دنیا میں لینڈ لاک ممالک کتنے، ایسے ترقی پذیر ملکوں کے لیے اقوام متحدہ کیا کر رہی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
اقوام متحدہ اگلے ماہ ترکمانستان کے ساحلی شہر آوازا میں ایک تاریخی کانفرنس کا انعقاد کر رہا ہے جس کا مقصد خشکی میں گھرے 32 ترقی پذیر ممالک (Landlocked Developing Countries – LDC3) کے گہرے مسائل پر توجہ مرکوز کرنا اور ان کے لیے عالمی نظام کو زیادہ مؤثر بنانا ہے۔
یہ ممالک، جو سمندر تک براہ راست رسائی سے محروم ہیں، عالمی تجارت اور ترقی کے اہم مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں جس سے ان کے 57 کروڑ باشندوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
خشکی میں گھرے ممالک کتنے ہیں؟خشکی میں گھرے (لینڈ لاک) ممالک (یعنی وہ ملک جن کے پاس سمندر نہیں ہوتا) میں سے وہ ممالک جنہیں عالمی ادارے ترقی پذیر ممالک کے طور پر شناخت کرتے ہیں اور جو خاص طور پر اپنی معیشتی اور انفراسٹرکچر کی مشکلات کی وجہ سے اقوام متحدہ کے پروگراموں کا حصہ بنتے ہیں ان کی تعداد 32 ہے۔
ان ممالک میں افغانستان، آرمینیا، آزربائیجان، بولیویا، بوتسوانا، برونڈی، چاد، مرکزی افریقی جمہوریہ، چیک ریپبلک، ایتھوپیا، ہونڈوراس، ہنگری، کازاخستان، کرغزستان، لاوس، لیسوتھو، مالاوی، مالی، مولدووا، نیپال، نائجر، پیراگوئے، روانڈا، سربیا، سلوواکیہ، سوازی لینڈ (اب ایسواتینی)، تاجکستان، جنوبی سوڈان، سوڈان، یوگانڈا، زیمبیا اور زمبابوے شامل ہیں۔
باقی کچھ ممالک ایسے ہیں جو تو خشکی میں گھرے تو ہیں مگر اقوام متحدہ کی ترقی پذیر لینڈ لاک ممالک کی کیٹیگری میں شامل نہیں۔ ان لینڈ لاک ممالک میں زیادہ تر یورپی ممالک شامل ہیں جن کی معیشت نسبتاً زیادہ مستحکم اور ترقی یافتہ ہے۔
ان لینڈ لاک ممالک میں آسٹریا، بیلاروس، لکسمبرگ، مالٹا، مونٹی نیگرو، سویٹزرلینڈ، اور ویتیکن سٹی شامل ہیں۔ یہ ممالک اپنے انفراسٹرکچر، اقتصادی صورتحال، اور عالمی تجارتی روابط کی وجہ سے ترقی پذیر ایل ایل ڈی سی کی کیٹیگری میں نہیں آتے۔ اسی طرح کچھ وسطی ایشیائی ممالک جیسے کہ ترکمانستان اور آذربائیجان کو بھی اکثر لینڈ لاک ممالک کی فہرست میں شامل نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ بحر خزر کے ساحل پر واقع ہیں اور ان کی ساحلی رسائی ہے۔
یوں ترقی پذیر اور غیر ترقی پذیر لینڈ لاک ممالک کو ملا کر دنیا میں کل تقریباً 44 ایسے ممالک ہیں جو خشکی میں گھرے ہوئے ہیں اور سمندر تک براہ راست رسائی نہیں رکھتے۔
ترقی پذیر لینڈ لاک ممالکخشکی میں گھرے 32 ممالک کا عالمی تجارت میں حصہ صرف 2.
