برطانیہ میں پوسٹ آفس کا ہورائزن اسکینڈل بے نقاب، دہائیوں پر محیط ناانصافی
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہورائزن اسکینڈل برطانیہ کے پوسٹ آفس کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جس نے نہ صرف سینکڑوں معصوم ملازمین کی زندگیاں تباہ کیں بلکہ پورے نظام انصاف اور ٹیکنالوجی پر سوالیہ نشان لگا دیا۔
1999 میں جاپانی کمپنی فوجتسو کا تیار کردہ کمپیوٹر سسٹم ’ہورائزن‘ برطانیہ بھر کے پوسٹ آفسز میں متعارف کرایا گیا۔ اس سسٹم میں ایسی خامیاں تھیں جو پوسٹ ماسٹروں کے کھاتوں میں غلط طور پر مالی خسارے ظاہر کرتی تھیں۔ لیکن اس خرابی کو تکنیکی مسئلہ ماننے کے بجائے پوسٹ آفس نے ملازمین پر فراڈ، چوری اور بدعنوانی کے الزامات عائد کیے۔
اس سسٹم کی وجہ سے 900 سے زائد افراد کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کیا گیا، کئی افراد کو نوکری سے نکال دیا گیا، 236 کو جیل بھیج دیا گیا، کچھ نے بدنامی اور دباؤ کے باعث خودکشی کر لی، جبکہ درجنوں خاندان مالی طور پر تباہ ہو گئے۔ حیران کن طور پر انتظامیہ اور فوجتسو کو سسٹم کی خرابی کا علم تھا لیکن انہوں نے سچ چھپایا اور مظلوموں کو مجرم بنا دیا۔
ایک طویل قانونی جنگ کے بعد عدالت نے متاثرین کی بے گناہی تسلیم کی اور 2021 میں اس معاملے کی سرکاری سطح پر انکوائری کا آغاز ہوا۔ حالیہ رپورٹ میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کمپنی اور انتظامیہ دونوں نے دانستہ سچ چھپایا۔ حکومت نے متاثرہ افراد کو ایک ارب پاؤنڈ سے زائد کا معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے اور بیشتر افراد کو مقدمات سے بری بھی کر دیا گیا ہے۔
اس اسکینڈل پر بننے والی ڈرامہ سیریز ’Mr.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: افراد کو
پڑھیں:
ای چالان سسٹم پر تحفظات: سیاسی جماعتیں اور سندھ حکومت آمنے سامنے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: ٹریفک ریگولیشن اینڈ سائٹیشن سسٹم (ٹریکس) پر کراچی کے شہریوں، سیاسی جماعتوں، سماجی رہنماؤں اور صوبائی حکومت کے درمیان تصادم کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔
صوبائی وزرا اور ٹریفک پولیس نے اس نظام کا دفاع کرتے ہوئے اسے ایک کامیاب منصوبہ قرار دیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے کا الزام عائد کیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ جب شہر میں حادثات بڑھتے ہیں تو یہی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ کیا گیا تھا کہ حکومت قوانین پر عمل درآمد کرائے اور اب جب حکومت نے قدم اٹھایا ہے تو تعاون کے بجائے تنقید کی جا رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے ہمیشہ کی طرح موجودہ صورت حال میں بھی وہی روایتی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ انفرا اسٹرکچر کی بہتری کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں، سماجی رہنماؤں اورخود شہریوں نے حکومت کے اس اقدام کو کراچی کے ساتھ ظالمانہ رویہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ شہر کی سڑکیں موہنجو دڑو کا منظر پیش کرتی ہیں اور آپ دبئی کا نظام یہاں نافذ کر رہے ہیں، یہ لوٹ مار کا دھندا ہے۔ اسی طرح ایک سوال یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ ای چالان حاصل کرنے والے شخص کی تصویر میڈیا پر کیوں آنی چاہیے۔
جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے بھی تباہ حال انفرا اسٹرکچر کے باوجود ای چالان نافذ کیے جانے کے خلاف عوامی احتجاج کے ساتھ قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب خود بلدیاتی اداروں کے حکام نے بھی شہر کی سڑکوں میں ٹوٹ پھوٹ کی شکایات کو تسلیم کرتے ہوئے مرمت کے کام کو بتدریج آگے بڑھانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