وفاقی بجٹ : عوامی مشکلات میں مزید اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وفاقی حکومت نے اپوزیشن کے شور شرابہ میں بجٹ 2025-26ء منظور کرالیا۔ حسبِ دستور بجٹ منظوری سے قبل حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ باقاعدہ مشاورت کی اور متعدد اْمور طے کیے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کی ترقی اور استحکام کے لیے حکومت کی معاشی پالیسیوں کے اہداف میں مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ تاہم موجودہ بجٹ میں حکومت کی توجہ صرف افراط زر (یعنی inflation) کو کنٹرول کرنے تک محدود ہے، جبکہ حکومتی دعووں کے برعکس غربت اور بے روزگاری جیسے بنیادی عوامی مسائل حکومتی اہداف کا حصہ نہیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا بجٹ 2025-26ء کے اہداف میں خط ِ غربت سے نیچے چلے جانے والے اوسطاً 40 فی صد پاکستانیوں کے مسائل حل ہوں گے؟ کیا مہنگائی کے بڑھتے ہوئے طوفان سے عوام کی جان چھوٹے گی؟ کیا ملک کے نوجوانوں بالخصوص اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے؟ کیا زراعت اور صنعت کی ترقی کے ذریعے ملک کو معاشی استحکام کی پٹڑی پر ڈالا جائے گا؟ کیا تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے ملکی برآمدات میں اضافے اور کرپشن اور کمیشن حاصل کرنے کے لیے گندم، چینی جیسی بنیادی اشیاء کو پہلے ملک سے برآمد اور پھر مہنگے داموں درآمد جیسے دھندے کو لگام دی جائے گی؟ کیا بیوروکریسی کی کرپشن اور اشرافیہ کی لْوٹ مار اور شاہ خرچیوں میں کمی کرکے ملکی خزانے کو بیدردی سے لوٹنے سے بچایا جائے گا؟ آئیے اِن تمام سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کے لیے بجٹ 2025-26 اور اس کے اہداف کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔
وفاقی بجٹ برائے مالی سال 2025-26 کے کل حجم کا تخمینہ 17,573 بلین روپے ہے، جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 1304 بلین کم ہے۔ موجودہ بجٹ کی کل رقم میں سے 16286 بلین روپے (93 فی صدکرنٹ یا جاری اخراجات کے لیے ہیں اور محض 1287 بلین روپے (7 فی صد ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ جاری اخراجات کی بڑی مدات میں سْود کی ادائیگی کی مد سب سے بڑی ہے، جس کے لیے کل بجٹ کا 47 فی صد یا 8207 بلین روپے خرچ ہوں گے۔ سْود کی یہ رقم گزشتہ چار سال میں چاروں صوبوں اور وفاقی حکومت کی جانب سے صحت اور تعلیم پر خرچ ہونے والی کل رقم سے879 بلین روپے زیادہ ہے۔ سْود کی اس کل رقم کا تقریباً 88 فی صد ملکی قرضوں پر جبکہ بقیہ 12 فی صد غیرملکی قرضوں کے سْود کی ادائیگی کے لیے رکھا گیا ہے۔
سْود کے بعد دوسری بڑی مد دفاعی اخراجات کی ہے جو کہ کْل بجٹ کا 15 فی صد یعنی 2550 ارب روپے ہیں۔ بھارت کے پاکستان پر حالیہ حملے اور مودی کے جنگی جنون کے مقابلہ، نیز اسرائیل کے ایران پر حملے کے تناظر اور مستقبل کے خطرات کے پیشِ نظر دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنا پڑا۔ تیسری بڑی مد گرانٹ اور ٹرانسفر کی ہے جس کی مد میں مختص کی جانی والی رقم 1928 بلین روپے یا کْل بجٹ کا 11 فی صد ہے، اس رقم کا بڑا حصہ سماجی تحفظ کے شعبے کے لیے رکھا گیا ہے جس میں 722 بلین بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر خرچ کیے جائیں گے، جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 21 فی صد زیادہ ہیں۔
بجٹ کے اخراجات میں اگلی بڑی مد سبسڈی کی ہے، جس کے لیے مختص کی جانی والی رقم 1186 بلین روپے ہے جو کل بجٹ کا 7 فی صد بنتی ہے۔ جبکہ اس سبسڈی کا تقریباً 87 فی صد یعنی 1032 بلین روپے پاور سیکٹر کو سبسڈی کی مد میں دیے جائیں گے، جس میں سے کراچی الیکٹرک کے لیے 125 بلین روپے ٹیرف کے فرق (Tariff Differential)کے نام پر رکھے گئے ہیں۔
