اقوام متحدہ اگلے ماہ ترکمانستان کے ساحلی شہر آوازا میں ایک تاریخی کانفرنس کا انعقاد کر رہا ہے جس کا مقصد خشکی میں گھرے 32 ترقی پذیر ممالک (Landlocked Developing Countries – LDC3) کے گہرے مسائل پر توجہ مرکوز کرنا اور ان کے لیے عالمی نظام کو زیادہ مؤثر بنانا ہے۔

یہ ممالک، جو سمندر تک براہ راست رسائی سے محروم ہیں، عالمی تجارت اور ترقی کے اہم مواقع سے محروم رہ جاتے ہیں جس سے ان کے 57 کروڑ باشندوں کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

خشکی میں گھرے ممالک کتنے ہیں؟

خشکی میں گھرے (لینڈ لاک) ممالک (یعنی وہ ملک جن کے پاس سمندر نہیں ہوتا) میں سے وہ ممالک جنہیں عالمی ادارے ترقی پذیر ممالک کے طور پر شناخت کرتے ہیں اور جو خاص طور پر اپنی معیشتی اور انفراسٹرکچر کی مشکلات کی وجہ سے اقوام متحدہ کے پروگراموں کا حصہ بنتے ہیں ان کی تعداد 32 ہے۔

ان ممالک میں افغانستان، آرمینیا، آزربائیجان، بولیویا، بوتسوانا، برونڈی، چاد، مرکزی افریقی جمہوریہ، چیک ریپبلک، ایتھوپیا، ہونڈوراس، ہنگری، کازاخستان، کرغزستان، لاوس، لیسوتھو، مالاوی، مالی، مولدووا، نیپال، نائجر، پیراگوئے، روانڈا، سربیا، سلوواکیہ، سوازی لینڈ (اب ایسواتینی)، تاجکستان، جنوبی سوڈان، سوڈان، یوگانڈا، زیمبیا اور زمبابوے شامل ہیں۔

باقی کچھ ممالک ایسے ہیں جو تو خشکی میں گھرے تو ہیں مگر اقوام متحدہ کی ترقی پذیر لینڈ لاک ممالک کی کیٹیگری میں شامل نہیں۔ ان لینڈ لاک ممالک میں زیادہ تر یورپی ممالک شامل ہیں جن کی معیشت نسبتاً زیادہ مستحکم اور ترقی یافتہ ہے۔

ان لینڈ لاک ممالک میں آسٹریا، بیلاروس، لکسمبرگ، مالٹا، مونٹی نیگرو، سویٹزرلینڈ، اور ویتیکن سٹی شامل ہیں۔ یہ ممالک اپنے انفراسٹرکچر، اقتصادی صورتحال، اور عالمی تجارتی روابط کی وجہ سے ترقی پذیر ایل ایل ڈی سی کی کیٹیگری میں نہیں آتے۔ اسی طرح کچھ وسطی ایشیائی ممالک جیسے کہ ترکمانستان اور آذربائیجان کو بھی اکثر لینڈ لاک ممالک کی فہرست میں شامل نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ بحر خزر کے ساحل پر واقع ہیں اور ان کی ساحلی رسائی ہے۔

یوں ترقی پذیر اور غیر ترقی پذیر لینڈ لاک ممالک کو ملا کر دنیا میں کل تقریباً 44 ایسے ممالک ہیں جو خشکی میں گھرے ہوئے ہیں اور سمندر تک براہ راست رسائی نہیں رکھتے۔

ترقی پذیر لینڈ لاک ممالک

خشکی میں گھرے 32 ممالک کا عالمی تجارت میں حصہ صرف 2.

1 فیصد ہے جبکہ سمندری ممالک کا حصہ کہیں زیادہ ہے۔

ان ممالک کے تجارتی اخراجات عالمی اوسط سے تقریباً 74 فیصد زیادہ ہیں جس کی وجہ ان کے محدود تجارتی راستے اور انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔

سرحد پار تجارتی نقل و حمل میں خشکی میں گھرے ممالک کو دوگنا وقت لگتا ہے جس سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔

ان مسائل کی وجہ سے یہ ممالک عالمی معیشت کی تبدیلیوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں جس سے غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔

آوازا کانفرنس کے اہم مقاصد

کانفرنس میں عالمی رہنما، ریاستی سربراہان، وزرا، سرمایہ کار، سول سوسائٹی، خواتین اور نوجوان رہنما شامل ہوں گے تاکہ آزادانہ تجارتی نقل و حمل کو فروغ دیا جائے، بہتر تجارتی راہداریوں کا قیام ممکن بنایا جائے، معاشی استحکام اور مالی معاونت میں اضافہ کیا جائے، ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کیا جائے، مقامی اور علاقائی انضمام کو تقویت دی جائے۔

آوازا پروگرام آف ایکشن (2024–2034)

یہ پروگرام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 2023 میں منظور کیا اور اس میں 5 ترجیحی شعبے ہیں جن میں خشکی میں گھرے ممالک میں عالمی سرمایہ کاری کو فروغ دے کر بنیادی سہولیات کی بہتری، علاقائی زرعی تحقیقاتی مراکز کا قیام تاکہ خوراک کی پیداوار اور استحکام بڑھانا، ایک اعلیٰ سطحی اقوام متحدہ پینل کی تشکیل جو سرحد پار نقل و حمل کو آسان بناسکے، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنا اور عالمی تجارتی تنظیم (WTO) میں خشکی میں گھرے ممالک کے لیے مخصوص پروگرام کا آغاز شامل ہیں۔

