بیانیوں کی جنگ: جب سیاست قومی سلامتی بن جائے
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251211-03-7
میر بابر مشتاق
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پریس کانفرنسیں محض اطلاعات کا ذریعہ نہیں ہوتیں وہ طاقت، ترجیحات اور بیانیوں کے بدلتے رْخ کی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ 5 دسمبر 2025ء کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی پریس کانفرنس بھی ایک ایسی ہی علامت تھی۔ بظاہر یہ ایک سیکورٹی بریفنگ تھی، مگر در حقیقت یہ ایک نئی سیاسی سمت، ایک نئے بیانیے اور ایک نئی طاقت ور پوزیشننگ کا اعلان بن کر سامنے آئی۔ اس پریس کانفرنس میں سابق وزیراعظم عمران خان کو ’’ذہنی مریض‘‘ قرار دینا محض ایک تلخ جملہ نہیں تھا۔ یہ ایک دانستہ طور پر تراشا گیا بیانیہ تھا ایک ایسا بیانیہ جو فرد کی ساکھ، اس کی سیاست، اور اس کے چاہنے والوں کے اعتماد کو ایک ہی ضرب میں کمزور کرنے کی حکمت ِ عملی رکھتا ہے۔ ریاستی سطح پر کسی حاضر سروس ترجمان کی طرف سے کسی سیاسی رہنما کی ذہنی صحت پر سوال اٹھانا غیر معمولی بھی تھا اور دور رس نتائج رکھنے والا بھی۔ اسے صرف عمران خان تک محدود سمجھنا سادہ لوحی ہوگی۔ یہ آگے چل کر پاکستان کی پوری سیاسی ساخت کو متاثر کرے گا۔ یہ اعلان درحقیقت یہ تھا کہ اب سیاسی مخالفت کو نہ صرف سیاسی میدان میں، بلکہ نفسیاتی اور اخلاقی میدان میں بھی چیلنج کیا جائے گا، اور اس کے لیے ریاستی مشینری کا بھرپور استعمال کیا جائے گا۔
عمران خان کو ’’ذہنی مریض‘‘ کہنا دراصل ایک سوچے سمجھے مقصد کے تحت تھا: (1) ان کی سیاسی قابل ِ اعتماد شخصیت کو غیر سنجیدہ ثابت کرنا، تاکہ ان کے ہر دعوے اور تجزیے پر شک کیا جا سکے۔ (2) ان کے ہر بیانیے کو ’’غیر ذمے دارانہ‘‘ قرار دینا، چاہے وہ معیشت ہو یا خارجہ پالیسی، تاکہ عوامی حمایت کٹے۔ (3) ان کی تحریک کو قومی سلامتی کے مقابل لا کھڑا کرنا اور ان کے حامیوں کو شعوری یا لاشعوری طور پر یہ باور کرانا کہ وہ ایک ’’غیر مستحکم‘‘ رہنما کی پیروی کر رہے ہیں۔ (4) ان کے بیانات کو ایک طرح کی ’’خطرناک غیر متوازن سوچ‘‘ کے طور پر پیش کرنا، جو قومی مفاد کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ سب وہی کلاسیکی نفسیاتی جنگ ہے جس میں مخالف کی شخصیت، مزاج، ذہنی کیفیت اور فیصلوں کو مشکوک بنا کر اس کی پوری سیاسی تحریک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ یہ جنگ میدان میں نہیں، ذہنوں میں لڑی جاتی ہے اور وہیں جیتی بھی جاتی ہے۔ اس کا مقصد مخالف کو شکست دینا نہیں، بلکہ اسے معاشرے کی نظروں میں اُتارنا ہے۔
یہاں سب سے بنیادی اور تلخ سوال پیدا ہوتا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا: وہ شخص جسے آج ’’ذہنی مریض‘‘ کہا جا رہا ہے، اسے کس نے پال پوس کر تیار کیا؟ یہ بھی اسی پاکستان کی تاریخ ہے کہ: اسے قابلیت، دیانت اور ’’عوامی اْمید‘‘ کا عنوان دیا گیا۔ اسے سیاسی مستقبل کا واحد راستہ بنا کر پیش کیا گیا، اور روایتی جماعتوں کے مقابلے میں ’’تبدیلی کا واحد ذریعہ‘‘ قرار دیا گیا۔ میڈیا اس کی ہر تقریر گھنٹوں لائیو دکھاتا تھا، جس سے اس کی رسائی اور مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ ملک کی متفرق اور متصادم سیاسی طاقتیں چودھریوں سے لے کر کراچی کے گروہوں تک اس کے گرد جمع کی گئیں، جو بغیر کسی واضح نظریاتی ہم آہنگی کے ممکن نہیں تھا۔ اس کے لیے سیاسی میدان ہموار کیے گئے، اور کئی دھڑے اس کی حمایت میں یکسر تبدیل ہوئے۔ اسے ’’ریاستی اعتماد‘‘ کا چہرہ بنا کر قوم کے سامنے لایا گیا، جس سے عوام میں یہ تصور مضبوط ہوا کہ وہ قومی اداروں کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔ پھر آج اچانک کہا جاتا ہے کہ وہ تو ’’ذہنی مریض‘‘ ہے۔ سوال یہ ہے: اگر وہ واقعی ایسا تھا تو اسے کون پروان چڑھاتا رہا؟ کیا پروان چڑھانے والے بھی اسی ذہنی کیفیت کا شکار تھے؟ اور اگر وہ ایسا نہ تھا تو آج اسے کیوں ایسا قرار دیا جا رہا ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ اب وہ ریاستی ترجیحات کے تابع نہیں رہا؟ یہ تضاد دراصل اسی بیانیے کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ ریاست کی سب سے بڑی ذمے داری انصاف اور مستقل مزاجی ہے، سیاسی یتیم پالنا یا پھر انہیں منہدم کرنا نہیں۔ جو ریاست سیاسی کھلاڑی خود بنائے، پھر انہی کو خود تباہ کرے، وہ کبھی عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر سکتی اور نہ ہی مستحکم ہو سکتی ہے۔
گزشتہ چار دہائیوں نے یہ حقیقت بار بار ثابت کی ہے کہ ریاست جب بھی کوئی سیاسی قیادت اپنی مرضی سے بناتی ہے، جب بھی کسی کو لاڈلا بنا کر اوپر چڑھاتی ہے، یا جب بھی کوئی ناپسندیدہ ہو تو اسے اچانک ’’سیکورٹی رسک‘‘ قرار دے دیتی ہے، تو اس کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے: ملک پیچھے جاتا ہے، ادارے کمزور ہوتے ہیں، معاشرہ تقسیم ہوتا ہے اور جمہوری تسلسل رک جاتا ہے۔ ہر بار یہی ہوا ہے۔ آج پھر وہی سلسلہ دہرایا جا رہا ہے۔ ایک وقت میں ’’حل‘‘ کے طور پر پیش کیے جانے والے فرد کو ہی آج ’’مسئلہ‘‘ قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے صرف ایک ہی پیغام جاتا ہے، سیاسی قسمت افراد یا جماعتوں کی اپنی محنت، نظریے یا عوامی خدمت سے نہیں، بلکہ بالائی طاقتوں کی مرضی سے طے ہوتی ہے۔ یہ سوچ قوم کو سیاسی طور پر نہ صرف مجروح کرتی ہے بلکہ مستقبل کے تمام ممکنہ رہنماؤں کے لیے ایک خطرناک مثال قائم کرتی ہے۔ پریس کانفرنس میں عمران خان کے بیانات کو بھارتی میڈیا کی خوشی قرار دیا گیا۔ یہ وہی پرانا اور فرسودہ فارمولا ہے جس میں ہر داخلی اختلافی آواز کو دشمن سے جوڑ کر اسے غداری کے دھبے سے آلودہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مساوات یوں بنانے کی کوشش کی گئی عمران خان = بھارتی میڈیا = ریاست مخالف بیانیہ۔ مگر یہ فارمولا اب پرانا ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل ذرائع نے معلومات کی سرحدیں توڑ دی ہیں۔ عوام، خاص طور پر نوجوان نسل، اب مختلف پلیٹ فارمز سے معلومات حاصل کرتی ہے۔ وہ دیکھ سکتے ہیں کہ بھارت کا میڈیا ہر موقع پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے، خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا معاملہ ہو۔ لہٰذا، کسی ایک سیاسی رہنما کے بیانات کو مخصوص طور پر ’’دشمن کی خوشی‘‘ قرار دینا عوامی شعور کی توہین کے مترادف ہے۔ بیانیے اب صرف سرکاری ٹی وی چینلوں پر نہیں بنتے وہ واٹس ایپ گروپس، ٹوئٹر اسپیسز، اور یوٹیوب چینلز پر بنتے اور بکھرتے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ جملہ کہ ’’سیاست اب نیشنل سیکورٹی تھریٹ بن چکی ہے‘‘، پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سب سے خطرناک جملوں میں سے ہے۔ اس ایک جملے میں جمہوریت کے بنیادی تصور کو مجروح کیا گیا ہے۔ اس کا عملی مطلب یہ بنتا ہے کہ: اختلاف رائے = ریاست مخالف سرگرمی۔ اپوزیشن = سیکورٹی خطرہ ۔ سیاسی بیانیہ = دشمن کا آلہ کار۔ انتخابی مہم = قومی سلامتی کے لیے چیلنج۔
یہ سوچ تین بڑے اور دیرپا خطرات پیدا کرے گی: 1۔ شدید قطبیت (Polarization): جب اپوزیشن کو دشمن کے برابر قرار دیا جائے گا، تو معاشرے میں مفاہمت اور برداشت کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ سیاسی حریف ایک دوسرے کو صرف سیاسی مخالف نہیں، بلکہ ’’ملک دشمن‘‘ سمجھنے لگیں گے۔ یہ تقسیم خاندانوں، دوستوں اور معاشرے کے ہر طبقے میں سرایت کر جائے گی۔ 2۔ جمہوری عمل کا ڈھانچہ کمزور ہونا: اگر سیاست ہی خطرہ ہے، تو پھر انتخابات، اسمبلیوں کے اجلاس، اور سیاسی بحث کا کیا مقصد رہ جاتا ہے؟ اس سوچ سے جمہوریت کا پورا ڈھانچہ کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ ادارے بے اثر ہو جاتے ہیں، اور سیاسی عمل ایک ڈرامے میں بدل جاتا ہے جس کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ 3۔ ریاستی اداروں کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان: دنیا اس بات کو سمجھتی ہے کہ جمہوریت میں اپوزیشن کا ہونا طاقت کی علامت ہے، کمزوری نہیں۔ جب اپوزیشن کو خطرہ قرار دیا جاتا ہے، تو بین الاقوامی برادری میں ملک کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ سرمایہ کاری، سفارتی تعلقات اور بین الاقوامی تعاون سب متاثر ہوتے ہیں۔
یہ جنگ بیانیوں کی ہے، مگر نقصان پاکستان کا ہوگا؛ یہ پریس کانفرنس دراصل ایک واضح اعلان تھا کہ سیاست، سیاسی جماعتیں اور سیاسی قیادت اب اسی تنگ گلی سے گزرے گی جو ریاست ضروری سمجھتی ہے۔
اس جنگ کا مقصد صرف ایک شخص یا جماعت کو شکست دینا نہیں، بلکہ سیاسی عمل کے تمام اصولوں کو بدل کر رکھ دینا ہے۔ مگر اصل سوال یہ نہیں کہ اس جنگ میں عمران خان جیتے گا یا ریاست؟ اصل سوال یہ ہے کہ اگر یہ بیانیاتی جنگ جاری رہی، اگر یہ سوچ قائم رہی کہ سیاست ہی قومی سلامتی کا سب سے بڑا خطرہ ہے، تو پاکستان آخر کیا کھو دے گا؟
مستقل بحران اور عدم استحکام ملک کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جائے گا۔ اداروں کی ساکھ: ادارے جو قوم کے اعتماد کی بنیاد ہیں، وہ سیاسی جھگڑوں کی بھینٹ چڑھ جائیں گے اور عوام کی نظر میں ان کا وقار مجروح ہوگا۔ جب عوام کو لگے گا کہ ان کی آواز کا کوئی وزن نہیں، ان کا ووٹ کوئی معنی نہیں رکھتا، تو وہ نظام سے مایوس ہو کر یا تو بے حس ہو جائیں گے یا پھر انتہائی راستے اپنائیں گے۔ اصولی بات یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاست کا حق حاصل ہے، ہر رہنما کو اختلاف کا حق حاصل ہے، اور ہر شہری کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ آج اگر کسی کو ’’ذہنی مریض‘‘ کہہ کر سیاست سے بے دخل کیا جا رہا ہے، تو کل کوئی بھی دوسرا رہنما اسی لیبل کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ یہ جنگ فرد کی نہیں یہ جمہوریت، رواداری اور مکالمے کی جنگ ہے۔ اور جمہوریت زبان بندی، لیبل لگانے یا نفسیاتی جنگ سے نہیں، بلکہ کھلے مکالمے، برداشت اور اصولوں کی بالادستی سے پروان چڑھتی ہے۔
