Jasarat News:
2025-10-28@02:18:22 GMT

حکومتی پالیسی نے کسان کو بھکاری بنادیا،عوامی تحریک

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251028-2-10
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ وسند تھری، مرکزی سینئر نائب صدر نور احمد کاتیار، مرکزی رہنما ڈاکٹر رسول بخش خاصخیلی، ڈاکٹر دلدار لغاری، ایڈووکیٹ اسماعیل خاصخیلی اور نور نبی پلیجو نے اپنے مشترکہ پریس بیان میں کہا ہے کہ حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں کے باعث اناج پیدا کرنے والا ہاری بھوکا رہ گیا ہے جبکہ اسمگلنگ کرنے والے خوشحال بن گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کی حکومت کسانوں کا استحصال کر رہی ہے اور اسمگلنگ کرنے والوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔رہنماؤں نے کہا کہ حکومت نے دھان کے نرخ کم کر کے کسانوں کا معاشی قتل عام شروع کر دیا ہے۔ حکومتی انتظامیہ، منافع خور تاجروں اور مل مالکان کی ملی بھگت نے ہاریوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ دھان کی کاشت پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے، اس کے باوجود کسانوں کو مناسب قیمت نہیں مل رہی۔ نام نہاد منتخب نمائندے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، اور ان کی مجرمانہ خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان میں ایم پی اے اور ایم این اے عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ فارم 47 سے منتخب ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ نمائندے ووٹ دینے والوں کی تذلیل کرتے رہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ دھان کے کم نرخوں کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں کے نمائندے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور حکومت کی کسان دشمن پالیسیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔رہنماؤں نے کہا کہ سندھ کا ہاری جو ملک کے لیے خوراک پیدا کرتا ہے، وہ خود بھوک اور افلاس سے دو چار ہے، جو حکومت کی نااہلی اور جاگیردارانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ کسانوں کی محنت کا صلہ حکمران کھا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے دھان کے نرخ کم کر کے ہاریوں کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بیج، کھاد، زرعی دواؤں، پانی، ٹرانسپورٹ اور اسپرے سمیت مختلف اخراجات کی مد میں کسان قرض لے کر فصل کاشت کرتے ہیں، اس کے باوجود فی من نرخ صرف 2000 سے 2200 روپے دیے جا رہے ہیں، جن سے لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔ نتیجتاً کسانوں کی ساری محنت حکمرانوں کی بیگار میں چلی جاتی ہے۔

سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کہا کہ

پڑھیں:

چینی مافیا، حکومتی ایوانوں سے منڈیوں تک پھیلا منظم کھیل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251027-03-3
پاکستان میں چینی ایک بار پھر عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ایک ہفتے کے اندر دس روپے فی کلو اضافہ اس بات کا اعلان ہے کہ مہنگائی کے اس طوفان کے پیچھے کوئی قدرتی عمل نہیں بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی ہے۔ چینی کی قیمت 210 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے قیمتوں میں کمی کے تمام دعوے اور اقدامات ایک تماشا بن کر رہ گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو ہر دورِ حکومت میں عوام کے خون پسینے سے کماتے ہیں، اور ریاست ان کے سامنے بے بس کیوں نظر آتی ہے؟ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب پاکستان میں چینی بحران نے سر اٹھایا ہو۔ ہر چند سال بعد یہی کہانی نئے اور پرانے کرداروں کے ساتھ دہرائی جاتی ہے۔ کبھی کسی حکومت کے وزیر ِ خزانہ، کبھی کسی وزیر ِ صنعت، اور کبھی خود وزرائے اعلیٰ کے خاندان اس بحران کے تانے بانے میں نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں چینی مافیا صرف منڈیوں تک محدود نہیں، بلکہ اس کی جڑیں براہِ راست حکومتی ایوانوں، سیاسی جماعتوں اور اثر رسوخ رکھنے والے خاندانوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ نے اس بار ایک بار پھر اسی تلخ حقیقت کو عیاں کیا ہے کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن، ہی اس بحران کی اصل ذمے دار ہے۔ رپورٹ کے مطابق مل مالکان نے منڈی میں مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا، چینی بیرونِ ملک برآمد کی، اور جب ملک میں قلت پیدا ہوئی تو وہی چینی زیادہ قیمتوں پر درآمد کر کے بیچی گئی۔ یہ وہ کھیل ہے جس میں ایک طرف عوام کا استحصال کیا گیا اور دوسری جانب حکومتی پالیسیوں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا گیا۔حیرت انگیز امر یہ ہے کہ چینی درآمد پر ٹیکس میں 48 فی صد سے کمی کر کے محض 0.5 فی صد کر دیا گیا، مگر قیمتیں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ بحران مصنوعی طور پر پیدا کیا گیا، اور حکومت کے اندر موجود کچھ بااثر عناصر نے اس میں سہولت کاری کا کردار ادا کیا۔ یہ وہی مافیا ہے جس کا دائرہ شوگر ملز سے نکل کر پارلیمان، بیوروکریسی اور سرمایہ دارانہ نیٹ ورک تک پھیلا ہوا ہے۔ چینی مافیا کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ماضی میں جب بھی حکومت نے اس کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا، نتیجہ یا تو محض بیانات کی حد تک محدود رہا یا پھر رپورٹیں دبادی گئیں۔ تحقیقاتی کمیشن بنتے ہیں، مگر نتائج وہی رہتے ہیں۔ یہی مافیا اپنی دولت، رشتے داریوں اور سیاسی روابط کے بل پر ہر حکومت کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے۔ کوئی حزبِ اقتدار میں ہو یا حزبِ اختلاف میں، چینی کے کارخانے اور ان کے منافع کے تحفظ پر سب متفق نظر آتے ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان میں چینی صرف ایک روز مرہ کے استعمال کی چیز نہیں ہے بلکہ پاور گیم کا اہم ہتھیار بن چکی ہے۔ ڈاکٹر فرخ سلیم نے بجا طور پر کہا ہے کہ ’’چینی کا معاملہ صرف ایک کموڈیٹی نہیں، یہ پاور اور پالیسی کا کھیل ہے‘‘۔ جب تک حکومت اس کھیل کے قواعد نہیں بدلتی، عوام ہمیشہ اس کے مہرے بنے رہیں گے۔ چینی مافیا کے خلاف سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ یہ لوگ صرف سرمایہ دار نہیں بلکہ پالیسی ساز بھی ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جو پارلیمان میں بیٹھ کر اپنے لیے قوانین بناتا ہے، حکومت کے معاشی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے، اور اپنی اجارہ داری کو قانونی تحفظ دلواتا ہے۔ پاکستان میں چینی بحران دراصل نظام کی اس کمزوری کا مظہر ہے جہاں احتساب کا نظام صرف کمزوروں کے لیے ہے۔ اگر کوئی عام دکاندار ذخیرہ اندوزی کرے تو پولیس فوراً حرکت میں آتی ہے، مگر جب کوئی شوگر مل مالک ہزاروں ٹن چینی غائب کر دے تو پورا نظام خاموش ہو جاتا ہے۔ یہی دوہرا معیار ملک میں انصاف کے فقدان اور عوامی اعتماد کی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ قائمہ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ ملک میں پانچ لاکھ چالیس ہزار میٹرک ٹن چینی کا ذخیرہ ہر وقت موجود رہنا چاہیے تاکہ بحران کی صورت میں عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔ یہ ایک درست تجویز ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس ذخیرے کی نگرانی بھی انہی مافیا کے ہاتھ میں ہوگی جو آج قیمتوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں؟ اگر ایسا ہوا تو یہ اقدام بھی صرف فائلوں میں رہ جائے گا۔ حکومت اگر واقعی چینی مافیا کے خلاف سنجیدہ ہے تو اسے محض بیانات سے آگے بڑھنا ہوگا۔ ضروری ہے کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ، ایف بی آر، اور وزارتِ صنعت میں موجود ان افراد کی نشاندہی کی جائے جو اس کھیل کے سہولت کار ہیں۔ ان ملوں کے مالکان کے مالی گوشوارے، برآمدی معاہدے اور سبسڈی کی تفصیلات عوام کے سامنے رکھی جائیں۔ جب تک شفافیت نہیں ہوگی، اعتماد بحال نہیں ہوگا۔ پاکستان کے عوام اس وقت مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ چینی ہو، آٹا ہو، بجلی ہو یا پٹرول، ہر بحران کے پیچھے ایک منظم نیٹ ورک کام کرتا ہے جس کی رسی بالآخر انہی لوگوں سے ملتی ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں یا ان کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ یہی وہ ’’مافیا کلچر‘‘ ہے جس نے ریاست کے نظام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اگر ریاست نے اب بھی آنکھیں بند رکھیں تو چینی کا بحران کل گندم، تیل اور ادویات کے بحران کی شکل میں پھر سر اٹھائے گا۔ قوم اب صرف تحقیقات نہیں بلکہ نتائج چاہتی ہے، ان لوگوں کے نام، ان کے احتساب، اور ان کے خلاف عملی کارروائی چاہتی ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • سکھر،مرکزی مسلم لیگ کا کسانوں کے تحفظ کیلئے تحریک چلانے کا اعلان
  • جیکب آباد ،آبادگارو ہاریوں کادھان کے نرخ کم کرنے کیخلاف احتجاج
  • کسانوں‘ مزدوروں‘ نوجوانوں کے حقوق ’’بدل دو نظام کو’’تحریک کا سرفہرست ایجنڈا ہوگا‘ حافظ نعیم
  • عوام کے حقوق “بدل دو نظام کو”تحریک کا سرفہرست ایجنڈا ہوگا، حافظ نعیم الرحمن
  • عوام کے حقوق “بدل دو نظام کو”تحریک کا سرفہرست ایجنڈا ہوگا، حافظ نعیم الرحمن
  • چینی مافیا، حکومتی ایوانوں سے منڈیوں تک پھیلا منظم کھیل
  • حیدرآباد: عوامی تحریک اورسندھیانی تحریک کی مرکزی کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ایڈووکیٹ وسندتھری کی زیرصدارت ہورہاہے
  • مرکزی مسلم لیگ کا کسانوں کے تحفظ کیلیے تحریک چلانے کا اعلان
  • جے یو آئی اور کسانوں کا معاشی استحصال کیخلاف مظاہرہ