Daily Sub News:
2025-09-18@14:51:58 GMT

آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے

اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT

آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے

آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے WhatsAppFacebookTwitter 0 11 July, 2025 سب نیوز

تحریر: مصطفےٰ صفدر بیگ

پولیس نے ڈی ایچ اے کراچی کے فلیٹ کی چابیاں مرکزی تالے میں گھمائیں تو دروازے کے پیچھے جو منظر کھلا، وہ کسی ہارر فلم کا سین نہیں بلکہ پورے معاشرے کا اپنا چہرہ تھا۔ حمیرا اصغر علی کی نیم گلی سڑی، ناقابلِ شناخت لاش اپنے ہی صوفے پر اس طرح پڑی تھی جیسے کوئی ٹوٹی ہوئی گڑیا ہو۔ نو ماہ! جی ہاں پورے نو ماہ تک یہ “گڑیا” ایسے ہی پڑی رہی۔ یہ وہ وقت تھا جب اس کا جسم اندھیرے کمرے میں وقت کے ساتھ سڑتا رہا۔ بجلی کٹ چکی تھی، فریج میں کھانا پہلے ہی سڑ چکا تھا اور باہر دنیا اپنی دوڑ میں مصروف تھی۔ یہ المیہ صرف ایک موت نہیں بلکہ جدید انسان کی سب سے بڑی شکست ہے۔ یہ تنہائی کی وہ خوفناک موت ہے جس میں زندہ لوگ مردوں کو بھی یاد نہیں رکھتے۔


سوچیے کہ نو ماہ میں ایک بچہ رحم مادر میں پورا وجود پکڑ لیتا ہے اور نو ماہ سے بھی کم عرصے میں فصلیں پک کر تیار ہو جاتی ہیں مگر حمیرا کے لیے نو ماہ وہ عرصہ تھا جب اس کا فلیٹ اس کی قبر بنا رہا اور کوئی پوچھنے تک نہ آیا۔ پولیس رپورٹس بتاتی ہیں کہ فریج میں موجود اشیاء کی ایکسپائری اکتوبر 2024 کی تھی۔ فلیٹ مالک کا آخری رابطہ بھی اسی عرصہ میں ہوا تھا۔ یہ وہ حقیقت ہے جو ہمارے اجتماعی ضمیر پر کُند چھری سے رقم کی گئی ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں انسانوں کی اہمیت ان کے فون سے کیے جانے والے آخری میسج کی تاریخ تک ہی ہوتی ہے۔ کراچی جیسے شہر میں جہاں لاکھوں لوگ سڑکوں پر چپکے رہتے ہیں وہاں ایک عورت اپنے گھر میں گل سڑ گئی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ کیا یہ شہر نہیں، کوئی جنگل تھا؟


حمیرا کے والد اور بھائی کا بیان پڑھیں، جو کہتے ہیں کہ ہم پہلے ہی لاتعلق تھے، اسے عاق کردیا تھا۔ یہ وہ جملے ہیں جو جدید خاندانی ڈھانچے کی کھوکھلی بنیادوں کو دھڑام سے گرا دیتے ہیں۔ حمیرا کے پرانے انٹرویو دیکھیں تو وہ والدہ کی سپورٹ کا ذکر کرتی ہے جو اس کی واحد پناہ گاہ تھی۔ ماں کے بعد؟ بھائی اور باپ کا دباؤ، پروڈکشن ہاوسز کی جانب سے وزن کم کرنے کی شرط اور فیملی کا مسترد کرنا حمیرا کو تنہائی کی گود میں لے گیا۔ یہ المیہ صرف اس کا نہیں، ہمارے معاشرے میں لاکھوں حمیرائیں زندہ قبروں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ جب تک وہ “فیملی آنر” برقرار رکھتی ہیں، سب انہیں گلے لگاتے ہیں۔ جب وہ اپنے خواب چنتی ہیں تو رشتے کفن پہن لیتے ہیں۔ کیا رشتوں کی یہی تعریف ہم نے سیکھی ہے؟


