پہاڑون کا عالمی دن اور کشمیر کی سیاحت
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
پہاڑوں کا عالمی دن ہر سال 11 دسمبر کو منایا جاتا ہے، تاکہ پہاڑی ماحول کے تحفظ کا شعور بیدار کیا جا سکے۔ وادی نیلم کے پہاڑی سلسلے جو اپنی قدرتی خوبصورتی اور سر سبز شاداب نظاروں کے لئے مشہور ہیں۔
11 دسمبر پہاڑوں کا عالمی دن جس کو منانے کا مقصد پہاڑی ماحولیاتی نظام کے تحفظ ،پائیدار ترقی اور پہاڑی آبادی کی فلاح و بہبود کے لئے آگاہی پیدا کرنا ہے۔ وادی نیلم، گھنے جنگلات، آبشاروں، سر سبز وادیوں، بلند برف پوش چوٹیوں اور قدرتی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہیں۔
وادی نیلم میں بلند چوٹیاں واقع ہیں، جن میں سروالی 20754 فٹ، ہری پربت 18500 فٹ، گنجا پہاڑ 14000 فٹ بلند ہیں، سر والی چوٹی آزاد کشمیر کی بلند ترین چوٹی ہے، جس میں کو آج تک کوئی سر نہیں کر سکا ہے۔
وادی نیلم سے تعلق رکھنے والے ماونٹینئر رئیس خان نے بتایا کہ انھوں نے سطع سمندر سے 18500 فٹ بلند پہاڑی چوٹی کو سر کیا ہے، اس کے علاؤہ وہ ہر پربت سمیت متعدد پہاڑی چوٹیوں کو سرکر چکے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا مقصد ہے آزاد کشمیر کی بڑی چوٹی سروالی جو سطع سمندر سے 20754 فٹ بلندی پر واقع ہے، اس چوٹی کو سر کر کے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرانا ہے۔ رئیس خان نے بتایا کہ حکومت ان کو وسائل فراہم کر تا کہ وہ مہم جوئی اور سیاحت کے فروغ کے لئے کام کر سکیں۔
وادی نیلم شونٹھر میں موجود چٹھا کھٹا جھیل کے عقب میں 18500 فٹ بلند ہری پربت نامی پہاڑی چوٹی کشمیر میں شیومت کے ماننے والوں کے لئے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔
پہاڑ صاف پانی قدرتی وسائل اور عمدہ خوراک کی فراہمی کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے لئے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
وادی نیلم میں آزادکشمیر کی سب سے بلند چوٹی سروالی جو سطح سمندر سے 6 ہزار 326 میٹر (20 ہزار755 فٹ) کی بلندی پر واقع ہے اس چوٹی کو آج تک کوئی سر نہیں کرسکا۔
وادی نیلم کی سروالی چوٹی جسے ڈبر چوٹی، توشیری اور توشین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ مغربی ہمالیہ میں پیر پنجال پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، اسی پہاڑی سلسلے میں دنیا کی 9ویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت بھی ہے، سروالی چوٹی کو سر کرنے کی حسرت اکثر کوہ پیمائوں کے دل میں ہے لیکن اس چوٹی کوسرکرنے میں اب تک کوئی کامیاب نہیں ہوسکا۔
اگست 2015 میں سروالی چوٹی کو سر کرنے کی کوشش کرنے والی 3 کوہ پیما اس مہم کے دوران لاپتہ ہوگئے تھے، جن کی لاشیں 9 سال بعد بیس کیمپ کے قریب سے ملی، 2015 کے بعد سروالی چوٹی کو سرکرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
رئیس انقلابی نے بتایا کہ وہ سر والی چوٹی کو سر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہوں نے کہا آزاد کشمیر میں پہاڑوں کو سر کرنا ان کا شوق ہے، جب وہ پہاڑ سر کرنے جاتے ہیں تو ان کی اپنی ریسکیو ٹیم ان کے ساتھ ہوتی ہےان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ان کی مدد کرے تو یہ علاقہ عالمی سطح پر متعارف ہوگا اور ایڈونچر ٹورازم کو فروغ ملے گا۔
سیاحت سے دلچسپی رکھنے ولے افراد کا کہنا ہے کہ حکومت پہاڑوں پر سیاحت کے فروغ کے لئیے اقدامات اٹھائے اور ایڈونچر ٹورازم کو فروغ دے، تاکہ سیاحت کے ساتھ ساتھ مقامی افراد کو روزگار کے مواقع بھی میسر آسکیں۔ سروالی والی پیک کو سر کرنا مشکل ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ تاہم اب تک اس کا روٹ تلاش کرنے کیلئے ماہرین کی نگرانی میں باقاعدہ سروے نہیں کیا جاسکا۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: چوٹی کو سر کر سروالی چوٹی نے بتایا کہ وادی نیلم کشمیر کی فٹ بلند کرنے کی کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
معرکہ حق میں فتح سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی بحث کا موضوع بن گیا ہے، وفاقی وزیر
اسلام آباد:وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان امیرمقام نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی منظم اور سنگین خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلے کے فوری حل کا مطالبہ کیا اور کہا کہ معرکہ حق میں فتح سے مسئلہ کشمیر ایک بات پھر عالمی بحث کا موضوع بن گیا ہے۔
