data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاور ڈویژن نے صوبوں کی مخالفت کے باوجود ایک بار پھر وفاقی کابینہ کو بجلی کے بلوں پر صوبائی محصولات ختم کرنے اور سولر نیٹ میٹرنگ پر صارفین کا منافع محدود کرنے کیلیے قائل کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ رپورٹ کے مطابق جمعرات کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا کہ وہ ایک سے ڈیڑھ سال میں سرمایہ واپسی کے موجودہ نظام کو بڑھا کر 2 سے 3 سال پر مشتمل کرنے کی تجویز پر مبنی نظرثانی شدہ منصوبہ ایک یا 2 ہفتوں میں وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ کابینہ سے منظوری کیلیے ویلنگ چارجز سے متعلق قواعد بھی پیش کر دیے گئے ہیں، جو مسابقتی بجلی کی تجارت کے نظام کے نفاذ کی طرف اہم قدم ہے۔ وزیر توانائی نے بتایا کہ حکومت 5 ہزار سے 6 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی انتہائی کم نرخوں پر ڈیٹا سینٹرز اور کرپٹو مائننگ جیسی صنعتوں کو دینے پر غور کر رہی ہے اور اس سلسلے میں آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیٹ میٹرنگ کے طریقہ کار میں تبدیلی سے فی یونٹ بجلی سستی نہیں ہوگی، مگر یہ بھی یقینی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ نہیں ہوگا، اگر اس نظام کو محدود نہ کیا گیا تو نیٹ میٹرنگ سے جڑے صارفین بھی آئندہ اربوں روپے کے بل برداشت کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے آزاد پاور پروڈیوسرز سے مذاکرات کے ذریعے 3 کھرب روپے سے زاید بچائے، 17 ہزار میگاواٹ کی مجوزہ پیداواری صلاحیت میں سے 10 ہزار میگاواٹ کے منصوبے منسوخ کیے اور مستقبل کی ادائیگیوں میں 4 کھرب روپے کی بچت کی۔ اویس لغاری نے بتایا کہ انہوں نے چاروں وزرائے اعلیٰ کو خطوط لکھے ہیں کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں (ڈسکوز) صوبوں کیلیے بجلی ٹیکس جمع کرنے کا کردار اب ادا نہیں کریں گی، صرف ایک وزیراعلیٰ نے جواب دیا ہے، باقی کے جوابات آنے کے بعد معاملہ کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ توانائی ڈویژن نے انتظامی اصلاحات کے ذریعے بلوں کی وصولی اور ترسیلی نقصانات میں نمایاں بہتری حاصل کی ہے۔مالی سال 2024 میں ڈسکوز کو کم بلنگ اور تکنیکی خرابیوں کے باعث 591 ارب روپے کا نقصان ہوا، مگر مالی سال 2025 میں یہ نقصان کم ہو کر 399 ارب روپے تک آ گیا، یعنی 191 ارب کی بچت ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ڈسکوز کو آئندہ 5 برسوں میں ہر سال 100 ارب روپے نقصان کم کرنے کا ہدف دیا گیا ہے، مگر ابھی سے 191 ارب کی بچت حاصل کر لی گئی ہے۔بلوں کی وصولی کی شرح 2024 میں 92.

4 فیصد تھی، جو بڑھ کر 2025 میں 96.6 فیصد ہو گئی، پنجاب اور اسلام آباد کی 5 ڈسکوز نے تو 101 فیصد سے زاید وصولی کی۔ترسیلی اور تقسیم کے نقصانات (جو زیادہ تر چوری کی وجہ سے ہوتے ہیں) 2024 میں 18.3 فیصد تھے، جو 2025 میں کم ہو کر 17.6 فیصد رہ گئے، ان نقصانات کا مالی حجم بھی 276 ارب سے کم ہو کر 266 ارب روپے ہو گیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) نے 4 بھٹیوں اور اسٹیل فیکٹریوں میں بڑے پیمانے پر بجلی چوری پکڑی ہے، جنہوں نے میٹرز میں ٹیمپرنگ کر رکھی تھی۔ فیکٹری مالکان نے اثر و رسوخ استعمال کر کے سیکیورٹی حکام اور ڈسکو عملے کو ہٹوانے کی کوشش کی، مگر وزیراعظم شہباز شریف اور متعلقہ اداروں نے چوری کے خلاف مہم کی حمایت کی۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نے بتایا کہ نیٹ میٹرنگ انہوں نے ارب روپے کرنے کی

