کے الیکٹرک کے بجلی بلوں میں میونسپل ٹیکس سے کے ایم سی نے کتنی رقم جمع کی؟ وکیل کا عدالت میں انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سندھ ہائیکورٹ میں میونسپل ٹیکس کی وصولی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار نے انکشاف کیا کہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) شہریوں سے بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹیکس کی مد میں اب تک 2 ارب 64 کروڑ روپے وصول کر چکی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت ٹیکس کی وصولی صرف سرکاری ادارے کر سکتے ہیں، جبکہ کسی تیسرے فریق کو ریونیو اکٹھا کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے مطابق کے ایم سی کی جانب سے بجلی کے بلوں میں میونسپل یوٹیلیٹی چارجز (MUCT) کا نفاذ سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2013 کی واضح خلاف ورزی ہے۔
وکیل نے مزید بتایا کہ نیپرا بھی پہلے ہی کے الیکٹرک کے ذریعے کے ایم سی ٹیکس کی وصولی کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے، جبکہ میئر کراچی مرتضیٰ وہاب عدالت کے 29 مئی 2024 کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کر رہے۔ سماعت کے دوران کے ایم سی کے وکیل کے معاون نے بتایا کہ ان کے سینئر وکیل موجود نہیں، جس پر عدالت نے مزید کارروائی 4 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
خاتون بازیابی کیس؛ یہ چیف جسٹس کی عدالت ہے کوئی مذاق نہیں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
لاہور:کاہنہ سے مبینہ اغوا ہونے والی فوزیہ بی بی کی بازیابی کے لیے لاہور ہائیکورٹ نے درخواست نمٹاتے ہوئے 15 روز میں تفتیش کی پراگرس رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔
دوران سماعت، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل وقاص عمر نے بتایا کہ عدالت کے حکم پر معاملے کی ایڈشنل آئی جی نے انکوائری کی۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ پولیس کی تحویل میں لی گئی فائل سے کچھ نہیں ملا خالی ہے، پولیس کی بری عادت ہے فائل سے کچھ چیزوں کو نکال لیتی ہے۔
چیف جسٹس نے سخت ریمارکس دیے کہ یہ چیف جسٹس کی عدالت ہے کوئی مذاق نہیں، ایسے غیر سنجیدہ اہلکاروں کو پولیس محکمے میں نہیں ہونا چاہیے۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ انکوائری کے بعد تفتیشی کو برطرف کرکے پیکا کے تحت کارروائی کی سفارش کی گئی ہے، پولیس فوزیہ کی بازیابی کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لے رہی ہے۔
عدالت نے درخواست گزار وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے فوزیہ کا آئی ڈی کیوں نہ بنوایا؟ وکیل نے بتایا کہ لاعلمی کی وجہ سے درخواست گزار کے تینوں بچوں کے شناختی کارڈز نہیں بنوائے گئے۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار وکیل سے استفسار کیا کہ فیملی ٹری میں فوزیہ کا نام بھی شامل نہیں ہے، کوئی دستاویزی ثبوت دیں جس سے ثابت ہو سکے فوزیہ آپ کی بیٹی ہے۔ آپ نے بچوں کی تعداد کم کیوں بتائی؟ فوزیہ کو جنات لے گئے یہ پتہ ہے لیکن اتنا نہیں پتہ آپ کو کہ شناختی کارڈ نہیں بنایا، فیملی ٹری میں نام نہیں۔
وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ فوزیہ کی ایک تصویر اور بھائی کی شادی کی ویڈیو پولیس کو دی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو شادی کی ویڈیو بنانے کا پتہ ہے لیکن شناختی کارڈ کیوں نہ بنوایا۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پولیس کا کام خاتون کو بازیاب کرنا ہے وہ کرلے گی، پچھلے دنوں ڈپٹی کمشنر کا کتا گم ہوگیا تھا اس کو ڈھونڈ لیا گیا۔
چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب ایسی باتیں نا کریں، میڈیا کے لیے خبر نا بنائے، ایسی باتیں زیب نہیں دیتی۔
لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس مس عالیہ نیلم نے حمیداں بی بی کی درخواست پر سماعت کی۔