غزہ میں حماس قبول نہیں‘ نیتن یاہو,قیدیوں کی رہائی کیلیے فوجی انخلا اور مستقل بمباری روکنا ہوگی‘ حماس مزید82فلسطینی شہید
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ /تل ابیب /دوحا /کوالالپور /نیویارک (صباح نیوز /آن لائن /مانیٹرنگ ڈیسک) نیتن یاہو نے کہا ہے کہ غزہ میں حماس قبول نہیں۔ حماس نے کہا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے لیے فوجی انخلا اور مستقل بمباری روکنا ہوگی۔ یہودی جارحیت میں مزید 82 فلسطینی شہید ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق غزہ کی مظلوم سرزمین ایک بار پھر خون میں نہلا دی گئی‘ قابض اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت کے نتیجے میں پچھلے24 گھنٹے کے دوران82 فلسطینی شہید اور 247 شدید زخمی ہوگئے۔ وزارت صحت نے کہا کہ اب بھی درجنوں لاشیں ملبے تلے اور سڑکوں پر پڑی ہیں، جہاں ایمبولینس اور ریسکیو ٹیمیں قابض فوج کی بمباری اور محاصرے کی وجہ سے پہنچ نہیں پا رہیں۔ وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر 2023ء سے جاری اس ہولناک جنگ کے نتیجے میں اب تک شہدا کی مجموعی تعداد57 ہزار762 ہو چکی ہے جبکہ ایک لاکھ37ہزار 656 افراد زخمی ہوئے۔ غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس میں مبینہ حادثاتی دھماکے میں اسرائیلی فوج کا ایک افسر ہلاک اور ایک اور واقعے میں 2 اہلکار زخمی ہوگئے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج کی ایک ٹیم خان یونس میں حماس کے زیر استعمال عمارتوں کو بارودی مواد کی مدد سے تباہ کر رہی تھی۔ایسی ہی ایک عمارت میں بارودی مواد بچھایا گیا تاکہ اسے دھماکے سے اڑادیا جائے اور حماس کے پاس رہنے کو کوئی ٹھکانہ نہ رہے۔تاہم بارودی مواد بچھانے کے محض2 گھنٹے بعد اْسی عمارت میں اچانک زور دار دھماکا ہوگیا جس میں ٹیم لیڈر شدید زخمی ہوگئے۔اسرائیلی فوج کے دیگر اہلکاروں نے اپنے ٹیم لیڈر کو شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا لیکن وہ دوران علاج دم توڑ گئے۔ القسام کی جانب سے اسرائیلی فوجی کو گرفتار کرنے کے بعد قتل کردیا گیا۔ الجزیرہ نے وہ مناظر حاصل کرلیے جن میں خان یونس کی ایک جھڑپ کے دوران القسام کے مجاہدین ایک اسرائیلی فوجی کو گرفتار کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، تاہم بعد میں اسی فوجی کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ غزہ کے علاقے خان یونس میں فلسطینی مزاحمت کاروں سے جھڑپ کے دوران اسرائیلی فوج کا اسکواڈ کمانڈر ہلاک ہو گیا۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے خان یونس میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ جھڑپ کے دوران اپنے اسکواڈ کمانڈر کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ غزہ میں مجوزہ 60 روزہ جنگ بندی کے دوران مستقل جنگ بندی کے لیے بات چیت کریں گے۔ نیتن یاہو نے جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ حماس کی طرف سے ہتھیار ڈالنا اسرائیل کی بنیادی شرائط میں سے ہے، حماس کے پاس غزہ کی حکمرانی اور فوجی صلاحیتیں نہ ہونا بھی اسرائیل کی شرائط میں شامل ہے‘ یہ شرائط 60 روز میں پوری ہو گئیں تو بہت اچھا ورنہ فوجی طاقت سے انہیں پورا کریں گے۔ فلسطینی تحریک مزاحمت حماس نے واضح کیا ہے کہ قابض اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے بدنیتی پر مبنی بیانات اس کی اصل نیت کا آئینہ دار ہیں جس کے تحت وہ دانستہ طور پر قیدیوں کے تبادلے کے کسی ممکنہ معاہدے کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے تاکہ نہ صرف فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو روکا جا سکے بلکہ غزہ پر مسلط کردہ ظلم و ستم کے طوفان کو بھی جاری رکھا جا سکے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ایک تحریری بیان میں حماس نے کہا کہ اس نے ایک متوازن اور جامع معاہدے کی تجویز پہلے ہی پیش کی تھی، جس کے تحت تمام قیدیوں کو بیک وقت رہا کیا جانا تھا۔ اس کے بدلے قابض اسرائیل کی فوج کو مکمل انخلا کرنا تھا، بمباری کو مستقل طور پر روکا جانا تھا اور انسان دوست امداد کو بلا رکاوٹ پہنچنے کی اجازت دی جانی تھی لیکن بنجمن نیتن یاہو نے اس اہم پیشکش کو مسترد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ جنگ کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں بلکہ وہ فلسطینیوں کی نسل کشی، تباہی اور انسانی بحران کو طول دینا چاہتا ہے۔ حماس نے مزید کہا کہ وہ اب بھی ایک ذمہ دار اور سنجیدہ فریق کے طور پر مذاکرات میں شامل ہے اور اس کی کوشش ہے کہ ایسا معاہدہ ہو جائے جس کے ذریعے بمباری رکے، قابض اسرائیل کا فوجی انخلا ممکن ہو، امداد آزادانہ داخل ہو اور فلسطینی عوام کو تعمیر نو کے مواقع میسر آئیں تاکہ وہ عزت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ اس کے بدلے قیدیوں کے باہمی تبادلے پر آمادگی کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کے امکانات پہلے سے زیادہ روشن ہو گئے ہیں‘ فریقین کے درمیان کئی شرائط پر اتفاق ہو چکا اور اب صرف عملدرآمد کے طریقہ کار پر بات باقی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق روبیو نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے اجلاس کے موقع پر ملائیشیا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہم جنگ بندی کے قریب ہیں۔ مارکو روبیو نے حماس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر حماس غیر مسلح ہونے کی شرط مان لے تو یہ تنازع فوراً ختم ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ماہرِ انسانی حقوق فرانسسکا البانیز نے امریکا کی جانب سے ان پر عاید کی گئی پابندیوں کو شرمناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کو بے نقاب کرنے کی پاداش میں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے قطری نشریاتی ادارے کو بتایا کہ وہ ہتھکنڈوں سے خاموش نہیں ہوں گی، مجھے انصاف اور بین الاقوامی قانون کے احترام کی جستجو سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔انہوں نے امریکی حکومت کے ان اقدامات کو مافیا کی دھمکیوں سے تشبیہ دی اور کہا کہ پابندیاں تب ہی مؤثر ہوتی ہیں جب لوگ خوف زدہ ہو کر خاموش ہو جائیں، مگر میں ان میں سے نہیں ہوں۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فرانسسکا البانیز پر الزام عاید کیا کہ وہ امریکا اور اسرائیل کے خلاف سیاسی و معاشی جنگ چلا رہی ہیں، اس کے جواب میں البانیز نے کہا کہ انسانیت کے خلاف جرائم، جنگی جرائم اور نسل کشی پر تنقید ان کی ذمہ داری ہے اور وہ یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین کے تحفظ کے لیے کر رہی ہیں۔
غزہ: اسرائیلی فضائیہ کی بمباری خان یونس میں تباہی پھیلی ہوئی ہے‘رضاکار امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج قابض اسرائیل خان یونس میں جنگ بندی کے اسرائیل کی نیتن یاہو کہا ہے کہ کے مطابق روبیو نے کے دوران کہا کہ نے کہا کہ غزہ
پڑھیں:
شکست خوردہ نیتن یاہو کی ٹرمپ سے ملاقات اور خطے کا مستقبل
