ویڈیوز میں ڈھلتی تصویریں، گوگل نے پاکستان میں جدید اے آئی ٹولز ویو 3 اور فلو متعارف کرادیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
گوگل نے پاکستان میں صارفین کے لیے اپنا جدید ترین ویڈیو جنریشن ماڈل Veo 3 اور Flow متعارف کرا دیا ہے۔
ویو 3 ایک ویڈیو جنریشن ماڈل ہے جو پاکستان سمیت دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں گوگل اے آئی پرو سبسکرائبرز کے لیے دستیاب ہے۔ یہ نئی صلاحیت صارفین کو اس سال کے اوائل میں متعارف کرائے گئے Veo 3 پر بنائے گئے طاقتورفوٹو ٹو ویڈیو فیچر کے ذریعے آواز کے ساتھ اپنی پسندیدہ تصاویر کو 8 سیکنڈ کے واضح ویڈیو کلپس میں تبدیل کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اوپن اے آئی کا مصنوعی ذہانت پر مبنی براؤزر جلد متوقع، کیا گوگل کروم کا متبادل بن سکتا ہے؟
دنیا بھر میں صارفین محض 7 ہفتوں میں Veo 3کے ذریعے 4 کروڑ سے زائد ویڈیوز تخلیق کرچکے ہیں جن میں پرانی کہانیوں کو نئے انداز میں پیش کرنا اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار ہے۔ پاکستان میں ڈیجیٹل اسٹوری ٹیلرز اور کنٹنٹ کری ایٹرز کی بڑھتی ہوئی کمیونٹی کے لیے یہ ایک شاندار موقع ہے۔
تصاویر کو ویڈیوز میں تبدیل کرنے کے لیےPrompt box میں موجود ٹولز مینو سےویڈوز کا انتخاب کرکے اپنی تصویر اپلوڈ کریں۔ اس کے بعد منظر اور آڈیو کے لیے ہدایات بیان کریں یوں ایک تصویر ویڈیو کلپ میں تبدیل ہوجائے گی۔
یہ بھی پڑھیے: اوپن اے آئی کا نیا ویب براؤزر گوگل کروم کے لیے چیلنج کیوں؟
یہ جدید فیچر اب منتخب ممالک میں گوگل اے آئی پرو اور الٹرا سبسکرائبرز کے لیے دستیاب ہے۔ یہ ٹول ذاتی لمحات کو محفوظ رکھنے سے لے کر تخلیقی کہانیوں کو ویڈیو میں ڈھالنے تک، ہر لمحے کو زندگی بخشنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
فلم سازوں کے لیے گوگل کے جدید اے آئی ٹول ‘فلو’ میں اب صارفین ویڈیو کلپس میں آواز شامل کر نے کے ساتھ ساتھ ساؤنڈ ایفیکٹس اور بیک گراؤنڈ آڈیو بھی شامل کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ‘فریمز ٹو ویڈیو’ فیچر کی مدد سے صارفین اپنی ذاتی تصاویر کو حیرت انگیز ویڈیو کلپس میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ خصوصیت ویو تھری فاسٹ پر بھی دستیاب ہے، جس سے صارفین اپنے کریڈٹس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ فلو اور گوگل اے آئی الٹرا اب 140 سے زائد ممالک میں دستیاب ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: ڈیپ فیک چہرے کے ساتھ پہلی سرٹیفائیڈ جعلی ویڈیو جاری کر دی گئی
تاہم اس کے ساتھ ساتھ گوگل مصنوعی ذہانت کے ذمہ دار انہ استعمال کے لیے پُرعزم ہے۔ جیمینی کے ذریعے تیار کردہ تمام ویڈیوز میں ایک واضح واٹرمارک اور ایک خفیہSynthID ڈیجیٹل مارکر شامل ہوتا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ یہ اے آئی سے تیار کردہ مواد ہے۔ اس کے علاوہ گوگل تفصیلی جائزے بھی لیتا رہتا ہے تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ ان ٹولز کو کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے اور کس طرح ان کے غلط استعمال کو روکا جا سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
AI veo 3 اے آئی ویو 3.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے آئی ویو 3 میں تبدیل کے ساتھ کے لیے اے آئی
پڑھیں:
ویڈیو لیک ہونے سے بچنا چاہتے ہیں تو ان برانڈز کے فون کبھی استعمال نہ کریں
جدید دور میں جہاں اسمارٹ فون ہماری زندگیوں کا اہم حصہ بن چکے ہیں، وہیں دو معروف موبائل برانڈز ”انفنکس“ (Infinix) اور ”ون پلس“ (OnePlus) پر سنگین الزامات سامنے آئے ہیں جن سے صارفین کی پرائیویسی اور ذاتی معلومات شدید خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ دونوں کمپنیوں پر خفیہ طور پر ڈیٹا چرانے، جاسوسی کرنے اور صارف کی اجازت کے بغیر حساس معلومات شیئر کرنے کے الزامات ہیں۔
