فلسطینی کارکن کا ٹرمپ انتظامیہ پر 2 کروڑ ڈالر ہرجانے کا مقدمہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا میں فلسطینی کاز کے معروف کارکن اور مظاہروں کے رہنما محمود خلیل نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے خلاف 20 ملین ڈالر یعنی تقریباً 56 کروڑ پاکستانی روپے کے ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
نیویارک میں دائر کی گئی یہ قانونی درخواست نہ صرف امریکی پالیسیوں پر ایک سخت سوالیہ نشان بن کر ابھری ہے بلکہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ سیاسی مخالفت اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اب قانونی محاذ بھی اختیار کیا جا رہا ہے۔
خلیل نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ انہیں غیرقانونی طور پر گرفتار کیا گیا، طویل حراست میں رکھا گیا اور جبراً ملک بدر کرنے کی کوشش کی گئی، جس کا مقصد نہ صرف ان کی سیاسی سرگرمیوں کو دبانا تھا بلکہ ان کے خاندان کو بھی خوف زدہ کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارروائی ایک منظم سازش کے تحت کی گئی تاکہ فلسطین سے متعلق امریکی عوامی رائے کو خاموش کرایا جا سکے۔
یہ مقدمہ “سینٹر فار کونسٹی ٹیوشنل رائٹس” (CCR) کے تعاون سے دائر کیا گیا ہے، جو ایک معتبر انسانی حقوق کی تنظیم ہے۔ قانونی دعوے میں محمود خلیل کی جانب سے واضح کیا گیا کہ ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، اس سے انہیں نہ صرف مالی نقصان اٹھانا پڑا بلکہ ان کی ذہنی صحت، عزت اور نجی زندگی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔
محمود خلیل نے میڈیا سے گفتگو میں کہا: “میرے 104 دن میری زندگی سے چھین لیے گئے، میں اپنی بیوی کے ساتھ نہیں تھا، اپنے پہلے بچے کی پیدائش کے لمحے سے محروم رہا۔ یہ صرف میری کہانی نہیں، بلکہ ان تمام لوگوں کی کہانی ہے جو سیاسی نظریات کی وجہ سے نشانہ بنائے گئے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ طاقت کے ناجائز استعمال پر جواب دہی ہو۔”
انہوں نے انکشاف کیا کہ حراست کے دوران انہیں 70 سے زائد افراد کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رکھا گیا، جہاں نہ روشنی بند ہوتی تھی اور نہ کوئی پرائیویسی حاصل تھی۔ اس ماحول نے ان کی ذہنی کیفیت کو بری طرح متاثر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ صرف اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ فلسطینی عوام کے حق میں آواز بلند کر رہے تھے۔
اس مقدمے کو امریکا میں اظہارِ رائے کی آزادی، انسانی حقوق اور نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک کے حوالے سے ایک اہم ٹیسٹ کیس سمجھا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے ماہرین کے مطابق اگر عدالت نے اس دعوے کو سنجیدگی سے لیا، تو یہ آئندہ ایسی کارروائیوں کے خلاف نظیر قائم کر سکتا ہے، جہاں سیاسی مخالفین کو طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کیا گیا
پڑھیں:
امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!
تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!