ترکی میں امن کی امید، کردستان ورکرز پارٹی کی ہتھیار تلف کرنے کی علامتی تقریب
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سلیمانیہ : کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے ترک ریاست کے خلاف 40 سالہ مسلح جدوجہد کے خاتمے کا باضابطہ آغاز کرتے ہوئے اپنے ہتھیار تلف کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے، اس عمل کو ترکی سمیت پورے خطے کے لیے ایک “تاریخی موڑ” قرار دیا جا رہا ہے۔
(کردستان ورکرز پارٹی (PKK)، جو ترکی میں ایک علیحدگی پسند مسلح تنظیم کے طور پر جانی جاتی ہے، نے 1984 میں ترک ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس تنظیم کا مقصد ابتدا میں ترکی کے جنوب مشرقی کرد اکثریتی علاقوں کے لیے خودمختاری یا علیحدہ ریاست کا قیام تھا، تاہم بعد میں اس نے اپنے موقف میں نرمی لاتے ہوئے “سیاسی حقوق” اور “ثقافتی خودمختاری” پر زور دینا شروع کیا۔)
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق عراقی کردستان کے شہر سلیمانیہ میں ایک مختصر مگر سیکیورٹی کے سخت انتظامات میں ہتھیار جلانے کی تقریب منعقد ہوئی جس میں 20 سے 30 کے قریب PKK جنگجوؤں نے اپنے اسلحے کو آگ کے سپرد کیا، تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بندوقیں، گولہ بارود اور دیگر ہتھیار ایک دیگ میں ڈال کر نذر آتش کیے گئے۔
یہ اقدام PKK کی جانب سے رواں سال مئی میں مسلح جدوجہد ختم کرنے کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس پیش رفت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے ملک کی ٹانگوں پر پڑی خون آلود بیڑیوں کو مکمل طور پر اتار پھینکنے کا لمحہ ہے،انہوں نے اسے نہ صرف ترکی بلکہ پورے خطے کے لیے سودمند قرار دیا۔
خیال رہےکہ PKK کے قید رہنما عبداللہ اوجالان، جنہیں 1999 سے ترکی کی امرالی جیل میں تنہائی میں رکھا گیا ہے، انہونے ایک ویڈیو پیغام میں اس لمحے کو “مسلح تنازع سے جمہوری سیاست اور قانون کی طرف رضاکارانہ منتقلی” قرار دیتے ہوئے اسے “تاریخی کامیابی” کہا۔
(عبداللہ اوجالان آج بھی PKK کے لیے ایک علامتی شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ PKK کے اثرات نہ صرف ترکی بلکہ عراق، شام اور ایران کے سرحدی علاقوں میں بھی محسوس کیے جاتے ہیں، جہاں اس کے مختلف ذیلی گروہ اور اتحادی تنظیمیں سرگرم ہیں۔)
واضح رہےکہ ترکی، یورپی یونین اور امریکا کی جانب سے دہشت گرد تنظیم قرار دی جانے والی PKK کی مسلح جدوجہد میں 1984 سے 2024 کے درمیان 40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ ہزاروں کرد باشندے جنوب مشرقی ترکی سے شمالی علاقوں کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے۔
مزید برآں ترکی کی سخت گیر جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (MHP) جو کبھی امن کوششوں کو “غداری” کہتی تھی، اب اس عمل کی حمایت کر رہی ہے، دوسری جانب پروکرد DEM پارٹی اس امن عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہی ہے، جب کہ اپوزیشن جماعت CHP بھی پہلی بار کھل کر اس عمل کی حمایت کر رہی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور قابض میئر اہل کراچی کیلئے عذاب بنے ہوئے ہیں، حافظ نعیم الرحمن
افتتاحی تقریب سے خطاب میں امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ میں چالان پر کوئی اعتراض نہیں، قانون کی خلاف ورزی پر چالان ہوں لیکن پہلے ٹریفک کا معقول نظام ہونا چاہیئے، شہر کا انفرا اسٹرکچر صحیح ہونا چاہیئے، سستی اور معیاری ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے، شہر کواس وقت پندرہ ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اور قابض میئر اہل کراچی کے لیے عذاب بنے ہوئے ہیں، پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، بلدیاتی اداروں، اختیارات و وسائل پر قابض ہے لیکن عوام کو ان کا حق دینے اور مسائل حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، جماعت اسلامی بااختیار شہری حکومت کا نظام چاہتی ہے، لاڑکانہ ہو، شکارپور یا حیدرآباد اور کراچی، بلدیاتی اداروں کو با اختیار بنایا جائے، 17 سال میں کراچی کے لیے صرف 400 بسوں سے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل نہیں ہوگا، ای چالان کا مسئلہ اگر بات چیت سے حل نہ ہوا تو مجبوراً احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا، صحت ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گلبرگ ٹاؤن کے تحت فیڈرل بی ایریا بلاک 18 ثمن آباد ہیلتھ کیئر یونٹ کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب اور بلاک 8 عزیز آباد میں شاہراہ نعمت اللہ خان کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد علاقہ مکینوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ ہمیں چالان پر کوئی اعتراض نہیں، قانون کی خلاف ورزی پر چالان ہوں لیکن پہلے ٹریفک کا معقول نظام ہونا چاہیئے، شہر کا انفرا اسٹرکچر صحیح ہونا چاہیئے، سستی اور معیاری ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے، شہر کواس وقت پندرہ ہزار بسوں کی ضرورت ہے، سندھ حکومت 17 سال میں صرف 400 بسیں لاسکی ان میں سے بھی معلوم نہیں کتنی چل رہی ہیں، سڑکیں ٹوٹی ہیں،گٹر بہہ رہے ہیں، پنجاب میں جو چالان 200 روپے کا ہے وہی کراچی میں 5000 روپے کا ہے، بہت افسوس کی بات ہے کہ ٹریفک پولیس میں کراچی کے 10 فیصد شہری بھی نہیں ہیں، کراچی میں معیاری ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے باعث پچاس لاکھ لوگ موٹر سائیکل چلانے پر مجبور ہیں۔