یمنی حملے کے بعد اسرائیل جانے والا بحری جہاز ڈوب گیا
اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT
فلسطینیوں پر غزہ میں جاری نسل کشی کے خلاف حمایت کے طور پر یمنی فورسز کی جانب سے حملے میں اسرائیل جانے والا ایک بحری جہاز بحیرۂ احمر میں ڈوب گیا۔
یمن کی مسلح افواج نے بدھ کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ اس کی بحریہ نے ’ایٹرنیٹی سی‘ نامی جہاز کو نشانہ بنایا، جو مقبوضہ فلسطین کے بندرگاہ ’ام الرشراش‘ (ایلات) کی طرف جا رہا تھا۔ یمنی نیوی کی جانب سے وارننگ دیے جانے کے باوجود جہاز کے عملے نے ان ہدایات کو نظرانداز کیا۔
یہ بھی پڑھیں:حوثیوں نے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل داغ دیا، جنوبی شہر سائرنز سے گونج اٹھے
بیان کے مطابق یہ فوجی کارروائی ایک بغیر پائلٹ سمندری گاڑی اور 6 کروز و بیلسٹک میزائلوں کی مدد سے کی گئی۔
یمنی افواج کے مطابق یہ کارروائی مکمل طور پر کامیاب رہی اور جہاز مکمل طور پر ڈوب گیا۔ کارروائی کو آڈیو اور ویڈیو کی مدد سے دستاویزی شکل میں محفوظ بھی کر لیا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ جہاز کے عملے کو محفوظ طریقے سے نکال کر ایک محفوظ مقام پر منتقل کر دیا گیا۔
یمنی افواج نے واضح کیا کہ یہ کارروائی اس وقت کی گئی جب جہاز اور اس کی ملکیتی کمپنی نے صنعا کی جانب سے اسرائیل سے منسلک جہازوں پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ام الرشراش کی بندرگاہ سے دوبارہ کاروبار شروع کیا۔
بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ بحیرۂ احمر اور بحیرۂ عرب میں اسرائیل سے منسلک جہازوں پر عائد پابندی اب بھی برقرار ہے، اور کمپنیوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی بندرگاہوں سے متعلق کسی قسم کی تجارتی سرگرمی سے گریز کریں۔
یہ بھی پڑھیں:حوثیوں کا ایرانی تعاون سے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل حملہ
بیان میں کہا گیا ہم جہازوں اور ان کے عملے کی سلامتی کے پیش نظر ایک بار پھر کمپنیوں اور ممالک کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ صہیونی ریاست سے لین دین اور اس کے زیر قبضہ فلسطینی بندرگاہوں کی جانب جہاز بھیجنے کے نتائج سے آگاہ رہیں۔
یمنی فوج نے واضح کیا کہ اس کی جوابی کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک کہ غزہ پر جارحیت بند نہیں ہو جاتی اور اس کا محاصرہ ختم نہیں کیا جاتا۔
اسی ہفتے یمنی افواج نے ’میجک سیز‘ نامی ایک اور جہاز کی وڈیو جاری کی، جسے اسرائیل جانے کی پابندی کی خلاف ورزی پر ضبط اور غرق کیا گیا۔
اکتوبر 2023 میں غزہ میں نسل کشی کے آغاز کے بعد سے یمنی فورسز غزہ کے عوام کی حمایت میں درجنوں کارروائیاں کر چکی ہیں، جن میں اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنانے کے علاوہ اسرائیل جانے والے جہازوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی حکومت نے یہ جنگ اس وقت شروع کی جب غزہ کے مزاحمتی جنگجوؤں نے ’عملیہ طوفان الاقصیٰ‘ کے تحت اچانک حملہ کیا، جو اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف کئی دہائیوں سے جاری خونریزی اور بربادی کے ردعمل میں کیا گیا۔
اب تک اسرائیل کے غزہ پر حملوں میں 57,680 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل بحری جہاز غرق بیت المقدس یمن یمن نیوی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل بحری جہاز غرق بیت المقدس یمن نیوی اسرائیل جانے کی جانب
پڑھیں:
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا قطر حملے پر اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ
جنیوا: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پاکستان سمیت کئی ممالک نے قطر پر اسرائیلی فضائی حملے کے بعد اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ کیا ہے۔
رائٹرز کے مطابق 9 ستمبر کو دوحہ میں اسرائیلی طیاروں نے ان مقامات کو نشانہ بنایا جہاں حماس رہنما غزہ کے لیے امریکی جنگ بندی منصوبے پر غور کر رہے تھے۔ اس حملے میں حماس کے پانچ رہنما اور ایک قطری سیکیورٹی اہلکار جاں بحق ہوئے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے اس حملے کو بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی اور علاقائی امن پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی ہلاکتوں پر احتساب ضروری ہے۔ قطر اور کئی ممالک نے ان کے مؤقف کی حمایت کی۔
قطری وزیر مریم المیسند نے حملے کو غدارانہ قرار دے کر عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ اسرائیل کو سزا دی جا سکے۔ پاکستانی سفیر بلال احمد نے خبردار کیا کہ یہ حملہ خطے میں خطرناک بگاڑ پیدا کرے گا۔
دوسری جانب اسرائیل اور امریکا نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ جنیوا میں اسرائیلی سفیر نے اس بحث کو انسانی حقوق کونسل کی زیادتیوں کا حصہ قرار دیا اور الزام لگایا کہ یہ فورم اسرائیل مخالف پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
یورپی یونین، چین اور جنوبی افریقہ نے بھی اسرائیل کے اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے قطر کی خودمختاری اور علاقائی استحکام کی حمایت کی۔ جنوبی افریقہ کے نمائندے نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو استثنا دینے کے بجائے اس کا احتساب یقینی بنائے۔