آج ہر چینل حمیرا پر خصوصی پروگرام چلا رہا ہے۔ اس کے پرانے انٹرویوز، زندگی کے راز، “پُراسرار موت” کے تھیمر سب چلائے جارہے ہیں مگر ایک سوال کسی نے نہیں پوچھا کہ “جب وہ زندہ تھی، تنہائی سے اندر ہی اندر گھُٹے چلے جا رہی تھی تو کیا کسی ساتھی اداکار، اداکارہ، پروگرام اینکر یا پروڈیوسر نے اسے فون کیا؟ ہمارے میڈیا کلچر کا المیہ یہی ہے کہ یہ لاشوں کو ریٹنگز میں تبدیل کرتا ہے لیکن یہ زندہ انسانوں کو نہیں دیکھتا۔ یاد رکھیں کہ حمیرا کی موت کو نو ماہ ہوچکے تھے، مگر جب سے حمیرا کی لاش ملی ہے، میڈیا کے لیے یہ ایک نئی “سیل ایبل پراڈکٹ” اور نیا اسکینڈل بن چکا ہے۔ کیا یہ منافقانہ روش نہیں کہ ہم مُردوں کو تو شیئر کرتے ہیں لیکن زندوں کو نظرانداز کرتے ہیں؟


فیس بک پر آج #حمیرا_اصغر ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ہیش ٹیگز، آنسوؤں کے ایموجیز اور “اللہ مغفرت کرے” کے پیغامات شیئر ہورہے ہیں لیکن کل تک کون تھی حمیرا؟ کسے خبر تھی؟ یہ جعلی سوگ درحقیقت ہماری اپنی بے حسی کو چھپانے کا طریقہ ہے۔ ہم پوسٹ “شیئر” کرکے اپنا فرض پورا کرلیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے محلے یا آپ کے فلیٹ کمپلیکس میں کوئی تنہا بوڑھا، کوئی غیر شادی شدہ خاتون یا کوئی بیمار شخص ایسا تو نہیں جو حمیرا بننے کے راستے پر گامزن ہو؟ ہم سب جانتے ہیں مگر آنکھیں بند کر لیتے ہیں کیونکہ جدید زندگی کا اصول ہے کہ اپنا کام، اپنا گھر اور بس اپنی دنیا اور باقی سب تماشا۔


حمیرا کا فلیٹ ڈیفنس میں تھا جو پاکستان کا امیر ترین علاقہ کہلاتا ہے مگر کیا کسی پڑوسی کو خیال آیا کہ اس کے گھر سے بدبو کیوں آرہی ہے؟ دروازہ کئی ماہ سے کیوں بند ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہماری اجتماعی روح کو چھلنی کر دیتا ہے۔ ہم نے “پڑوسی” کی تعریف ہی بدل دی ہے۔ آج پڑوسی وہ ہے جو آپ کے وٹس ایپ گروپ میں ہو اور آپ کی فیس بک یا انسٹاگرام پوسٹ پر لائک کرے۔ حقیقی پڑوسی تو پردے کی چیز بن کر رہ گیا۔
حمیرا کے انٹرویو دیکھیں، وہ کہتی ہے کہ میں چیلنجز سے لڑتی رہی، یہ میرے خون میں ہے مگر جب اصل چیلنج آیا یعنی تنہائی، معاشی دباؤ اور خاندانی بے رخی، تو اس کے “فن” نے اسے نہیں بچایا لیکن اب؟ اب میڈیا میں اسے “ہیروئن” بنا دیا جائے گا اور “تنہائی کے خلاف” مہم چلے گی مگر یہ سلسلہ رُکے گا نہیں۔ کل کوئی دوسری حمیرا گھُٹ گھُٹ کر مرے گی تو پھر وہی کہانی دہرائی جائے گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے حل ڈھونڈنے بند کردیے ہیں، ہم صرف “مردہ ہیرو کلچر” میں یقین رکھتے ہیں، ہم زندہ انسانوں کو بچانے میں یقین نہیں رکھتے۔ آخر کیوں؟


