عسکری اداروںنے جنرل فیض کو سزا سنا کر نئی روایت قائم کردی، تنظیم اسلامی
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251213-08-7
حیدرآباد (نمائندہ جسارت) جنرل فیض حمید کو کورٹ مارشل کے نتیجے میں 14 سال قید با مشقت کی سزا سنانے سے عسکری اداروں میں خود احتسابی کی ایک اچھی روایت قائم کی گئی ہے۔مجرم کے دیگر عسکری ساتھیوں بشمول سابق اور حاضر سروس اعلیٰ عہدے داروں کو بھی احتساب کے دائرہ میں لایا جائے۔ ان خیالات کا اظہار تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ نے ایک بیان میں کیا۔انہوں نے کہا کہ اسلام ہمیں واضح حکم دیتا ہے کہ کوئی شخص چاہے کتنے ہی بڑے عہدے پر فائزکیوں نہ ہو،احتساب سے مبرا نہیں۔ نبی ا کرمؐاور ان کے وصال کے بعد خلفائے راشدین نے اس دینی اصول کی عملی مثالیں قائم کر کے دکھائیں، جو آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ مشہور واقعہ ہے کہ بنی مخزوم قبیلے کے ایک بڑے خاندان کی عورت پر جب چوری کا جرم ثابت ہوا اور آپؐنے اس پر حد نافذ کی تو کچھ لوگوں نے اس کے حسب و نسب کی بنیاد پر اسے معاف کرنے کی سفارش کی جس پر نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ اے لوگو!تم سے پہلے لوگ اس لیے ہلاک ہوئے کہ جب اُن میں کوئی معزز شخص جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور اگر کوئی عام آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دیتے تھے۔ خلفائے راشدین کے دور میں بھی بلا تفریق احتساب کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ امیر تنظیم نے کہا کہ ایک سابق جرنیل کو اس کے جرائم ثابت ہونے پر سزا دینے سے ایک اچھی روایت کا آغاز کیا گیا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ سیاسی اور عسکری و عدالتی بیوروکریسی کے دیگر اہم عہدوں پر فائض ماضی اور حال کے تمام مجرموں، بالخصوص جنہوں نے کرپشن کر کے قومی خزانہ کو لُوٹا ہے، کو قانون اپنی گرفت میں لے اور نہ صرف انہیں قرار واقعی سزا دی جائے بلکہ اُن سے لُوٹا ہوا پیسہ بھی برآمد کر کے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پولیس حیدرآباد میں شراب خانے چلا رہی ہے، ریحان راجپوت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)پاکستان تحریک انصاف کے رکن سندھ اسمبلی ریحان راجپوت نے کہا ہے کہ حیدرآباد میں جس تیزی سے شراب خانے کو کھولنے کی اجازت دی جارہی ہے اس کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد پورے شہر میں شراب خانوں کی بھرمار
ہوجائے گی۔ پہلے ہی حیدرآباد سٹی، لطیف آباد، قاسم آباد اور تعلقہ دیہی میں بڑی تعداد میں شراب خانے اور کچی شراب کی بھٹیاں قائم ہیں اس کے علاوہ ہر گلی اور محلے میں خود پولیس کی سرپرستی میں شراب کا کاروبار جاری ہے جس سے براہ راست نوجوان متاثر ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حیدرآباد میں قائم شراب خانے کیلئے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یہ غیر مسلم کیلےے قائم ہے لیکن ان شراب خانوں سے غیر مسلموں سے زیادہ مسلمان اور خاص طورپر نوجوان شراب خریدتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت اسلامی ملک میں اور خاص طورپر حیدرآباد میں جس طرح شراب خانے کھولنے کی اجازت دے رہی ہے وہ خود حکومت کیلےے شرم کا مقام ہے۔ حیدرآباد کے آٹو بھان روڈ پر ایکسائز پولیس، انتظامیہ اور ضلعی پولیس کی سرپرستی میں شراب خانہ کھولا جارہا ہے، شہر کی سیاسی، مذہبی اور فلاحی تنظیمیں اور خود علاقے کے لوگ اس شراب خانے کیخلاف سراپا احتجاج ہیں اس کے خلاف درخواستیں بھی دی گئیں لیکن کوئی سنوائی نہیں کی جارہی ہے۔ انہوںنے وزیراعلیٰ سندھ سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا کہ آٹو بھان روڈ پر شراب خانے پرپابندی لگائی جائے۔