ان ممالک کے تجارتی اخراجات عالمی اوسط سے تقریباً 74 فیصد زیادہ ہیں جس کی وجہ ان کے محدود تجارتی راستے اور انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔
سرحد پار تجارتی نقل و حمل میں خشکی میں گھرے ممالک کو دوگنا وقت لگتا ہے جس سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔
ان مسائل کی وجہ سے یہ ممالک عالمی معیشت کی تبدیلیوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں جس سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔
آوازا کانفرنس کے اہم مقاصدکانفرنس میں عالمی رہنما، ریاستی سربراہان، وزرا، سرمایہ کار، سول سوسائٹی، خواتین اور نوجوان رہنما شامل ہوں گے تاکہ آزادانہ تجارتی نقل و حمل کو فروغ دیا جائے، بہتر تجارتی راہداریوں کا قیام ممکن بنایا جائے، معاشی استحکام اور مالی معاونت میں اضافہ کیا جائے، ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کیا جائے، مقامی اور علاقائی انضمام کو تقویت دی جائے۔
آوازا پروگرام آف ایکشن (2024–2034)
یہ پروگرام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 2023 میں منظور کیا اور اس میں 5 ترجیحی شعبے ہیں جن میں خشکی میں گھرے ممالک میں عالمی سرمایہ کاری کو فروغ دے کر بنیادی سہولیات کی بہتری، علاقائی زرعی تحقیقاتی مراکز کا قیام تاکہ خوراک کی پیداوار اور استحکام بڑھانا، ایک اعلیٰ سطحی اقوام متحدہ پینل کی تشکیل جو سرحد پار نقل و حمل کو آسان بناسکے، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنا اور عالمی تجارتی تنظیم (WTO) میں خشکی میں گھرے ممالک کے لیے مخصوص پروگرام کا آغاز شامل ہیں۔
عالمی تعاون کی اہمیت اور ترکمانستان کا کردارترکمانستان کے لیے اس کانفرنس کی میزبانی ایک سفارتی سنگ میل ہے جس سے وہ ان ممالک کے مسائل کو عالمی فورمز پر اجاگر کرنے کا موقع پا رہا ہے۔
ترکمانستان کی مستقل سفیر آکسولتان آتائیوا نے کہا ہے کہ یہ کانفرنس عالمی یکجہتی کا مظہر ہوگی اور خشکی میں گھرے ممالک کو بین الاقوامی تعاون کے مرکز میں لے آئے گی۔
عالمی تناظر اور توقعاتخشکی میں گھرے ممالک شدید ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے خشک سالی، سیلاب اور زمین کے زوال کا شکار ہیں جو ان کی معیشت اور زندگیوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔
عالمی بینک اور اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اگر ان ممالک کو مناسب مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی جائے تو ان کی معاشی شرح نمو میں سالانہ 2 سے 3 فیصد اضافہ ممکن ہے۔
بہتر تجارتی راستے اور انفراسٹرکچر سے لاکھوں بچوں کو تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی مل سکتی ہے جبکہ کسانوں اور چھوٹے تاجروں کے لیے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔
بولیویا کے سفیر اور ایل ایل ڈی سی 3 گروپ کے سربراہ ڈیاگو پاچیکو نے کہا ہے کہ ان ممالک کی ترقی انسانیت کی تقدیر سے جڑی ہے۔ عالمی شراکت داری کے ذریعے ہم ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں جو پوری دنیا کے لیے خوشحالی کا سبب بنے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان اقوام متحدہ آوازا کانفرنس ترقی پذیر لینڈ لاک ممالک ترکمانستان لینڈ لاک ممالکذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان اقوام متحدہ ا وازا کانفرنس ترکمانستان خشکی میں گھرے ممالک اقوام متحدہ کی ممالک میں شامل ہیں ممالک کو ممالک کے ان ممالک اور ان کے لیے ہیں جو کی وجہ
پڑھیں:
اقوامِ متحدہ نے امریکی سمندری حملوں کو غیرقانونی قرار دے دیا
اقوام متحدہ نے امریکا کی جانب سے کیریبین اور بحرالکاہل میں مبینہ منشیات بردار کشتیوں پر حملوں کو بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے جمعے کو جاری اپنے بیان میں کہا کہ ان حملوں کے نتیجے میں اب تک 60 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جو کہ ناقابلِ قبول ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کا طیارہ بردار بحری بیڑا کیریبین روانہ، منشیات بردار کشتیوں کیخلاف کارروائیاں تیز
