انہوں نے ماہرین کیجانب سے سامنے آنے والی اس تشویش پر سوال اٹھایا کہ آیا موجودہ بازاروں میں دستیاب انڈے مضر اور ممنوع کیمیکلز سے پاک ہیں یا نہیں، جبکہ جدید تحقیق کے مطابق یہ مادّے کینسر اور جسم کی خلیاتی بناوٹ کو نقصان جیسے خطرناک امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔ چھوٹی تصاویر تصاویر کی فہرست سلائیڈ شو

ملاوٹی کھانا سنگین جرم ہے اور اس پر حکومتی خاموشی خیانت کے مترادف ہے، ائمہ جمعہ

ملاوٹی کھانا سنگین جرم ہے اور اس پر حکومتی خاموشی خیانت کے مترادف ہے، ائمہ جمعہ

ملاوٹی کھانا سنگین جرم ہے اور اس پر حکومتی خاموشی خیانت کے مترادف ہے، ائمہ جمعہ

ملاوٹی کھانا سنگین جرم ہے اور اس پر حکومتی خاموشی خیانت کے مترادف ہے، ائمہ جمعہ

ملاوٹی کھانا سنگین جرم ہے اور اس پر حکومتی خاموشی خیانت کے مترادف ہے، ائمہ جمعہ

ملاوٹی کھانا سنگین جرم ہے اور اس پر حکومتی خاموشی خیانت کے مترادف ہے، ائمہ جمعہ

اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر انجمنِ شرعی شیعیان کے اہتمام سے تمام جمعہ مراکز مرکزی امام باڑہ بڈگام، قدیمی امام باڑہ حسن آباد سرینگر، امام باڑہ یاگی پورہ ماگام، جامع مسجد آبی گزر سرینگر، امام باڑہ گامدو بانڈی پورہ وغیرہ میں ائمہ جمعہ نے آج اپنے خطبوں میں وادی کشمیر میں گردش کرنے والے انڈوں میں مبینہ طور پر مضر کیمیکلز، خصوصاً نائٹروفوران کی موجودگی کے خدشے پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور اسے عوامی صحت، دینی احکام اور اخلاقی ذمہ داری سے جڑا ایک نہایت سنگین مسئلہ قرار دیا۔ انجمنِ شرعی شیعیان کے صدر مولانا آغا سید حسن الموسوی الصفوی نے مرکزی امام باڑہ بڈگام میں اپنے خطبۂ جمعہ میں قرآن کریم کی آیت "کُلُوا مِن طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں صرف حلال ہی نہیں بلکہ طیب اور محفوظ غذا کا حصول بھی لازم ہے۔ انہوں نے ماہرین کی جانب سے سامنے آنے والی اس تشویش پر سوال اٹھایا کہ آیا موجودہ بازاروں میں دستیاب انڈے مضر اور ممنوع کیمیکلز سے پاک ہیں یا نہیں، جبکہ جدید تحقیق کے مطابق یہ مادّے کینسر اور جسم کی خلیاتی بناوٹ کو نقصان جیسے خطرناک امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔

انہوں نے یاد دلایا کہ چند ماہ قبل وادی کشمیر میں سڑے ہوئے گوشت کا ایک بڑا اسکینڈل سامنے آیا تھا اور اُس وقت بھی ذمہ دار اداروں نے سخت کارروائی کا اعلان کیا تھا، مگر عملی طور پر کوئی نتیجہ خیز قدم نہیں اٹھایا گیا۔ آغا سید حسن موسوی نے کہا کہ اگر اس معاملے پر بھی خاموشی اختیار کی گئی تو تاریخ خود کو دہرا دے گی۔ رسول اللہ (ص) کے فرمان "مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا" کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملاوٹ کرنا اور عوام کی صحت سے کھیلنا سنگین دینی جرم ہے اور ذمہ دار اداروں کی خاموشی بھی امانت میں خیانت کے مترادف ہے۔ آغا سید حسن موسوی نے مطالبہ کیا کہ پورے جموں و کشمیر میں انڈوں کی آزادانہ اور غیر جانب دارانہ سائنسی جانچ کرائی جائے، ان جانچوں کے نتائج عوام کے سامنے رکھے جائیں اور جو کوئی بھی اس جرم میں ملوث پایا جائے، اس کے خلاف سخت شرعی و قانونی کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ صرف انتظامیہ کا نہیں بلکہ ایک دینی، اخلاقی، سماجی اور انسانی فریضہ ہے اور بے حسی یا تاخیر کسی بڑے سانحے کا سبب بن سکتی ہے۔ آخر میں آغا سید حسن موسوی نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی حرام، مشکوک اور مضر غذا سے محفوظ رکھے اور ہمارے رزق میں پاکیزگی عطا فرمائے۔.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امام باڑہ انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

جب خاموشی محفوظ لگنے لگے!