حمیرا کی موت کوئی حادثہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی قتل ہے۔ ہم سب اس کے قاتل ہیں۔ وہ خاندان جس نے حمیرا کو عاق کردیا تھا، وہ پڑوسی جنہوں نے بدبو کو نظرانداز کردیا تھا، وہ لینڈ لارڈ جسے کرایے کے سوا اور کسی بات سے سروکار نہ تھا، وہ میڈیا جس نے زندہ حمیرا کو “سیلبریٹی” نہ سمجھا، وہ ریاست جس کے پاس تنہا شہریوں کا ڈیٹا بیس تک نہیں اور آپ اور میں، جو اپنے کسی جاننے والے کو برسوں نہیں ملتے، نہ ان کی کوئی خیر خبر رکھتے ہیں۔
سوچیے کہ آپ کے موبائل میں کتنے قریبی دوست محفوظ ہیں جنہیں آپ نے گزشتہ نو ماہ میں فون تک نہیں کیا؟ حمیرا شاید ان میں سے ایک تھی۔ کل کوئی اور ہوسکتا ہے۔


یہ المیہ ختم ہوسکتا ہے بشرطیکہ ہم آج سے اٹھ کھڑے ہوں۔ اپنے گمشدہ رشتوں کو ڈھونڈیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ مہینوں بعد اپنے اس پیارے کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹائیں تو اندر سے گلی سڑی لاش کرانتی ویر کے پرتاپ نرائن تلک کے انداز میں طنزیہ قہقہے لگانے شروع کردے۔
آگئے میری موت کا تماشا دیکھنے؟

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان اور ویتنام کے مابین تجارتی تعاون بڑھانے پر اتفاق سرکاری ملازمین اور ٹیکس کی وصولی اسیرانِ لاہور کا خط اور پی۔ٹی۔آئی کربلا سے سبق اور اس کی عصرِ حاضر میں اہمیت آئینی لغزش: آزاد پھر سے آزاد ہو گئے پی ٹی آئی کی آئینی غلط فہمی اور سنی اتحاد کونسل کی حمایت کی بھاری قیمت سپریم کورٹ نے انتخابی عمل میں ‘ریورس انجینئرنگ’ کو مسترد کر دیا حق کی تلوار اور ظلم کا تخت TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟

راولپنڈی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 ستمبر2025ء ) علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ خیبرپختونخواہ میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں ؟ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ تفصیلات کے مطابق وزیر اعلٰی خیبرپختونخواہ نے پیر کے روز اڈیالہ جیل کے قریب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات کی اجازت نہیں دیتے چار پانچ گھنٹے بٹھا دیتے ہیں، یہاں بیٹھنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں کام کررہا تھا، سوشل میڈیا کو چھوڑیں ہر بندے کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ملاقات نہ کرانے کی وجہ پارٹی میں تقسیم ہو اور اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے پارٹی تقسیم ہو، ہمیں مائننگ بل اور بجٹ بل پاس کرانے پر بھی ملاقات نہیں دی گئی، اگر عمران خان سے ملاقات ہوجاتی تو شفافیت ہوتی اور لوگوں کا ابہام بھی ختم ہوجاتا۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر بھی ملاقاتیں روکی گئی، اب باجوڑ والے معاملے پر ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔

یہ چاہتے ہیں ملاقاتیں نہ ہو اور کنفیوژن بڑھتی رہے، اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر ہمارے کچھ لوگ بھی بیوقوف بن جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملاقات نہیں دئیے جانے پر کیا میں جیل توڑ دوں، میں یہ کرسکتا ہوں مگر اس سے کیا ہوگا؟ یہ ہر ملاقات پر یہاں بندے کھڑے کردیتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ن لیگ کو شرم آنی چاہیے شہداء کے جنازوں پر ایسی باتیں کرتے ہوئے، ن لیگ ہر چیز میں سیاست کرتی یے، ملک میں جمہوریت تو ہے نہیں اسمبلیاں جعلی بنائی ہوئی ہیں، جنازوں پر جانے کی بات نہیں انسان کو احساس ہونا چاہیے۔

