Daily Sub News:
2025-07-11@18:15:39 GMT

آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے

آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے WhatsAppFacebookTwitter 0 11 July, 2025 سب نیوز

تحریر: مصطفےٰ صفدر بیگ

پولیس نے ڈی ایچ اے کراچی کے فلیٹ کی چابیاں مرکزی تالے میں گھمائیں تو دروازے کے پیچھے جو منظر کھلا، وہ کسی ہارر فلم کا سین نہیں بلکہ پورے معاشرے کا اپنا چہرہ تھا۔ حمیرا اصغر علی کی نیم گلی سڑی، ناقابلِ شناخت لاش اپنے ہی صوفے پر اس طرح پڑی تھی جیسے کوئی ٹوٹی ہوئی گڑیا ہو۔ نو ماہ! جی ہاں پورے نو ماہ تک یہ “گڑیا” ایسے ہی پڑی رہی۔ یہ وہ وقت تھا جب اس کا جسم اندھیرے کمرے میں وقت کے ساتھ سڑتا رہا۔ بجلی کٹ چکی تھی، فریج میں کھانا پہلے ہی سڑ چکا تھا اور باہر دنیا اپنی دوڑ میں مصروف تھی۔ یہ المیہ صرف ایک موت نہیں بلکہ جدید انسان کی سب سے بڑی شکست ہے۔ یہ تنہائی کی وہ خوفناک موت ہے جس میں زندہ لوگ مردوں کو بھی یاد نہیں رکھتے۔


سوچیے کہ نو ماہ میں ایک بچہ رحم مادر میں پورا وجود پکڑ لیتا ہے اور نو ماہ سے بھی کم عرصے میں فصلیں پک کر تیار ہو جاتی ہیں مگر حمیرا کے لیے نو ماہ وہ عرصہ تھا جب اس کا فلیٹ اس کی قبر بنا رہا اور کوئی پوچھنے تک نہ آیا۔ پولیس رپورٹس بتاتی ہیں کہ فریج میں موجود اشیاء کی ایکسپائری اکتوبر 2024 کی تھی۔ فلیٹ مالک کا آخری رابطہ بھی اسی عرصہ میں ہوا تھا۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ہمارے اجتماعی ضمیر پر کُند چھری سے رقم کی گئی ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں انسانوں کی اہمیت ان کے فون سے کیے جانے والے آخری میسج کی تاریخ تک ہی ہوتی ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں لاکھوں لوگ سڑکوں پر چپکے رہتے ہیں وہاں ایک عورت اپنے گھر میں گل سڑ گئی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ کیا یہ شہر نہیں، کوئی جنگل تھا؟


حمیرا کے والد اور بھائی کا بیان پڑھیں، جو کہتے ہیں کہ ہم پہلے ہی لاتعلق تھے، اسے عاق کردیا تھا۔ یہ وہ جملے ہیں جو جدید خاندانی ڈھانچے کی کھوکھلی بنیادوں کو دھڑام سے گرا دیتے ہیں۔ حمیرا کے پرانے انٹرویو دیکھیں تو وہ والدہ کی سپورٹ کا ذکر کرتی ہے جو اس کی واحد پناہ گاہ تھی۔ ماں کے بعد؟ بھائی اور باپ کا دباؤ، پروڈکشن ہاوسز کی جانب سے وزن کم کرنے کی شرط اور فیملی کا مسترد کرنا حمیرا کو تنہائی کی گود میں لے گیا۔ یہ المیہ صرف اس کا نہیں، ہمارے معاشرے میں لاکھوں حمیرائیں زندہ قبروں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ جب تک وہ “فیملی آنر” برقرار رکھتی ہیں، سب انہیں گلے لگاتے ہیں۔ جب وہ اپنے خواب چنتی ہیں تو رشتے کفن پہن لیتے ہیں۔ کیا رشتوں کی یہی تعریف ہم نے سیکھی ہے؟


آج ہر چینل حمیرا پر خصوصی پروگرام چلا رہا ہے۔ اس کے پرانے انٹرویوز، زندگی کے راز، “پُراسرار موت” کے تھیمر سب چلائے جارہے ہیں مگر ایک سوال کسی نے نہیں پوچھا کہ “جب وہ زندہ تھی، تنہائی سے اندر ہی اندر گھُٹے چلے جا رہی تھی تو کیا کسی ساتھی اداکار، اداکارہ، پروگرام اینکر یا پروڈیوسر نے اسے فون کیا؟ ہمارے میڈیا کلچر کا المیہ یہی ہے کہ یہ لاشوں کو ریٹنگز میں تبدیل کرتا ہے لیکن یہ زندہ انسانوں کو نہیں دیکھتا۔ یاد رکھیں کہ حمیرا کی موت کو نو ماہ ہوچکے تھے، مگر جب سے حمیرا کی لاش ملی ہے، میڈیا کے لیے یہ ایک نئی “سیل ایبل پراڈکٹ” اور نیا اسکینڈل بن چکا ہے۔ کیا یہ منافقانہ روش نہیں کہ ہم مُردوں کو تو شیئر کرتے ہیں لیکن زندوں کو نظرانداز کرتے ہیں؟


