Express News:
2025-11-03@11:02:05 GMT

انسانی مجبوری ایک منافع بخش صنعت ہے

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے بقول غزہ کے فلسطینی باڑے میں بند وہ مویشی ہیں جنھیں گھیر گھیر کے مٹایا جا رہا ہے اور ان کی امداد کے نام پر جاری سنگین مذاق بھی تاریخ میں بے مثال ہے۔

اسرائیل نے دو برس نو ماہ کے دوران پہلے تو غزہ کی تمام بیکریوں ، کھیتوں اور کنوؤں کو تباہ کیا۔غزہ میں انسانی امداد کے داخلے پر جامع پابندی لگائی اور پھر ستتر برس سے فلسطینیوں کی تعلیم ، رہائش ، صحت ، غذا اور دیگر بنیادی ضروریات کی دیکھ بھال کرنے والے اقوامِ متحدہ کے ادارے انرا کے دفاتر ، گودام ، اسکولوں اور طبی مراکز تباہ کر کے انرا کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے کر فلسطینیوں کے سر سے انسانی امدادی چادر بھی چھین لی۔

اس کے بعد سابق بائیڈن حکومت نے اہلِ غزہ کی امداد کے لیے ایک مصنوعی بندرگاہ کی تعمیر کا ڈرامہ رچایا۔جب یہ بندرگاہ زیرِ تعمیر تھی تو سمندری لہریں اس کے تختے بہا لے گئیں۔ یوں یہ ڈرامہ بھی ختم ہوا۔

دو مارچ سے غزہ اس صدی کے سب سے بھیانک مصنوعی قحط کی لپیٹ میں ہے۔اس بابت بڑھتی ہوئی عالمی بے چینی سے توجہ ہٹانے کے لیے غزہ کے بھوکوں کی امداد کے لیے ایک اور سنگ دل ڈرامہ ’’ غزہ ہومینیٹرین فاؤنڈیشن ‘‘ ( جی ایچ ایف ) کے نام سے اسٹیج کیا گیا۔

فروری میں سوئٹزرلینڈ میں رجسٹر ہونے سے پہلے کسی بین الاقوامی مستند امدادی ادارے نے جی ایچ ایف کے نام اور کام کے بارے میں نہیں سنا تھا۔مگر سب جانتے تھے کہ جی ایچ ایف نیتن یاہو اور امریکا کا وہ مشترکہ جال ہے جس میں بھوکے فلسطینیوں کو پھنسا کے ان کا شکار جاری رکھنا ہے۔ انسانی بے بسی کو ہتھیار بنانے کی ایسی نادر مثال ہٹلر کے بعد اب دیکھنے کو ملی۔شاید اسی لیے تمام مصدقہ بین الاقوامی امدادی اداروں نے اس امدادی نسل کشی سے لاتعلقی کا اعلان کیا ( اس بابت ایک پچھلے مضمون میں تفصیلاً روشنی ڈالی جا چکی ہے )۔

مگر گزشتہ پونے تین برس میں محصور فلسطینیوں سے یہ پہلا مذاق نہیں ہوا۔گزشتہ برس کے اواخر میں غزہ پر امداد گرانے کے لیے اردن کی رائل ایرفورس کو اجازت ملی اور یہ مشق چند پروازوں کے بعد منقطع ہو گئی۔موقر جریدے مڈل ایسٹ آئی کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں نے تصدیق کی ہے کہ نصف ٹرک کے برابر امداد فضا سے کہیں بھی گرانے کے لیے ایک پرواز کا معاوضہ دو لاکھ ڈالر وصول کیا گیا جب کہ کسی مخصوص جگہ امدادی گٹھا گرانے کی فیس چار لاکھ ڈالر رکھی گئی ۔

اردن کی سرکاری فلاحی تنظیم ہاشمی چیرٹی آرگنائزیشن ( جے ایچ سی او ) نے اس رپورٹ کی تصیح کرتے ہوئے کہا کہ درحقیقت غزہ میں کسی بھی جگہ گرائے جانے والی رسدی کھیپ کا خرچہ دو لاکھ دس ہزار ڈالر اور مخصوص مقامات پر گرائی جانے والی رسد کا پروازی خرچہ ساڑھے چار لاکھ ڈالر ہوا۔تاہم اس سرکاری تصیح کے بعد سرکار کو بدنام کرنے کی کوشش کے الزام میں میڈیا کمیشن نے مڈل ایسٹ آئی کی ویب سائٹ سمیت بارہ ویب سائٹس بلاک کر دیں۔