عالمی تعاون کی اہمیت اور ترکمانستان کا کردار

ترکمانستان کے لیے اس کانفرنس کی میزبانی ایک سفارتی سنگ میل ہے جس سے وہ ان ممالک کے مسائل کو عالمی فورمز پر اجاگر کرنے کا موقع پا رہا ہے۔

ترکمانستان کی مستقل سفیر آکسولتان آتائیوا نے کہا ہے کہ یہ کانفرنس عالمی یکجہتی کا مظہر ہوگی اور خشکی میں گھرے ممالک کو بین الاقوامی تعاون کے مرکز میں لے آئے گی۔

عالمی تناظر اور توقعات

خشکی میں گھرے ممالک شدید ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے خشک سالی، سیلاب اور زمین کے زوال کا شکار ہیں جو ان کی معیشت اور زندگیوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔

عالمی بینک اور اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اگر ان ممالک کو مناسب مالی اور تکنیکی مدد فراہم کی جائے تو ان کی معاشی شرح نمو میں سالانہ 2 سے 3 فیصد اضافہ ممکن ہے۔

بہتر تجارتی راستے اور انفراسٹرکچر سے لاکھوں بچوں کو تعلیم اور صحت کی سہولیات تک رسائی مل سکتی ہے جبکہ کسانوں اور چھوٹے تاجروں کے لیے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔

بولیویا کے سفیر اور ایل ایل ڈی سی 3 گروپ کے سربراہ ڈیاگو پاچیکو نے کہا ہے کہ ان ممالک کی ترقی انسانیت کی تقدیر سے جڑی ہے۔ عالمی شراکت داری کے ذریعے ہم ان کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں جو پوری دنیا کے لیے خوشحالی کا سبب بنے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان اقوام متحدہ آوازا کانفرنس ترقی پذیر لینڈ لاک ممالک ترکمانستان لینڈ لاک ممالک

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان اقوام متحدہ ا وازا کانفرنس ترکمانستان خشکی میں گھرے ممالک اقوام متحدہ کی ممالک میں شامل ہیں ممالک کو ممالک کے ان ممالک اور ان کے لیے ہیں جو کی وجہ

پڑھیں:

بنگلہ دیش: یو این انسانی حقوق کمیشن کے تین سالہ مشن کے قیام پر اتفاق

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 28 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق اور بنگلہ دیش کی حکومت نے انسانی حقوق کے فروغ و تحفظ کے لیے ملک میں ادارے کا تین سالہ مشن شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

اس ضمن میں باہمی مفاہمت کی ایک یادداشت طے پائی ہے جس پر اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک اور بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے اس کے خارجہ سیکرٹری اسد عالم سیام نے دستخط کیے۔

گزشتہ اگست سے اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی بنگلہ دیش کے ساتھ شراکت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ مختلف شراکت داروں کے ساتھ مل کر ملک میں انسانی حقوق سے متعلق اصلاحات کے فروغ میں مدد دینے کے علاوہ پرتشدد احتجاج کو بے رحمانہ انداز میں کچلنے کے واقعات کی جامع تحقیقات بھی کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

حقوق کے فروغ و تحفظ کا عزم

وولکر ترک نے کہا ہے کہ اس یادداشت پر دستخط سے انسانی حقوق کے فروغ و تحفظ کے لیے بنگلہ دیش کے عزم کا اظہار ہوتا ہے جن کی سیاسی تبدیلی کے عمل میں بنیادی اہمیت ہے۔

اس سے ادارے کو تحقیقاتی رپورٹ میں دی گئی سفارشات پر بہتر طور سے عملدرآمد میں بھی مدد ملے گی۔

علاوہ ازیں، یہ اقوام متحدہ کو حکومت، سول سوسائٹی اور دیگر فریقین کے ساتھ براہ راست کام کا موقع دے گی تاکہ بنگلہ دیش میں کی جانے والی بنیادی اصلاحات کے لیے ادارے کی جانب سے مہارت اور معاونت فراہم کی جا سکے۔

نیا مشن بنگلہ دیش کے حکام کو مختلف شعبوں میں تربیت اور تکنیکی معاونت فراہم کرے گا تاکہ ملک انسانی حقوق سے متعلق اپنی قومی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی تکمیل کے قابل ہو اور اس حوالے سے حکومتی اداروں اور سول سوسائٹی کے کرداروں کی استعداد میں اضافہ کیا جا سکے۔

متعلقہ مضامین

  • جنوبی شام کی علیحدگی پر مبنی اسرائیلی منصوبے پر ایران کا انتباہ
  • جانیے خشکی میں گھرے ممالک پر عنقریب منعقد ہونیوالی یو این کانفرنس بارے
  • بنگلہ دیش: یو این انسانی حقوق کمیشن کے تین سالہ مشن کے قیام پر اتفاق
  • عالمی و مقامی مارکیٹ میں سونا سستا، فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟
  • اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین پر تین روزہ اہم کانفرنس آج سے شروع
  • اقوام متحدہ میں عالمی کانفرنس، سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم
  • چین اور اقوام متحدہ کے اقتصادی و سماجی کمیشن برائے ایشیاء و بحرالکاہل کے درمیان “بیلٹ اینڈ روڈ” پر تعاون کی دستاویز کی تجدید
  • ‎وفاقی وزیر احسن اقبال سے چینی سفیر جیانگ زائیڈونگ کی اہم ملاقات
  • چین کی دنیا بھر کے لیے اے آئی تعاون کی نئی عالمی تنظیم کی تجویز