’کسی انسان کی اتنی تذلیل نہیں کی جاسکتی‘، ہوٹل میں خاتون کے رقص کی ویڈیو وائرل
اشاعت کی تاریخ: 17th, September 2025 GMT
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند افراد ایک ہوٹل میں کھانے میں مصروف ہیں جبکہ اُن کے سامنے ایک خاتون رقص کر رہی ہیں۔
ویڈیو منظرِ عام پر آتے ہی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت ردِعمل سامنے آیا ہے۔ بیشتر صارفین نے اس عمل کو غیر اخلاقی اور معاشرتی اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کچھ صارفین نے سوال اٹھایا ہے کہ عوامی مقامات پر اس قسم کی سرگرمیوں کی اجازت کس بنیاد پر دی جاتی ہے۔
اطہر سلیم نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ اخلاقی پستی کی واضح مثال ہے، جو نہایت افسوسناک اور تکلیف دہ ہے۔ کسی انسان کی اس حد تک تذلیل ناقابلِ قبول ہے۔
انتہائی افسوسناک بہت ہی تکلیف دہ بات ہے کسی انسان کی اتنی تذلیل نہیں کی جاسکتی????
اخلاقی گراوٹ کی مثال pic.
— Ather Salem® (@Atharsaleem01) September 16, 2025
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو جس میں ایک ہوٹل میں خاتون کو رقص کرتے اور مہمانوں کو کھانے میں مصروف دیکھا جا سکتا ہے پر ایک صارف نے سوال کیا کہ کیا یہ پاکستان ہے اور کون سا ریسٹورنٹ ہے۔
کیا یہ پاکستان میں ہے
کونسا ریستورانٹ ہے ؟
pic.twitter.com/cE1NwteWCw
— RAShahzaddk (@RShahzaddk) September 16, 2025
ایک ایکس صارف نے کہا کہ اس ریسٹورنٹ پر پابندی عائد کرنی چاہیے، پاکستان میں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
should be ban this restaurant what is going here in Pakistan https://t.co/uJt5CQxqxA
— MALIK SAEED SAQIB (سعید ثاقب) (@malikksaeed) September 16, 2025
جہاں کئی صارفین نے ریسٹورنٹ بند کرنے کا مطالبہ کیا وہیں کئی صارفین کا کہنا تھا کہ یہ تو کئی سالوں سے ہو رہا ہے لیکن سوشل میڈیا پر اب وائرل ہوا ہے۔ امتیاز عالم لکھتے ییں کہ اس میں گراوٹ والی کیا بات ہے؟ آپ موسیقی اور رقص کے کیوں خلاف ہیں؟
اس میں گراوٹ والی کیا بات ہے؟ آپ موسیقی اور روص کے کیوں خلاف ہیں؟ https://t.co/c3ksOWz53T
— Imtiaz Alam (@ImtiazAlamSAFMA) September 16, 2025
محمد عثمان نے کہا کہ اس میں اتنی برائی والی کوئی بات نہیں ہے کسی کے ساتھ زور زبردستی نہیں کی گئی، معاشرے میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک قاعدے قانون کے تحت سب کو تفریح کا حق ہے، ان کا کہنا تھا کہ اس سے کئی زیادہ سنگین جرائم جن کا اسلامی معاشرہ میں تصور بھی ممکن نہیں سرے عام ہو رہے ہیں۔
https://Twitter.com/Muhamma38929354/status/196797764622418330
کئی صارفین کا کہنا تھا کہ خاتون اپنی مرضی سے یہ کام کر رہی ہں اس لیے کسی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستانی ریسٹورنٹ خاتون رقص ویڈیو وائرلذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستانی ریسٹورنٹ خاتون رقص ویڈیو وائرل سوشل میڈیا
پڑھیں:
دنیا کی پہلی مصنوعی ذہانت والی نیوز اینکر متعارف، ویڈیو وائرل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک اور تاریخی سنگِ میل عبور کر لیا گیا، برطانوی چینل 4 نے دنیا کی پہلی مصنوعی ذہانت (اے آئی) پریزنٹر متعارف کرا دی، جس کے بعد عالمی میڈیا انڈسٹری میں ہلچل مچ گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق چینل 4 نے 20 اکتوبر کو تجرباتی طور پر اپنی اسکرین پر اے آئی سے تیار کردہ خاتون پریزنٹر کو ڈاکیومنٹری کی میزبانی کے لیے پیش کیا۔ حیرت انگیز طور پر ناظرین یہ محسوس ہی نہ کر سکے کہ وہ کسی انسان کو نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت سے تخلیق کردہ ماڈیول کو دیکھ رہے ہیں، جس کا لہجہ، چہرے کے تاثرات اور آواز کا اتار چڑھاؤ بالکل انسانی محسوس ہوتا تھا۔
پروگرام کے دوران اے آئی پریزنٹر نے ناظرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے سالوں میں مصنوعی ذہانت دنیا بھر کے شعبوں کو بدل کر رکھ دے گی، اور کئی لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں، جن میں کال سینٹر ورکرز، کسٹمر سروس ایجنٹس اور حتیٰ کہ ٹی وی پریزنٹرز بھی شامل ہیں۔ اسی لمحے اس نے انکشاف کیا کہ وہ خود حقیقی نہیں بلکہ ایک اے آئی پریزنٹر ہے جسے برطانوی ٹی وی نے تخلیق کیا ہے۔
یہ تجربہ نہ صرف ٹیکنالوجی کی برق رفتاری سے ترقی کی علامت ہے بلکہ یہ سوال بھی پیدا کرتا ہے کہ جب اے آئی اتنی حقیقی، کم خرچ اور مؤثر شکل اختیار کر لے تو پھر میڈیا، صحافت اور تخلیقی صنعتوں میں انسانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟
عالمی سطح پر میڈیا سے وابستہ افراد نے چینل 4 کے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس رجحان کو انسانی ملازمتوں کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ہالی ووڈ اداکار ایک اے آئی اداکارہ کی تخلیق کے خلاف احتجاج کر چکے ہیں، جبکہ البانیہ میں اے آئی وزیر اور جاپان میں ایک سیاسی جماعت کی قیادت بھی مصنوعی ذہانت کے حوالے کی جا چکی ہے۔