Jasarat News:
2025-12-12@22:16:25 GMT

عمران خان: زمین سرخ ہے اور ہوا زہریلی

اشاعت کی تاریخ: 12th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251213-03-6

 

باباالف

 

 

Gentlemen!We have crossed the Rubicon, the die is cast

حضرات! ہم روبیکون پار کر چکے ہیں، اب پانسا پھینکا جا چکا ہے۔ (واپسی ممکن نہیں۔ انجام اب مقدر کے سپرد ہے) یہ جملہ جولیس سیزر سے منسوب ہے۔ 49 قبل مسیح میں رومن قانون کے مطابق دریائے روبیکون عبور کرنا ریاست کے خلاف اعلان بغاوت تصور کیا جاتا تھا۔ سیزر نے اپنی فوج کے ساتھ جب دریائے روبیکون پار کیا تھا تب اس نے یہ جملہ کہا تھا مطلب اب تقدیر سے ٹکر لی جاچکی۔

2 دسمبر کو جیل ملاقات میں عمران خان نے اپنی بہن علیمہ خان سے گفتگو میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے خلاف جو گفتگو کی اور پھر پوسٹ میں جو چرائی کٹائی کی، اس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں جو مسلز دکھائے، ہر سائز کی اینٹ سے جو گھمسان کا رن برپا کیا اور معاملے کو قومی سلامتی سے مربوط کیا یہ سیاست کی معمول کی تو تو میں میں نہیں بلکہ جولیس سیزر کے الفاظ میں دریائے روبیکون کے پار اُترنے کا عمل ہے جس کے بعد واپسی ممکن نہیں رہتی۔ منزل سرابوں کی نذر ہوجاتی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں جو آتشیں لب و لہجہ اختیار کیا گیا، وحشتوں کے الائو بھڑکائے گئے، مرنے مارنے پر آمادگی ظاہر کی گئی وہ حیران کن تھی۔ ایسی ماحولیاتی آلودگی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ کوئلہ اور نمک کو کانوں سے اور سیاست دانوں کو دلوں سے نکالنا آسان نہیں ہوتا اور پھر عمران خان جیسے ہارٹ بریکر اور ڈریم میکر کو، لیکن پریس کانفرنس کی اوٹ سے آگ اور ایٹمی تابکاری کی وہ چنگاریاں برسائی گئیں کہ سیاست اور اہل سیاست کے جسم وجاں جھلس کررہ جائیں۔۔ عمران خان کو ذہنی مریض، نارسسٹ، میں پرست کہا گیا۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ ہم سیاسی شخصیات کا ’’احترام‘‘ کرتے ہیں۔ ایک لحاظ سے یہ بات درست بھی تھی۔ حقیقت یہی ہے کہ اس سے پہلے فوج نے شاز ہی کسی سیاست دان کے خلاف ایسی جاروب کشی کی ہو۔۔

لیکن۔۔ یہ یک طرفہ عمل نہیں تھا۔۔

عمران خان جس طرح فیلڈ مارشل عاصم منیر کی سربازار رسوائی پر کمر بستہ، ذاتی حملوں پر ہر وقت آمادہ اور بے حرمت کرنے پر تیار رہتے ہیں اور ان کے معاملے میں ’’عاصم کُشتن روزاوّل‘‘ کے محاورے پر عمل پیرا ہیں، کسی آرمی چیف کے خلاف ایسا رویہ کسی سیاست دان نے کبھی اختیار نہیں کیا۔ جنرل ضیاء الحق بھٹو کے قاتل تھے مگر اس کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو نے کبھی ان کے خلاف گالم گلوچ شعار نہیں کی۔ گوجرانوالہ جلسے میں نواز شریف نے پہلی مرتبہ جنرل باجوہ کا نام لے کر ان سے 2018 کے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے جواب طلبی کی تو بلاول زرداری نے ناگواری کا اظہار کیا تھا اور کہا کہ وہ شاک ہوئے۔ ان کا موقف تھا کہ PDM کی مشترکہ حکمت عملی یہ تھی کہ اداروں پر تنقید کی جائے نہ کہ کسی فرد یا جنرل کا نام لیا جائے۔ آصف علی زرداری رمز اور اشاروں کی تہہ داری میں جنرلوں کا نام لیے بغیر اشارے کرتے رہے ہیں۔ ان کا محبوب طرز یہی رہا کہ ’’جمہوریت کے سفر میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ چند قوتیں ہمارے مینڈیٹ سے خائف رہتی ہیں۔ یہ ملک صرف بندوق والوں کا نہیں عوام کا بھی ہے‘‘۔ اسی طرح کسی آرمی چیف نے بھی کھلے بندوں کسی سیاست دان کو کبھی ٹارگٹ نہیں کیا۔