عالمی یوم انسانی حقوق کے موقع پر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اور کشمیر پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام "کشمیری لوگ حقوق کے حامل ہیں، محض تابع نہیں" کے عنوان سے ایک اہم سیمینار جموں و کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا، جس میں سیاسی رہنماؤں، سابق سفیروں، انسانی حقوق کے ماہرین، محققین، میڈیا کے نمائندگان اور طلبہ نے شرکت کی۔
وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان امیر مقام نے کہا کہ کشمیر ایک متنازع خطہ ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا ہے، مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان نے طاقت کے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے لیکن کشمیریوں کا جذبہ ازادی نہیں دبا سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور کشمیری عوام کو سلام پیش کرتا ہوں، حکومت آزاد کشمیر کے عوام کی بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کر ے گی، معرکہ حق میں فتح نے کشمیر کے مسئلے کو ایک بار پھر عالمی بحث کا موضوع بنا لیا ہے۔
مقررین نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے موجودہ حالات اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق کے عالمی چارٹر اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے عہدناموں میں درج حقِ خودارادیت کو کشمیری عوام کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان اور پاکستان کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ کی سطح پر تسلیم شدہ ہے اور ابھی تک حل طلب ہے، بھارت کی جانب سے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ، پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے جیسے قوانین کے ذریعے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں منظم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں جس میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں، گرفتاریوں کا غلط استعمال، گھروں کی مسماری اور املاک کی ضبطی شامل ہیں، جس کی مذمت کی گئی۔
سیمینار کے مقررین نے بھارتی حکومت مذہبی اور ثقافتی شناخت تبدیل کرنے کی کوششوں، کتابوں پر پابندیوں اور "جعلی معمول کی صورت حال" کے سرکاری بیانیے کو مسترد کیا گیا۔
بھارت اور بیرون ملک کشمیری طلبہ اور پیشہ وروں کو ہراساں کرنے کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
مقررین نے کہا کہ کشمیری عوام 5 اگست 2019 کے بھارتی یک طرفہ اقدامات اور آرٹیکل 370 و 35اے کی منسوخی کو مسترد کرتے ہیں، اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کی 2018 اور 2019 کی رپورٹس اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندگان کی نگرانی کو سراہا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کو اقوام متحدہ کے نظام سے عدم تعاون اور مبصرین کو رسائی نہ دینے پر جواب دہ ٹھہرایا جائے اور مطالبہ کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں تمام سیاسی قیدیوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کی فوری رہائی عمل میں لائی جائے اور انسانی حقوق کی ہر قسم کی منظم خلاف ورزیوں کو فوری روکا جائے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظالمانہ کالے قوانین ختم کیے جائیں۔
اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق کو کشمیر پر اپنی طویل عرصے سے زیر التوا تیسری رپورٹ جاری کرنے کی اپیل کی گئی اور مقررین نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کہ بھارت کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں پر جواب دہ بنایا جائے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ اپنی منظور شدہ قراردادوں پر عمل درآمد یقینی بنائے اور کشمیری عوام کو آزادانہ استصواب رائے کا حق فراہم کیا جائے۔
مقررین نے خبردار کیا کہ اگر تنازع حل نہ ہوا تو مئی 2025 کے بعد صورت حال سنگین عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے جو علاقائی و عالمی امن کے لیے خطرناک ہے، اس خطے میں امن و سلامتی تنازع کشمیر کے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل میں مضمر ہے۔