اسلام ٹائمز: ٹرمپ کا ایک چہرہ یہ بھی ہے کہ وہ بار بار ایران سے مذاکرات کی بات کرتا ہے اور کل ہی بیان دیا کہ وہ کسی مناسب وقت پر ایران سے پابندیاں ہٹانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ تو امریکہ میں بھی قابل اعتبار نہیں ہے، اس کی جنگ کی بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے اور امن کی پیشکش پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے امریکہ جیسے بظاہر بڑے ملک کے لیے کتنی شرمناک بات ہے کہ دنیا میں اس کے صدر کے بارے میں یہ تاثر ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ منگل کو شمالی غزہ میں لڑائی کے دوران اس کے پانچ فوجی ہلاک ہوگئے۔ جی اور ایک اسرائیلی فوجیوں کو قید کرنے کی بڑی کارروائی بظاہر ناکام بھی ہوئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اصل کام جاری ہے جس کی زبان اسرائیل اور امریکہ کو سمجھ آتی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
مشرق وسطیٰ میں بڑی تیزی سے حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ جنگ کے بارے میں تو ویسے ہی کہا جاتا ہے کہ ایک جھولے کی طرح ہے، جس میں کبھی ایک پلڑا اوپر چلا جاتا ہے اور کبھی دوسرا پلڑا بلند ہو جاتا ہے۔ امریکی اور اسرائیلی ہمیشہ اس وقت جنگ شروع کرتے ہیں، جب انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کا نقصان برائے نام ہوگا اور وہ جنگ جیت جائیں گے۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ اسرائیلی پلاننگ بری طرح ناکام ہوئی اور پورا اسرائیل حملوں کی زد پر تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے پہلے بار جنگ کی گرمی کو اسرائیلیوں کے گھروں تک پہنچایا۔ اس سے پہلے تو اسرائیلی شہری دوربینیں لے کر غزہ پر ہوتی بمباری کو بلند مقامات سے انجوائے کرتے تھے۔ انہیں معصوموں کی آہ و بکا سے سکون ملتا تھا، یہ لاشوں کو دیکھ کر انجوائے کرتے تھے اور بھوک و قحط مسلط کرکے اسے اپنے دفاع کا نام دیتے تھے۔ سکول، عبادتگاہیں، ہسپتال اور امدادی مراکز پر حملے کیے جاتے تھے اور اس پر شرمندہ بھی نہیں ہوا جاتا تھا۔
امریکی اسلحہ نے عصر حاضر کا سب سے بڑا قتل عام ممکن بنایا۔ جب ایرانی میزائل اسرائیل کی ملٹری عمارات کو نشانہ بنانے لگے تو آہ بکا شروع کر دی کہ سویلین پر حملے ہو رہے ہیں۔ ظلم، دہرا معیار اور مغربی میڈیا کی انسانیت دیشمنی دیکھیے کہ اسرائیل کے فوجی اہداف کے ساتھ موجود کچھ سول عمارتوں کے شیشے ٹوٹ جانے پر واویلا کیا جا رہا ہے، مگر یہی میڈیا ہسپتالوں میں سینکڑوں بچوں کی شہادت پر ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اسرائیلی حملوں میں ایک ہزار کے قریب ایرانی شہید ہوئے، جس میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین شامل تھیں۔ ان حملوں پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جاتا، مگر اسرائیل کے ان کے بقول تیس چالیس لوگ مرے، ان کو اتنا ہائی لائیٹ کیا جاتا ہے کہ جیسے بہت بڑا قتل عام ہو۔ یہ دہرا معیار اور یہ منافقت مغرب کے اصل چہرے سے نقاب ہٹا رہی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم تمام تر قتل عام کے باوجود نہ غزہ سے قیدی چھڑا سکا اور نہ ہی مزاحمت کو ختم کرسکا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے میزائلوں نے اس کی رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ دونوں محاذوں پر شکست کے بعد اب اسرائیلی وزیراعظم نے ٹرمپ سے کھانے پر اور اس کے بعد بھی ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں میں ماہرین کے مطابق تین بڑے مسئلے زیر غور آئے ہوں گے۔ پہلا، غزہ میں جنگ کا خاتمہ دوسرا، ایران کا معاملہ اور تیسرا، نام نہاد ابراہیم اکارڈ کا مسئلہ۔ اگرچہ یہ تینوں موضوعات الگ الگ ہیں، لیکن آپس میں کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم کی اعلانیہ پالیسی ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکال دیا جائے اور یہ علاقہ پہلے امریکہ اور پھر بذریعہ امریکہ اسرائیل کے حوالے کر دیا جائے۔ غزہ کی مزاحمت نے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔
دو سال ہونے کو ہیں، مگر یہ اپنے انسانیت دشمن منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کی سب سے بڑی کامیابی شام میں اسرائیل و امریکہ نواز حکومت کا قیام ہے۔ کل ملا کر انہیں یہی بچا ہے، یہ کب تک ایسا ہی رہتا ہے، یہ وقت بتائے گا۔ ابھی تک جولانی حکومت امریکہ اور اسرائیل کی توقع سے زیادہ ان کی خدمت گزار واقع ہوئی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے منصوبے سے ہے، جس کا آغاز کیا جائے گا۔ اس منصوبے کو بڑے خوشنما نعرے کا لباس پہنایا جائے گا اور اصل مقصد یہ ہوگا کہ کسی نا کسی طرح فلسطینیوں کو غزہ سے نکالا جائے۔ اس کے کچھ خدوخال نظر آنے لگے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ غزہ سے تمام فلسطینیوں کو علاقے کے جنوب میں واقع ایک کیمپ میں منتقل کرنے کا منصوبہ تیار کریں۔ اس کیمپ سے ان کی مراد رفع کراسنگ کے پاس مصر کی سرحد پر سارے اہل غزہ کو جمع کرنا ہے۔
ابھی دنیا کو یہ دکھایا جائے گا کہ ہم پورے علاقے سے دہشتگروں کو ختم کریں گے پھر تعمیر نو کر کے لوگوں کو گھروں میں بسائیں گے۔یہ سب ڈرامہ اور فراڈ ہو گا۔ یہ اسرائیل کی تاریخ ہے کہ اس نے جب بھی کسی گاوں یا شہر سے فلسطینیوں کو نکالا ہے پھر کبھی ان کی واپسی کے حق کو تسلیم نہیں کیا۔ آپ اردن، شام، لبنان اور دنیا بھر میں موجود فلسطینی مہاجرین کو دیکھ لیں۔ آج اسرائیل کسی بھی صورت میں ان کے گھر واپسی کے حق کو تسلیم نہیں کرتا۔ انسانی حقوق کے کچھ انسانیت پسند اس پر احتجاج کر رہے ہیں۔ مائیکل سفرڈ کے مطابق یہ غزہ کی پٹی کے جنوبی سرے پر آبادی کی منتقلی کے بارے میں ہے، تاکہ پٹی سے باہر جلاوطنی کے لیے حالات سازگار کیے جا سکیں۔ انہوں نے اس اسرائیلی اعلان کی مذمت کرتے ہوئے اسے انسانیت کے خلاف ایک جرم قرار دیا ہے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ نے بھی متنبہ کیا تھا کہ مقبوضہ علاقے کی شہری آبادی کی ملک بدری یا جبری منتقلی بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت سختی سے ممنوع ہے اور نسل کُشی کے مترادف ہے۔ نیتن یاہو اور ٹرمپ کی ملاقاتیں دراصل خطے میں تبدیل ہوتی دفاعی صورتحال میں اسرائیل کے کردار کو بچانا ہے۔ اس کو سمجھنا مشکل نہیں اگر امریکہ اسرائیل کی مدد کو نہ آتا تو اسرائیل کتنے دن سروائیو کرسکتا تھا؟ جس طرح سے اسرائیلی ملک چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، یوں لگتا تھا کہ اسرائیل ویسے ہی خالی ہو جانا ہے۔ اسرائیل کو خطے کے ایجنٹ ممالک سے تمام تر مدد کے باوجود اسرائیل کی ساخت برباد ہو گئی ہے۔اب کوئی بڑی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ پہلے کے تمام دفاعی نظام تو ناکام ہوچکے ہیں اور اس سے بڑھ کر امریکہ کے پاس بھی کچھ موجود نہیں، جس سے وہ اسرائیل کی مدد کرے۔
ٹرمپ کا ایک چہرہ یہ بھی ہے کہ وہ بار بار ایران سے مذاکرات کی بات کرتا ہے اور کل ہی بیان دیا کہ وہ کسی مناسب وقت پر ایران سے پابندیاں ہٹانا چاہتا ہے۔ ٹرمپ تو امریکہ میں بھی قابل اعتبار نہیں ہے، اس کی جنگ کی بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیئے اور امن کی پیشکش پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ ویسے امریکہ جیسے بظاہر بڑے ملک کے لیے کتنی شرمناک بات ہے کہ دنیا میں اس کے صدر کے بارے میں یہ تاثر ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ منگل کو شمالی غزہ میں لڑائی کے دوران اس کے پانچ فوجی ہلاک ہوگئے۔ جی اور ایک اسرائیلی فوجیوں کو قید کرنے کی بڑی کارروائی بظاہر ناکام بھی ہوئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اصل کام جاری ہے جس کی زبان اسرائیل اور امریکہ کو سمجھ آتی ہے۔