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ایک طرف پاور سیکٹر کو ’’عوامی مفاد‘‘ کے لیبل تلے اتنی بھاری سبسڈی تو دوسری طرف عام شہریوں کے زیراستعمال سولر پینل پر 18 فی صد سیلز ٹیکس کا نفاذ، جس کی وجہ سے عوام جو سستی بجلی پیدا کرکے اپنے اخراجات کو کم کرنے میں کام یاب ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کے لیے شمسی توانائی سے متعلقہ آلات کی خریداری مزید مشکل ہوجائے گی، اگرچہ اس ٹیکس سے حکومت محض 20 ارب روپے ہی کمائے گی۔
وفاقی حکومت کے اخراجات کی مد میں پانچویں بڑی مد پنشن کی ہے جس کے لیے مختص کی جانی والی رقم 1055 بلین روپے ہے جو کل بجٹ کا 6 فی صد بنتی ہے۔ اس میں سے ملٹری پنشن 70 فی صد اور سویلن کی پینشن 23 فی صد ہے اور باقی انتظامی اخراجات ہیں۔ اس کے بعد اگلی مد وفاقی حکومت کے اخراجات کی ہے، جس کے لیے مختص کی جانی والی رقم 971 بلین روپے ہے جو کل بجٹ کا 5.
دوسری جانب وفاقی بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کے لیے محض 1287 بلین روپے رکھے گئے ہیں جو کل بجٹ کا 7 فی صد بنتا ہے، جس میں سے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) کے لیے 1000بلین روپے رکھے گئے ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے سْکڑتا ہوا ترقیاتی بجٹ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور امسال بھی ترقیاتی اخراجات کے لیے مختص کردہ اس مایوس کْن فگر سے واضح ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) نے حکومتی اخراجات کم کرنے کی جو شرط عائد کی تھی اس کا اطلاق صرف اور صرف ترقیاتی اخراجات پر ہی ہوا ہے۔
اخراجات کے بعد اگر آمدنی کے ذرائع کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس محصولات (Taxes) کی مد میں متوقع آمدنی 14131 بلین روپے ہے اور دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی متوقع آمدنی 5147 بلین روپے ہے، جس میں سے 8206 بلین روپے صوبوں کو ٹرانسفر کردیے جائیں گے اور وفاقی حکومت کے پاس ملکی ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے صوبوں کا حصہ نکال کر بچ جانے والی خالص رقم 11072 بلین روپے ہوگی۔ محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں تقریباً 48.8 فی صد براہ راست ٹیکس (Direct Taxes) ہیں اور 51.2 فی صد بالواسطہ ٹیکس (Indirect Taxes) کا ہے۔
براہ راست محصولات کا بڑھتا ہوا حصہ خوش آئند ہے۔ تاہم بالواسطہ محصولات (جو مصنوعات کی فروخت پر عوام سے وصول کیا جاتا ہے) کا حصہ مزید کم ہونا چاہیے۔ خاص طور پر بنیادی ضرورت کی اشیاء پر اس کو کم سے کم کیا جانا چاہیے۔ آمدنی کے دیگر ذرائع، جیسے ریٹیلرز اور ہول سیلرز کے کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے گزشتہ بجٹ میں کافی زور دیا گیا تھا، تاہم اس بار اس میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آرہی۔
وفاقی بجٹ میں حکومت کی کْل آمدنی 11072 بلین روپے ہے، جبکہ اخراجات 17573 بلین روپے ہیں، جس کا مطلب حکومت 6501 بلین روپے خسارے میں ہے۔ اس خسارے کا کچھ حصہ تو بیرونی آمدنی اور نج کاری کے ذریعے پورا کیا جائے گا، تاہم اس کا بڑا حصہ (یعنی تقریباً 97 فی صد) نئے قرضوں کے ذریعے پورا جائے گا۔ یعنی آئندہ آنے والے برسوں میں ان قرضوں پر سْود اور اصل رقم کی واپسی ایک بڑا چیلنج ہوگی۔