محمد آصف

انسانی تاریخ کے ہر دور میں آزادیِ اظہار کی جدوجہد دراصل وقار، شناخت اور طاقت کی جدوجہد رہی ہے ، مگر شاید کسی دور میں یہ جدوجہد اتنی پیچیدہ، خاموش اور خطرناک نہیں رہی جتنی آج ہے ۔ جدید دنیا، جو بظاہر حقوق، جمہوریت اور ڈیجیٹل آزادی کے نعروں سے سجی ہوئی ہے ، درحقیقت آزادیِ اظہار کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ کی گواہ بن چکی ہے ۔ایسی جنگ جو بظاہر عوامی تحفظ، ملکی مفاد، سماجی ہم آہنگی یا اخلاقی تحفظ کے نام پر لڑی جاتی ہے ، مگر اس کا اصل نتیجہ انسانی زبان، ذہن اور سوچ کو محدود کرنا ہے ۔ اس جنگ میں نہ جیلیں ہمیشہ نظر آتی ہیں نہ بندوقیں؛ بلکہ یہ جنگ کینسل کلچر، ڈیجیٹل پروپیگنڈا، منتخب غصے ، سوشل میڈیا ہجوم، جدید نگرانی، اور ایسے قوانین کے ذریعے لڑی جا رہی ہے جو اختلاف کو بدعنوانی اور سوال کو غداری بنا دیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بولنے کے بجائے خاموش رہنا زیادہ محفوظ لگتا ہے ، سچ کہنے کے بجائے چلن کا ساتھ دینا آسان لگتا ہے ، اور زندہ رہنے کی خواہش سچائی پر غالب آ جاتی ہے ۔ اس بدلتے ہوئے عالمی ماحول میں انسان ایک تلخ حقیقت کو محسوس کرتا ہے : بہت سی جگہوں پر لوگ قوت کے زور سے نہیں، بلکہ خوف کے باعث خاموش ہیں۔ ملازمت کھونے کا خوف، غلط سمجھے جانے کا خوف، کردار کشی کا خوف، قانونی کارروائی کا خوف، یا سماجی بائیکاٹ کا خوف ، یہ سب انسانی زبان کو قید میں رکھنے کے نئے ہتھیار ہیں۔ پہلے ظالم حکومتوں کو لوگوں کو خاموش کرانے کے لیے طاقت استعمال کرنا پڑتی تھی، مگر آج معاشرہ خود اپنے اندر ایسے خوف پیدا کر چکا ہے جو انسان کو اپنی زبان پر خود ہی تالے لگا دینے پر مجبور کرتا ہے ۔
ٹیکنالوجی، جسے کبھی آزادیِ اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھا گیا تھا، آج ستم ظریفی سے سب سے مضبوط ہتھیار بن چکی ہے ۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جو ایک وقت میں ہر آواز کو جگہ دینے کا وعدہ کرتے تھے ، اب نفرت، پروپیگنڈا، الگورتھم کنٹرول، حکومتی نگرانی اور ڈیجیٹل ہجوم کے میدانِ جنگ بن گئے ہیں۔ یہاں ایک پوسٹ، ایک غلط فہم جملہ، یا ایک اختلافی رائے انسان کی نوکری، شہرت یا سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے ۔ جب رائے عامہ غصے کے جذبات سے بھری ہو، تو آزادیِ اظہار بہادر افراد کا حق بن جاتا ہے اور عام لوگوں کے لیے ایک خطرہ۔یہ مسئلہ صرف آمرانہ ریاستوں تک محدود نہیں؛ جمہوریتیں بھی اس بیماری سے متاثر ہو چکی ہیں۔”نفرت انگیز تقریر”، ”غلط معلومات” اور ”قومی سلامتی” جیسے عنوانات کے تحت ایسے قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں جو اصل میں ناقدین، صحافیوں اور مخالفین کو خاموش کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ریاستیں شہریوں کو نقصان دہ مواد سے بچانے کے نام پر وہ مواد بھی فلٹر کر دیتی ہیں جو حکومتی بدانتظامی، کرپشن یا ناانصافی کو بے نقاب کرتا ہو۔ ڈیجیٹل دنیا کا عوامی میدان اب عملی طور پر جسمانی میدان سے زیادہ پابند ہو گیا ہے ، اور آزادانہ بولنا حساب کتاب کا محتاج ہو چکا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ معاشرے نے بھی خاموشی تھوپنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ سیاسی اور سماجی تقسیم نے لوگوں کو ایسے گروہوں میں بانٹ دیا ہے جہاں اختلافِ رائے دشمنی بن جاتا ہے ۔ ہر شخص اپنے جیسے سوچنے والوں میں گھرا ہوا ہے ، اور معمولی اختلاف بھی شدید ردعمل کا باعث بنتا ہے ۔