Infinix: پہلے سے نصب میلویئر، خفیہ ایپ، اور ڈیٹا لیکس
”ٹرانسن ہولڈنگز“ (Transsion Holdings) کے تحت چلنے والے انفنکس فونز کے بارے میں ”سیکیور- ڈی“ (Secure-D) نامی سیکیورٹی ادارے نے 2020 میں انکشاف کیا تھا کہ ان فونز میں ”xHelper“ اور ”Triada“ جیسے خطرناک میلویئر پہلے سے انسٹال ہوتے ہیں۔ یہ ایپلی کیشنز پس منظر میں کام کرتے ہوئے صارف کے علم کے بغیر اسے مہنگی سبسکرپشن سروسز میں رجسٹر کرتی ہیں، جس سے کروڑوں صارفین کے موبائل بیلنس بغیر اجازت ختم ہو جاتے ہیں۔
2024 کے آخر میں انفنکس کے کچھ ماڈلز میں دو سنگین خامیاں بھی سامنے آئیں:
کوئی بھی مقامی ایپ صارف کی اجازت کے بغیر فون کو فیکٹری ری سیٹ کر سکتی تھی۔
ایک خراب کنفیگریشن والی ویدر ایپ کے ذریعے ایپس کو صارف کی لوکیشن تک رسائی حاصل ہو جاتی تھی۔
مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ انفنکس نے نہ تو عوامی سطح پر ان مسائل کو تسلیم کیا، نہ ہی کوئی واضح اپ ڈیٹ جاری کی، گویا کمپنی ہر چیز کو دبانے میں لگی رہی۔
بھارتی سائبر سیکیورٹی ایجنسی نے 2025 میں انفنکس کو ”ہائی رسک وینڈرز“ کی فہرست میں شامل کیا ہے، جہاں صارفین کی شکایات میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے — جن میں بلاوجہ ڈیٹا خرچ ہونا، ناقابلِ حذف اشتہارات، اور سسٹم لیول پر اسپائی ویئر جیسے فیچرز شامل ہیں۔
OnePlus: چھپی ہوئی نگرانی، امریکی کانگریس میں تحقیقات
”فلیگ شپ کلر“ کے نام سے مشہور ”ون پلس“ نے 2017 میں صارفین کی اجازت کے بغیر آئی ایم ای آئی نمبرز، MAC ایڈریسز اور ایپ کے استعمال کی تفصیلات جمع کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ ساتھ ہی کمپنی کے فونز میں ایک خفیہ ایپ ”EngineerMode“ پائی گئی، جس کے ذریعے کوئی بھی شخص فزیکل رسائی حاصل کر کے پورے فون پر کنٹرول حاصل کر سکتا تھا۔
2025 میں امریکی قانون سازوں نے ون پلس پر الزام عائد کیا کہ اس کے فونز چپکے سے صارفین کا اسکرین ریکارڈ اور دیگر معلومات چین کے سرورز کو بھیجتے ہیں۔ اگرچہ کمپنی نے اس کی تردید کی، مگر سائبر سیکیورٹی ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ ”خاموش نگرانی“ کسی بھی صارف کی ذاتی معلومات کو سنگین خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، ون پلس 2018 اور 2019 میں دو بڑے ڈیٹا لیکس کا بھی شکار ہوا، جس میں ہزاروں صارفین کے نام، ای میل اور پتے افشا ہوئے۔
ZTE: حکومتی نگرانی کا آلہ
اگرچہ ”زی ٹی ای“ (ZTE) پر براہ راست نجی معلومات چرانے کا الزام نہیں، مگر یہ کمپنی امریکہ اور یورپی یونین میں پہلے ہی ممنوع ہے کیونکہ اس پر چینی حکومت کو نگرانی کی سہولت دینے کا الزام ہے۔ 2018 میں امریکہ نے زی ٹی ای کو ”Entity List“ میں شامل کیا، جہاں وہ آج بھی موجود ہے۔
آپ کو فکر مند ہونا چاہیے؟
جی ہاں۔ اگر آپ اپنا فون ذاتی ویڈیوز، حساس پیغامات، یا دفتری معاملات کے لیے استعمال کرتے ہیں، تو Infinix اور OnePlus جیسے برانڈز پر بھروسہ کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ مسلسل میلویئر، خاموش ڈیٹا منتقلی، اور کمپنیوں کی جانب سے غیر شفاف رویے اس بات کا ثبوت ہیں کہ صارف کی رازداری ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔
کیا کرنا چاہیے؟
صرف ان برانڈز پر بھروسہ کریں جن کا پرائیویسی کا ٹریک ریکارڈ واضح اور محفوظ ہو (جیسے Apple، Google Pixel یا Samsung)
اپنے فون کو باقاعدہ اپ ڈیٹ کریں۔
نامعلوم یا مشتبہ ایپس سے بچیں، اور غیر ضروری بلیٹ ویئر کو ختم کریں۔
اگر آپ تکنیکی مہارت رکھتے ہیں تو کسٹم ROMs پر غور کریں۔
یاد رکھیں: آج کا سستا فون کل کی سب سے مہنگی غلطی ثابت ہو سکتا ہے۔