Express News:
2025-09-18@17:30:34 GMT

جان بچانے والی دوا

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

کچھ دن پہلے ہم نے ان کالموں میں ایک  ’’قصیدہ بزدلیہ‘‘ پیش کیا تھا جس میں ہم نے’’بہادری‘‘ کو پوری بہادری اور’’فرار‘‘کو آدھی بہادری قرار دیا تھا۔  اور آج ہم ایک ایسے باڈی گارڈ، محافظ اور رکھوالے کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جس کے ہوتے ہوئے آپ کا بال بھی کوئی بیکا نہیں کرسکتا۔سو مسلح محافظ دس آہنی دیواریں اور پانچ بلٹ پروف جیکٹ ایک طرف اور یہ ایک محافظ ایک طرف۔اور وہ بھی خالی ہاتھ۔اس ہمہ جہت،ہمہ صفت۔ہمہ حفاظت۔محافظ کا نام’’ڈر‘‘ہے اور آج ہم اسی کا ’’ قصیدہ ڈریہ‘‘ ارشاد فرمانا چاہتے ہیں۔

ایک بے وقوف تھا ’’گبر سنگھ‘‘ نام کا، اس نے کہا تھا جو ڈرگیا سمجھو مرگیا اور پھر خود اس لیے جوتوں تلے مرگیا کیونکہ ڈرتا نہیں تھا، اگر ڈرتا تو کسی اور جگہ جاکر بچ جاتا۔ڈاکوؤں کا کام چھوڑ کر کسی شہر یا گاؤں میں جاکر رہتا اور بچ جاتا۔ بیوی پالتا اور چین سے رہتا۔پھر کہتا کہ جو ڈر گیا وہ گھر گیا اور بچ گیا لیکن بدنصیب تھا، بے وقوف تھا احمق تھا، جاہل تھا اس لیے’’ڈر‘‘ کو حقیر جان کر مارا گیا اگر اس کے پاس پوری بہادری بزدلی نہ تھی تو آدھی بہادری تو تھی۔ لہٰذا بھاگ گبر بھاگ ہی دکھا کر بچ جاتا۔خیر ہمارا مطلب ہے کہ ڈر سے بڑا محافظ اور رہبرو رہنما نہ کوئی ہوا ہے نہ ہوگا، ہمارا تو اپنا تجربہ یہ ہے کہ جس نے ڈر کو پالیا، اپنا دوست بنالیا اسے پھر کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔ہمیں معلوم ہے کہ آپ تب تک نہیں مانیں گے جب تک ہم کوئی مثال نہ دیں۔اس لیے مثال بھی حاضرہے۔

استاد خلیل خان تھیٹر کے زمانے کا ایک اداکار تھا اس نے ہندوستان بھر میں تھیٹر ڈرامے کیے تھے، اس زمانے کے لوگوں پرتھوی، راجکپور، آغا حشر اور بہت سارے لوگوں کے اس کے پاس واقعات کا ایک بڑا ذخیرہ تھا۔جب تھیٹر کو سینما نے زوال آشنا کردیا تو وہ بھی بیروزگار ہوکر پشاور آگئے اور یہاں ریڈیو ڈراموں میں چھوٹے موٹے رول کرتے تھے، ان کے دو بیٹے بھی بعد میں ریڈیو، پی ٹی اور فلم کے نامور اداکار ہوئے چھ فٹ کے دراز قد اور مضبوط باڈی پر اس کی بڑی بڑی مونچھیں بہت سجتی تھیں۔

وہ جب بھی ریڈیو آتے تھے ہم ان کے گرد جمع ہوجاتے اور وہ اپنے دور کے دلچسپ واقعات سناتے، ان ہی واقعات میں ایک واقعہ بڑا خاص تھا،کہتے تھے جب میں تھیٹر کی دنیا سے پشارور آگیا تو شہر میں پھرتا تھا اور لوگ میری باڈی مونچھوں اور چال ڈھال کو دلچسپی سے دیکھتے تھے اور متاثر ہوتے تھے۔

ایک دن میں بن ٹھن کرقصہ خوانی میں فٹ پاتھ پر چل رہا تھا کہ اس وقت کے مشہور غنڈے’’کپوکان‘‘ سے مڈھ بیڑ ہوگئی ان دنوں ’’کپوکان‘‘ بدمعاش کا شہر پر راج تھا۔وہ تھا بھی ’’کپوکان‘‘ جس کا مطلب ہے کاٹ کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کرنے والا۔ دوچار بدمعاشوں کے ساتھ جب وہ چلتا تھا تو سارا بازار سہم کر رہ جاتا۔اس زمانے میں رش کم ہوتا تھا اس لیے ہر کوئی ہر کسی کو دکھائی دیتا تھا۔کپوکان نے مجھے دیکھا تو ٹھٹک کر رہ گیا، وہ میرے قد وقامت، باڈی اور بڑی بڑی نوکدار مونچھوں کو دیکھ کر میرے سامنے رک کر مجھے گھورنے لگا، پستہ قد آدمی تھا اس کے پیچھے اور دائیں بائیں جو مسلح غنڈے کھڑے تھے وہ بہت خونخوار لگتے تھے۔