ایک برس قبل اردنی صحافی حبہ ابو طحی کو میڈیا کمیشن کی شکائیت پر سائبر قوانین کے تحت افواہ سازی کے الزام میں ایک برس قید کی سزا سنائی گئی۔انھوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ کچھ اردنی کمپنیاں یمنی ہوثیوں کی جانب سے بحیرہ قلزم کی ناکہ بندی کے بعد زمینی کاریڈور کے ذریعے اسرائیل کو درآمد و برآمد کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔اردن کے وزیرِ اعظم نے اس اطلاع کو غلط قرار دے کر مسترد کر دیا۔

 سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے حماس اور اسرائیل کے مابین مصر مصالحتی سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔تاہم مصر کی ایک کمپنی ہالا کنسلٹنگ اینڈ ٹورزم سروسز کے بارے میں مڈل ایسٹ آئی سمیت عرب ذرایع ابلاغ میں گذرے فروری میں یہ رپورٹیں شایع ہوئیں کہ حماس اور اسرائیل کے مابین انیس جنوری سے شروع ہونے والی دوسری جنگ بندی کے دورانیے میں غزہ میں داخل ہونے والے امدادی اور کمرشل ٹرکوں سے بیس ہزار ڈالر فی کس تک فیس لی جا رہی ہے۔

رفاہ کراسنگ پر امدادی ٹرانسپورٹ سے رقم کی وصولی کا ٹھیکہ حاصل کرنے والی اس کمپنی کے مالک شمالی سینا کے بااثر قبائلی و سیاسی رہنما ابراہیم ال اورگانی ہیں۔گزشتہ برس مئی میں ہالا کنسلٹنگ کے بارے میں یہ خبریں بھی شایع ہوئی تھیں کہ غزہ سے جو شہری نکلنا چاہتے ہیں ان سے یہ کمپنی بھاری معاوضہ وصول کر کے انھیں ترجیحی ’’ وی آئی پی لسٹ ‘‘ میں شامل کر رہی ہے اور کمپنی کو اس مد میں روزانہ دو ملین ڈالر کی آمدنی ہو رہی ہے۔فروری تا اپریل دو ہزار چوبیس کے عرصے میں اس کمپنی کو ایک سو اٹھارہ ملین ڈالر کی آمدنی ہوئی۔تب تک قاہرہ میں متعین فلسطینی سفیر زہاب الوہی کے مطابق غزہ سے اسی ہزار سے ایک لاکھ تک شہریوں کا رفاہ کراسنگ سے انخلا ہوا۔

کمپنی ایک بالغ شہری کو غزہ سے نکلنے کی سہولت فراہم کرنے کے عوض پانچ ہزار ڈالر اور سولہ برس سے کم عمر کے بچوں کے لیے ڈھائی ہزار ڈالر فی کس وصول کرتی رہی ہے۔جب کہ سات اکتوبر سے پہلے غزہ سے باہر نکلنے والے شہریوں سے یہی کمپنی ساڑھے تین سو ڈالر فی کس وصول کرتی تھی۔یعنی جنگ کے بعد اس رقم میں چودہ گنا اضافہ کر دیا گیا۔

مصری صحافی اور جزیرہ نما سینا کے سیاسی امور کے ماہر مہند صابری کا کہنا ہے کہ ابراہیم ال اورگانی کی کمپنی دراصل اسٹیبلشمنٹ کی فرنٹ کمپنی ہے۔وہ کس قانون یا ضوابط کے تحت غزہ کے رسدی ٹرکوں اور وہاں سے نکلنے والوں سے مذکورہ ریٹس وصول کرتی ہے اور اس کا کام کس حد تک حکومت کے زیرِ نگرانی ہے۔یہ واضح نہیں۔

جو بات واضح ہے وہ ابراہیم ال اورگانی کے سیاسی و تجارتی روابط ہیں۔دو ہزار بائیس میں السیسی حکومت نے ابراہیم اورگانی کو تعمیراتی منصوبوں کی ذمے دار سینا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا رکن نامزد کیا۔ابراہیم اورگانی کی کمپنی کے طرزِ عمل کے خلاف گزشتہ برس اپریل میں مقامی سطح پر مظاہرے بھی ہوئے۔اور ان مظاہروں کے منتظمین پر افواہ طرازی اور دہشت گرد تنظیموں سے روابط کی فردِ جرم عائد کی گئی۔