پڑھیں:

کپاس کا مسلسل زوال معیشت کے لیے خطرہ بن گیا ہے

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (کامرس ڈیسک)معروف معاشی ماہر اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ کپاس کی مسلسل گرتی ہوئی پیداوار معیشت کے لیے ایک بڑاخطرہ بن چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے کسانوں اور ٹیکسٹائل صنعت کی مشکلات پر توجہ دینا خوش آئند ہے لیکن صرف اعلانات کافی نہیں۔ فوری مربوط اور عملی اقدامات کیے بغیر کپاس کی معیشت کو سہارا دینا ممکن نہیں۔انہوں نے کہا کہ کپاس کی امدادی قیمت 8500 روپے فی 40 کلو مقرر کرنے اور اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل بروقت فیصلہ ہیتاہم اگر ان فیصلوں پر فوری عملدرآمد نہ ہوا تو یہ اقدامات بے اثر رہیں گے۔یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں شاہد رشید بٹ نے انکشاف کیا کہ کپاس کی پیداوار گزشتہ ایک دہائی میں 60 فیصد سے زائد گر چکی ہے۔ ایک وقت میں ملک میں 1 کروڑ 40 لاکھ گانٹھیں پیدا ہوتی تھیں، جو اب گھٹ کر صرف 55 لاکھ گانٹھ رہ گئی ہیں۔ اس کمی نے پاکستان کو درآمدی کپاس پر انحصار کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس سے قیمتی زرمبادلہ ضائع ہو رہا ہے اور برآمدی مسابقت بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ مالی سال 2024-25 میں کپاس کی درآمدات کا تخمینہ 5.4 ملین گانٹھ ہے جس پر پر 1.9 ارب ڈالر لاگت آئے گی جس سے کرنٹ اکاؤنٹ اور زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ آئے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی 60 فیصد برآمدات اور 11 فیصد جی ڈی پی کا تعلق کپاس اور ٹیکسٹائل سے ہے اور اس شعبے میں بحران سے نہ صرف ملکی معیشت بلکہ لاکھوں کسانوںمزدوروں اور صنعتکاروں کی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ پیداوار میں کمی کے باعث 60 فیصد سے زائد جننگ فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں جس سے بیروزگاری بڑھی ہے۔ان کاکہنا تھاکہ ناقص بیج، موسمیاتی تبدیلی، مہنگی پیداواری لاگت، گنے کی کاشت میں اضافہ اور پالیسیوں کا عدم تسلسل کپاس کے زوال کی بنیادی وجوہات ہیں۔ زرعی تحقیقی ادارے بھی مقامی طور پر معیاری بیج فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت کا ایران، عراق اور شام جانے والے زائرین کیلئے زیارات گروپ آرگنائزرز متحرک کرنے کا فیصلہ
  • پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار 1046 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات کیے، ترقیاتی اہداف کامیابی سے حاصل کر لئے ،احسن اقبال
  • حکومت اور ٹیکس دہندگان پر بجلی کی 10 تقسیم کار کمپنیوں کے بوجھ کوایک سال کے اندر 591 ارب سے کم کرکے 399 ارب روپے پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں، اویس لغاری
  • سولرائزیشن کا جنون 10فیصدجی ایس ٹی کے بعد سست روی میں داخل ہو سکتا ہے. ویلتھ پاک
  • حکومت نے ایک سال میں پاور سیکٹر میں نقصان کم کرکے ٹیکس پیئر کے 151 ارب روپے بچائے، وزیرتوانائی
  • پاکستان نے تاریخ میں پہلی بار 1046 ارب روپے کے ترقیاتی اخراجات کیے، ترقیاتی اہداف کامیابی سے حاصل کر لئے ، وفاقی وزیر احسن اقبال
  • گزشتہ سال 276 ارب روپے کی بجلی چوری،بڑی کمپنیاں ملوث نکلیں، وزیرتوانائی
  • کپاس کا مسلسل زوال معیشت کے لیے خطرہ بن گیا ہے
  • ڈسکوز صارفین کیلئے 49 پیسے، کے الیکٹرک صارفین کیلئے 4 روپے 60 پیسے فی یونٹ بجلی سستی