کراچی والوں کے ادھورے خواب، منہدم گھر
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
کبھی کسی نے کہا تھا کہ اگر کوئی جانے نہ جانے، تو گل ہی نہ جانے۔ مگر ہمارے کراچی کی قسمت میں شاید زرداری جیسے ’’گل‘‘ ہی ہیں
نہ جاننے والے، نہ سننے والے، نہ بدلنے والے۔ یوں کہنا بجا ہوگا: پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے؍ جانے نہ جانے زرداری نہ جانے، شہر تو سارا جانے ہے۔ کراچی وہ شہر جو پاکستان کی شہ رگ ہے، آج بے بسی، بدحالی اور بدنامی کا استعارہ بن چکا ہے۔ گزشتہ دنوں لیاری میں ایک اور عمارت زمین بوس ہوئی ایک اور قیامت صغریٰ برپا ہوئی، جہاں کئی زندگیاں ملبے تلے دب گئیں، کئی خوابوں نے اینٹوں کے نیچے آخری سانس لی اور کئی خاندان چھت کی آس سے محروم ہو گئے۔ اور المیہ تو یہ ہے کہ یہ پہلا سانحہ نہ تھا، اور حالات یہی رہے تو نہ ہی لگتا ہے کہ آخری ہوگا۔ مگر سوال کہ قصوروار کون ہے؟ کیا یہ صرف بدانتظامی ہے؟ یا کسی منظم بربادی کا منصوبہ؟ یہ سب کچھ انہی ہاتھوں سے ہو رہا ہے جنہوں نے پچھلے سترہ برسوں میں حکمرانی کے بجائے بدعنوانی کا باقاعدہ فلسفہ مسلط کیا۔ یہاں اقتدار کو خدمت کے بجائے ایک تجارتی ٹھیکے میں بدل دیا جسے ہر بار نئے نرخوں پر بیچا جاتا ہے اور قیمت چکاتا ہے کراچی کا عام شہری، اپنی جان، اپنا گھر، اور اپنے خواب دے کر۔ سندھ کے یہ حکمران جو ہر سانحے کے بعد ایک نیا وعدہ، ایک نئی کمیٹی، اور ایک رسمی تعزیتی بیان لے کر آتے ہیں وہ صرف ناکام نہیں، بلکہ نااہلی کی وہ بلند ترین مثال ہیں جو خود اپنے قائم کردہ ریکارڈز کو ہر سانحے میں توڑنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ نہ کوئی ثبوت بچتا ہے، نہ کوئی مجرم کٹہرے تک پہنچتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ظلم نے وردی پہن لی ہو اور ناانصافی نے قانون کا لباس اوڑھ کر عدل کو یتیم کر دیا ہو۔
اب یہ سب فقط کتابی باتیں نہیں رہیں ہم نے خود اس اندھیر نگری کا تجربہ کیا، جب کچھ دن پہلے ایک فلیٹ خریدنے کا ارادہ کیا۔ ائرپورٹ کے سامنے ایک پلازہ دل کو بھا گیا۔ قیمت طے ہوئی، ارادہ پختہ ہوا، مگر چونکہ ہم قانون کی باریکیوں سے ناآشنا تھے، اس لیے اپنے دوست، برادر زبیر منصوری کو ساتھ لیا۔ وہاں جا کر انہوں نے صرف ایک سوال پوچھا: ’’اس کی لیز ڈیڈ کہاں ہے؟‘‘ جواب آیا: ’’کہ یہ تعمیر ہونے کے بیس سال بعد پہلی مرتبہ ٹرانسفر ہو رہا ہے، اس لیے آپ کو الاٹمنٹ خود کروانی ہو گی‘‘۔ ہم نے تحقیق کی تو حقیقت بے نقاب ہونے لگی۔ ائرپورٹ کے سامنے اور شارع فیصل کی بلند و بالا عمارتیں نہ صرف غیر قانونی بلکہ بیش تر نالوں اور ریلوے کی زمین پر تعمیر کی گئی تھیں۔ ایک عمارت تو شمسی سوسائٹی جانے والے راستے کو اس قدر تنگ کر چکی ہے جس کے باعث ریلوے پھاٹک پر ہر روز اک قیامت خیز ہجوم ہوتا ہے۔ یہاں شاطر تاجر اور بدعنوان ’’کے بی سی اے‘‘ کے اہلکار مل کر وہ کچھ کر چکے ہیں جس پر تاریخ بھی شرمندہ ہوگی کہ پارکوں کی زمینوں پرکنکریٹ کے قبرستان اگا دیے گئے ہیں۔
یہ شہر صرف بسوں، بلڈنگز اور بینرز سے نہیں بھرا، یہ شہر اب حکمرانوں کے گناہ کی گواہی دیتا ہے ہر دیوار، ہر ستون، ہر اینٹ… بس چیخ رہی ہے کہ: یہاں قانون بک چکا ہے، یہاں انصاف نیلام ہو چکا ہے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ جن عمارتوں کو قانونی کہا گیا، جن فلیٹوں کے مکینوں نے بھاری رقوم دے کر کاغذات کے انباروں میں سکون تلاش کیا ان پر بھی ظلم کی وہ سیاہ چھاؤں پڑی جس نے نہ صرف ان کے پارکوں کے آنگن چھینے بلکہ ان کے مسجدوں کے پلاٹس تک نگل لیے۔ جس عمارت کا میں ذکر کررہا ہوں اس میں پارک کی جگہ عمارت ایک اور پلازہ کھڑا کردیا اور مسجد کے پلاٹ کو بھی محدود کر کے ایک کونے میں قید کر دیا گیا ہے۔ ان مکینوں کی قسمت میں اب نہ سایہ ہے، نہ سانس نہ آکسیجن بھری ہوا۔
