نجی ایئرلائن کی سنگین غفلت، کراچی جانے والا مسافر بنا دستاویز جدہ پہنچا دیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
نجی ایئرلائن ایئرسیال کی ایک حیران کن غفلت نے ایک عام مسافر کو اُس کی منزل کراچی کے بجائے سعودی عرب کے شہر جدہ پہنچا دیا۔
یہ واقعہ اس وقت منظرِ عام پر آیا جب لاہور سے کراچی جانے والے ایک مسافر نے فلائٹ میں 2 گھنٹے بیٹھنے کے بعد سوال کیا کہ ’ہم کراچی کب پہنچیں گے؟‘ جس پر پورا عملہ پریشان ہو گیا۔
متاثرہ مسافر کا کہنا ہے کہ ایئرپورٹ پر 2 طیارے کھڑے تھے، اور اسے ایئرسیال کے عملے نے جدہ جانے والی پرواز میں سوار کروا دیا۔ میں نے ٹکٹ ایئرہوسٹس کو بھی دکھایا، مگر کسی نے نہیں بتایا کہ میں غلط فلائٹ پر سوار ہوں۔ میرے پاس نہ پاسپورٹ تھا اور نہ ویزہ، پھر بھی انہوں نے روکنے کی زحمت نہ کی۔
مسافر کے مطابق جب جہاز میں بیٹھے 2 گھنٹے گزر گئے اور منزل پر پہنچنے کا کوئی اشارہ نہ ملا، تو اس نے استفسار کیا جس پر عملے کو معلوم ہوا کہ وہ بین الاقوامی پرواز میں بیٹھا ہے۔
غیر معمولی لاپروائیایئرپورٹ منیجر نے اس واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے نجی ایئرلائن کو غفلت کا ذمہ دار قرار دیا اور پاکستان ایئرپورٹ اتھارٹی سے ایئرسیال کے خلاف کارروائی کی درخواست کر دی ہے۔
منیجر کے مطابق یہ واقعہ ہوابازی کے شعبے میں غیر معمولی لاپروائی کی مثال ہے۔
مسافر کا کہنا ہے کہ جب اس نے واپسی کی درخواست کی تو جواب ملا ’ 2-3 دن لگیں گے، اور ایف آئی اے انکوائری کرے گی‘۔
ایئرلائن نے واقعے کی ذمہ داری مسافر پر ڈالنے کی کوشش کی، جو مزید تشویش کا باعث بنی۔
ایوی ایشن حکام نے اس سنگین غفلت کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ واقعہ پاکستان میں ایئر ٹریول سیکیورٹی اور انتظامی غفلت کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
پڑھیں:
بے ضرر سمجھا جانے والا وائرس خطرناک بیماری کا ممکنہ سبب قرار
سائنس دانوں کو ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ برسوں سے بے ضرر سمجھا جانے والا وائرس پارکنسنز (رعشے) بیماری کا ایک ممکنہ سبب ہو سکتا ہے۔
نارتھ ویسٹرن میڈیسن سے تعلق رکھنے والےتحقیق کے سربراہ مصنف ڈاکٹر آئگر کورلِنک نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ سائنس دان ممکنہ ماحولیاتی عوامل (جیسے کہ وائرسز) جو اس بیماری میں حصہ ڈال سکتے ہیں کی تحقیق کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ کہ تحقیق میں انہوں نے ’وائرو فائنڈ‘ نامی ٹول سے رعشے کے مریضوں اور اس بیماری سے پاک افراد کی اموات کے بعد دماغ کے حاصل شدہ بافتوں کا جائزہ لیا۔ جائزے میں انسانوں کو متاثر کرنے والے اب تک کے معلوم تمام وائرسز کو دیکھا گیا تاکہ دونوں گروہوں کے درمیان کسی فرق کی نشان دہی کی جا سکے۔
جائزے میں سائنس دانوں نے رعشے کے مریضوں کی نصف تعداد کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے گودے میں ہیومن پیگی وائرس کی نشان دہی کی۔ یہ وائرس ہیپاٹائٹس سی کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور خون کے ذریعے پھیلتا ہے۔
جرنل جے سی آئی انسائٹ میں شائع ہونے والی تحقیق اس پیچیدہ بیماری کے کچھ مزید عوامل کو واضح کرنے میں اہم کامیابی ثابت ہو سکتی ہے اور ماضی میں بے ضرر سمجھے جانے والے وائرس کے متعلق نئی معلومات فراہم کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر آئگر کا کہنا تھا کہ HPgV ایک عام علامت کے بغیر انفیکشن ہے جس سے متعلق یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ مسلسل دماغ کو متاثر کرتا ہے۔