فیس بک پر آج #حمیرا_اصغر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ہیش ٹیگز، آنسوؤں کے ایموجیز اور “اللہ مغفرت کرے” کے پیغامات شیئر ہورہے ہیں لیکن کل تک کون تھی حمیرا؟ کسے خبر تھی؟ یہ جعلی سوگ درحقیقت ہماری اپنی بے حسی کو چھپانے کا طریقہ ہے۔ ہم پوسٹ “شیئر” کرکے اپنا فرض پورا کرلیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے محلے یا آپ کے فلیٹ کمپلیکس میں کوئی تنہا بوڑھا، کوئی غیر شادی شدہ خاتون یا کوئی بیمار شخص ایسا تو نہیں جو حمیرا بننے کے راستے پر گامزن ہو؟ ہم سب جانتے ہیں مگر آنکھیں بند کر لیتے ہیں کیونکہ جدید زندگی کا اصول ہے کہ اپنا کام، اپنا گھر اور بس اپنی دنیا اور باقی سب تماشا۔


حمیرا کا فلیٹ ڈیفنس میں تھا جو پاکستان کا امیر ترین علاقہ کہلاتا ہے مگر کیا کسی پڑوسی کو خیال آیا کہ اس کے گھر سے بدبو کیوں آرہی ہے؟ دروازہ کئی ماہ سے کیوں بند ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہماری اجتماعی روح کو چھلنی کر دیتا ہے۔ ہم نے “پڑوسی” کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ آج پڑوسی وہ ہے جو آپ کے وٹس ایپ گروپ میں ہو اور آپ کی فیس بک یا انسٹاگرام پوسٹ پر لائک کرے۔ حقیقی پڑوسی تو پردے کی چیز بن کر رہ گیا۔
حمیرا کے انٹرویو دیکھیں، وہ کہتی ہے کہ میں چیلنجز سے لڑتی رہی، یہ میرے خون میں ہے مگر جب اصل چیلنج آیا یعنی تنہائی، معاشی دباؤ اور خاندانی بے رخی، تو اس کے “فن” نے اسے نہیں بچایا لیکن اب؟ اب میڈیا میں اسے “ہیروئن” بنا دیا جائے گا اور “تنہائی کے خلاف” مہم چلے گی مگر یہ سلسلہ رُکے گا نہیں۔ کل کوئی دوسری حمیرا گھُٹ گھُٹ کر مرے گی تو پھر وہی کہانی دہرائی جائے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے حل ڈھونڈنے بند کردیے ہیں، ہم صرف “مردہ ہیرو کلچر” میں یقین رکھتے ہیں، ہم زندہ انسانوں کو بچانے میں یقین نہیں رکھتے۔ آخر کیوں؟


حمیرا کی موت کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی قتل ہے۔ ہم سب اس کے قاتل ہیں۔ وہ خاندان جس نے حمیرا کو عاق کردیا تھا، وہ پڑوسی جنہوں نے بدبو کو نظرانداز کردیا تھا، وہ لینڈ لارڈ جسے کرایے کے سوا اور کسی بات سے سروکار نہ تھا، وہ میڈیا جس نے زندہ حمیرا کو “سیلبریٹی” نہ سمجھا، وہ ریاست جس کے پاس تنہا شہریوں کا ڈیٹا بیس تک نہیں اور آپ اور میں، جو اپنے کسی جاننے والے کو برسوں نہیں ملتے، نہ ان کی کوئی خیر خبر رکھتے ہیں۔
سوچیے کہ آپ کے موبائل میں کتنے قریبی دوست محفوظ ہیں جنہیں آپ نے گزشتہ نو ماہ میں فون تک نہیں کیا؟ حمیرا شاید ان میں سے ایک تھی۔ کل کوئی اور ہوسکتا ہے۔


یہ المیہ ختم ہوسکتا ہے بشرطیکہ ہم آج سے اٹھ کھڑے ہوں۔ اپنے گمشدہ رشتوں کو ڈھونڈیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ مہینوں بعد اپنے اس پیارے کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹائیں تو اندر سے گلی سڑی لاش کرانتی ویر کے پرتاپ نرائن تلک کے انداز میں طنزیہ قہقہے لگانے شروع کردے۔
آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے؟

