’علامہ‘ کا لقب سعید اظہر صاحب کو کس نے دیا، یہ تو معلوم نہیں، لیکن ’مولوی‘کا لقب ان کو حسین نقی صاحب نے عنایت کیا تھا۔ اگرچہ جب میں نے انھیں دیکھا، تو ان کی سوچ پر مودودی صاحب کا کوئی نقش باقی نہ رہا تھا، اور ان کے دل و دماغ پر بھٹو صاحب پوری طرح چھا چکے تھے۔
گئے دنوں کی نشانی کے طور پر ڈاڑھی بہرحال ان کے چہرے پراب تک موجود تھی۔ میری ان سے واقفیت ہارون الرشید صاحب کے توسط سے ہوئی، جن سے گپ شپ کے لیے وہ ہفت روزہ’ندا‘ کے دفتر آیا کرتے تھے۔
درمیانہ قد، گول مٹول چہرہ، گندمی رنگ کچھ سانولا سا، سر پر ’گنج گرانمایہ‘ نمودار ہو چکا تھا، عمر پینتالیس کے لگ بھگ۔ ہکلاہٹ کے باعث بولتے بولتے ایک بار اٹک جاتے، تو کافی زور لگا کے باقی کا فقرہ مکمل کرتے تھے۔ مزاج میں مگر اتنی شگفتگی تھی کہ ان سے باتیں کرتے ہوئے ان کی اس قدرتی خامی کا احساس تک نہ ہوتا تھا۔ ہارون صاحب تو جلد ہی’’ندا‘‘ کو داغ مفارقت دے گئے، مگر سعید صاحب ان کے بعد بھی آتے رہے کہ ہم سب ان کے گرویدہ ہو چکے تھے۔
وہ سمن آباد اسلامیہ پارک میں، دفترکے قریب ہی، کرایہ کے چھوٹے سے خستہ حال مکان میں رہتے تھے۔ اس دورکی اتنی یادیںہیں کہ اس مختصرکالم میں ان کو سمیٹنا ناممکن ہے۔ وہ ان دنوں بھی بیروزگار تھے، جیسا کہ زندگی میں اکثر رہے، اورتنگی ترشی میں گزر بسر کر رہے تھے۔ ان کی اہلیہ فہمیدہ باجی پریشان تو ہوتی تھیں، مگر رب کی رضا پر راضی تھیں اور صبر کا دامن تھامے رکھتی تھیں۔ میرے ساتھ ان کا سلوک چھوٹے بھائیوں جیسا تھا۔
اتوار کوکبھی کبھی ناشتہ سعید صاحب کے گھر ہوتا تھا۔ فہمیدہ باجی کو معلوم تھا، میں پراٹھا شوق سے کھاتا ہوں، چنانچہ جیسے ہی ان کے گھر پہنچتا، کچھ ہی دیر میں گرم گرم پراٹھا، فرائی انڈہ اور چاے کا بڑا ساکپ میرے سامنے ہوتے تھے۔ کبھی کچھ دیر کے لیے وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ جاتیں، لیکن جیسے ہی سعید صاحب، جیسا کہ ان کی عادت تھی، اچانک سے گہری نفسیاتی سطح کی پیچیدہ گفتگو شروع کردیتے، تو وہ تھوڑی دیر بڑی محبت اور احترام کے ساتھ ان کی طرف دیکھتی رہتیں، اور پھر برتن سمیٹ کر خاموشی سے اٹھ کے چلی جاتیں، اس طرح غیر محسوس انداز میں کہ ان کے جانے کے کافی دیر بعد معلوم ہوتا تھا کہ وہ جا چکی ہیں۔
ہارون صاحب کے چند ماہ بعد، میں نے بھی ’ندا‘کو خیر باد کہہ دیا، اور ساتھ ہی سمن آباد کو بھی، لیکن اس کے بعد جہاں بھی رہا، سعید صاحب اور فہمیدہ باجی کی محبت، شفقت اور دعاؤں کا ساتھ کبھی نہیں چھوٹا۔ سعید صاحب کو، سوائے چند برسوں کے، میں نے ہمیشہ مالی مشکلات میں مبتلا دیکھا۔ یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ وراثت سے کچھ حصہ مل گیا اور وہ سمن آباد میں اپنا گھر بنانے میں کامیاب ہو گئے، ورنہ ان کے جو تیور اور حالات تھے۔
