پنجاب اسمبلی: وزرا کی غیر موجودگی پر حکومتی اراکین برہم
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں وزرا کی غیر موجودگی پر حکومتی اراکین نے سخت تحفظات کا اظہار کیا اور اپنے ہی حکومتی نمائندوں پر تنقید کی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی احسن رضا خان نے کہا کہ “ہم یہاں آتے ہیں، باتیں کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں، مگر کسی مسئلے کا حل نہیں نکلتا کیونکہ وزرا ہی موجود نہیں ہوتے۔” انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ سیلاب تاریخی نوعیت کا تھا اور سیلاب زدگان کی مدد کے لیے حکومت نے بھرپور اقدامات کیے، خاص طور پر ستلج سیلاب کے دوران ریسکیو اور بحالی کے بڑے پروگرامز شروع کیے گئے۔
حکومتی رکن سعید اکبر نوانی نے اسپیکر سے مطالبہ کیا کہ وزرا کو اسمبلی میں حاضر ہونا لازمی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا، “جب کوئی سننے والا نہیں ہوتا تو ایوان کا مقصد ختم ہو جاتا ہے۔ پہلی بار دیکھا ہے کہ وزرا اس ہاؤس کو اہمیت نہیں دیتے۔ حکومت کو ہر ضرورت پر جواب دینا چاہیے اور عوام کے سامنے اپنی کارکردگی پیش کرنی چاہیے۔”
صوبائی وزیر چوہدری شافع حسین نے کہا کہ حالیہ سیلاب بدترین نوعیت کا تھا، اور اے سی ڈی سیز سروے کر رہے ہیں۔ سروے مکمل ہونے کے بعد ایک کمرہ گرنے والے متاثرین کو پانچ لاکھ اور دو کمرے گرنے والے مالکان کو دس لاکھ روپے امداد دی جائے گی۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے بھی کہا کہ حکومت سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور پارلیمانی کمیٹی کی جانب سے سیلاب پر مکمل رپورٹ کا انتظار کیا جائے۔
یہ اجلاس وزرا کی غیر موجودگی اور حکومتی نمائندوں کے احتجاج کے سبب خبروں میں رہا، جس نے ایوان میں شفافیت اور جوابدہی کے مطالبات کو اجاگر کیا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
خون جگر ہونے تک، سیلاب آبادی کا…
ملک بھر میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی تھی، خیبر پختونخوا کے بعد پنجاب بھر میں دریاؤں میں اونچے درجے کے سیلاب آرہے تھے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے تھے، سندھ میں بھی خطرات موجود تھے۔کراچی تھوڑی سی بارش ہی میں کافی حد تک اربن فلڈنگ کا شکار ہو چکا تھا۔ قدرتی آفات کے آگے بند باندھنا ہمارے لیے ممکن نہیں، اس لیے صرف دعا کی جا سکتی تھی کہ وہ ہمارے پیارے ملک کو ان آفات سے محفوظ رکھ لے۔ انتظامیہ کو اپنے فرائض کا احساس دلانا بھی اس ایمرجنسی کی حالت میں لاحاصل معلوم ہوتا تھا۔
یہ کہانی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ہر چند سال بعد دہرائی جاتی ہے۔ اصل مسئلہ جس کی وجہ سے یہ حالات قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، آبادی کا سیلاب ہے۔ اس بے قابو جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی۔ کراچی کے رہائشی کی حیثیت سے یہاں جس علاقے میں کچھ عرصے بعد جانا ہو، یوں لگتا ہے کہ کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ کراچی میں تو شاید مردم شماری کے لیے گھر گھر جا کر شمار کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اصل آبادی تو ویسے ارادتاً بتائی نہیں جاتی۔ مگر اندازہ لگانے کے لیے کسی بھی علاقے کے اسکول،کالج، مدرسے اور مساجد سے باآسانی محتاط گنتی کی جا سکتی ہے۔
گورنمنٹ اسکول، کالج تو ویسے ہی اس شہر کے تناسب سے آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور جو موجود ہیں ان کی حالت زار کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ نتیجہ یہ کہ نجی تعلیمی ادارے ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنا وجود قائم رکھتے ہوئے ہیں۔ تمام ملک سے لوگ کراچی میں روزگار کے حصول کے لیے نقل مکانی کرکے آتے ہیں۔ زیادہ تر یہیں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ صحت کی سہولیات (خیراتی اسپتال)، روزگار کے بہتر مواقع یہاں موجود ہیں مگر اس تناظر میں کراچی میں رہائشی سہولیات کا فقدان ہے۔
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اس شہر میں ایسے تضادات کو جنم دے رہی ہے جس سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل شاید کسی کے پاس نہ ہو۔ دیہی علاقوں میں وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگ بغیر منصوبہ بندی کے شہری علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہیں جس سے یہاں کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس شہر میں انفرا اسٹرکچر، ٹاؤن پلاننگ اور ٹرانسپورٹ کے لیے کی گئی ابتدائی منصوبہ بندی انتہائی متاثرکن تھی۔ قیام پاکستان سے قبل اور کچھ عرصے بعد حکومتی اداروں کے اقدامات نے اس شہر کو رہنے کے قابل بنایا۔
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
واقعی یہ سوچ کر اس ملک میں آنے والوں نے کراچی میں ایسے رہائشی منصوبے شروع کیے جس کی منصوبہ بندی قابل تعریف ہے۔ کراچی کی 70 فیصد آبادی جن قانونی حیثیت شدہ علاقوں میں رہ رہی ہے، اس میں لانڈھی، کورنگی، اورنگی ٹاؤن، ملیر، شاہ فیصل کالونی، ماڈل کالونی، ملیر، پی ای سی ایچ ایس، نارتھ ناظم آباد، نارتھ کراچی،گلشن اقبال،گلستان جوہر، اسکیم 33 ، سرجانی ٹاؤن، فیڈرل بی ایریا اور دیگر تمام آبادیاں اسی دور کی پلاننگ کا نتیجہ ہیں، لیکن یہ اس دور کی بات ہے جب تک کراچی کی آبادی ایک سے ڈیڑھ کروڑ تک محدود تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ یہ تمام مذکورہ علاقے اپنی اپنی جگہ ایک شہر بن چکے ہیں۔
کراچی کی کل آبادی یقینا تین کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جو کاغذوں میں اب بھی ایک کروڑ ستاسی لاکھ دکھائی جا رہی ہے۔ آبادی کی حقیقی اور کاغذی گنتی کے فرق کی وجوہات بھی خالصتاً سیاسی ہیں۔ یہ اپنی جگہ خود ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ایسے صحافی، دانشور اور مفکر جو درد دل رکھتے ہیں، مستقل کراچی کے گمبھیر مسئلے کی نشاندہی اور حل تجویز کرتے رہتے ہیں۔ اصل میں ارباب اختیار کی نیک نیتی اور معاملہ فہمی سے ہی اس دیرینہ مسئلے کا دیرپا حل ممکن ہے، ورنہ بقول غالب!
