وزیرتوانائی سولر نیٹ میٹرنگ کا منافع محدود کرنے کیلئے متحرک
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاور ڈویژن نے صوبوں کی مخالفت کے باوجود ایک بار پھر وفاقی کابینہ کو بجلی کے بلوں پر صوبائی محصولات ختم کرنے اور سولر نیٹ میٹرنگ پر صارفین کا منافع محدود کرنے کیلیے قائل کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ رپورٹ کے مطابق جمعرات کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ وہ ایک سے ڈیڑھ سال میں سرمایہ واپسی کے موجودہ نظام کو بڑھا کر 2 سے 3 سال پر مشتمل کرنے کی تجویز پر مبنی نظرثانی شدہ منصوبہ ایک یا 2 ہفتوں میں وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ کابینہ سے منظوری کیلیے ویلنگ چارجز سے متعلق قواعد بھی پیش کر دیے گئے ہیں، جو مسابقتی بجلی کی تجارت کے نظام کے نفاذ کی طرف اہم قدم ہے۔ وزیر توانائی نے بتایا کہ حکومت 5 ہزار سے 6 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی انتہائی کم نرخوں پر ڈیٹا سینٹرز اور کرپٹو مائننگ جیسی صنعتوں کو دینے پر غور کر رہی ہے اور اس سلسلے میں آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ کے طریقہ کار میں تبدیلی سے فی یونٹ بجلی سستی نہیں ہوگی، مگر یہ بھی یقینی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہیں ہوگا، اگر اس نظام کو محدود نہ کیا گیا تو نیٹ میٹرنگ سے جڑے صارفین بھی آئندہ اربوں روپے کے بل برداشت کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے آزاد پاور پروڈیوسرز سے مذاکرات کے ذریعے 3 کھرب روپے سے زاید بچائے، 17 ہزار میگاواٹ کی مجوزہ پیداواری صلاحیت میں سے 10 ہزار میگاواٹ کے منصوبے منسوخ کیے اور مستقبل کی ادائیگیوں میں 4 کھرب روپے کی بچت کی۔ اویس لغاری نے بتایا کہ انہوں نے چاروں وزرائے اعلیٰ کو خطوط لکھے ہیں کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں (ڈسکوز) صوبوں کیلیے بجلی ٹیکس جمع کرنے کا کردار اب ادا نہیں کریں گی، صرف ایک وزیراعلیٰ نے جواب دیا ہے، باقی کے جوابات آنے کے بعد معاملہ کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ توانائی ڈویژن نے انتظامی اصلاحات کے ذریعے بلوں کی وصولی اور ترسیلی نقصانات میں نمایاں بہتری حاصل کی ہے۔مالی سال 2024 میں ڈسکوز کو کم بلنگ اور تکنیکی خرابیوں کے باعث 591 ارب روپے کا نقصان ہوا، مگر مالی سال 2025 میں یہ نقصان کم ہو کر 399 ارب روپے تک آ گیا، یعنی 191 ارب کی بچت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ڈسکوز کو آئندہ 5 برسوں میں ہر سال 100 ارب روپے نقصان کم کرنے کا ہدف دیا گیا ہے، مگر ابھی سے 191 ارب کی بچت حاصل کر لی گئی ہے۔بلوں کی وصولی کی شرح 2024 میں 92.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نے بتایا کہ نیٹ میٹرنگ انہوں نے ارب روپے کرنے کی
پڑھیں:
پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔
رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