کچھ دن پہلے ہم نے ان کالموں میں ایک ’’قصیدہ بزدلیہ‘‘ پیش کیا تھا جس میں ہم نے’’بہادری‘‘ کو پوری بہادری اور’’فرار‘‘کو آدھی بہادری قرار دیا تھا۔ اور آج ہم ایک ایسے باڈی گارڈ، محافظ اور رکھوالے کا ذکر کرنا چاہتے ہیں جس کے ہوتے ہوئے آپ کا بال بھی کوئی بیکا نہیں کرسکتا۔سو مسلح محافظ دس آہنی دیواریں اور پانچ بلٹ پروف جیکٹ ایک طرف اور یہ ایک محافظ ایک طرف۔اور وہ بھی خالی ہاتھ۔اس ہمہ جہت،ہمہ صفت۔ہمہ حفاظت۔محافظ کا نام’’ڈر‘‘ہے اور آج ہم اسی کا ’’ قصیدہ ڈریہ‘‘ ارشاد فرمانا چاہتے ہیں۔
ایک بے وقوف تھا ’’گبر سنگھ‘‘ نام کا، اس نے کہا تھا جو ڈرگیا سمجھو مرگیا اور پھر خود اس لیے جوتوں تلے مرگیا کیونکہ ڈرتا نہیں تھا، اگر ڈرتا تو کسی اور جگہ جاکر بچ جاتا۔ڈاکوؤں کا کام چھوڑ کر کسی شہر یا گاؤں میں جاکر رہتا اور بچ جاتا۔ بیوی پالتا اور چین سے رہتا۔پھر کہتا کہ جو ڈر گیا وہ گھر گیا اور بچ گیا لیکن بدنصیب تھا، بے وقوف تھا احمق تھا، جاہل تھا اس لیے’’ڈر‘‘ کو حقیر جان کر مارا گیا اگر اس کے پاس پوری بہادری بزدلی نہ تھی تو آدھی بہادری تو تھی۔ لہٰذا بھاگ گبر بھاگ ہی دکھا کر بچ جاتا۔خیر ہمارا مطلب ہے کہ ڈر سے بڑا محافظ اور رہبرو رہنما نہ کوئی ہوا ہے نہ ہوگا، ہمارا تو اپنا تجربہ یہ ہے کہ جس نے ڈر کو پالیا، اپنا دوست بنالیا اسے پھر کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔ہمیں معلوم ہے کہ آپ تب تک نہیں مانیں گے جب تک ہم کوئی مثال نہ دیں۔اس لیے مثال بھی حاضرہے۔
استاد خلیل خان تھیٹر کے زمانے کا ایک اداکار تھا اس نے ہندوستان بھر میں تھیٹر ڈرامے کیے تھے، اس زمانے کے لوگوں پرتھوی، راجکپور، آغا حشر اور بہت سارے لوگوں کے اس کے پاس واقعات کا ایک بڑا ذخیرہ تھا۔جب تھیٹر کو سینما نے زوال آشنا کردیا تو وہ بھی بیروزگار ہوکر پشاور آگئے اور یہاں ریڈیو ڈراموں میں چھوٹے موٹے رول کرتے تھے، ان کے دو بیٹے بھی بعد میں ریڈیو، پی ٹی اور فلم کے نامور اداکار ہوئے چھ فٹ کے دراز قد اور مضبوط باڈی پر اس کی بڑی بڑی مونچھیں بہت سجتی تھیں۔
وہ جب بھی ریڈیو آتے تھے ہم ان کے گرد جمع ہوجاتے اور وہ اپنے دور کے دلچسپ واقعات سناتے، ان ہی واقعات میں ایک واقعہ بڑا خاص تھا،کہتے تھے جب میں تھیٹر کی دنیا سے پشارور آگیا تو شہر میں پھرتا تھا اور لوگ میری باڈی مونچھوں اور چال ڈھال کو دلچسپی سے دیکھتے تھے اور متاثر ہوتے تھے۔
ایک دن میں بن ٹھن کرقصہ خوانی میں فٹ پاتھ پر چل رہا تھا کہ اس وقت کے مشہور غنڈے’’کپوکان‘‘ سے مڈھ بیڑ ہوگئی ان دنوں ’’کپوکان‘‘ بدمعاش کا شہر پر راج تھا۔وہ تھا بھی ’’کپوکان‘‘ جس کا مطلب ہے کاٹ کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کرنے والا۔ دوچار بدمعاشوں کے ساتھ جب وہ چلتا تھا تو سارا بازار سہم کر رہ جاتا۔اس زمانے میں رش کم ہوتا تھا اس لیے ہر کوئی ہر کسی کو دکھائی دیتا تھا۔کپوکان نے مجھے دیکھا تو ٹھٹک کر رہ گیا، وہ میرے قد وقامت، باڈی اور بڑی بڑی نوکدار مونچھوں کو دیکھ کر میرے سامنے رک کر مجھے گھورنے لگا، پستہ قد آدمی تھا اس کے پیچھے اور دائیں بائیں جو مسلح غنڈے کھڑے تھے وہ بہت خونخوار لگتے تھے۔