دیکھنا ان بستیوں کو تم، کہ ویراں ہوگئیں
یوں تو دنیا بھر میں کاسمو پولیٹن شہروں میں دیہی علاقوں سے شہری علاقوں میں لوگوں کی منتقلی ایک معمول ہے، لیکن ایسے شہر حکومت کی خصوصی منصوبہ بندی اور توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔ پہلی بات اس ضمن میں یہ ہے کہ ملک کا ہر شہری بنیادی ضروریات زندگی یعنی تعلیم، صحت اور روزگار کا مستحق ہے جو اسے اس کے آبائی علاقے میں میسر ہونے چاہئیں مگر ہمارے یہاں اسی بات کا فقدان ہے، پورے ملک کے دیہاتوں اور چھوٹے شہروں میں یہ بنیادی سہولیات بہت کم ہیں یا ناپید ہیں۔ چند برس پہلے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے کالم میں بہت سادہ اور آسان تجویز کا ذکر کیا تھا اور ان میں اور اپنے دوستوں کی عملی خدمات پیش کرنے کے بارے میں بتایا تھا۔
وہ تجویز یہ تھی کہ ہزاروں مدارس جو ملک کے طول و عرض میں پائے جاتے ہیں (اور لاکھوں طلبا ان میں زیر تعلیم ہیں)، ان سب میں ٹیکنیکل تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ یہ بے حد قابل عمل اور آسان تجویز تھی، دیہی علاقوں میں طلبا کو سماجی طور پر فعال بنانے اور ملک کی ایک ایسی ٹیکنیکل فورس کی تشکیل کے لیے جو معاشرے میں معاشی اور صنعتی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکے۔ ایسے افراد جو صنعتی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سے دو بہت بڑے فائدے حاصل ہو سکتے تھے۔
ایک تو یہ کہ نوجوان طلبا جو بڑی تعداد میں دہشت گردوں کا آلہ کار بنے اس سے بچ جاتے اور دوسرا یہ کہ ان کی اس قابلیت اور اہلیت کی وجہ سے ان کے آبائی علاقوں میں یقینا کوئی روزگار کا سامان پیدا ہوتا۔ یہ قدم لوگوں کی دیہی سے شہری علاقوں میں منتقلی (خصوصاً کراچی) کا کافی حد تک سدباب کر سکتا تھا، مگر افسوس صد افسوس! کہ اس پر عمل نہ ہو سکا۔اس کا دیرپا حل تو ایسے دور اندیش اور صاحب فراست لوگ ہی دے سکتے تھے، مگر موجودہ صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے جن فوری اقدامات کی ضرورت ہے وہ بھی ناپید ہیں۔
چھوٹے چھوٹے مسائل مثلاً گٹر ابلنا، کوڑا اٹھوانا، سڑکوں کی مرمت وغیرہ کے لیے بھی شنوائی کا کوئی نظام نہیں۔ KWSB کے بل پر دیے گئے فون نمبر تو ہمیشہ خاموش ہی رہتے ہیں۔ تقریباً آدھے سے زیادہ کراچی کے رہائشی ٹینکر کا پانی خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ اس شہر پر آبادی کے بے تحاشا دباؤ کی وجہ سے حکومت کی جانب سے غیر معمولی اقدامات کی توقع کی جاتی ہے جس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا۔ کچرے کے ڈھیر، پبلک ٹرانسپورٹ اور صاف پانی کی عدم فراہمی، بے ہنگم ٹریفک اور پارکنگ کے مسائل اس شہر کا المیہ بن گئے ہیں۔ ان کا حل کچھ اتنا بھی مشکل نہیں۔
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
اگر اس زبردست شہر کو جو کہ اس سیلاب بلا کو اپنے اندر سمو کر سانس لینے کی کوشش کر رہا ہے، آکسیجن فراہم کرنے والی مشینیں نہ ہوں تو کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب مقتدرہ کو دینا چاہیے۔ یہ آکسیجن فراہمی کی مشینیں دراصل ایسے بے غرض اور بے لوث لوگ ہیں جو اس شہر کا اثاثہ ہیں۔ خدمت ہی ان کا مشن ہے۔