اپنے طرز سیاست سے عمران خان نے آج تک کسی کی خیریت دریافت نہیں کی۔ اہل سیاست میں شاید ہی کوئی بچا ہو جس پر انہوں نے ذاتی حملے نہ کیے ہوں۔ چور اور ڈاکو سے کم الفاظ تو وہ سیاست دانوں کو دھونے کے لیے استعمال ہی نہیں کرتے۔ جن سے بات کرنا بھی وہ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ چلیے پھر فوج سے بات کرلیجیے۔ عمران خان بھی ایسا ہی ظاہر کرتے ہیں لیکن یہ باور کرنے کے باوجود کہ پاکستان میں فوج ہی فیصلہ کن قوت ہے وہ مسلسل اور مستقل فوج سے بھی محاذ آرائی میں مصروف ہیں۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے خلاف وہ پہلے دن سے ہی برسر جنگ ہیں لیکن جیل میں علیمہ خان سے ملاقات میں انہوں نے فیلڈ مارشل کے خلاف جو قابل سنسر گوہر افشانی کی جسے علیمہ خان بھی باہر آکر بیان کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھیں۔ ظاہر وہ گفتگو ریکارڈ ہوگئی ہوگی اور بعد میں فیلڈ مارشل صاحب کو بھی سنوائی گئی ہوگی۔ جس کے ساتھ ہی عمران خان پر مصالحت کا یہ دروازہ بھی بند ہوگیا۔ یہ عمران خان کی اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔ سیاست مفاہمت کا کھیل ہے۔ اہل سیاست سے بات کرنا وہ کسر شان سمجھتے ہیں، فوج سے بات چیت کا دروازہ بھی انہوں نے جلا کر راکھ کردیا۔ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟ میر حسن یاد آجاتے ہیں:

ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں جو مہکتے جاویں

آگ کی طرح جدھر جاویں دہکتے جاویں

کہا جارہا ہے کہ پریس کانفرنس میں ڈی جی صاحب کو اس قدر بھڑکنا نہیں چاہیے تھا۔ اتنا پرسنل اٹیک، اتنی ہارڈ لائن!! یہ کمزوری کی علامت تھی۔ ڈھائی برس سے جیل میں بند ایک قیدی سے دنیا کی عظیم ترین افواج میں سے ایک اور اس قدر سراسیمہ اور گھبرائی ہوئی؟؟ جسے دیکھو کوئی کام ہی نہیں ہے سوائے عمران خان کو مطعون کرنے کے۔ فوج کو خود ردعمل نہیں دینا چاہیے تھا۔ حکومت کو آنکھ ماردینی چاہیے تھی۔ غالباً ایسا ہی کیا گیا لیکن حکومت کے اعلیٰ زعما نے تو سخت ردعمل نہیں دیا بس دوسرے درجے کی قیادت بمقابلہ عمران خان آگے کردی لہٰذا فوج کو خود آگے آنا پڑا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی دھواں دھار پریس کانفرنس اور جلال کا سبب یہ تھا کہ عمران خان فوج سے محض زبانی تکرار نہیں کررہے ہیں وہ فوج میں بغاوت اور پھوٹ ڈلوانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے جسے دنیا کی کوئی فوج برداشت نہیں کرسکتی۔

مسئلہ یہ ہے کہ اپنے مزاحمتی کردار کے عمران خان نے جو اہداف مقرر کر رکھے ہیں ان کا بوجھ اٹھانے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ پارٹی بند گلی میں پہنچ گئی ہے۔ سرنگ کے دوسرے طرف کوئی روشنی نہیں۔ محسن نقوی سرگرم ہوگئے ہیں، سفری پابندیاں لگ گئی ہیں۔ جیل ملاقاتیں بند ہوگئی ہیں۔ شبلی فراز، علی امین گنڈاپور کا کوئی پتا نہیں۔ فواد چودھری لا تعلق ہیں۔ شیریں مزاری نہ جانے کہاں ہیں شیخ رشید، طاہر صادق، راجا بشارت سب منظر سے غائب ہیں۔ خوف کی چادر پوری پی ٹی آئی قیادت پر تان دی گئی ہے۔ بیرسٹر گوہر اعتدال کی راہ اپناتے ہوئے کنارہ کش ہونے پر مائل ہیں۔ راجا صاحب قانونی آدمی ہیں ہارڈلائن لینا ان کے بس میں نہیں۔ سلمان راجا صاحب جیسے لوگ عمران خان کے کہنے پر کتنی ہارڈ لائن لے سکتے ہیں کچھ پتا نہیں۔ علیمہ خان اور سہیل آفریدی عمران خان کے کہنے پر فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی کوشش کرتے کرتے اب قدم بہ قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ وہ ماڈریشن کے مرحلے میں ہیں۔ اب رہے لانگ مارچ، دھرنے اور جلسے جلوس بڑے پیمانے پر ان کے امکان معدوم ہیں۔ روٹی کپڑے کے مسائل میں گھرے عوام باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ بھٹوکو پھانسی ہوئی عوام باہر نہیں نکلے، نوازشریف کی دوتہائی اکثریت والی حکومت کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ عوام باہر نہیں نکلے۔ عوام کی مسکین اکثریت ٹوٹ کر اپنے لیڈر سے محبت کرتی ہے اس کی ذات کو خلاصہ کائنات سمجھتی ہے اور پھر پھانسی کی کال کوٹھڑی تک پہنچا کر واپس آکر اپنے گھروں میں سوجاتی ہے اور صبح اٹھ کر پھر اپنے آڑے ترچھے مسائل کے حل کرنے میں لگ جاتی ہے جن کے بارے میں انہیں یقین ہے کوئی سلجھانے نہیں آئے گا۔ اس نظام میں ان کے مسائل کا حل موجود نہیں چاہے کوئی آئے کوئی جائے۔