ان اعدادو شمار کی روشنی میں اگر بجٹ کے اغراض ومقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو حکومت کو ادائیگیوں کا توازن درست رکھنے کے لیے مالیاتی نظم و نسق پر مبنی اقدامات پر توجہ مرکوز رکھنی ہوگی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بجٹ غربت، مہنگائی، بیروزگاری جیسے عوامی مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا؟ اور کی عام آدمی کے لیے موجودہ بجٹ میں کوئی ریلیف دیا گیا ہے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس بار حکومت نے کم ازکم تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں کیا، دوسری طرف کاربن لیوی کے نفاذ کے بعد پٹرول 2.5 روپے فی لیٹر مہنگا کردیا گیا اور پٹرولیم مصنوعات پر ڈویلپمنٹ لیوی میں بھی مزید اضافہ کردیا گیا۔ (جاری ہے)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جس کے لیے مختص کی جانی والی رقم ترقیاتی اخراجات وفاقی حکومت کے اخراجات کے لیے فی صد بنتی ہے بلین روپے ہے جو کل بجٹ کا اخراجات کی وفاقی بجٹ ہونے والی کی مد میں حکومت کی ل بجٹ کا جائے گا گئے ہیں س ود کی کے بعد بڑی مد
پڑھیں:
وفاقی حکومت کا 300 ارب روپے کی گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا. آڈیٹر جنرل
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 جولائی ۔2025 ) آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کا 300 ارب روپے کی گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا جو ناقابل اعتماد ڈیٹا کی بنیاد پر کیا گیا نجی ٹی وی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 24-2023 میں گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ان دانستہ تاخیری اقدامات کا نتیجہ ہے جس سے نجی شعبے کو فائدہ جب کہ گندم کے کاشتکاروں اور قومی خزانے کا نقصان پہنچا.(جاری ہے)
رپورٹ کے مطابق جس سال یہ گندم امپورٹ کی گئی اس سال ملکی تاریخ میں گندم کی سب سے زیادہ پیداوار ہوئی تھی، وافر اسٹاک ہونے کے باوجود قومی طلب کے اندازے کو جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے منظوری 24 لاکھ میٹرک ٹن امپورٹ کی دی، امپورٹ 35 لاکھ ٹن سے زائد کر لی . آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹ بدنام زمانہ گندم اسکینڈل کی سنگینی کی سرکاری طور پر تصدیق ہے پنجاب اور سندھ نے کم گندم جاری کر کے مصنوعی قلت اور قیمتوں میں اضافے کے اسباب پیدا کیے رپورٹ کے مطابق گندم کے بڑے پیداواری مراکز سمجھے جانے والے صوبوں پنجاب اور سندھ نے 2023 کے وسط میں فلور ملز کو گندم کی بہت کم مقدار فراہم کی جس سے مارکیٹ میں مصنوعی قلت کا تاثر پیدا ہوا اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا. رپورٹ کے مطابق وزارت غذائی تحفظ اور وزارت تجارت نے نجی شعبے کو فائدہ پہنچانے کی خاطر جان بوجھ کر درآمدی عمل کو تاخیر کا شکار بنایا اے جی پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 24-2023 میں سرکاری شعبے کی گندم خریداری ہدف سے 25 فیصد کم رہی جب کہ 25-2024 میں یہ کمی 40 فیصد تک جاپہنچی اور پنجاب نے 25-2024 میں ایک دانہ گندم بھی نہیں خریدی حکومت نے گندم کا کم از کم امدادی نرخ کا بروقت اعلان نہیں کیا جو کاشتکاروں کو قیمت کا تحفظ فراہم کرنے والی اہم پالیسی ہوتی ہے. رپورٹ میں کہا گیا کہ گندم فصل کی کٹائی سے عین قبل درآمد کی گئی اور اسے ریاست کے بجائے نجی درآمد کنندگان نے ذخیرہ کیا کیونکہ حکومت کے پاس صرف 5 لاکھ میٹرک ٹن گنجائش تھی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسٹریٹجک ذخائر سے متعلق دعوے غلط اور گمراہ کن تھے، مقامی کاشتکاروں کے فوائد درآمد کنندگان اور ذخیرہ اندوزوں میں بانٹے گئے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ افغانستان کی گندم کی طلب کو بغیر کسی دستاویز یا جواز کے پاکستان کی ملکی کھپت میں شامل کیا گیا.