اپنے لوگوں کی شہادتوں کے بجائے پالیسیز ٹھیک کرنی چاہیے۔ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ہم نے تمام قبائل کے جرگے کرکے اس مسلے کا حل نکالنے کی کوشش کی، ہم نے ان سے کہا مذاکرات کا راستہ نکالیں پہلے انہوں نے کہا تم کون ہو، پھر دوبارہ بات ہوئی تو ٹی آر اوز مانگے گئے ہم نے وہ بھی بھیجے، معاملات اس ٹریک پر نہیں جسے مسائل حل ہوں، ہمارے پاس کوئی ایجنڈا ہی نہیں مسائل حل کرنے کا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں سیلاب کی نوعیت مختلف تھی، پورے پورے پہاڑی تودے مٹی بستیوں کی بستیاں اور درخت بہہ گئے، سیلاب بڑا چیلنج تھا ہم نے کسی حد تک مینیج کرلیا ہے اور آج بھی متاثرہ علاقوں میں ابھی امدادی کام جاری ہے جبکہ سیلاب سے ہمارے صوبے میں 400 اموات ہوچکی ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے ہمارے ساتھ کوئی وعدہ پورا نہیں کیا، فارم 47 کے ایم این ایز گھوم رہے ہیں صوبے میں لیکن کوئی خاطر خواہ امداد نہیں کی گئی، وفاقی حکومت کو جو ذمہ داری نبھانی چاہیے تھی نہیں نبھائی مگر میں اس پر سیاست نہیں کرتا ہمیں انکی امداد کی ضرورت بھی نہیں ہے، ہم نے ہر چیز پر سیاست کی ایک جنازے رہ گئے تھے، اس سے قبل میں جن جنازوں میں گیا یہ نہیں گئے تو کیا میں اس پر سیاست کرونگا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مسئلے کو سنجیدگی سے عملی اقدامات کرکے حل نکالنا چاہیے، کسی کا بچہ کس کا باپ کسی کا شوہر کوئی بھی نقصان نہیں ہونا چاہیے اور اس پر ایک پالیسی بننی چاہیے، میں نے دہشت گردی کے خاتمے کیلیے وزیر اعلٰی بنتے ہی میں نے پورے قبائل کے جرگے بلائے، میں نے کہا تھا افغانستان سے بات کرنی چاہیے جس پر وفاق نے کہنا شروع کیا کہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔

علی امین گنڈا پور نے کہا کہ افغانستان اور ہمارا ایک بارڈر ہے ایک زبان ہے ایک کلچر ہے روایات بھی مماثل ہیں، ہم نے وفاقی حکومت کو ٹی او آرز بھیجے سات آٹھ ماہ ہوگئے کوئی جواب نہیں دیا، یہ نہیں ہوسکتا میں پرائی جنگ میں اپنے ہوائی اڈے دوں، مذاکرات اور بات چیت کے ایجنڈے پر یہ نہیں آرہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں یہ جنازے کس کی وجہ سے ہورہے ہیں اسکا ذمہ دار کون ہےَ یہ شہادتیں جس مسئلے کی وجہ ہورہی ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، میں پوچھتا ہوں آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟ جب تک عوام کا اعتماد نہ ہو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ کوئی نہیں چاہتا کسی کے بچے شہید ہوں، ہمیں اپنی پالیسیز کو از سر نو جائزہ لینا ہوگا، مجھے اپنے لیڈر سے اسلیے ملنے نہیں دے رہے انکا مقصد ہے پارٹی تقسیم ہو اور اختلافات بڑھتے رہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کریں، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • 3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • نادرا لاہور ریجن میں ’’میری شناخت، میرا تحفظ‘‘ کے موضوع پر خصوصی آگاہی ہفتہ شروع
  • اداکارہ سارہ عمیر کی ڈائریکٹر محسن طلعت سے طلاق کی تصدیق
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن 
  • بھارت نفرت کا عالمی چیمپئن
  • آج تک جو آپریشن ہوئے انکا کیا نتیجہ نکلا؟