بابا الف.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پریس کانفرنس فیلڈ مارشل علیمہ خان کے خلاف نہیں کی فوج سے سے بات

پڑھیں:

کراچی؛ فلیٹ سے 3 خواتین کی لاش ملنے کا معاملہ، گھر کے سربراہ کا اہم خط سامنے آگیا

کراچی:

گلشن اقبال میں فلیٹ سے ماں، بیٹی اور بہو کی لاشیں اور بیٹے کا بے ہوشی کی حالت میں ملنے کے واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔

تفصیلات کے مطابق واقعے سے قبل گھر کے سربراہ اقبال اور بہو ماہا نے اپنے آخری خطوط بھی تحریر کیے، گھر کے سربراہ اقبال کی جانب سے لکھا گیا خط ایکسپریس نیوز نے حاصل کر لیا۔

گھر کے سربراہ اقبال نے علی عطاری نامی شخص کو خط لکھا تھا، جس پر 12 دسمبر 2025 کی تاریخ درج ہے۔

خط میں لکھا ہے کہ علی عطاری آپ کو عبدالقادر کی طرف سے جو بقایا رقم ملے وہ ہماری تدفین وغیرہ پر خرچ کر دینا، کسی اور کو اخراجات نہ کرنے دینا، میرے رشتہ داروں کو بھی نہ بتانا، یہ ساری باتیں اپنے تک رکھنا اور کسی کو نہ بتانا۔

خط پر علی عطاری، عبدالقادر، بہن زرینہ اور بھائی یوسف کے نام اور موبائل فون نمبرز لکھے ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق گھر کے سربراہ نے خط لکھا ضرور لیکن بھیجا نہیں، گزشتہ روز بیٹے یاسین کا پولیس نے بیان بھی قلمند کیا تھا۔

بیٹے نے بتایا تھا کہ زہریلی اشیا جوس میں ملا کر پی تھی اور اہلِ خانہ پر ڈیڑھ کروڑ سے زائد کا قرض تھا، مبینہ طور پر قرض ادا کرنے سے بچنے کے لیے انتہائی قدم اٹھایا۔

پولیس حکام کے مطابق خواتین کی موت کی وجوہات پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد سامنے آئیں گی، پولیس اور تفتیشی ٹیم کو فلیٹ سے زہریلی اور چوہے مار زہریلی ادویات محلول حالت میں ملے۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کے ساتھ اب کوئی فیض حمید نہیں، منفی سیاست چھوڑ دے، طارق فضل
  • دہلی میں زہریلی ہوا اور آلودگی سے صحت، کاروبار اور معمولاتِ زندگی شدید متاثر
  • پی ٹی آئی کے ساتھ اب کوئی فیض حمید نہیں، منفی سیاست چھوڑ دے، طارق فضل چوہدری
  • درست دماغ، سیاست ایسی نہیں ہوتی
  • بیانیوں کی جنگ: جب سیاست قومی سلامتی بن جائے
  • ٹکراؤ کی سیاست کے مضمرات
  • کراچی؛ فلیٹ سے 3 خواتین کی لاش ملنے کا معاملہ، گھر کے سربراہ کا اہم خط سامنے آگیا
  • انسانی حقوق کے عالمی دن پر بھی ایم کیو ایم لسانی سیاست سے باز نہیں آئی: سعدیہ جاوید
  • خان صاحب حل صرف غیر مشروط مفاہمت میں ہے