ان میں اس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا۔ ’سیاسی باتیں‘کے نام سے انھوں نے ایک ڈیکلریشن لے رکھا تھا، مگر یہ ہفت روزہ بس خواب ہی رہا، یہاں تک کہ اس کی ڈمی تیار کرکے ڈی جی پی آر میں جمع کرانے والے مقبول احمد اور ماسٹر بشر بھی دنیا سے کوچ کر گئے۔ یہ ان کا اسی طرح کا ادھورا خواب تھا، جس طرح کے خواب وہ زندگی بھر دیکھتے رہے، خوشحال زندگی کا خواب، انقلاب کا خواب، جمہوریت کا خواب ، فلاحی ریاست کا خواب، قانون کی حکمرانی کا خواب، اور بھرپور صحت کے ساتھ جینے کا خواب، لیکن ان میں سے کوئی خواب بھی پورا نہ ہوا، اور یہ آخری خواب تو اس طرح بکھرا کہ اس کی روداد رُلا دینے والی ہے۔
سعید صاحب ہکلاہٹ کے ساتھ ساتھ اپنی بعض بے اعتدالیوں کے سبب ہمیشہ صحت کے مسائل کا شکار رہے۔ مگر، جب یہ معلوم ہوا کہ علالت کے باعث باقاعدہ سروسز اسپتال میں داخل ہو چکے ہیں، تو کچھ تشویش ہوئی۔ دوسرے روز سروسز پہنچا، دیکھا کہ پھیکی پھیکی روشنی میں ایک تنگ سے کمرے میں بے حال پڑے ہیں۔ کہنے لگے، مثانے کی تکلیف کے سبب ایک پرائیویٹ اسپتال سے آپریشن کرایا، مگرتکلیف کم ہونے کے بجائے بڑھ چکی ہے۔ جیساکہ تنگدست لوگوں کا المیہ ہوتا ہے کہ ان حالات میں علاج کے اخراجات بیماری سے بڑھ کے عذاب جان ہو جاتے ہیں، سعید صاحب بھی کمرے کے کرایے اور ادویہ کے خرچہ سے سخت گبھرائے ہوئے تھے۔
چوہدری پرویز الٰہی صاحب ان دنوں پنجاب اسمبلی کے اسپیکر تھے۔ میں نے ان کو فون پر سعید صاحب کی تکلیف سے آگاہ کیا۔ پرویز صاحب نے کہا، ’ان سے کہیں فکر نہ کریں‘،اور دس منٹ بعد جب میں نے سعید صاحب کو فون کیا، تو وہ بڑے خوش تھے،کہنے لگے ،’ابھی کچھ دیر پہلے ایم ایس خود تشریف لائے تھے اور اب مجھے وی آئی پی روم میں شفٹ کیا جا رہا ہے۔ چند ہفتوں بعد وہ مکمل صحت یاب ہو کرگھر واپس آ گئے، مگر ایک روز پھر مرض عود کر آیا۔ اتفاق سے اسی روز ان سے ملنے کے لیے ان کے گھر گیا تھا، دیکھا کہ سخت اذیت میں ہیں۔
میں نے ان کو تشفی دی۔ ان کا بیٹا اشعر بھی لندن سے آ چکا تھا۔ ہم سعید صاحب کے سرہانے بیٹھے تھے، اور ان کا دھیان بٹانے کے لیے میں اشعرکو سعید صاحب کے ساتھ گزرے دنوں کے خوش گوار قصے سنا رہا تھا، مگر اس دوران ان کے چہرے کی طرف دیکھا، تو آنسو ان کی آنکھوں سے ڈھلک کر ان کے گالوں کو ترکر رہے تھے۔کچھ دیر بعد میں اٹھنے لگا، تو درد کی شدت سے کراہتے ہوئے کہا، مجھے کسی طرح اسپتال لے جاؤ۔ مجھ سے ان کی یہ کیفیت دیکھی نہ گئی۔ میں پھر پرویز الٰہی صاحب کے پاس پہنچا۔
ان کی ہدایت پر اسی روزسعید صاحب کو دوبارہ وی آئی پی وارڈ میں داخل کرکے علاج شروع کر دیا گیا۔ لیکن، وہ جو کہتے ہیں کہ’ مرض بڑھتا ہی گیا ، جوں جوں دوا کی‘ درد کُش ادویہ کے زیر اثر وقتی طور پرکچھ افاقہ تو ہوا، مگر جب لیب رپورٹ آئی، تو معلوم ہوا کہ وہ کینسر میں مبتلا ہو چکے ہیں، جو آخری اسٹیج پر ہے۔