کپوکان نے مجھے سر سے پیر تک دیکھا میں نے بھی اسے سر سے پیر تک دیکھا۔پھر اس نے گرجدار آواز میں کہا تلے کر مچھاں۔استاد خلیل آخر تھیٹر کا مانا ہوا اداکار تھا اس نے سچویشن کو کچھ اس طرح ڈویلپ کردیا تھا جیسے اگلے لمحے استاد خلیل یہ کہے گا کہ جب اس نے کہا تلے کر مچھاں(مونچھیں نیچے کروں) ۔تو میں کس کے ایک تھپڑ اس کے منہ پر ماروں لیکن سننے والوں کی یہ توقع پوری نہ ہوئی اور استاد کہتا اس نے کہا تلے کر مچھاں۔تو میں نے جھک کر اپنا چہرہ اس کے سامنے لاکر اور کہا۔ ’’یہ لے‘‘ اور دونوں ہاتھ اٹھا کر اپنی مونچھیں تلے کر دیں۔پھر کیا ہوا؟ کوئی پوچھتا تو استاد بڑے فخر سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر کہتا اور کیا ہوتا وہ خوش ہوا اور پھر یار بن گیا۔آپ اس ساری سچوئیشن پر غور کیجیے کہ اس صورت حال، اس لمحہ نازک اور اس کلائمکس کا ہیرو کون؟ کپوکان یا استاد خلیل یا کوئی اور؟نہ کپوکان نہ استاد خلیل بلکہ وہ جس کا نام ہم بتاچکے ہیں۔
اگر اس موقع پر’’ڈر‘‘ آکر صورت حال کو سنبھال نہیں لیتا تو یقیناً استاد خلیل وہاں تڑپتا ہوا نظر آتا۔یا ہوسکتا ہے اس کا دی اینڈ بھی ہوچکا ہوتا۔لیکن یہ سب ڈر کی برکت تھی۔مونچھوں کا کیا۔یہاں یا تھوڑا سا نیچے، کیا فرق پڑتا ہے۔اور یہی فلسفہ ہم آپ کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ ڈر کو اپنایئے، پالیے، پوسیے اور ہمیشہ ساتھ رکھیے، بڑے کام کی چیز ہے بلکہ اگر ہم اسے جان بچانے والی دوا یا نسخہ کیمیا کہیں تو بھی ٹھیک ہوگا۔ اگرڈر کو آپ نے اپنا شامل حال کردیا تو
سب کچھ خدا سے مانگ لیا ڈر کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد
دعا ہی کے لیے نہیں بلکہ کسی چیز کے لیے بھی ہاتھ نہیں اٹھتے۔ڈر زندہ باد، بہادری مردہ باد،کہ ڈر زندگی ہے اور بہادری موت۔ڈر ذہانت ہے اور بہادری جہالت۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: استاد خلیل ہے اور تھا اس تلے کر اس لیے
پڑھیں:
ایچ آئی وی: امریکی امدادی کٹوتیوں سے 40 لاکھ اموات کا خطرہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ امدادی وسائل میں آنے والی حالیہ کمی کے باعث ایچ آئی وی کی روک تھام کے لیے گزشتہ دہائیوں میں ہونے والی پیش رفت کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
گزشتہ سال تک ایچ آئی وی پر قابو پانے کے لیے دنیا بھر میں نمایاں پیش رفت ہوتی رہی ہے۔ تاہم اب اس بیماری کے خلاف اقدامات کے لیے مہیا کیے جانے والے امدادی وسائل میں اچانک کمی آنے سے حالات بگڑنے کا اندیشہ ہے۔
اس کا نتیجہ نچلی سطح پر طبی کارکنوں کی تعداد میں کمی، ایچ آئی وی کی روک تھام کے پروگراموں کی معطلی اور علاج معالجے کی سہولیات کے خاتمے کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ Tweet URLانسداد ایچ آئی وی/ایڈز کے لیے اقوام متحدہ کے پروگرام 'یو این ایڈز' کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امدادی وسائل میں کمی آںے سے ایسے ممالک بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جہاں اس بیماری کا زور دیگر سے کہیں زیادہ ہے۔
(جاری ہے)