گزشتہ برس مصری وزیرِ خارجہ سمیع شکری نے سکائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ حکومت رفاہ کراسنگ پر امدادی ٹرکوں اور فلسطینی شہریوں سے بھاری معاوضہ وصول کرنے کی اطلاعات کی چھان بین کرے گی۔مگر ابراہیم اورگانی کی کمپنی اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے۔جب کہ رفاہ کراسنگ کے انتظامی معاملات مصری سیکیورٹی اداروں اور انٹیلی جینس حکام کی ذمے داری ہیں۔

یہ مثال بلا وجہ نہیں کہ جنگ اور مجبوری کا شمار سب سے منافع بخش اجناس میں ہوتا ہے۔جنگ لاکھوں انسانوں کو برباد کرتی ہے مگر کچھ کی نسلیں سنوار دیتی ہے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رفاہ کراسنگ گزشتہ برس ہزار ڈالر امداد کے وصول کر کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ

بنگلہ دیش نے خطے میں دفاعی سازوسامان تیار کرنے والی نئی طاقت بننے کی سمت اہم پیش رفت شروع کر دی ہے۔

حکومت نے ایک خصوصی ڈیفنس اکنامک زون کے قیام کا منصوبہ بنایا ہے، جس میں ڈرونز، سائبر سسٹمز، ہتھیار اور گولہ بارود نہ صرف ملکی ضرورت کے لیے بلکہ برآمدات کے لیے بھی تیار کیے جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش ایئر فورس کا چین کے اشتراک سے ڈرون پلانٹ قائم کرنے کا اعلان

حکام کے مطابق، یہ اقدام خود انحصار دفاعی صنعتی ڈھانچے کی تعمیر کے وسیع منصوبے کا حصہ ہے، حکومت کا تخمینہ ہے کہ تقریباً 1.36 ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، غیر ملکی سرمایہ کاری اور مشترکہ منصوبوں کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔

???? | Breaking Analysis | #BDMilitary
???????? Bangladesh moves from consumer to producer. Dhaka’s latest policy push—anchored in the establishment of a dedicated Defence Economic Zone (DEZ)—signals a decisive stride toward self-reliance in military manufacturing and export orientation.… pic.twitter.com/WdHgoUvJ33

— BDMilitary (@BDMILITARY) November 3, 2025

چیف ایڈوائزر محمد یونس نے پہلے ہی ایسی پالیسی اقدامات کی منظوری دے دی ہے جن کے ذریعے ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جائے گا، بنگلہ دیش آرمی کو قومی دفاعی صنعت پالیسی کے مسودے کی تیاری کا کام سونپا گیا ہے۔

غیر ملکی دلچسپی اور برآمدی عزائم

میڈیا رپورٹس کے مطابق، کئی غیر ملکی حکومتوں اور کمپنیوں نے بنگلہ دیش کے ابھرتے ہوئے دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی ہے، اگرچہ مخصوص ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، لیکن حکام نے تصدیق کی کہ بات چیت ’دوستانہ ممالک‘ کے ساتھ جاری ہے۔

بنگلہ دیش اکنامک زون اتھارٹی اور بنگلہ دیش انویسٹمنٹ ڈیولپمنٹ اتھارٹی  کے چیئرمین اشک محمود بن ہارون نے کہا کہ زون کی جگہ کا تعین ابھی باقی ہے۔ ’ہم پالیسی فریم ورک تیار کر رہے ہیں اور شراکت داروں سے رابطے میں ہیں۔ ہمارا مقصد دفاعی شعبے کو برآمدی بنیاد پر استوار کرنا ہے۔‘

ملکی ضرورت اور عالمی منڈی

اس وقت بنگلہ دیش کی دفاعی ضروریات کا تخمینہ 8,000 کروڑ ٹکا لگایا گیا ہے، جس میں مسلح افواج، بارڈر گارڈ، کوسٹ گارڈ، پولیس اور دیگر نیم فوجی اداروں کی ضروریات شامل ہیں۔

حکام کا خیال ہے کہ مقامی صنعت اس طلب کو پورا کر سکتی ہے اور آگے چل کر عالمی منڈی میں بھی داخل ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش کا بھارت کے ساتھ سرحد پر سیکیورٹی مضبوط بنانے کے لیے نئی بٹالینز تشکیل دینے کا فیصلہ

تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ملکی طلب پر انحصار کافی نہیں ہوگا، صدر بنگلہ دیش انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز اے این ایم منیر الزمان کے مطابق صنعت کو پائیدار بنانے کے لیے ہمیں برآمدی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا ہوگی۔

’عالمی دفاعی منڈی میں مقابلہ سخت ہے، اور کامیابی کے لیے ٹیکنالوجی شراکت داری اور غیر ملکی سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔‘

نجی شعبے کی شمولیت ناگزیر

فائنانس سیکرٹری ایم ڈی خیرالزمان نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح نجی شعبے کا کردار بنگلہ دیش کے لیے بھی اہم ہے۔

انہوں نے لاک ہیڈ مارٹن اور میک ڈونل ڈگلس جیسی کمپنیوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کاری کو کئی مالیاتی سالوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

جبکہ وزارتِ خزانہ زمین کے حصول کے لیے غیر استعمال شدہ سرکاری فیکٹریوں کو بروئے کار لانے پر غور کر رہی ہے۔

علاقائی موازنہ اور چیلنجز

حکام نے تسلیم کیا کہ بنگلہ دیش ابھی پاکستان اور بھارت جیسے ہمسایہ ممالک سے پیچھے ہے، پاکستان نے گزشتہ 4 سالوں میں ہر سال تقریباً 450 ملین ڈالر دفاعی پیداوار میں لگائے۔

جبکہ بھارت کی سالانہ سرمایہ کاری 2.7 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے، اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی دفاعی صنعت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔

پالیسی خامیاں اور قانونی رکاوٹیں

اگرچہ غیر ملکی دلچسپی میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن حکام نے اعتراف کیا کہ قوانین اور خریداری پالیسیوں کی موجودہ صورت نجی شعبے کی شمولیت میں رکاوٹ ہے۔

وزارتِ صنعت کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق، غیر ملکی سرمایہ کار قانونی ضمانتیں چاہتے ہیں جو فی الحال دستیاب نہیں۔

مزید پڑھیں: بنگلہ دیش ملبوسات کی نئی عالمی منزل، چینی سرمایہ کاری میں اضافہ

ستمبر کے اجلاس میں شرکا نے نئے قوانین، سرمایہ کاری کے تحفظ اور ایک مستقل رابطہ ادارہ قائم کرنے کی سفارش کی، اس کے علاوہ، ترکی اور پاکستان کے ماڈلز سے استفادہ کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔

کامرس سیکریٹری محبوب الرحمن نے کہا کہ اگر منصوبہ بروقت شروع کر دیا گیا تو بنگلہ دیش بھی پاکستان کی سرمایہ کاری کی سطح تک پہنچ سکتا ہے، ان کا کہنا تھا کہ نیا زون گیزپور کے بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری کی طرز پر قائم کیا جا سکتا ہے۔

طویل المدتی وژن

اگرچہ ماہرین کے مطابق ایک مکمل دفاعی ایکو سسٹم قائم کرنے میں 25 سے 30 سال لگ سکتے ہیں، لیکن بنگلہ دیشی قیادت پُرعزم ہے۔

پالیسی اصلاحات، نجی شعبے کی شمولیت، اور بین الاقوامی تعاون کے امتزاج سے بنگلہ دیش مستقبل میں علاقائی اسلحہ برآمد کنندہ ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انسٹی ٹیوٹ آف پیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز ایکو سسٹم بنگلہ دیش بنگلہ دیش آرڈننس فیکٹری دفاعی پیداوار دفاعی سازوسامان سرمایہ کار کامرس سیکریٹری لاک ہیڈ مارٹن میک ڈونل ڈگلس

متعلقہ مضامین

  • دفاعی صنعت میں انقلاب، بنگلہ دیش کا ڈیفنس اکنامک زون قائم کرنے کا منصوبہ
  • پاکستان میں کھجور کی سالانہ پیداوار میں حیرت انگیز اضافہ، کروڑوں ڈالرز کا منافع
  • ایس آئی ایف سی کی صنعت، سیاحت اور نجکاری میں نمایاں کامیابیاں
  • پاک سوزوکی کا ’ایوری وی ایکس آر‘ پر 3 لاکھ 50 ہزار روپے کی رعایت کا اعلان
  • ایس آئی ایف سی  کی صنعت، سیاحت اور نجکاری میں نمایاں کامیابیاں 
  • حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
  • سندھ میں ڈینگی کے بڑھتے کیسز، پی ڈی ایم اے کا امدادی سامان روانہ
  • کراچی، مجبوری نے عورت کو مرد بنا دیا، مگر غیرت نے بھیک مانگنے نہیں دی
  • سونے کی قیمت میں کمی کا تسلسل برقرار،مزید فی تولہ 1600روپے سستا
  • کراچی؛ غیر قانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث ملزم گرفتار، 55 ہزار امریکی ڈالر برآمد