جس روز یہ رپورٹ آئی، اور وہ سروسز سے ڈسچارج ہو کے واپس گھر پہنچے، یہ بڑا ہی دردناک منظر تھا۔ وہ ٹی وی لاؤنج کے فرش پر ہی ٹانگیں پیٹ کے ساتھ لگا کے لیٹ گئے۔ ان کے دوست مولوی رفیق گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ فہمیدہ باجی کے چہرے کا رنگ زرد پڑگیا۔ یہ سب دیکھ کے ان کی چھوٹی بیٹی حرا کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا، بلکہ اس وقت کسی کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آ رہا تھا۔ میں نے چند ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے ان کو حوصلہ دینے کی کوشش کی، مگر اس حال میں لفظ بھلا کب مداوا بن سکتے ہیں۔
آخر میں مولوی رفیق ہی ہمت کرکے اٹھے، اور ان کے پاس فرش پر بیٹھ گئے اور نرمی سے کہا ’’مولوی صاحب، کچھ نہیں ہوا، کل سے ہم علاج شروع کرتے ہیں ، اللہ خیر کرے گا۔‘‘ مولوی رفیق کب رکشہ چلاتے چلاتے سعید صاحب کی زندگی میں داخل ہوئے، یہ کوئی نہیں جانتا، مگر زندگی بھر وہ سایے کی طرح سعید صاحب کے ساتھ ساتھ رہے، اور آخری ایام میں تو رفاقت کا حق ادا کر دیا۔ چند روز بعد علاج شروع ہو گیا، پھر کیموتھراپی کا مرحلہ آیا، لیکن جلد ہی وہ اس عمل سے اکتا گئے۔ شاید وہ جان چکے تھے کہ موت کا نقارہ بج چکا ہے، مزاحمت بیکار ہے، اور اب وہ صرف یہی چاہتے تھے کہ یہ مرحلہ، جو ٹل نہیں سکتا ، تو جلد از جلد مکمل ہو جائے، جیسے ان کے ہیرو بھٹو نے کہا تھاکہ finish it ۔
انھی دنوں ان سے ملنے گیا، دیکھا کہ مولوی رفیق کا سہارا لے کر گھر میں داخل ہو رہے ہیں۔ کیمو تھراپی کرا کے ابھی واپس پہنچے تھے۔ آتے ہی بستر پر لیٹ گئے، اورکوئی بات نہ کی۔ میں نے رفیق کی طرف دیکھا۔ انھوں نے مایوسی سے سر ہلایا۔ بڑے بوجھل دل کے ساتھ واپس لوٹا۔ چند روز بعد فہمیدہ باجی کا فون آیا ’سعید کی حالت بگڑ رہی ہے، ہم سروسز ایمرجنسی جا رہے ہیں‘‘۔ جن ایم ایس کو چوہدری صاحب نے ان کا دھیان رکھنے کے لیے کہا تھا ، وہ ابھی وہیں تعینات تھے ۔
سعید صاحب کو فوری طور پر داخل کرکے طبی امداد فراہم کر دی گئی۔ مگر، یہ بجھتے ہوئے چراغ کی آخری ہچکی تھی۔ ان کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتا تھاکہ اپنی یادوں میں انھیں زندہ ہی دیکھنا چاہتا تھا۔ اس طرح دوستو، ہمارے مولوی سعید اظہر صاحب کا باقی خوابوں کی طرح بھرپورطور پر جینے کا خواب بھی حسرت بن کے رہ گیا۔ وہ میرے ساتھ پرویز الٰہی صاحب کا شکریہ ادا کرنے جانا چاہتے تھے، مگر ان کی یہ معمولی سی خواہش بھی پوری نہ ہو سکی ؎
بجدوجہد چو کارے نمی رود از پیش
بکردگار رہا کردہ ام مصالح خویش
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سعید صاحب کے سعید صاحب کو فہمیدہ باجی مولوی رفیق رہا تھا کے ساتھ کا خواب کے لیے
پڑھیں:
کراچی والوں کے ادھورے خواب، منہدم گھر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
کبھی کسی نے کہا تھا کہ اگر کوئی جانے نہ جانے، تو گل ہی نہ جانے۔ مگر ہمارے کراچی کی قسمت میں شاید زرداری جیسے ’’گل‘‘ ہی ہیں
