شریف خاندان پنجاب کے عوام کا پیسہ لندن منتقل کر رہا ہے: بیرسٹر سیف
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
—فائل فوٹو
مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ شریف خاندان پنجاب کے عوام کا پیسہ لندن منتقل کر رہا ہے۔
ایک بیان میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ پنجاب حکومت 10 کھرب روپے کی مالی بےضابطگیوں کا جواب دینے سے قاصر ہے۔
زرعی ترقیاتی بینک (زیڈ ٹی بی ایل) کی ساڑھے 11 روپے مالیت کے قرض کی فائلیں گم ہونے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آڈٹ رپورٹ پر خاموشی پنجاب میں لوٹ مار اور کرپشن کا واضح ثبوت ہے، پنجاب میں منصوبے عوامی فلاح کے بجائے کمیشن کے لیے شروع کیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 10 کھرب کا اسکینڈل تو صرف آڈٹ رپورٹ میں سامنے آیا، باقی کرپشن اس کے علاوہ ہے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
تنخواہ دار اور کارپوریٹ طبقے کیلیے ٹیکس ریلیف تجاویز آئی ایم ایف کو بھیجنے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: حکومت نے مختلف شعبوں کے لیے تیار کیے گئے ٹیکس ریلیف اقدامات کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت دی ہے کہ تنخواہ دار طبقے اور کارپوریٹ سیکٹر کے لیے مجوزہ ریلیف کے اہم نکات آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں شامل کیے جائیں تاکہ ان پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہو سکے۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب انکم ٹیکس ریفارمز پینل نے اپنی جامع سفارشات وزیراعظم کے سامنے پیش کیں، جن میں مجموعی طور پر 975 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کی تجاویز شامل تھیں۔ پینل نے اس ریلیف کے ذریعے ٹیکس دہندگان خصوصاً تنخواہ دار طبقے کو قابلِ ذکر سہولت دینے پر زور دیا ہے اور ان پر ٹیکس بوجھ میں 25 فیصد کمی کی تجویز دی ہے۔
اجلاس کے دوران سامنے آنے والی سفارشات میں انکم ٹیکس سرچارج کا خاتمہ، غیر ملکی اثاثوں پر عائد کیپٹل ویلیو ٹیکس کی واپسی اور کئی ایسے ٹیکسوں کو ختم کرنے کی تجاویز شامل ہیں جنہیں نجی شعبہ ایک عرصے سے غیر منصفانہ قرار دیتا آیا ہے۔
ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میں مزید بتایا گیاہ ے کہ ان تجاویز پر فوری عملدرآمد کی صورت میں 600 ارب روپے سے زائد ریلیف ممکن ہے، تاہم آئی ایم ایف پروگرام کی پابندیوں کے باعث حکومت صرف انہی اقدامات پر آگے بڑھے گی جنہیں فنڈ کی جانب سے منظوری مل سکے۔
حکومتی پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی حالات میں وہی فیصلے قابلِ عمل ہیں جو بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی شرائط سے مطابقت رکھتے ہوں، اس لیے ریلیف کے کسی بھی بڑے پیکیج کو آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوگا۔
اس حوالے سے ورکنگ گروپ کے چیئرمین شہزاد سلیم نے اجلاس میں بتایا کہ انکم ٹیکس کے متعدد موجودہ قوانین کاروباری طبقے پر غیرضروری بوجھ ڈالتے ہیں اور ان کا خاتمہ ملکی معیشت کو سانس لینے کا موقع دے سکتا ہے۔
اجلاس میں نجی شعبے کی رائے یہ سامنے آئی کہ سب سے پہلے سپر ٹیکس، منیمم انکم ٹیکس، کارپوریٹ ڈیویڈنڈ ٹیکس، سندھ انفراسٹرکچر سیس، پنجاب سیس، ایکسپورٹرز پر ایڈوانس انکم ٹیکس اور ورکرز ویلفیئر ٹیکس جیسے سنگین مالیاتی بوجھ کو ختم کیا جانا چاہیے۔
تجاویز کے مطابق صرف سپر ٹیکس کے خاتمے سے 190 ارب روپے کا ریلیف ممکن ہے جب کہ کارپوریٹ ٹیکس ریٹ کو 25 فیصد تک لانے سے 170 ارب روپے کی اضافی سہولت مل سکتی ہے۔ اسی طرح تنخواہ دار طبقے کے لیے 120 ارب روپے کے ریلیف کی سفارش بھی کی گئی ہے، جسے کاروباری برادری نے ایک ناگزیر قدم قرار دیا ہے۔
وزیراعظم آفس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کردی ہے جو سفارشات کا تفصیلی جائزہ لے کر انہیں قابلِ عمل شکل دینے کے لیے روڈ میپ تیار کرے گی۔ کمیٹی میں شہزاد سلیم اور وزیر مملکت برائے خزانہ بلال کیانی بھی شامل ہوں گے۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کاروباری طبقہ ایک طویل عرصے سے ٹیکس سسٹم کی پیچیدگیوں کا ہدف بنا ہوا ہے اور ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ایسے ٹیکس ختم کرنا ضروری ہیں جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ حکومت برآمدات کی بنیاد پر معاشی ترقی کے لیے عملی اقدامات کررہی ہے اور ٹیکس دہندگان کے کاروبار ہی ملک کی ٹیکس آمدن کو بہتر بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