آئی فون میں نئی اپڈیٹ: ’برہنہ‘ ویڈیو کالز ناممکن بنا دی گئیں
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
ایپل کے نئے آپریٹنگ سسٹم ”آئی او ایس 26“ (iOS 26) میں جہاں کئی دیدہ زیب اور جدید فیچرز متعارف کرائے جا رہے ہیں، وہیں ایک غیر متوقع اور متنازع فیچر نے صارفین کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق، اگر فیس ٹائم (ویڈیو کال) کے دوران کسی صارف کے جسم پر کپڑے نہ ہوں، تو سسٹم کال کو خودکار طور پر روک دے گا۔
یہ فیچر دراصل ایپل کی نئی ”فیملی سیفٹی ٹولز“ کا حصہ ہے، جو بنیادی طور پر بچوں کو غیر اخلاقی مواد سے بچانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ کمپنی کے مطابق، یہ فیچر فیس ٹائم پر برہنگی کی صورت میں ویڈیو کو بلر کر دیتا ہے، اور اگر برہنہ تصاویر کسی بچے کو بھیجی جائیں، تو سسٹم انہیں روک لیتا ہے۔
تاہم، ”iDeviceHelp“ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آئی او ایس 26 بیٹا ورژن میں یہ فیچر صرف بچوں تک محدود نہیں، بلکہ تمام فیس ٹائم صارفین پر لاگو ہو رہا ہے۔ تجربات کے دوران، جیسے ہی کسی کال میں برہنگی کا انکشاف ہوا، ویڈیو اور آڈیو دونوں فیڈز کو فوراً روک دیا گیا اور اسکرین پر وارننگ ظاہر ہوئی۔ اس کے بعد صارفین کو دو آپشنز دیے گئے: یا تو کال جاری رکھیں، یا اسے ختم کریں۔
ایپل کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام تجزیہ ڈیوائس پر موجود مشین لرننگ ماڈلز کے ذریعے ہوتا ہے، اور کوئی بھی تصویر یا ویڈیو کمپنی کے سرورز پر نہیں بھیجی جاتی، تاکہ صارفین کی پرائیویسی برقرار رہے۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ بالغ صارفین پر بھی یہ پابندیاں عائد کرنا ڈیجیٹل سنسرشپ اور نگرانی کی ایک نئی مثال بن سکتی ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ یہ فیچر بالغ صارفین پر لاگو ہونا کسی غلطی کا نتیجہ ہے یا یہ آئی او ایس 26 کی نئی پالیسی کا حصہ ہے۔ ایپل نے اس بارے میں تاحال کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک ہونے پر اسرائیلی خاتون جنرل مستعفی
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل آفیسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے جمعے کے روز استعفا دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے مستعفی ہو رہی ہیں کیونکہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کو لیک کرنے کی اجازت دی تھی جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو اس وقت منظر عام پر آئی جب غزہ جنگ کے دوران گرفتار ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک کی تحقیقات جاری تھیں۔ اس ویڈیو کے لیک ہونے کے بعد اسرائیل میں سیاسی طوفان کھڑا ہوگیا اور پانچ فوجیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔
دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مخالفت کی جبکہ مشتعل مظاہرین نے ان دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا جہاں تفتیشی ٹیمیں فوجیوں سے پوچھ گچھ کر رہی تھیں۔
واقعے کے ایک ہفتے بعد اسرائیلی نیوز چینل ”این 12“ نے وہ ویڈیو نشر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی ایک فلسطینی قیدی کو الگ لے جا کر گھیر لیتے ہیں، ایک کتا ساتھ کھڑا ہے، اور وہ اپنی شیلڈز کے ذریعے منظر چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاتز نے بدھ کو بتایا تھا کہ ویڈیو لیک ہونے پر فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور ٹومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ ویڈیو جاری کرنا دراصل فوج کے قانونی محکمے پر پھیلنے والی غلط معلومات اور پروپیگنڈا کا توڑ تھا، جسے جنگ کے دوران شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں اُن فلسطینیوں کو رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں میں ملوث تھے، ساتھ ہی ان فلسطینیوں کو بھی جو غزہ کی لڑائی کے بعد گرفتار کیے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ان کیمپوں میں فلسطینی قیدیوں پر سنگین تشدد کی شکایات کی ہیں، اگرچہ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تشدد کوئی ”منظم پالیسی“ نہیں۔
اپنے استعفے کے خط میں ٹومر یروشلمی نے ان قیدیوں کو ”بدترین دہشت گرد“ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس کے باوجود ان پر ظلم یا غیر انسانی سلوک کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
ان کا کہنا تھا: ”افسوس ہے کہ یہ بنیادی سمجھ اب سب کے لیے قائل کن نہیں رہی کہ چاہے قیدی کتنے ہی سنگدل کیوں نہ ہوں، ان کے ساتھ کچھ حدود عبور نہیں کی جا سکتیں۔“
استعفا سامنے آنے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع کاتز نے کہا کہ جو کوئی اسرائیلی فوجیوں پر ”جھوٹے الزامات“ لگاتا ہے وہ فوجی وردی پہننے کے لائق نہیں۔ جبکہ اسرائیلی پولیس کے وزیر ایتامار بن گویر نے استعفے کا خیر مقدم کرتے ہوئے مزید قانونی حکام کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
بن گویر نے خود ایک ویڈیو جاری کی جس میں وہ فلسطینی قیدیوں کے اوپر کھڑے نظر آتے ہیں جو جیل میں بندھے ہوئے فرش پر لیٹے تھے۔ بن گویر نے ان قیدیوں کو 7 اکتوبر کے حملوں میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ”سزائے موت“ ہونی چاہیے۔