کپوکان نے مجھے سر سے پیر تک دیکھا میں نے بھی اسے سر سے پیر تک دیکھا۔پھر اس نے گرجدار آواز میں کہا تلے کر مچھاں۔استاد خلیل آخر تھیٹر کا مانا ہوا اداکار تھا اس نے سچویشن کو کچھ اس طرح ڈویلپ کردیا تھا جیسے اگلے لمحے استاد خلیل یہ کہے گا کہ جب اس نے کہا تلے کر مچھاں(مونچھیں نیچے کروں) ۔تو میں کس کے ایک تھپڑ اس کے منہ پر ماروں لیکن سننے والوں کی یہ توقع پوری نہ ہوئی اور استاد کہتا اس نے کہا تلے کر مچھاں۔تو میں نے جھک کر اپنا چہرہ اس کے سامنے لاکر اور کہا۔ ’’یہ لے‘‘ اور دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنی مونچھیں تلے کر دیں۔پھر کیا ہوا؟ کوئی پوچھتا تو استاد بڑے فخر سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر کہتا اور کیا ہوتا وہ خوش ہوا اور پھر یار بن گیا۔آپ اس ساری سچوئیشن پر غور کیجیے کہ اس صورت حال، اس لمحہ نازک اور اس کلائمکس کا ہیرو کون؟ کپوکان یا استاد خلیل یا کوئی اور؟نہ کپوکان نہ استاد خلیل بلکہ وہ جس کا نام ہم بتاچکے ہیں۔

اگر اس موقع پر’’ڈر‘‘ آکر صورت حال کو سنبھال نہیں لیتا تو یقیناً استاد خلیل وہاں تڑپتا ہوا نظر آتا۔یا ہوسکتا ہے اس کا دی اینڈ بھی ہوچکا ہوتا۔لیکن یہ سب ڈر کی برکت تھی۔مونچھوں کا کیا۔یہاں یا تھوڑا سا نیچے، کیا فرق پڑتا ہے۔اور یہی فلسفہ ہم آپ کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ ڈر کو اپنایئے، پالیے، پوسیے اور ہمیشہ ساتھ رکھیے، بڑے کام کی چیز ہے بلکہ اگر ہم اسے جان بچانے والی دوا یا نسخہ کیمیا کہیں تو بھی ٹھیک ہوگا۔ اگرڈر کو آپ نے اپنا شامل حال کردیا تو

سب کچھ خدا سے مانگ لیا ڈر کو مانگ کر

اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد

دعا ہی کے لیے نہیں بلکہ کسی چیز کے لیے بھی ہاتھ نہیں اٹھتے۔ڈر زندہ باد، بہادری مردہ باد،کہ ڈر زندگی ہے اور بہادری موت۔ڈر ذہانت ہے اور بہادری جہالت۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: استاد خلیل ہے اور تھا اس تلے کر اس لیے

پڑھیں:

امارات میں عوام کو شدید گرمی سے بچانے کے لیے نئی منصوبہ بندی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ابوظبی(انٹرنیشنل ڈیسک) متحدہ عرب امارات نے عوام کو شدید گرمی سے بچانے کے لیے نئی منصوبہ بندی کرلی۔ اماراتی نیشنل سینٹر آف میٹرولوجی اور پبلک ہیلتھ سینٹر میں 5 سالہ معاہدہ ہوا ہے،جس کے تحت شدید گرمی، نمی اور فضائی آلودگی سے متعلق جدید ڈیٹا شیئر کیا جائے گا،جب کہ ملک میں کہیں بھی شدید گرمی کی صورت میں عوام کوفوری ڈیجیٹل اطلاعات دی جائیں گی۔ اس کے علاوہ گرمی سے متاثرہ علاقے میں موجود عوام کو بروقت آگاہ کیا جائے گا اور فوری آگاہی مہم سے کلائمٹ چینج کے اثرات کم کرنے میں مدد ملے گی۔ واضح رہے کہ امارات میں اگست میں درجہ حرارت 51.8 ڈگری تک پہنچ گیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • متنازع شو پر عائشہ عمر کی وضاحت سامنے آگئی
  • علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی کی ملتان میں استاد العلماء علامہ سید محمد تقی نقوی سے اہم ملاقات
  • تاریخ گواہ ہے کہ قربانیوں سے جنم لینے والی تحریکیں کبھی دبائی نہیں جا سکتیں، عزیر احمد غزالی
  • لاپتہ طالبہ کی لاش ایک ماہ بعد ملی، اسکول ٹیچر گرفتار
  • بی ایل اے مجید بریگیڈ کے نائب سربراہ رحمان گل افغانستان میں فائرنگ کے دوران ہلاک
  • علیمہ خان کا انڈوں سے حملہ کرنے والی خواتین کے بارے میں بڑا انکشاف
  • شادی میں تاخیر پاکستانی خواتین کو موٹاپے سے بچانے میں مددگار ثابت
  • استاد امانت علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 51 برس گزر گئے
  • امارات میں عوام کو شدید گرمی سے بچانے کے لیے نئی منصوبہ بندی
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