ہمارا شہر اب بدقسمتی کی جیتی جاگتی تصویر ہے اور نظام ویسا ہی بے حس، ویسا ہی جامد ہے۔ لیاری سانحہ پر جنہیں گرفتار ہونا چاہیے تھا، وہ فائلوں کی اوٹ میں چھپے بیٹھے ہیں۔ جنہیں استعفا دینا چاہیے تھا، وہ میڈیا پر ’’تحقیقات‘‘ کا ناٹک کھیل رہے ہیں۔ چند افسر، رسمی طور پر معطل کیے گئے، مگر جانتے ہیں نا؟ یہاں معطلی اکثر ایک آرام دہ وقفہ ہوتی ہے جس کے بعد بحالی کا پروانہ سرکاری لفافے میں خوشبو لگا کر بھیجا جاتا ہے۔ بھٹو کو زندہ رکھتے رکھتے پیپلز پارٹی نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے سیاسی قلعے کو کھنڈر بنادیا ہے۔ یہاں ٹھیلے والے سے لے کر ٹرک ڈرائیور تک، رکشے سے لے کر اسکوٹر تک، ہر اک سے ’’حصہ‘‘ لیا جاتا ہے جو سیدھا بلاول ہاؤس کی دیگ میں جا گرتا ہے۔ پھر اس تماشے کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ کہ جنہوں نے اس راکشس کو جنم دیا یعنی ریاست کی وہ مقدس مخلوق، جنہیں ہم ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کہہ کر تقدیس دیتے ہیں وہ سب جانتے ہوئے بھی چپ کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں۔
کراچی پر دھاندلی زدہ سرکار مسلط کرنے والے بھی لگتا ہے کہ تماش بین بن کر شہریوں کی بے بسی کا تمسخر اڑا رہے ہیں اور خوشی خوشی اپنی ’’نامزد جمہوریت‘‘ کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ہماری پیاری اسٹیبلشمنٹ جو خود کو ’’ریاست کی ریڑھ کی ہڈی‘‘ کہتی ہے، آج ووٹ چراتی ہے، بکسے بدلتی ہے، ٹھپے لگاتی ہے، اور پھر ٹی وی پر آکر ’’جمہوریت زندہ باد‘‘ کا ترانہ گاتی ہے۔
تو چلیے، آئیے! ہم اپنی آرزوئیں دفنائیں، اپنے خواب دفنائیں، اپنی چھتیں دفنائیں… اور پھر اگلے سانحے کا صبر سے انتظار کریں چونکہ ہم نے بغاوت ترک کر دی ہے، ہم صرف نوحے لکھتے ہیں، صرف آنسو بہاتے ہیں، صرف امید کے کتبے سجاتے ہیں۔ مگر سنا ہے کہ ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ جب یہ لاوا اْبلے گا تو نہ ٹینکر بچے گا، نہ ٹاور، نہ تخت، نہ تاج، نہ وہ جو سمجھتے ہیں کہ ان کی دیواریں فولاد کی ہیں۔ کیونکہ ماضی گواہ ہے اور مستقبل پر امید۔ باغ کا ہر پتا، ہر بوٹا جانتا ہے…
’’اک دن بغاوت آئے گی،
تمہارے تخت ہلائے گی
جن سروں پہ تم نے پاؤں رکھے
وہی خلقت تمہیں جھکائے گی!‘‘
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
قتل کیے جانے والے 9 افراد کی مییتیں بلوچستان حکومت نے ڈیرہ غازی خان انتظامیہ کے حوالے کردی
فائل فوٹولورالائی کے قریب قتل کیے جانے والے 9 افراد کی مییتیں بلوچستان حکومت نے ڈی جی خان انتظامیہ کے حوالے کردی۔
انتظامیہ نے بتایا کہ جاں بحق ہونے والے 9 مسافروں کا تعلق پنجاب کے مختلف علاقوں سے ہے۔
انتظامیہ کے مطابق جابر اور عثمان دونوں سگے بھائیوں کا تعلق لودھراں کی تحصیل دنیا پور سے تھا۔
محمد عرفان کا تعلق ڈی جی خان، صابر کا تعلق گوجرانولہ سے محمد آصف کا تعلق مظفرگڑھ سے تھا۔
اسسٹنٹ کمشنر ژوب نوید عالم کا کہنا ہے کہ جاں بحق مسافروں کی میتوں کو رکھنی اسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ غلام سعید کا تعلق خانیوال سے، محمد جنید کا تعلق لاہور سے تھا، محمد بلال اٹک جبکہ بلاول کا تعلق گجرات سے تھا۔
کمشنر ڈیرہ غازی خان اشفاق احمد چوہدری کے مطابق تمام مییتیں بلوچستان کے ضلع بارکھان انتظامیہ نے پنجاب انتظامیہ کے حوالے کی۔
کمشنر ڈی جی خان اشفاق احمد کے مطابق جاں بحق 9 افراد کی لاشیں بلوچستان پنجاب سرحد پر وصول کرلی گئی ہیں جہاں سرحدی علاقے بواٹہ پر میتیں پولیٹیکل اسسٹنٹ اسد چانڈیہ نے وصول کیں جس کے بعد میتوں کو ان کے آبائی علاقوں میں روانہ کردیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان سے پنجاب جانیوالے 9 مسافروں کو دہشتگردوں نے بس سے اتار کر گزشتہ رات قتل کردیا تھا۔