نہ جاننے والے، نہ سننے والے، نہ بدلنے والے۔ یوں کہنا بجا ہوگا: پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے؍ جانے نہ جانے زرداری نہ جانے، شہر تو سارا جانے ہے۔ کراچی وہ شہر جو پاکستان کی شہ رگ ہے، آج بے بسی، بدحالی اور بدنامی کا استعارہ بن چکا ہے۔ گزشتہ دنوں لیاری میں ایک اور عمارت زمین بوس ہوئی ایک اور قیامت صغریٰ برپا ہوئی، جہاں کئی زندگیاں ملبے تلے دب گئیں، کئی خوابوں نے اینٹوں کے نیچے آخری سانس لی اور کئی خاندان چھت کی آس سے محروم ہو گئے۔ اور المیہ تو یہ ہے کہ یہ پہلا سانحہ نہ تھا، اور حالات یہی رہے تو نہ ہی لگتا ہے کہ آخری ہوگا۔ مگر سوال کہ قصوروار کون ہے؟ کیا یہ صرف بدانتظامی ہے؟ یا کسی منظم بربادی کا منصوبہ؟ یہ سب کچھ انہی ہاتھوں سے ہو رہا ہے جنہوں نے پچھلے سترہ برسوں میں حکمرانی کے بجائے بدعنوانی کا باقاعدہ فلسفہ مسلط کیا۔ یہاں اقتدار کو خدمت کے بجائے ایک تجارتی ٹھیکے میں بدل دیا جسے ہر بار نئے نرخوں پر بیچا جاتا ہے اور قیمت چکاتا ہے کراچی کا عام شہری، اپنی جان، اپنا گھر، اور اپنے خواب دے کر۔ سندھ کے یہ حکمران جو ہر سانحے کے بعد ایک نیا وعدہ، ایک نئی کمیٹی، اور ایک رسمی تعزیتی بیان لے کر آتے ہیں وہ صرف ناکام نہیں، بلکہ نااہلی کی وہ بلند ترین مثال ہیں جو خود اپنے قائم کردہ ریکارڈز کو ہر سانحے میں توڑنے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ نہ کوئی ثبوت بچتا ہے، نہ کوئی مجرم کٹہرے تک پہنچتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ظلم نے وردی پہن لی ہو اور ناانصافی نے قانون کا لباس اوڑھ کر عدل کو یتیم کر دیا ہو۔
اب یہ سب فقط کتابی باتیں نہیں رہیں ہم نے خود اس اندھیر نگری کا تجربہ کیا، جب کچھ دن پہلے ایک فلیٹ خریدنے کا ارادہ کیا۔ ائرپورٹ کے سامنے ایک پلازہ دل کو بھا گیا۔ قیمت طے ہوئی، ارادہ پختہ ہوا، مگر چونکہ ہم قانون کی باریکیوں سے ناآشنا تھے، اس لیے اپنے دوست، برادر زبیر منصوری کو ساتھ لیا۔ وہاں جا کر انہوں نے صرف ایک سوال پوچھا: ’’اس کی لیز ڈیڈ کہاں ہے؟‘‘ جواب آیا: ’’کہ یہ تعمیر ہونے کے بیس سال بعد پہلی مرتبہ ٹرانسفر ہو رہا ہے، اس لیے آپ کو الاٹمنٹ خود کروانی ہو گی‘‘۔ ہم نے تحقیق کی تو حقیقت بے نقاب ہونے لگی۔ ائرپورٹ کے سامنے اور شارع فیصل کی بلند و بالا عمارتیں نہ صرف غیر قانونی بلکہ بیش تر نالوں اور ریلوے کی زمین پر تعمیر کی گئی تھیں۔ ایک عمارت تو شمسی سوسائٹی جانے والے راستے کو اس قدر تنگ کر چکی ہے جس کے باعث ریلوے پھاٹک پر ہر روز اک قیامت خیز ہجوم ہوتا ہے۔ یہاں شاطر تاجر اور بدعنوان ’’کے بی سی اے‘‘ کے اہلکار مل کر وہ کچھ کر چکے ہیں جس پر تاریخ بھی شرمندہ ہوگی کہ پارکوں کی زمینوں پرکنکریٹ کے قبرستان اگا دیے گئے ہیں۔