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان اور ویتنام کے مابین تجارتی تعاون بڑھانے پر اتفاق سرکاری ملازمین اور ٹیکس کی وصولی اسیرانِ لاہور کا خط اور پی۔ٹی۔آئی کربلا سے سبق اور اس کی عصرِ حاضر میں اہمیت آئینی لغزش: آزاد پھر سے آزاد ہو گئے پی ٹی آئی کی آئینی غلط فہمی اور سنی اتحاد کونسل کی حمایت کی بھاری قیمت سپریم کورٹ نے انتخابی عمل میں ‘ریورس انجینئرنگ’ کو مسترد کر دیا حق کی تلوار اور ظلم کا تخت TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

وقت ختم ، اب کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے،عمران خان

کوٹ لکھپت جیل میں قیدتحریک انصاف کے سینئر رہنماؤں کی حکومتی اتحاد سے مذاکرات کی حمایت کی تجویز کو پیٹرن انچیف نے واضح الفاظ میں مسترد کردیا
امپورٹڈ حکومت کیخلاف فیصلہ کن جدوجہدجاری رکھنے کے عزم کا اعادہ ،5 اگست سے ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائیگا،بانی پی ٹی آئی کا جیل سے پیغام

کوٹ لکھپت جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے حکومتی اتحاد سے مذاکرات کی حمایت کے صرف چند روز بعد پارٹی کے بانی چیٔرمین عمران خان نے واضح الفاظ میں اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے۔8 جولائی کو اڈیالہ جیل سے جاری کیے گئے ایک سخت لہجے پر مبنی پیغام میں عمران خان نے اپنی ہی پارٹی قیادت کی مفاہمانہ کوششوں کو عملاً ویٹو کر دیا۔ انہوں نے ’امپورٹڈ حکومت‘ کیخلاف ایک فیصلہ کن جدوجہدجاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ 5 اگست سے ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائے گا، یہ ان کی گرفتاری کو 2 برس مکمل ہونے کا دن ہے۔عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ اب کسی سے بھی مزید کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، اب صرف سڑکوں پر احتجاج ہو گا تاکہ قوم زبردستی مسلط کردہ کٹھ پتلی حکمرانوں سے نجات حاصل کر سکے۔ عمران خان کا یہ اعلان کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے 5 مرکزی رہنماؤں، بشمول شاہ محمود قریشی کے اُس پیغام سے یکسر متصادم ہے جس میں انہوں نے سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ سے غیر مشروط مذاکرات کی اپیل کی تھی۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے اس اپیل کو سیاسی عدم استحکام کے دور میں قومی اتفاق رائے کی راہ ہموار کرنے کا ایک نادر موقع قرار دیا تھا۔پی ٹی آئی رہنماؤں کے خط پر حکومتی حلقوں، خاص طور پر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے مثبت ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ خواجہ سعد رفیق نے تو اس خط کو ’دانشمندانہ اور اہم‘ قرار دیتے ہوئے دونوں فریقین سے کہا تھا کہ وہ موقع غنیمت جانیں اور جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں غیر مشروط مذاکرات شروع کریں تاہم، عمران خان کے تازہ ترین بیان نے فی الوقت ان امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ان کا اعلان اس اندرونی تضاد کو نمایاں کرتا ہے جو طویل عرصے سے پی ٹی آئی کی صفوں میں موجود ہے۔پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ پارٹی میں کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ بات چیت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے لیکن اگر عمران خان ’نہ‘ کہہ دیں تو دروازہ بند ہی رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ”میری بے چینی کا علاج نماز کا کمرہ ہے“، دبئی کے پام جمیرا میں واقع ثانیہ مرزا کے شاندار ولا کا سب سے پُرسکون گوشہ
  • احسان: مالک سے وفاداری
  • والد نے مسلسل رابطوں سے پریشان ہوکر تدفین کا بیان دیا، بہن بہت خوددار تھی، بھائی حمیرا اصغر
  • وقت ختم ، اب کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے،عمران خان
  • حمیرا اصغر پر تشدد، منشیات یا مشتبہ سرگرمی کا کوئی ثبوت نہیں ملا، پولیس
  • پاکستان سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی، 133 ہزار پوائنٹس کی حد دوبارہ بحال
  •  اراضی کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کے وارنٹ گرفتاری منسوخ 
  • سیاسی افواہیں
  • میرے پیارے پاکستان