تاہم، رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بہت سے ممالک اور لوگ ایچ آئی وی/ایڈز کے خلاف حاصل ہونے والی کامیابیوں کو تحفظ دینے کے لیے خصوصی اقدامات بھی کر رہے ہیں۔'ایڈز: بحران اور تبدیلی کی قوت' کے عنوان سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے 60 ممالک میں سے تقریباً 25 نے آئندہ سال ایچ آئی وی کے خلاف اقدامات کے لیے اپنا بجٹ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم، یو این ایڈز نے خبردار کیا ہے کہ یہ حوصلہ افزا پیش رفت بھی اس بین الاقوامی امداد کی کمی پوری نہیں کر سکتی جس پر یہ ممالک اب تک انحصار کرتے چلے آئے ہیں۔40 لاکھ اموات کا خدشہرپورٹ کے مطابق، اگر امریکہ کی جانب سے ایچ آئی وی کی روک تھام اور علاج کے لیے مہیا کی جانے والی مدد مکمل طور پر بند ہو جائے تو 2029 تک مزید 60 لاکھ افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہوں گے اور 40 لاکھ لوگ ایڈز کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔
یو این ایڈز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ونی بیانیما نے اس صورتحال کو 'ٹائم بم' سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایچ آئی وی/ایڈز کی روک تھام کے لیے دی جانے والی امداد راتوں رات بند ہو گئی ہے۔ طبی کارکنوں کی نوکریاں چلی گئی ہیں اور لوگوں بالخصوص بچوں کے لیے ضروری طبی نگہداشت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
گزشتہ سال بھی ایچ آئی وی کے شکار 92 لاکھ لوگوں کو علاج معالجے کی ضروری خدمات تک رسائی نہیں تھی جن میں 14 سال سے کم عمر کے 620,000 بچے بھی شامل ہیں۔
2024 میں ایڈز کے نتیجے میں 75 ہزار بچوں کی اموات ہوئیں۔رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال 630,000 افراد ایڈز سے متعلق وجوہات سے ہلاک ہوئے۔ ان میں 61 فیصد کا تعلق ذیلی صحارا افریقہ سے تھا۔ 15 سے 24 سال تک عمر کی 210,000 نوجوان لڑکیاں اور خواتین ایچ آئی وی سے متاثر ہوئیں اور روزانہ اس بیماری کے 570 نئے مریض سامنے آئے۔
کامیابیوں کو تحفظ دینے کی کوششرپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہت سے ممالک اور علاقوں میں ایچ آئی وی کے خلاف اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں کو تحفظ دینے اور برقرار رکھنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ان ممالک میں جنوبی افریقہ بھی شامل ہے جو اپنے ہاں ایڈز کے خلاف اقدامات کے لیے 77 فیصد اخراجات خود مہیا کرتا ہے۔بوٹسوانا، ایسواٹینی، لیسوتھو، نمیبیا، روانڈا، زیمبیا اور زمبابوے میں ایسے 95 فیصد مریض ایچ آئی وی کے علاج کی سہولت حاصل کر رہے ہیں جو خود کو لاحق اس بیماری سے آگاہ ہیں۔ رپورٹ میں ایچ آئی وی کی روک تھام کے نئے اور موثر طریقے متعارف کرائے جانے کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔
تاہم تمام لوگوں کو ایسے ذرائع تک رسائی نہیں ہے۔ونی بیانیما نے کہا ہے کہ اب بھی اس بحران کو موقع میں بدلنے کا وقت موجود ہے۔ متعدد ممالک میں حکومتی اور مقامی سطح اس بیماری کے خلاف مالی وسائل کی فراہمی میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم، اس جرات اور مضبوطی کو عالمگیر یکجہتی کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں عالمی برادری سے کہا گیا ہے کہ وہ ایچ آئی وی/ایڈز کی روک تھام کے لیے امدادی وسائل کی کمی کو پورا کرے۔
اس مقصد کے لیے خرچ کیا جانے والا ہر ڈالر ناصرف زندگیاں بچائے گا بلکہ اس سے طبی نظام بھی مضبوط ہوں گے اور وسیع تر ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ایڈز کی وبا کا آغاز ہونے کے بعد اب تک علاج معالجے کے ذریعے 26.9 ملین اموات کو روکا جا چکا ہے اور 44 لاکھ بچوں کو ایچ آئی وی کا شکار ہونے سے بچایا گیا ہے۔