اندراجِ مقدمہ سے انکار یا تاخیر نہیں کی جا سکتی، سپریم کورٹ آف پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
سپریم کورٹ کے مطابق قابل دست اندازی جرم میں مقدمہ کا اندراج لازم ہے، سندھ میں اکثر مقدمات کے اندراج میں تاخیر دیکھی گئی ہے، مقدمات کا اندراج اور تفتیش ایگزیکٹو عمل ہیں، مقدمات کا اندراج اور تفتیش فوجداری نظام کا اہم اور بنیادی جزو ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے پولیس رویے کے خلاف اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس مقدمے کے اندراج سے انکار یا تاخیر نہیں کر سکتی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پولیس رویے کے خلاف 30 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا جس میں عدالت نے قتل کے ملزم سیتا رام کی بریت کی اپیل منظور کر لی، عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پراسیکیوشن ملزم کے خلاف شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی۔ واضح رہے کہ سیتا رام پر چندر کمار کو 2018ء میں قتل کرنے کا الزام تھا، عدالت نے فیصلے میں کہا کہ مدعی کے بروقت اطلاع کے باوجود مقدمہ 2 دن کی تاخیر سے درج ہوا، ایس ایچ او نے تسلیم کیا کہ اطلاع روزنامچہ میں تو درج کی لیکن ایف آئی آر نہیں کی۔
سپریم کورٹ کے مطابق قابل دست اندازی جرم میں مقدمہ کا اندراج لازم ہے، سندھ میں اکثر مقدمات کے اندراج میں تاخیر دیکھی گئی ہے، مقدمات کا اندراج اور تفتیش ایگزیکٹو عمل ہیں، مقدمات کا اندراج اور تفتیش فوجداری نظام کا اہم اور بنیادی جزو ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ معلومات ملتے ہی جلد از جلد مقدمہ کا درج کرنا ڈیوٹی افسر کی قانونی ذمہ داری ہے، پولیس افسر مقدمہ کے اندراج سے انکار یا تاخیر نہیں کرسکتا، تاخیر کے ملزم اور مدعی پر اثرات ہوتے ہیں، تاخیر سے شواہد ضائع اور بے گناہ افراد کو شامل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ پولیس فورس اور پولیس اسٹیشن عوام کی خدمت کے لیے ہیں، مقدمے میں آئی جی سندھ اور پراسیکیوٹر جنرل کی جانب سے رپورٹ بھی جمع کروائی گئی جس میں دی گئی وجوہات میں ثقافتی طریقوں، شکایت کنندگان کی مصالحت کی کوششوں، مذہبی عقائد قانون کے مطابق نہیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق پولیس کا ایف آئی آر درج نہ کرنا آئینی خلاف ورزی ہے، پولیس کا تاخیر سے ایف آئی آر درج کرنا انصاف کی نفی ہے، سندھ میں ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا رجحان تشویشناک ہے، ایف آئی آر میں تاخیر کمزور، غریب اور پسماندہ طبقے کے ساتھ ظلم ہے، پولیس طاقتور طبقے کی خدمت کر رہی ہے، عوام کی نہیں۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس اسٹیٹ کا تاثر خطرناک ہے، ہمیں آئینی ریاست کی طرف جانا ہے، ہر پولیس افسر آئین کا سختی سے پابند ہے، سپریم کورٹ نے فیصلے میں تمام صوبوں کے آئی جیز کو قانون پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرلز ایس او پیز بنائیں اور عوامی اعتماد بحال کریں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مقدمات کا اندراج اور تفتیش نے فیصلے میں سپریم کورٹ میں کہا کہ ایف آئی آر میں تاخیر کے اندراج کے مطابق
پڑھیں:
پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔
حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔
حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