رہی، وہ بغداد، دمشق، طرابلس، یہاں تک کہ خرطوم تک سنی گئی ۔ عرب قوم پرستی کا نعرہ اسی گرجدار لہجے میں گونجا۔ان کی تقریریں جذبہ جگاتی تھیں اور ان کے وعدے لوگوں کے دلوں میں امید پیدا کرتے تھے۔ انہوں نے عرب عوام کو عزت، وقار اور اتحاد کا خواب دکھایا اور کئی پہلوئوں میں یہ خواب حقیقت میں ڈھلتا بھی دکھائی دیا۔ملک کے اندر ناصر نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کیں۔ زمین کی نئی تقسیم، تعلیم عام کرنے کے اقدامات اور اسوان ڈیم جیسے میگا پراجیکٹس ان کے دور کی نمایاں کامیابیاں سمجھی جاتی ہیں۔ انہوں نے اقتدار کے دروازے غریب اور متوسط طبقے کے لیے کھولے اور ریاستی وسائل کو عام آدمی کی فلاح کے لیے بروئے کار لانے کی سنجیدہ کوشش کی۔ یہی اقدامات تھے جنہوں نے انہیں محض لیڈر نہیں بلکہ ایک عوامی ہیرو بنا دیا۔ عالمی سیاست میں بھی ناصر نے اپنا الگ مقام بنایا۔ انہوں نے سرد جنگ کے دو بڑے بلاکوں امریکہ اور سوویت یونین ، دونوں سے فاصلہ رکھتے ہوئے تیسری دنیا کے ممالک کے لیے عدم وابستگی کی ایک نئی راہ تجویز کی ۔ وہ چاہتے تھے کہ ترقی پذیر ممالک بڑی طاقتوں کے دستِ نگر نہ بنیں بلکہ اپنی خودمختار پالیسی تشکیل دیں، مگر تصویر کا دوسرا رخ بھی تھا اور وہ کم واضح نہیں تھا۔ان کا طرزِ حکمرانی جمہوری نہیں بلکہ آمرانہ ہوتا چلا گیا۔ ان کے دورحکومت میں بعدازاں جب بھی کوئی اختلاف سامنے آیا اسے طاقت کے ذریعے دبایا گیا۔ اخوان المسلمون جیسی سیاسی جماعتوں کو کچلنے کے لیےجیلیں، تشدد اور سخت سنسرشپ استعمال ہوئی۔ اختلاف رائے کو جرم سمجھا گیا اور صحافت پر قدغن لگائی گئی۔ جس قوم نے آزادی کی جنگ لڑی تھی وہی قوم اظہارِ رائے کی آزادی سے محروم ہوتی چلی گئی۔ناصر کے سیاسی سفر کو سب سے بڑی ٹھوکر 1967ء کی مشہور ‘چھ روزہ جنگ میں لگی۔ اسرائیل کے ہاتھوں صرف عسکری شکست ہی نہیں ہوئی بلکہ سینائی کا علاقہ بھی ہاتھ سے گیا۔ یہ لمحہ ناصر کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا نہ صرف سیاسی یا عسکری سطح پر بلکہ ذاتی اور اخلاقی طور پر بھی۔ انہوں نے استعفیٰ دے دیا لیکن عوام کے شدید دباؤ پر واپس آئےمگر یہ واپسی اب فاتح کی نہیں، ایک شکست خوردہ لیڈر کی واپسی تھی۔اسی عرصے میں یمن میں فوجی مداخلت نے مصر کو مزید کمزور کر دیا۔ ہزاروں فوجی جان سے گئے، ملکی معیشت پر بوجھ بڑھا اور آخرکار کچھ حاصل بھی نہ ہو سکا۔ یہ جنگ ناصر کے غیر حقیقت پسندانہ جوش کی ایک مہنگی قیمت تھی جو پوری قوم کو چکانی پڑی۔ معاشی میدان میں بھی ان کے سوشلسٹ ماڈل نے وقت کے ساتھ اپنا اثر کھونا شروع کیا۔
نجی شعبے کی حوصلہ شکنی، ریاستی اداروں کی بے جا توسیع اور بیوروکریسی کی گرفت نے معیشت کو جمود کا شکار بنا دیا۔ وہ انقلاب جو روٹی، تعلیم اور آزادی کے نعرے پر ابھرا تھا، وقت کے ساتھ عام آدمی کے لیے ایک نئی معاشی مشقت بن گیا، تاہم ان تمام نقائص کے باوجودجمال عبدالناصر کو صرف ان کی ناکامیوں کے پلڑے میں رکھ کر تولنا ناانصافی ہوگی۔ان کی نیت، خلوص اور قوم سے محبت شک و شبہ سے بالاتر تھی۔ وہ کچھ کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے بہت کچھ کیا بھی۔ ان کی چند پالیسیاں ناکام ضرور ہوئیں لیکن ان کے ارادے خالص تھے۔ ان کی زندگی کا یہ سبق شاید آج بھی اتنا ہی اہم ہےکہ صرف نیت کافی نہیں، تدبیر اور تحمل بھی ضروری ہے۔آج جب دنیا ایک بار پھر قیادت کے بحران سے دوچار ہے، ناصر کا کردار ہمیں یاد دلاتا ہے کہ لیڈر بننا صرف خواب دیکھنے کا نام نہیں بلکہ وہ خواب تبھی تعبیر پاتے ہیں جب جمہوری اصول، انسانی آزادی اور زمینی حقیقتوں کو نظرانداز نہ کیا جائے۔جمال عبدالناصر ایک ایسا نام ہے جسے نہ تو مکمل طور پر بھلایا جا سکتا ہےاور نہ ہی بے عیب مثالی بنایا جا سکتا ہے۔ ان کی زندگی کا غیرجانبدارانہ مطالعہ ہمارے لیے محض ماضی کا تجزیہ نہیں بلکہ حال کی رہنمائی اور مستقبل کی سمت متعین کرنے کا ذریعہ ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ انہوں نے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
شرجیل میمن اور ناصر شاہ کی یوٹونگ بس کمپنی کو سندھ میں سرمایہ کاری کی دعوت
کراچی:سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن اور صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ نے چین میں یوٹونگ بس کمپنی کے حکام سے ملاقات کرکے انہیں سندھ میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔
ملاقات میں سندھ میں ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع پر تفصیلی بات چیت ہوئی، ٹرانسپورٹ و متبادل توانائی کے شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
یوٹونگ کے حکام نے وزراء کو اپنی نئی اور جدید ماڈل بسوں کے بارے میں بریفنگ دی، یوٹونگ حکام نے پاکستان بالخصوص سندھ میں بسیں متعارف کرانے میں دلچسپی کا اظہار بھی کیا۔
شرجیل میمن نے کہا کہ سندھ حکومت شہریوں کو معیاری اور محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے، دھابیجی اسپشل اکنامک زون غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے بہت بڑا موقع ہے، سرمایہ کاروں کو دس سالہ ٹیکس چھوٹ دی جارہی ہے۔
شرجیل انعام میمن کا کہنا تھا کہ دھابیجی انڈسٹریل زون میں حکومت سندھ کی جانب سے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو تمام ممکنہ سہولیات فراہم کی جائیں گی، سندھ میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی سمیت صوبے کے دیگر شہروں میں عوام کو معیاری بس سروس فراہم کرنا ہماری ترجیح ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یوٹونگ جیسے بین الاقوامی ادارے پاکستان آئیں اور جدید بسیں تیار کر کے یہاں کی مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کریں، سندھ حکومت سرمایہ کاروں کو مکمل سہولتیں اور تحفظ فراہم کرے گی۔
سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سندھ میں ماحول دوست اور توانائی کے متبادل ذرائع پر مبنی پبلک ٹرانسپورٹ متعارف کرائی جائے، یوٹونگ بسیں ماحول دوست اور توانائی کے متبادل ذرائع کے حوالے سے بہترین آپشن ثابت ہو سکتی ہیں۔
سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ سندھ حکومت شفاف سرمایہ کاری کے لیے ہر ممکن تعاون کرے گی، عوام کو بہتر سہولیات کی فراہمی اور سرمایہ کاروں کو پائیدار کاروباری ماحول کی فراہمی حکومت سندھ کا عزم ہے۔