اسلام آباد ہائی کورٹ—فائل فوٹو

 اسلام آباد ہائیکورٹ میں متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کے خلاف کیس میں حکومت کی جانب سے عدالت میں تحریری جواب جمع کروا دیا گیا ہے۔

 اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس انعام امین منہاس نے متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ 2025 کو کالعدم قرار دینے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ 

درخواستیں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، اینکرز، اور اسلام آباد ہائیکورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر کی گئی ہیں۔ 

متنازع پیکا ایکٹ ترمیم 2025ء کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر

اسلام آباد ہائی کورٹ نے متنازع پیکا ایکٹ ترمیم 2025ء کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کر دیں۔

سماعت کے دوران صدر پی ایف یو جے  افضل بٹ اور سیکریٹری آر  آئی یو  جے آصف بشیر چوہدری سمیت دیگر صحافی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ 

حکومت کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تحریری جواب جمع کرایا گیا جبکہ سرکاری وکیل نے بتایا کہ درخواست میں صوبائی حکومتوں کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

پی ایف یو جے کے وکیل یاسر امان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے 2016 کے پیکا ایکٹ اور 2025 کے ترمیمی ایکٹ کے درمیان فرق واضح کیا اور بتایا کہ ترمیمی ایکٹ میں سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ 

جسٹس انعام امین منہاس نے وکیل کو ہدایت کی کہ دلائل کے ساتھ ساتھ کوڈ آف کنڈکٹ میں ہونے والی تبدیلیوں کی بھی وضاحت کریں تاکہ کیس کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ 

بعد ازاں عدالت نے سماعت ملتوی کر دی۔ آئندہ سماعت پر بھی  پی ایف یو جے کے وکیل یاسر امان دلائل جاری رکھیں گے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائیکورٹ متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ

پڑھیں:

سپریم کورٹ کے فیصلے میں وقف ترمیمی ایکٹ کو معطل کرنے سے انکار

بنچ نے کہا کہ اس شق پر روک لگا دی گئی ہے جس نے کلکٹر کو یہ تعین کرنے کا حق دیا ہے کہ وقف قرار دی گئی جائیداد سرکاری ملکیت ہے یا نہیں اور اسکے مطابق کوئی حکم جاری کرسکتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے آج پورے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کو معطل کرنے سے انکار کر دیا ہے لیکن قانون کی کچھ دفعات پر روک لگانے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح کی سربراہی میں بنچ نے یہ حکم سنایا۔ بنچ کی جانب سے فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ بنچ نے محسوس کیا کہ قانون کی تمام شقوں کو روکنے کا کوئی معاملہ نہیں بنتا ہے۔

بنچ نے کہا کہ اس نے اس شق پر روک لگا دی ہے جس نے کلکٹر کو یہ تعین کرنے کا حق دیا ہے کہ وقف قرار دی گئی جائیداد سرکاری ملکیت ہے یا نہیں اور اس کے مطابق کوئی حکم جاری کر سکتا ہے۔ بنچ نے کہا کہ ہم نے پایا ہے کہ کلکٹر کو جائیداد کے حقوق کا تعین کرنے کی اجازت دینا اختیارات کی علاحدگی کے اصول کے خلاف ہے۔ ایگزیکٹیو کو شہریوں کے حقوق کا تعین کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم نے ہدایت کی ہے کہ جب تک نامزد افسر کی طرف سے نتائج پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا جاتا، جائیداد کے قبضے یا حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

بنچ نے کہا کہ کسی شخص کو وقف کے طور پر اپنی جائیداد وقف کرنے سے پہلے پانچ سال تک اسلام کی پیروی کرنے کی شرط پر اس وقت تک روک لگا دی گئی ہے جب تک ریاستی حکومت یہ فیصلہ کرنے کے لئے قوانین نہیں بناتی کہ آیا کوئی شخص کم از کم پانچ سال سے اسلام کی پیروی کر رہا ہے یا نہیں۔ بنچ نے کہا کہ اس انتظام کے بغیر یہ انتظام طاقت کے من مانی استعمال کو فروغ دے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ہائیکورٹ کے رولز ایک رات میں بن گئے اور دستخط بھی ہوگئے . جسٹس محسن اختر کیانی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا تحریری حکم نامہ جاری
  • چیئرمین پی ٹی اے کی  اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف انٹرا کورٹ  میں اپیل دائر
  • وقف ترمیمی ایکٹ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے، سید سعادت اللہ حسینی
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیئرمین پی ٹی اے کو فوری عہدے سے ہٹانے کا حکم
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روک دیا گیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: جسٹس طارق محمود کو جج کے اختیارات سے روک دیا گیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روک دیا
  • ای سی ایل کیس میں ایمان مزاری اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش نہیں ہوئیں، سماعت ملتوی
  • سپریم کورٹ کے فیصلے میں وقف ترمیمی ایکٹ کو معطل کرنے سے انکار