غلط سمجھ لیے جانے کا خوف، حملہ کیے جانے کا خوف، یا مذاق بن جانے کا خوف لوگوں کو سوچنے سے نہیں بلکہ بولنے سے ڈراتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہزاروں اہلِ فکر لوگ اس لیے خاموش ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کی بات کو سنے بغیر مسترد کر دیا جائے گا۔ جب ہر اختلاف ذاتی حملہ سمجھا جائے اور ہر سوال نظریاتی دشمنی قرار دیا جائے ، تو مکالمہ مر جاتا ہے ۔ خاموشی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان میں سب سے خوفناک بات یہ ہے کہ جب لوگ بولنا چھوڑ دیتے ہیں تو معاشرے سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ترقی، انصاف اور اصلاح ہمیشہ سوال اٹھانے اور سچ
بولنے سے جنم لیتے ہیں۔ جب معاشرے میں خاموشی چھا جاتی ہے تو جھوٹ پھلتا پھولتا ہے ، کرپشن بڑھتی ہے اور ظلم معمول بن جاتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرتا جہاں زبانیں خوف سے بند ہوں۔ آزادیِ اظہار کا خاتمہ فکری موت کا آغاز ہوتا ہے ۔ پھر بھی امید مکمل ختم نہیں ہوئی۔ دنیا بھر میں ایسے صحافی، لکھاری اور کارکن موجود ہیں جو خطرات کے باوجود سچ لکھتے ہیں، حکمرانوں کو چیلنج کرتے ہیں، اور عوام کی آنکھیں کھولتے ہیں۔ لیکن صرف بہادری کافی نہیں؛ معاشروں کو برداشت، مکالمے ، اختلاف کی عزت، اور سننے کی
تہذیب دوبارہ سیکھنا ہوگی۔ حکومتوں کو سمجھنا ہوگا کہ زبانیں باندھنے سے ملک مضبوط نہیں ہوتے بلکہ کمزور ہوتے ہیں۔ اداروں کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آزادیِ اظہار صرف بولنے کا حق نہیں، بلکہ دوسروں کی آواز کو برداشت کرنے کی ذمہ داری بھی ہے ۔
آزادیِ اظہار پر یہ جنگ کسی ایک قانون، تحریک یا انقلاب سے ختم نہیں ہوگی۔ یہ تب ختم ہوگی جب معاشرے یہ سمجھ لیں گے کہ خاموشی حفاظت نہیں بلکہ شکست ہے ۔ جب لوگ سمجھ جائیں گے کہ سچ بولنا خطرناک ہو سکتا ہے ، مگر سچ چھوڑ دینا جان لیوا ہے ۔ اصل نقصان آواز اٹھانے میں نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جانے میں ہے ۔ کیونکہ جس دن انسان خوف کے باعث چپ ہو جائے ، اُس دن صرف اس کی آواز نہیں مرتی اس کی انسانیت بھی مر جاتی ہے ۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • پھل کھانے کے لیے سب سے مؤثر وقت کون سا ہے؟
  • صبح 10 بجے سے پہلے دفتر آنے کیلئے مجبور کرنا تشدد کے مترادف، تحقیق
  • پی سی ڈھابہ، پنجاب یونیورسٹی کی ایک خوبصورت روایت
  • جب خاموشی محفوظ لگنے لگے!
  • پہاڑون کا عالمی دن اور کشمیر کی سیاحت
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہے، مقررین
  • خالی پیٹ پھل کھانے سے کیا ہوتا ہے؟ ماہرین نے بتا دیا
  • کشمیر روڈ اور ناگن چورنگی پر ٹینکر کی ٹکر سے قیمتی جانوں کا ضیاع حکومتی نااہلی ہے، ایم کیو ایم
  • یو اے ای میں جمعے کی اذان و نماز کا نیا نظام متعارف، تمام مساجد میں ایک ہی وقت مقرر