2 ستمبر سے اب تک امریکی فوج نے کیریبین اور بحرالکاہل کے علاقوں میں متعدد کشتیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
UN High Commissioner for Human Rights says air strikes by United States against alleged drug vessels in Caribbean and Pacific violate international law, Volker Türk says strikes unacceptable and must stop#sabcnews pic.twitter.com/7SigF1iC4q
— Sherwin Bryce-Pease (@sherwiebp) October 31, 2025
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ کشتیاں امریکا میں منشیات اسمگل کر رہی تھیں، تاہم اس دعوے کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
وولکر ترک کے مطابق یہ حملےاور ان کی بڑھتی ہوئی انسانی قیمت ناقابلِ قبول ہیں، امریکا کو چاہیے کہ وہ ایسے حملے فوری طور پر بند کرے۔
مزید پڑھیں: امریکا نے منشیات فروشوں کی معاونت کا الزام لگا کر کولمبیا کے صدر اور اہل خانہ پر پابندی لگا دی
’۔۔۔اور کشتیوں پر سوار افراد کے ماورائے عدالت قتل کو روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے، چاہے ان پر کسی بھی جرم کا الزام کیوں نہ ہو۔‘
صدر ٹرمپ نے گزشتہ منگل کو جاپان میں یو ایس ایس جارج واشنگٹن نامی بحری جہاز پر امریکی ملاحوں سے خطاب کرتے ہوئے ان حملوں پر فخر کا اظہار کیا تھا۔
’کئی سالوں سے منشیات کے کارٹیل امریکا کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے، اور آخرکار ہم نے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔‘
تاہم وولکرترک نے واضح کیا کہ منشیات کی اسمگلنگ کوئی جنگی معاملہ نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والا مسئلہ ہے۔
مزید پڑھیں:
’بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت جان لیوا طاقت کا استعمال صرف اسی وقت جائز ہے جب کوئی شخص فوری طور پر کسی کی جان کے لیے خطرہ بن جائے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی حکام کی جانب سے جو معمولی معلومات جاری کی گئی ہیں، ان سے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ نشانہ بنائی گئی کشتیوں پر سوار افراد کسی کی جان کے لیے فوری خطرہ تھے۔
Breaking News: The U.S. struck a boat that the Trump administration claimed without evidence was carrying drugs from South America. It was the first American strike on a vessel in the Pacific Ocean, expanding the military campaign beyond the Caribbean Sea. https://t.co/xaXqfT7Z1S
— The New York Times (@nytimes) October 22, 2025
19 اکتوبر کو کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے بھی امریکا پر قتل اور کولمبیا کی سمندری خودمختاری کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔
ان کے مطابق، وسط ستمبر کے ایک حملے میں کولمبیا کے ماہی گیر الیخاندرو کارانزا مارے گئے۔
مزید پڑھیں:
’کولمبیا کی کشتی سمندر میں پھنس گئی تھی اور انجن کے ناکام ہونے کے باعث اس پر مدد کے سگنل لگے ہوئے تھے۔‘
اس الزام کے جواب میں صدر ٹرمپ نے کولمبیا کے لیے تمام غیر ملکی امداد منسوخ کر دی۔
اپنے بیان میں وولکر ترک نے مطالبہ کیا کہ منشیات اسمگلنگ کے مشتبہ افراد کو قانونی طور پر گرفتار اور تفتیش کے لیے پیش کیا جائے۔
’امریکا کو چاہیے کہ سنگین جرائم کے الزام میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے، اور منصفانہ سماعت و انصاف کے اصولوں کی پاسداری کرے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ بحرالکاہل جان لیوا صدر ٹرمپ غیر ملکی کشتیوں کولمبیا کیریبین ماہی گیر منشیات وولکر ترک