سندھ میں اندراج مقدمے میں تاخیر کا رجحان تشویشناک ہے، سپریم کورٹ کے ریمارکس WhatsAppFacebookTwitter 0 11 July, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہرمن اللہ نے قتل کے ملزم کی بریت کی اپیل منظور کرتے ہوئے پولیس کے غیر ذمہ دارانہ رویے پر سخت ریکارکس دیتے ہوئے کہا کہ سندھ میں اندراج مقدمے میں تاخیرکا رجحان تشویشناک ہے، پولیس نے 2 روز بعد مقدمہ درج کیا، جو آئین کی خلاف ورزی ہے، پولیس طاقتور طبقے کی خدمت کر رہی ہے، نہ کہ عوام کی، پولیس اسٹیٹ کا تاثر انتہائی خطرناک ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے پولیس رویے کے خلاف 30 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا، جس میں عدالت نے قتل کے ملزم سیتا رام کی بریت کی اپیل منظور کرلی اور شک کا فائدہ دے کر ملزم کوبری کردیا۔ عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پراسیکیوشن ملزم کے خلاف شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کہا کہ پولیس کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر انصاف کے اصولوں کے منافی اور آئینی ذمہ داریوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔
سیتا رام پر 18 اگست 2018 کو چندر کمار کے قتل کا الزام تھا، مدعی ڈاکٹر انیل کمار نے واقعے کی اطلاع پولیس کو دی تھی، تاہم سپریم کورٹ کے مطابق پولیس نے ایف آئی آر دو روز بعد درج کی۔سماعت کے دوران تفتیشی افسر ایس ایچ او قربان علی نے تسلیم کیا کہ اطلاع ڈائری میں تو درج کی گئی لیکن ضابطہ فوجداری کی دفعہ 154 کے تحت باقاعدہ ایف آئی آر درج نہیں کی گئی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی آر کا بروقت اندراج پولیس افسر کا آئینی و قانونی فریضہ ہے، تاخیر سے نہ صرف شواہد ضائع ہوتے ہیں بلکہ معصوم افراد جھوٹے مقدمات میں پھنس سکتے ہیں۔عدالت نے سندھ پولیس کی روش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا رجحان خاص طور پر سندھ میں انتہائی تشویشناک ہے، یہ عمل کمزور، غریب اور پسماندہ طبقے کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ پولیس طاقتور طبقے کی خدمت کر رہی ہے عوام کی نہیں، اس رویے سے ملک میں پولیس اسٹیٹ کا تاثر پیدا ہو رہا ہے، جو آئینی ریاست کے تصور کے خلاف ہے، ہمیں ایک آئینی ریاست کی طرف جانا ہوگا جہاں ہر پولیس افسر آئین کا پابند ہو۔عدالتِ عظمی نے تمام صوبوں کے آئی جیز کو ہدایت دی کہ قانون کے مطابق ایف آئی آر کے بروقت اندراج کو ہر صورت یقینی بنایا جائے اور ساتھ ہی پراسیکیوٹر جنرلز کو ایس او پیز بنانے اور عوامی اعتماد بحال کرنے کی ہدایت بھی جاری کی گئی۔عدالت نے فیصلے میں واضح کیا کہ عوام کا پولیس پر اعتماد ہی یہ طے کرے گا کہ ہم آئینی ریاست ہیں یا ایک پولیس اسٹیٹ۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرفرسودہ نظام سے ترقی ممکن نہیں، وزیراعظم کی ماہرین پر مشتمل ماڈل اپنانے کی ہدایت فرسودہ نظام سے ترقی ممکن نہیں، وزیراعظم کی ماہرین پر مشتمل ماڈل اپنانے کی ہدایت خیبرپختونخوا اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر ارکان کا نوٹیفکیشن جاری پاکستان اور روس کے درمیان اسٹیل ملز کی بحالی کا معاہدہ، پروٹوکول پر دستخط پاکستان کیخلاف بھارتی پروپیگنڈا بے نقاب، مودی سرکار نے جھوٹ پر مبنی کتاب شائع کر دی این ڈی ایم اے کا 13سے 17جولائی تک شدید بارشوں اور سیلاب کا الرٹ جاری الیکشن کمیشن کا مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کے حلف برداری کیلئے دوسرا خط TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: جسٹس اطہر من اللہ نے سپریم کورٹ کے تشویشناک ہے ایف آئی آر میں تاخیر کا رجحان عدالت نے کہا کہ

پڑھیں:

جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔

سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔

وکیل عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپےٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے، مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکنڈ شیڈول میں  پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس ہر چھوٹ ہوتی ہے۔

جسٹس جمال خان نے ایڈیشنل اٹارنی جزل سے مکالمہ کیا کہ  یہ تو آپ  محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں، عاصمہ حامد نے مؤقف اپنایا کہ مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکھٹا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکھٹا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں۔

عاصمہ حامد  نے دلیل دی کہ جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا۔

جسٹس حسن اظہر رضوی  نے ریمارکس دیے کہ آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے۔

عاصمہ حامد نے کہا کہ مالی سال کا پروفیٹ موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اڈیالہ جیل کے باہر انڈوں سے حملے کا معاملہ ؛علیمہ خان نے مقدمے کے اندراج کے خلاف 22اے کی درخواست دائر کردی
  • سپریم کورٹ نے عمر قید کے خلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا
  • وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، سید سعادت اللہ حسینی
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
  • سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • مدعی سچ بولے تو فوجداری مقدمات میں کوئی ملزم بھی بری نہ ہو؛سپریم کورٹ نے ساس سسر قتل کے ملزم کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے!
  • جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ نے قتل کے مجرم سجاد کی سزا کے خلاف اپیل خارج کردی