محمود خلیل کا امریکی سرکاری اداروں پر 2 کروڑ ڈالر ہرجانے کا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
خلیل کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی مظاہروں کے ترجمان تھے اور اکتوبر 2023ء میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد وہ فلسطینی یکجہتی تحریک کا ایک نمایاں چہرہ بن گئے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی نژاد امریکی اور کولمبیا یونیورسٹی کے سابق طالبعلم کارکن محمود خلیل نے امریکی سرکاری اداروں کے خلاف 20 ملین ڈالر ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا ہے۔ یہ دعویٰ امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی، امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) اور محکمہ خارجہ کے خلاف دائر کیا گیا ہے، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے انہیں ناجائز طور پر حراست میں لیا، جھوٹے الزامات لگائے اور ان کی شہرت کو شدید نقصان پہنچایا۔ خلیل نے خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہا کہ ٹرمپ اپنی طاقت کا غلط استعمال اس لیے کر رہے ہیں، کیونکہ وہ خود کو ناقابلِ احتساب سمجھتے ہیں، اگر کوئی ان کا محاسبہ نہ کرے تو یہ ظلم یونہی جاری رہے گا۔ خلیل کا کہنا ہے کہ ہرجانے کی رقم ان طلبہ اور کارکنوں کی مدد کے لیے استعمال کروں گا، جن کی آواز ٹرمپ نے دبانے کی کوشش کی۔ واضح رہے کہ خلیل کو مارچ میں نیویارک سے گرفتار کرکے ایک خفیہ آپریشن کے ذریعے لوئزیانا منتقل کیا گیا، جہاں انہیں 100 دن سے زائد حراست میں رکھا گیا تھا۔
خلیل کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی مظاہروں کے ترجمان تھے اور اکتوبر 2023ء میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد وہ فلسطینی یکجہتی تحریک کا ایک نمایاں چہرہ بن گئے تھے۔ صدر ٹرمپ نے 2025ء میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد غیر ملکی طلبہ اور مظاہرین کے خلاف سخت پالیسیوں کا اعلان کیا، انہوں نے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا، جس کے تحت امریکا مخالف رویہ رکھنے والے غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کے احکامات دیئے گئے۔ خلیل کے وکلا نے ان کی فوری رہائی اور ملک بدری روکنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا، حراست کے دوران خلیل کے اہلخانہ کو کئی دن تک ان کے مقام کا علم نہ ہوسکا، جون 2025ء میں نیوجرسی کی ایک عدالت نے خلیل کی رہائی کا حکم دیا۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
نیتن یاہو اور ٹرمپ کی جنگ بندی کے لیے دوسری ملاقات، غزہ میں 40 فلسطینی شہید
ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی ثالث جنگ بندی کے معاہدے کو مکمل کرنے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، ہسپتال کے حکام نے بتایا کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 40 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی ہے۔ یہ ان کی دو دنوں میں دوسری ملاقات ہے۔
ٹرمپ جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں جس سے غزہ میں 21 ماہ سے جاری جنگ کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اسرائیل اور حماس امریکی جنگ بندی کی ایک نئی تجویز پر غور کر رہے ہیں جس سے جنگ کو رکے گی، اسرائیلی یرغمالیوں کو رہائی ملے گی اور غزہ میں انتہائی ضروری امداد بھیجی جائے گی۔
دوسری جانب خان یونس کے ناصر ہسپتال نے بتایا کہ مرنے والوں میں 17 خواتین اور 10 بچے شامل ہیں۔ اور ایک حملے میں ایک ہی خاندان کے 10 افرادشہید ہوئے، جن میں تین بچے بھی شامل تھے۔
اسرائیلی فوج نے ان حملوں کے حوالے سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا، لیکن یہ کہا ہے کہ اس نے گذشتہ روز غزہ میں 100 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا۔
وسیع و عریض ساحلی علاقے المواصی میں، جہاں بہت سے لوگ بے گھر ہونے کے بعد عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں، عبیر النجار نے کہا کہ انہیں مسلسل بمباری کے دوران اپنے خاندان کے لیے خوراک اور پانی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑی۔
’میں خدا سے دعا کرتی ہوں کہ (جنگ میں) ایک وقفہ آ جائے، اور یہ ایسا نہ ہو کہ وہ ہم سے ایک یا دو مہینے جھوٹ بولیں، پھر وہی کرنا شروع کریں جو وہ ہمارے ساتھ کر رہے ہیں۔ ہم مکمل جنگ بندی چاہتے ہیں۔‘
امانی ابو عمر کا کہنا تھا کہ پانی کا ٹرک ہر چار دن بعد آتا ہے، جو ان کے پانی کی کمی سے دوچار بچوں کے لیے کافی نہیں ہے۔ انہیں گرمی کی شدت سے جلد پر خارش کی شکایت تھی۔
انہوں نے کہا کہ وہ جنگ بندی کے لیے بے چین ہیں لیکن خدشہ ہے کہ انہیں دوبارہ مایوس کیا جائے گا۔
’ہم نے کئی مواقع پر جنگ بندی کی توقع کی تھی، لیکن سب لاحاصل رہا۔‘
غزہ میں جنگ کا آغاز حماس کی جانب سے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا۔ اس حملے میں 12 سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے جبکہ 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اسرائیل کے جوابی حملے میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 57 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
امریکی صدر سے ملاقات کے بعد نیتن یاہو نے منگل کو کیپیٹل میں صحافیوں کو بتایا کہ ان کا اور ٹرمپ کا حماس کو تباہ کرنے کی ضرورت پر ’اتفاق‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی اس وقت اسرائیل کی 77 سالہ تاریخ میں سب سے بہتر ہے۔
دوسری ملاقات کے بعد اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے اور ٹرمپ نے دو ہفتے قبل ختم ہونے والی 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی اور امریکی حملوں سے ایران پر ’عظیم فتح‘ پر بھی بات کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہاں امن کے دائرے کو بڑھانے اور ابراہیمی معاہدے کو وسعت دینے کے مواقع موجود ہیں۔