یہ شہر صرف بسوں، بلڈنگز اور بینرز سے نہیں بھرا، یہ شہر اب حکمرانوں کے گناہ کی گواہی دیتا ہے ہر دیوار، ہر ستون، ہر اینٹ… بس چیخ رہی ہے کہ: یہاں قانون بک چکا ہے، یہاں انصاف نیلام ہو چکا ہے۔ یہ کیسا المیہ ہے کہ جن عمارتوں کو قانونی کہا گیا، جن فلیٹوں کے مکینوں نے بھاری رقوم دے کر کاغذات کے انباروں میں سکون تلاش کیا ان پر بھی ظلم کی وہ سیاہ چھاؤں پڑی جس نے نہ صرف ان کے پارکوں کے آنگن چھینے بلکہ ان کے مسجدوں کے پلاٹس تک نگل لیے۔ جس عمارت کا میں ذکر کررہا ہوں اس میں پارک کی جگہ عمارت ایک اور پلازہ کھڑا کردیا اور مسجد کے پلاٹ کو بھی محدود کر کے ایک کونے میں قید کر دیا گیا ہے۔ ان مکینوں کی قسمت میں اب نہ سایہ ہے، نہ سانس نہ آکسیجن بھری ہوا۔
ہمارا شہر اب بدقسمتی کی جیتی جاگتی تصویر ہے اور نظام ویسا ہی بے حس، ویسا ہی جامد ہے۔ لیاری سانحہ پر جنہیں گرفتار ہونا چاہیے تھا، وہ فائلوں کی اوٹ میں چھپے بیٹھے ہیں۔ جنہیں استعفا دینا چاہیے تھا، وہ میڈیا پر ’’تحقیقات‘‘ کا ناٹک کھیل رہے ہیں۔ چند افسر، رسمی طور پر معطل کیے گئے، مگر جانتے ہیں نا؟ یہاں معطلی اکثر ایک آرام دہ وقفہ ہوتی ہے جس کے بعد بحالی کا پروانہ سرکاری لفافے میں خوشبو لگا کر بھیجا جاتا ہے۔ بھٹو کو زندہ رکھتے رکھتے پیپلز پارٹی نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے سیاسی قلعے کو کھنڈر بنادیا ہے۔ یہاں ٹھیلے والے سے لے کر ٹرک ڈرائیور تک، رکشے سے لے کر اسکوٹر تک، ہر اک سے ’’حصہ‘‘ لیا جاتا ہے جو سیدھا بلاول ہاؤس کی دیگ میں جا گرتا ہے۔ پھر اس تماشے کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ کہ جنہوں نے اس راکشس کو جنم دیا یعنی ریاست کی وہ مقدس مخلوق، جنہیں ہم ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کہہ کر تقدیس دیتے ہیں وہ سب جانتے ہوئے بھی چپ کا روزہ رکھے بیٹھے ہیں۔
کراچی پر دھاندلی زدہ سرکار مسلط کرنے والے بھی لگتا ہے کہ تماش بین بن کر شہریوں کی بے بسی کا تمسخر اڑا رہے ہیں اور خوشی خوشی اپنی ’’نامزد جمہوریت‘‘ کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ہماری پیاری اسٹیبلشمنٹ جو خود کو ’’ریاست کی ریڑھ کی ہڈی‘‘ کہتی ہے، آج ووٹ چراتی ہے، بکسے بدلتی ہے، ٹھپے لگاتی ہے، اور پھر ٹی وی پر آکر ’’جمہوریت زندہ باد‘‘ کا ترانہ گاتی ہے۔
تو چلیے، آئیے! ہم اپنی آرزوئیں دفنائیں، اپنے خواب دفنائیں، اپنی چھتیں دفنائیں… اور پھر اگلے سانحے کا صبر سے انتظار کریں چونکہ ہم نے بغاوت ترک کر دی ہے، ہم صرف نوحے لکھتے ہیں، صرف آنسو بہاتے ہیں، صرف امید کے کتبے سجاتے ہیں۔ مگر سنا ہے کہ ظلم جب بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ جب یہ لاوا اْبلے گا تو نہ ٹینکر بچے گا، نہ ٹاور، نہ تخت، نہ تاج، نہ وہ جو سمجھتے ہیں کہ ان کی دیواریں فولاد کی ہیں۔ کیونکہ ماضی گواہ ہے اور مستقبل پر امید۔ باغ کا ہر پتا، ہر بوٹا جانتا ہے…
’’اک دن بغاوت آئے گی،
تمہارے تخت ہلائے گی
جن سروں پہ تم نے پاؤں رکھے
وہی خلقت تمہیں جھکائے گی!‘‘