پاکستان آج جس تاریخی مقام پر کھڑا ہے، وہاں سے واپسی مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ شرط صرف ایک ہے، ریاست اپنی آئینی حدود میں واپس آئے اور سیاستدان اپنے اخلاقی اور جمہوری حدود میں رہتے ہوئے کام کریں۔ ریاست کا کام سیاستدان بنانا یا توڑنا نہیں، بلکہ ان کے درمیان ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جہاں مسابقت ہو تصادم نہیں، بحث ہو بدکلامی نہیں۔ ورنہ یہ بیانیوں کی جنگ نہیں رہے گی یہ پاکستان کے اجتماعی مستقبل، اس کی سالمیت اور اس کی قومی نفس کی جنگ بن جائے گی۔ اور ایسی جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا، صرف ملبہ بکتا ہے جس کی قیمت آنے والی کئی نسلیں چکائیں گی۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم سوچیں کیا ہم اپنی توانائی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف کریں گے، یا مل کر ان حقیقی چیلنجز کا مقابلہ کریں گے جو ہمارے دروازے پر دستک دے رہے ہیں؟ فیصلہ ہمارا ہے۔
سیف اللہ
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پریس کانفرنس قومی سلامتی پاکستان کی جا رہا ہے قرار دیا جاتا ہے دیا گیا جائے گا کیا جا کی جنگ کے لیے
پڑھیں:
بانی پی ٹی آئی بھارتی سازش کامیاب کر رہے ہیں: مریم اورنگزیب
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سینئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ایک ہی 9 مئی ہو سکتا ہے بار بار نہیں۔ بانی پی ٹی آئی بھارتی سازش کو کامیاب کررہے ہیں۔ ایسے عناصر سے ملک دشمن کی طرح نمٹا جائے گا۔ ذہنی مریض سے صرف ذہنی ڈاکٹر مذاکرات کر سکتا ہے۔ وفاق میں نفاق پھیلانے والے کو غدار کہا جاتا ہے۔ ان کی بہنیں انڈین میڈیا پر ملک کو متنازعہ کرتی ہیں اس کی کسی کو اجازت نہیںدیں گے۔ یہ ملکی دفاع، سلامتی و استحکام کا معاملہ ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس قوم کی ترجمانی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی ملکی سلامتی سے بڑھ کر نہیں۔ اپنی گندی زبان سے صوفج کو متنازعہ بناتے ہو۔ کسی کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی۔ بدتمیزی اور تکبر بانی پی ٹی آئی کا ویژن ہے۔ نیازی نے گالی گلوچ کے کلچر کو فروغ دیا۔ پی ٹی آئی سوشل میڈیا پر فورسز، ملکی سلامتی کیخلاف پراپیگنڈا کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی پراپیگنڈا مشینیں بیرون ملک سے آپریٹ ہو رہی ہیں۔ سرخ لکیر عبور کرنے والے کی سزا آئین میں درج ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنی کرپشن چھپانے کیلئے 9 مئی کا سانحہ کیا۔ تین سو سے زائد فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا۔