جموں و کشمیر میں ریزرویشن سرٹیفیکیٹس کی تقسیم میں علاقائی عدم توازن کو ظاہر کرتے ہیں، پی ڈی پی
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
جموں و کشمیر میں ریزرویشن پالیسی اب ایک حساس سیاسی مسئلہ بن چکی ہے جہاں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے پر علاقائی جانبداری کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کی اپوزیشن جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) نے الزام عائد کیا ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران حکومت نے جموں صوبے کے دس اضلاع میں کشمیر وادی کے دس اضلاع کے مقابلے میں کہیں زیادہ ریزرویشن زمرے کے سرٹیفیکیٹس جاری کئے ہیں۔ پی ڈی پی کے رکن اسمبلی اور وحید الرحمن پرہ نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ مختلف سماجی زمروں کے تحت جاری ہونے والے سرٹیفیکیٹس میں ایک نمایاں علاقائی فرق نظر آ رہا ہے۔ ان زمروں میں شیڈیول کاسٹ (SC)، شیڈیول ٹرائب (ST)، دیگر پسماندہ طبقے (OBC)، اقتصادی طور کمزور طبقے (EWS)، پسماندہ علاقے کے رہائشی (RBA) اور اصل کنٹرول لائن کے قریبی علاقے (ALC) شامل ہیں۔
پلوامہ اسمبلی حلقے سے منتخب نمائندے وحید الرحمن پرہ نے ایوان میں ان تمام زمروں کے تحت جموں اور کشمیر اضلاع میں دو برسوں کے دوران جاری سرٹیفیکیٹس کی تفصیلی رپورٹ طلب کی تھی۔ یہ ڈیٹا ریونیو ڈیپارٹمنٹ نے فراہم کیا، جس کی سربراہی وزیراعلٰی عمر عبداللہ کر رہے ہیں۔ وحید الرحمن پرہ نے کہا کہ یہ اعداد و شمار واضح طور پر سماجی زمرے کے سرٹیفیکیٹس کی تقسیم میں علاقائی عدم توازن کو ظاہر کرتے ہیں، جو انصاف، مساوات، میرٹ اور انتظامی غیرجانبداری کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسی لئے ہم مسلسل مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ ریزرویشن پالیسی کو آبادی کے تناسب سے منصفانہ بنایا جائے۔ مارچ 2025ء میں اسمبلی کے سرمائی اجلاس کے دوران پیپلز کانفرنس (پی سی) کے سربراہ اور ہندوارہ کے ایم ایل اے سجاد غنی لون نے بھی کہا تھا کہ ریزرویشن پالیسی کشمیری بولنے والے لوگوں کے خلاف وضع کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے 20 برسوں میں کشمیری بولنے والے افسروں کی تعداد بیوروکریسی میں بہت کم رہ جائے گی۔
سجاد لون نے بعد میں ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ ریزرویشن کے معاملے کو دانستہ نظرانداز کیا جا رہا ہے، ہم نے بحث کے لئے نوٹس دیا لیکن اجازت نہیں دی گئی، یہ سب سے اہم مسئلہ ہے جس کے دور رس اثرات ہوں گے، مگر اسے سیاسی مصلحت کی نذر کیا جا رہا ہے۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ نے بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا کہ اسپیکر نے سب جیوڈس امور پر بحث کی اجازت نہیں دی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہر وہ مسئلہ جس پر عدالت میں مقدمہ ہو، اسمبلی میں زیر بحث نہیں آ سکتا تو لوگ ہر معاملے کو عدالت لے جائیں گے تاکہ ہم اسمبلی میں بات ہی نہ کر سکیں۔ جموں و کشمیر میں ریزرویشن پالیسی اب ایک حساس سیاسی مسئلہ بن چکی ہے جہاں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ایک دوسرے پر علاقائی جانبداری کے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ریزرویشن پالیسی کہا کہ
پڑھیں:
آمدنی میں عدم توازن: بھارت چھٹا بڑا ملک بن گیا، پاکستان کا کونسا نمبر؟
بھارت آمدنی میں عدم توازن رکھنے والا چھٹا بڑا ملک بن گیا۔ جبکہ اس فہرست میں پاکستان کا 24 واں نمبر ہے۔
2026 کی ورلڈ اِن اکوالٹی رپورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق عدم توازن کی اس فہرست میں جنوبی افریقا پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں ٹاپ 10 فی صد طبقہ مجموعی آمدنی کا 66 فی صد حصہ کماتا ہے جبکہ باقی نصف نچلے طبقے کی آمدنی صرف 6 فی صد ہے۔
برازیل، میکسیکو، چلی اور کولمبیا جیسے لاطینی امریکی ممالک میں بھی یہی رجحان دیکھا گیا جہاں 10 فی صد امراء کی آمدنی تقریباً 60 فی صد ہے۔
دوسری جانب یورپی ممالک میں یہ تناسب متوازن ہے۔ سوئیڈن اور ناروے میں 50 فی صد نچلے طبقے کی مجموعی آمدنی تقریباً 25 فی صد ہے جبکہ ٹاپ 10 فی صد طبقہ 30 فی صد سے کم آمدنی کماتا ہے۔
آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، جاپان اور برطانیہ جیسی متعدد ترقی یافتہ معیشتیں متوسط زمرے میں آتی ہیں۔ یہاں ٹاپ 10 فی صد افراد مجموعی آمدنی کا تقریباً 33-47 فی صد کماتے ہیں جبکہ 50 فی صد نچلا طبقہ 16-21 فی صد کماتا ہے۔
ایشیا میں آمدنی کی تقسیم ملی جلی ہے۔ چین، پاکستان اور بنگلادیش میں ٹاپ 10 فی صد طبقہ مجموعی آمدنی کا بالترتیب 43، 42 اور 41 فی صد حصہ کماتا ہے جبکہ باقی 50 فی صد نچلا طبقہ 14، 19 اور 19 فی صد حصہ حاصل پاتا ہے۔
تاہم، دنیا میں مضبوط معیشت کا شور کرنے والا ملک بھارت دنیا کا آمدنی کی غیر منصفانہ تقسیم پر چھٹے نمبر پر ہے، جبکہ ترکیے ساتویں نمبر پر ہے۔